
کتابیں: مگر مفت درسی کتب ۔ تحریر: افضل مراد
کتابیں: مگر مفت درسی کتب ۔ تحریر: افضل مراد
ان دنوں تقریبا تمام گورنمنٹ سکولوں میں بچے اپنے سالانہ نتائج کے بعد نئے کلاسس میں شفٹ ہو رہے ہیں اور تمام کو نئے جماعت میں کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں تمام گورنمنٹ سکولوں میں بچوں سے پرانی کتابیں جمع کر کے نئے داخل ہونے والے بچوں کو دی جا رہی ہیں۔ویسے بھی ہمارے معاشرے کے بڑے،کتابوں کے دلدادہ ہیں اور انہیں موبائیل سے بہت کم فراغت ملتی ہے تو وہ کتابیں دیکھتی ہیں۔۔۔اسی وجہ سے بچوں میں بھی یہ عادت پیدا ہو چکی ہے کہ وہ بھی بہت شوق سے اعلی معیار کے کتابیں رکھتی ہیں، جو تدریسی کتب کے طور پر حکومت کی طرف سے مفت میں انہیں دئے جاتے ہیں۔ ویسے بھی قومی اشیاء کی خصوصی حفاظت ہمارا قومی ورثہ بن چکا ہے اور اس میں ہم کوئی کثر نہیں چھوڑتے۔ اسی طرح بچے بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
پہلے کئی سال یہ درسی کتابیں تمام کلاسس کو نئے ملتے تھے لیکن دو تین سالوں سے ایک سال پرانے استعمال شدہ کتابیں بچوں کو پڑھنے کے لئے دئے جاتے ہیں جن کی حالت کسی خود کش حملہ میں استعمال ہوئے جیکٹ سے کم نہیں ہوتی، جن کے ٹکڑوں کو اکھٹا کر کے کوئی تاویل بنائی جاتی ہے۔ اوپر سے ہمارے معاشرے کے معیار کو اتنا بڑہایا جا رہا ہے کہ وہ خودحرکت کرکے کچھ کرنے کے بجائے اس معذور چڑیا کی طرح ہے جو گھونسلے میں منہ کھولے خوراک
کے لئے اپنی ماں کا انتظار کر رہا ہو کہ وہ ا ئے اور اسے نوالہ دے دے۔اس حالت میں بھی ہمیشہ ہم بڑے فخر سے یہ الفاظ گنگناتے ہیں کہ ..ِہم زندہ قوم ہیں۔۔۔
اج ہی سکول جاتے ہوئے ایک چھوٹی بچی نے مجھ سے پوچھا، سر، کیا اپ کے سکول میں کتابوں میں کوئی کام نہیں ہوتا کیا؟ میں کچھ نہیں کہ سکا! شاید وہ کسی پرائیویٹ سکول میں کسی تیسری جماعت کی طالبہ ہوگی، میں دیر تک کچھ جواب نہ دے پایا تو اس نے خود بتاتے ہوئے کہا کہ سر ہمارے سکول میں بہت ایسے کام ہیں جو ہم کتابوں میں کرتے ہیں، نقشہ بنانا، میچنگ کرنا، خالی جگہ پر کرنا، بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کتابوں میں پیراگراف بھی لکھتے ہیں۔ ابھی تک میں جی بلکل کے سوا کچھ نہ کہ سکا تھا۔ تو بچی نے کہا کہ اپ کے سکولوں میں استعمال شدہ کتابیں بچوں کو دوبارہ دی جاتی ہیں جسمیں تو بچوں کے کرنے کے تمام کام ہو چکے ہوتے ہیں تو وہ کس طرح سیکھیں گے؟ اپنے ایک ساتھی کے کتابوں کے بارے بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ اس کے اردو کے کتاب کی شروع کے پانچ صفحے ہی نہیں تھے، میتھس بک تو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی اونچی پہاڑ سے گری ہواور زخم سے چور ہو،۔۔۔تو ان بچوں کا کیا قصور ہے سر؟
جب سے درسی کتابوں کی یہ مفت تقسیم ہو رہی ہے تو ذہن میں ہمیشہ یہ خیال گردش کر رہا ہے کہ اس میں قوم کو کتنا فائیدہ ہے؟ بچے اس سے کتنا مستفید ہو رہے ہیں؟ دوسرے اسٹیک ہولڈرز کتنا بہرہمند ہو رہے ہیں؟ ان کے علاوہ بھی کئی ایسے سوالات ہیں جن کا ابھی تک مجھے جواب نہ مل سکا۔ ان مفت کتابوں کے انتظار میں سکول کے تمام بچوں کے ساتھ ان کے گھر والے بھی رہتے ہیں کہ کتابیں ملینگی لیکن پرانے استعمال شدہ کتابوں کی حالت اوپر بیان ہوئی اور نئے کتابیں پوری تعداد کے نصف ملیں تو پھر وہ والدین اور بچے قومی روایت کو برقرار کھتے ہوئے پوری سال درسی کتابیں نہیں خریدتیں بلکہ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ انہیں کتابیں نہیں ملی اور جو کتابیں ملی ہیں وہ بھی قابل استعمال نہیں ہیں، وہ بوری سال یہ گلہ شکوہ کرینگے لیکن خود کوئی کتاب مر کے بھی نہیں خریدینگے۔ اور اس کا اثر اب اس معصوم بچے کے ساتھ ساتھ اس بے چارے استاد پر پڑے گا جو اس مضمون کو پڑھا رہا ہے جسمیں کلاس کے تین بچوں کے علاوہ کسی کے پاس بھی وہ کتاب موجود نہیں اور انہوں نے بازار سے بھی نا خریدنے کے قسم کھا رکھیں ہیں ۱ اب اس بچے کی کتنی لرننگ ہوگی اس کا اندازہ اپ خود لگا سکتے ہیں۔۔۔!
جس طرح اعلی معیار کے پالیسی میکرز کی مفت درسی کتب کے تقسیم کا فلسفہ سمجھ نہ سکا، اسی طرح سالانہ، سکول میں بچوں کی تعداد کے نصف کتابیں فراہم کرنا بھی کچھ عقل سے بالا تر ہے۔جسکی وجہ سے بچوں کو پڑہائی میں مشکلات کے ساتھ ساتھ ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے کہ کسی کو پرانی کتابیں ملیں، کسی کو ایک کتاب ملا،کسی کو ملی کتابوں میں اکثر صفحات معدوم ہیں تو کسی کو ملی ہی نہیں۔۔۔! تو بچہ، جس کے گرد پورا تعلیمی نظام گھوم رہا ہے،خود گھوم کے رہ گیا۔۔!اور تدریسی سال کے پہلے دن کو ہی اس نے مایوسی سے ابتدا کی۔۔۔ ہم تو شاید اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ ملک کو چلانے والے اس پر غور کریں کہ اس پالیسی سے عوام اور تعلیمی نظام کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اس کے نقصانات کیا ہیں؟ اور اس کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتاہے؟ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ ا مین۔
افضل مُراد چترال