کتاب سے علم تک ۔ عصمت عیسیٰ – تحریر: ظہیر الدین
کتاب سے علم تک ۔ عصمت عیسیٰ – تحریر: ظہیر الدین
1980ء کا سال، کھچا کھچ بھرا ہوا ٹاؤن ہال چترال، یوم اقبال کی تقریب، اسٹیج سے ایک نام لئے جانے پر مجلس پر سناٹے کی چادر بچھ جاتی ہے،پھر ایک وجیہ صورت مگر بارعب شخصیت روسٹرم پہ آجاتا ہے، تقریر کا موضوع ہے ‘اقبال اور نوجوان’۔حاضرین میں اپر چترال کے ایک پسماندہ گاؤں سے ایک پسماندہ طالب علم ان کی تقریر میں انتہائی دلچسپی لیتا ہے اور ایک ایک لفظ کو دل پر نقش کر تاجاتا ہے اور ان کے انداز بیان کا گرویدہ ہوکر رہ جاتا ہے جوکہ ایک لمحہ میں غصہ سے بپھرکر حاضریں کو مخاطب کرتا تو اگلے ہی لمحے پینترا بدلتے ہوئے چہرے پر انتہائی پررونق مسکراکر حاضرین کو اپنی طرف متوجہ رکھتے۔ وہ طالب علم اس تقریر کے نوٹس بناکر اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے اور اگلے سالانہ امتحانات میں اتفاق سے جب اردو کے پیپر میں شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تو انہیں لکھ دیتا ہے اور اردو کے استاذ پروفیسر عبدالجمیل مرحوم (جو کہ بعد میں لیکچرر بن کر کالج جائن کرتا ہے) سے نمبر اور داد وصول کرتا ہے۔
اُس زمانے میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے دم سے ٹاؤن ہال آباد رہتا تھا جس میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی اور محمد یوسف شہزاد جیسے متحرک شخصیات ذمہ دار ہوا کرتے تھے۔ مختلف موضوعات پرتواتر سے مجالس مذاکرہ سجاتے جس میں شہر کے دانشور اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور ان مجالس کی جان وہی دلربا شخص ہوا کرتے جسے عصمت عیسیٰ کے نام سے لوگ جانتے تھے۔ ان مجالس میں ان کی باقاعدگی سے شرکت نے کئی لوگوں کی طر ح مجھے بھی ان کا گرویدہ بنادیا کیونکہ وہ کسی بھی موضوع پر باآسانی بول لیتے تھے جوسطحی نہیں بلکہ اپنے اندر سمندرکی گہرائی لئے ہوتے اور سننے والا پورا پورا مطمئن ہوتا۔ ایک استاذ کے ہاں پیدا ہونے اوران کے ہاتھوں تربیت پانے کے بعد کالج اور یونیورسٹی میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کسی شاعر کی اس نصیحت پر عمل پیرا رہے کہ
یاں بزم مے ہے کوتاہ دستی میں ہے محرومی جوبڑھ کر اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
ان کی صلاحیتوں پر مزید ملمع کاری کا کام اسلامی جمعیت طلبہ نے کردی جس سے یہ دل وجان سے وابستہ رہے اورجوانی میں توبہ کرکے خصلت پیغمبری پانے والے صالح جوانوں کا یہ قافلہ پڑھنے اورفکر کرنے کی طرف راغب کرتی ہے اور عصمت عیسیٰ بھائی اس قافلے کے سالاروں میں شامل تھے جس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب اپنے سیشن میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے مرکزی ناظم اعلیٰ اور جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل شبیر احمد خان تنظیمی دورے پر چترال تشریف لائے اور رات کوانہیں کاموں سے فراغت ملتے ہی عصمت عیسیٰ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور میں انہیں دنین کالونی میں ان کی رہائش گاہ میں ان کے ساتھ ملاقات میں موجود رہا۔
‘تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ’کے مصداق عصمت عیسیٰ بھائی کا رشتہ کتابوں کے ساتھ عمر کی آخری تین مہینوں پرمحیط علالت تک جاری رہا۔ 1977ء میں ایل یل۔بی سے فراغت اور عملی زندگی میں آنے کے بعد سے 1996ء تک ہر سال پشاور یونیورسٹی کے ایم۔ اے کے امتحانات میں شامل ہوتے رہتے اور درجن کے قریب مضامیں میں ماسٹر ز ڈگری حاصل کرتے رہے۔ ان کے لئے یہ امتحانات ایک بہانہ تھا اور یہ کتابوں سے پیار کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لئے ایک بہانہ تھا۔ 1990ء کی دہائی میں چترال آنے کے بعد ان سے ملاقات تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہوتی۔ اُ ن دنوں گوگل سرچ انجن سے ہم ناواقف تھے مگر عصمت عیسیٰ بھائی ہی اس کمی کو پورا کرتا۔ میں کوئی موضوع چھیڑتا اور علم کے جھرنوں کو جاری ہوتا دیکھتا۔
انگریزی اور عربی دونوں زبانوں پر برابر عبور رکھنے کا اعزاز بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور عصمت عیسیٰ بھائی ان میں سے ایک تھے جوکہ قرآن فہمی میں متاثر کن حد تک مہارت رکھتے تھے اور فارسی کتاب بھی ان کے زیر مطالعہ رہتے اور شائدفارسی زبان وادب میں بھی ماسٹرز ڈگری ہولڈر تھے۔ کتابوں سے شغف اور علم دوستی نے ان میں اعلیٰ انسانی اوصاف بھی پیدا کئے تھے اور کئی منفی خیالات (tendencies) کو ان کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا تھا۔ چار دہائی سالوں پر محیط اس تعلق کے دوران میں نے کبھی انہیں خاندانی تفاخر جتاتے ہوئے نہیں سنا حالانکہ ان کے پاس کچھ مواد موجود تھا۔جب پریڈ گراونڈ میں خطیب خلیق الزمان ان کا نمازجنازہ پڑہارہے تھے تو میں پہلی صف میں عین ان کے پیچھے کھڑ ا تھا اور میں شائد خیال ہی خیال میں یہ سوچ رہا تھا کہ عصمت عیسیٰ بھائی ابھی کتابوں کے اندر بیٹھا کسی کتاب کی ورق گردانی کررہا ہے اور ابھی سراٹھا کر اپنے انداز میں ایک قہقہہ بلند کرے گا اور کوئی فلسفیانہ ٹاپک میرے ساتھ شئیرکرنے لگ جائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