
کریم آباد کا پرانا نام “اوژور” اور اس کی تاریخی اہمیت – راقم :رحیم علی اشروؔ
کریم آباد کا پرانا نام “اوژور” اور اس کی تاریخی اہمیت – راقم :رحیم علی اشروؔ
کریم آباد، جو لوئر چترال کے شمالی پہاڑوں میں واقع ایک حسین وادی ہے، قدیم زمانے میں “اوژور” کے نام سے معروف تھا۔ یہ نام “عشر” سے ماخوذ ہے، جو اسلامی تاریخ میں زرعی محصولات پر عائد ہونے والی ایک اہم ٹیکس کی اصطلاح ہے۔ ماضی میں اس علاقے کی زراعت اتنی زیادہ خوشحال تھی کہ یہاں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ عشر جمع کیا جاتا تھا۔ اس زرعی دولت اور خوشحالی کی نسبت سے یہ خطہ “اوژور” کے نام سے پکارا جاتا تھا، جو اس کی زرعی اہمیت اور معاشی ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔ اوژور کا نام ٦٠ کی دہائی میں تبدیل کر کے “کریم آباد” رکھا گیا تاکہ پرنس کریم آغاخان کے ساتھ اس علاقے کی وابستگی اور ان کی قیادت سے محبت کا اظہار کیا جا سکے۔
یہ تبدیلی علاقے کی ترقی اور فلاح کے لیے نئے امکانات کا آغاز تھی، جس کے بعد یہاں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں میں بہتری آئی اور لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی آئی۔ تاریخ کے منظرنامے پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کریم آباد مختلف مذہبی اور ثقافتی اثرات کا سنگم رہا ہے۔ یہاں کے بیشتر لوگ ہجرت کر کے آئے تھے، جن کا تعلق عرب ممالک اور وسطی ایشیا سے تھا۔ 1923 کی مردم شماری کے مطابق، یہاں کچھ گنتی کے گھرانے آباد تھے، اور موجودہ آبادی انہی ہجرت کرنے والوں کی نسل سے ہیں۔ قدیم ہندوستانی مذاہب کے پیروکار یا خاص طور پر کالاش تہذیب کے آثار یہاں ملتے ہیں، لیکن ان کی نسل اب یہاں پر موجود نہیں ہیں۔ یہ ممکنہ طور پر مسلمانوں کی آمد کے بعد یا تو قتل ہو گئے یا ہجرت کر گئے ہوں گے۔
تاہم، چند خاندان اب بھی یہاں موجود ہیں جنہیں کلاش نسل سے مانا جاتا ہے۔ کریم آباد کے کچھ مقامات اور گاؤں کے ناموں میں سنسکرت اور کلاشہ زبان کے آثار نمایاں ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ علاقہ کبھی ان کی تہذیب کا گہوارہ رہا۔ میں نے اپنی تحقیق اور دلائل کے ذریعے اس علاقے کی تاریخ کا پردہ چاک کیا تاکہ دوسرے افراد بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ تاہم، یاد رکھیں کہ اس علاقے کے بارے میں کوئی مستند دستاویز موجود نہیں، اور یہ تحریر صرف زبانی روایات پر مبنی ہے۔ اب کریم آباد میں موجود ان علاقوں کے ناموں پر غور کرتے ہیں جو سنسکرت اور کلاشہ زبان سے ماخوذ ہیں۔ سنسکرت کے یہ نام نہ صرف جغرافیائی یا مذہبی پس منظر کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ کریم آباد کی ثقافتی وراثت کی گہری اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ یہ نام اس خطے کی تاریخ اور اس کے تعلقات کو ایک منفرد زاویہ فراہم کرتے ہیں۔
١۔۔۔ سوسوم
سوسوم کریم آباد، ایک ایسا گاؤں ہے جو اپنی دلکشی اور خوبصورتی کی بنا پر قدرت کا ایک نرالا تحفہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ گاؤں قدرتی حسن سے بھرپور ہے، اور اس کے اندر چھپی ہوئی ایک کہانی ہے جو ہمیں اپنے ماضی کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے۔ سوسوم لفظ کے لغوی معنی “نیم گرم” کے ہیں، اور یہ نام شاید اسی چشمے کی یادگار ہے جو کبھی اس گاؤں کے دل میں واقع تھا۔ گاؤں کے وسط میں نیم گرم پانی کا یہ چشمہ شاید سوسوم کے نام کا اصل سبب بنا، کیونکہ “نیم گرم” پانی کی حرارت نے اس جگہ کو ایک منفرد خصوصیت دی تھی۔ یہ چشمہ گاؤں کی زندگی کا مرکز تھا، جہاں لوگ آرام پاتے، دل کی باتیں کرتے اور خوشی کے لمحے گزارتے۔ شاید وقت کے ساتھ وہ چشمہ مٹی میں چھپ گیا ہو، مگر سوسوم کا نام آج بھی اس کی یاد تازہ کرتا ہے۔
٢۔۔۔ پرسان
