کنج ہریالی ۔ پس و پیش ۔ اے۔ایم۔خان
کنج ہریالی ۔ پس و پیش ۔ اے۔ایم۔خان
اگر ہے بھی یہ گمان تو رہے کہ آدم زاد حسن ظن سے گردوپیش میں کنج زیبائی کا طلبگار ہو کہ جس سے فطرت میں ہریالی اور موج سبزہ مدام ہو۔ بقول جلیل مانک پوری کہ نہ رہے ’باغ میں کوئی جگہ خالی۔ دام سے‘ اور اسی سے باہم اپنی اور فطرت کی آشنائی کم نہ ہو۔ ہر چند یہ امنگ ہے تو رہے گی کہ فطرت سے آشنائی ہو کہ جس سے ہماری حسن دل آزاری نہ ہو کہ جسے کیا جانے دل بے مایہ۔
ایک وہ ہے جو اپنے آشیانے کی آبیاری میں مگن فطرت سے نا آشنا، اور وہ جو آشنائے دل بے مایہ کی رونق زیست کہیں اور ہے۔ اس کیفیت کا انجام فطرت کی آبیاری میں کوتاہی جس کا انجام حیات جو اب ہے لہر تپش کی زد میں دن رات گزار رہی ہے۔ اور وہ جو برسوں پہلے جون ایلیا کی بات کہ ’جہاں تھے کنج وہاں کارخانے ہو گئے ہیں‘۔
اور جہاں کارخانے ہو گئے اور ہو رہے ہیں جس سے کنج آبیاری کم ہو رہی ہے۔ ایک طرف کہ جس کے ہیں وہ کارخانے وہ دل مایہ اپنی دنیا میں مگن، شاد ہے اور آباد تو دوسری طرف دل آشنا کرے بھی تو کیا اپنے حصے کی کنج ہریالی سے اپنی مزاحمت کرتا جائے۔ اپنی جنم بھومی سے اتنی بیزاری پہ حیرت، اور پاؤں تلے زمین گریزاں ہے۔
ہمارے وہ کنج، ہریالی اور سبزہ زار جو ایک طرف روز بروز اُجڑ اور کٹ رہے ہیں تو دوسری طرف اس بے رحم تپش میں سوکھ رہے ہیں، اور موسمیاتی تغیر سے اُجڑ رہے ہیں۔ ہے اس کے رنج میں اور اس کی حرکت سے یہ بیانیہ زد و عام ہے اس دُنیا میں۔ یہ بیانیہ اور اس کا ردعمل جس کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ کون کہتا ہے کہ کوئی پرواہ نہیں۔ ہیں وہ بھی میر کی طرح غم زدہ پھر بھی اس آس میں کہ ’ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد ہو‘ کہ باہم اپنی اور فطرت کی آباد ہو۔
اور دھرتی، یہ قیمتی امانت، کو اس تپش سے بچانا ہے، سایہ کنج میں اور اسے سجانا ہے ہریالی سے۔ اور اس زیبائی میں زندگی ہے بشمول آدم زاد اور ان گنت حیات کی۔ اس مٹی میں ہماری جان ہے اور مکان، اور اس میں ہماری خاک آخر۔ ہم سب مل کر کے اسے تپش سے بچانا ہے اور ہریالی سے سجانا ہے۔ یہ کیفیت کنج قفس کہ جس سے نکلنے کی آس رہے۔
وہ سایہ جو درخت کا ہے وہ کہاں۔ اس میں وہ پھل اور لکڑی۔ جلے تو تپش اور سرسبز ہو تو ٹھنڈ، اور پکائے جو میسر ہو تو وہ بھی خود جل کر۔ کاٹ لو ایک شاخ گل اپنے صحن میں آباد کرلو، اور اس کی ہریالی سے زندگی کا احساس ہو۔ ہم ہیں مجرم اس مٹی کے اس سے پہلے کہ ہم اس حیات کی جس کا اس تپش سے کوئی سروکار نہیں۔ سلگائی ہے ہم نے اور بھڑکا کر خود اس کی زد میں آ گئے ہیں۔ اس کی گرم لہر خود برداشت نہ کر کے مر رہے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جو مر رہا ہے باہر اس گرمی سے مشقت میں وہ بھی بے قصور ہے۔
آدم زاد کی فطرت سے عناد کا صلہ اور بیش بہا حیات پر گرم لہر کا حملہ، اور فطرت کا ردعمل جو روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔ خودکشی کا یہ انتظام اور بنتی سمان اور اس کی جھلک دیکھتے ہوئے بھی دل بے مایہ لاپروا ہے۔ اُسے کیا کہ جس کا آشیانہ، منزل اور ٹھکانہ کہیں اور ہے۔ ایک طرف یہ کاروبار زندگی جاری ہے تو دوسری طرف صنعت اس میں محو انہیں کیا کہ تپش کی لہر سے کون مرے اور جلے۔ اور یہ صنعت درحقیقت جنگ کے لئے ایندھن اور وہ لہر تپش کے بیوپاری ہیں۔
دل آشنا کرے تو کیا نہیں کر سکتا۔ بس زیبائی کنج ہے اس جنگی کاروبار کا ردعمل۔ کہ جو کنج زیبائی سے لہر تپش کو قید کرنے اور حیات کو اس سلگتی اور برستی آگ سے بچانے کی تگ و دو میں ہیں وہ اس دھرتی اور اس میں بسنے والی حیات کے محسن ہیں۔ اُن کی کاوش تو ایک دن رنگ لائے گی کہ جس سے یہ زمیں کی فرش پر پودوں کی آبیاری ہوگی۔ کہ یہ نسخہ ہے حیات کو سلگتی سماں سے بچانے کی، اور اس زمین میں بہار کی لہر اور سرسبز وادیوں کی ہریالی لانے کی۔
اگر ایسا نہ ہوا تو یہ لہر تپش روزبروز بڑھتی جائے گی جس سے دھرتی میں بسنے والی حیات، اور فطرت بے جان اور زیبائی سوکھ جائے گی۔ پہاڑوں میں وہ برف کا خزانہ، یعنی زندگی کی اُمید، جو اپنی حد رفتار سے ویسے ہی پگھل رہی ہے کہ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ دھرتی کا یہ دودھ جو اونچی اونچی چوٹیوں کی زینت اور حیات کی رونق، اور زندگی کی اُمید جو کم ہو رہی ہے۔ روز بروز اس دھرتی کی حالت اور عمر اس تپش سے کیا ہو رہی ہے جسے دل آشنا زیبائی کنج سے اگر روک نہیں سکتی تو اپنے حد رفتار پہ گرفتار کر سکتی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہم آباد کریں وہ غیر آباد۔ وہ جو ممکن نہیں تھی اب ممکن ہے کرنے کی۔
اس تپش سے زمین پہ سایہ کنج سے زندگی کی اُمید، اور یہ رزق و آشیانہ ہے حیات کا۔ آؤ چلیں مل کر اپنی اس دھرتی اور اس میں بسنے والی حیات کے لئے آشیانہ، رزق اور نعمت حیات کی خاطر زیبائی کنج میں اپنا حصہ ڈال کر اپنی مٹی سے محبت اور اس کے دشمن سے مزاحمت کرتے ہیں.