کریم آباد کا گاؤں پرسان اپنی قدرتی خوبصورتی اور حسن کے باعث جنت سے کم نہیں۔ اس کا نام تاریخی طور پر پرستان سے جڑا ہوا ہے، پرستان کے لغوی معنی پریون کے مسکن کے ہیں جو اپنے اندر مافوق الفطرت قصہ کہانیوں کو سمیٹی ہوئی ہے۔ جو کبھی ایک خوابوں کی سرزمین سمجھی جاتی تھی۔ پرسان کی فضاء میں تازگی اور شفافیت ہے جو دل کو سکون پہنچاتی ہے، اور یہاں کے سرسبز پہاڑ اور صاف ہوا قدرت کی حسین تخلیق کا گواہ ہیں۔ گاؤں کے لوگ اپنی سادگی اور مہمان نوازی کے ساتھ قدرتی ماحول سے گہرے طور پر جڑے ہیں، اور یہاں کا ہر منظر انسان کو سکون و چین کا احساس دلاتا ہے۔ پرسان ایک ایسی جگہ ہے جہاں قدرت کے قریب جانے کا حقیقی تجربہ ملتا ہے۔
٣۔۔۔ مداشیل
مداشیل” ایک سنسکرت کا مرکب لفظ ہے جس کا مطلب ہے “وہ چیز جو خوشی یا سکون دینے والا ہو”۔ یہ لفظ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ “مدا” کا مطلب ہوتا ہے خوشی یا سکون۔ “شیل” کا مطلب ہوتا ہے خصوصیت یا معیار۔ قدیم روایتوں کے مطابق گاؤں کے وسط میں جو منفرد چٹان موجود ہے جسے “مداشیل” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ قدیم زمانے میں یہاں کے مقامی باشندوں کا شاید یہ یقین تھا کہ مداشیل روحانی سکون اور خوشی کا سرچشمہ ہے۔ ہندوستانی قدیم مذاہب میں سنگ مقدسات میں شامل رہا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ چٹان اس گاؤں کی شناخت بن گئی اور گاؤں کا نام بھی اسی سے منسلک ہوگیا۔ آج بھی لوگ اس چٹان کو زیارت کے نام سے جانتے ہیں اور اسے خوشی و سکون کی علامت بعد کے ادوار میں بھی سمجھی جاتی رہی ہے اس لئے اس کا نام زیارت پڑ گیا ہے۔ اب ایسا کوئی عقیدہ یہاں کے لوگوں میں موجود نہیں ہے۔
٤۔۔۔ گرام
“گرام” سنسکرت کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب “گاؤں” یا “آبادی” ہوتا ہے۔ یہ لفظ مختلف زبانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چترال کے جن علاقوں میں جہاں کالاش قبائل کی بستیاں واقع تھے وہاں بھی “گرام” لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ کریم آباد کے مختلف گاؤں کے ناموں میں بھی گرام لفظ موجود ہے جیسے کہ برشگرام، لوڑی گرام، تیل گرام، پتراگرام اور چتھرا گرام وغیرہ، یہ نام اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ قدیم زمانے میں ہندوستانی مذاہب کے پیروکار یہاں عارضی طور پر یا مستقل طور پر آباد ہوئے ہوں گے۔ کالاش مذہب کو بھی ہندوستانی مذاہب کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے اور یہ احتمال کیا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں کالاش لوگ قدیم زمانے میں رہے ہوں گے۔ تاہم اس موضوع پر کوئی داستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں جو اس بات کو قطعی طور پر ثابت کرسکیں۔ یہ معلومات مختلف روایات اور تاریخی مفروضات پر مبنی ہیں، جنہیں اس خطے کی ثقافت اور مذہب کے تعلق میں اہمیت دی جاتی ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ “گرام” کے لفظ کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور یہ بھی سمجھا جائے کہ کس طرح قدیم مذہبی اور ثقافتی اثرات اس خطے کی موجودہ شناخت میں شامل ہیں۔
کریم آباد کا علاقہ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے بلکہ اس کی تاریخ بھی ایک داستانِ حیات کی مانند ہے، جس میں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کا سنگم دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ، جن کی نسلیں اب یہاں آباد ہیں، دراصل اپنے آبا اجداد کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ تاہم، ان کی اصل تاریخ اور ثقافتی پس منظر پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس علاقے کی اصل حقیقت اور اس کے متعلق چھپی ہوئی کہانیاں سامنے آ سکیں۔ کریم آباد کی تاریخ میں چھپی ہوئی یہ روایات اور ثقافتیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ علاقے ہمیشہ سے ہی مختلف تہذیبوں کا مرکز رہے ہیں، اور ان کا اثر آج بھی یہاں کے رہائشیوں کے رویوں، رسومات اور زبان میں نمایاں ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کریم آباد ایک ایسا علاقہ ہے جہاں تاریخ، ثقافت اور مذہب کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
اسپہ ایغو ہوش کی اریتم ہیہ دنیو جنت کوسی