ڈگری برادر نوجوان اور روزگار کے مسائل………….تحریر: نمبردار مفتی ثناء اللہ انقلابی
دنیا کی چھت گلگت بلتستان کے معماران وطن خوبصورت جاذب نظر دلکش و دلفریب و دل آویز آبشاروں کی دھرتی کے غیور ، جفا کش ، با حیا و با کردار پر عزم نوجوانان گلگت بلتستان کے ہاتھوں میں ڈگریاں اور تلاش معاش کے لئے سرگرداں و پریشاں حال معماران وطن قوم کے سپوتوں کے حالت زار پر رحم آتا ہے جب ان کو کسی بھی محکمہ میں مشتہر آسامیوں کے لئے امید و یاس کی کیفیت میں کاغذات جمع کرانے کے پہلے مرحلے سے لیکر ٹسٹ انٹرویو کے آخری مراحل کی تگ و دو اور پھر خوبصورت چہروں پر مایوسی کے شکن دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے مگر حل سجائی نہیں دیتا ۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ روز افزوں بڑھتی آبادی اور حکومت کے پاس موجود وسائل اور روزگار کے بڑھتے مسائل یہ وہ حقائق ہیں جن پر توجہ دینا سینہ اقتدار پر براجمان سیاہ و سفید کے مالکان کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے۔نہ ہمارے پاس دستیاب وسائل بے روزگاروں کے جم غفیر کو کھپا سکتے ہیں اور نہ ہی اس بھیڑ کو اطمینان کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے اہل دانش حکومتی سطح پر کچھ ایسے ورکشاپس کا اہتمام کریں کہ ان کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کو مقاصد تعلیم سے آگا ہ کریں کہ حصول تعلیم کا مقصد محض حصول معاش نہیں بلکہ شعور و آگاہی کے وہ منازل ہیں جن کی شناسائی کے بعد ستاروں پہ کمند ڈالنے کا حوصلہ نوجوانوں کے اندر پیدا ہو جائے۔ بد قسمتی سے ہمارے نوجوانوں کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی کے بے شمار اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے اپنی نسل کو حصول تعلیم کے مقصد اصلی سے تا دم تحریر آگاہ نہیں کیا ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
یہ ہر گز ضروری نہیں کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد صرف سرکاری ملازمتوں کی تلاش میں عمر عزیز کے قیمتی ماہ و سال گنوا دیں اور بروقت و بموقع ملازمتیں نہ ملنے پر مایوسیوں کے گٹھا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب کر اپنا سفینہ ء حیات کو بیچ منجھدار میں طوفانوں کی نذر کریں بلکہ ہمت مرداں مدد خدا کے تحت زمین کے اطراف میں پھیل جائیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ ہر نوجوان کے اندر قدرت کی عطا کردہ صلاحیتیں مختلف شکلوں میں ایک درخشندہ مستقبل کے لئے موجود ہیں بس ذرا سوچ کا زاویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت پوری دنیا میں مضبوط معاشی پوزیشن ملازمین کی نہیں بلکہ دنیا کے اندر محنت کرنے والے تاجر زیرو سے اپنی محنت ، لگن اور مستقل مزاجی کی بدولت دنیا کی بڑی کمپنیوں کے مالک بنے ہیں ، دنیا میں سب سے بھاری رقم کے مالک وہ ہیں جو تاجر پیشہ ہیں ، زیرو سے ہیرو بننے کا موقع قدرت نے صبح طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تلک کے درمیانی اوقات میں ہر فرد و بشر کے لئے رکھے ہیں ۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کوہنر سیکھنے کا پابند بنائیں ہمارے پڑوس میں چین ہی کی مثال لے لیجئے کہ وہاں بوڑھے ، جوان ، مسلسل محنت کر کے پوری دنیا کے لئے ہر قسم کی چیزیں مہیا کر رہے ہیں ، اسلئے کہ وہاں کے لوگ محنت کے عادی ہیں جبکہ طرفہ تماشا یہاں یہ ہے کہ ہر شخص نوکر اور ملازم بننے کے شوق میں زندگی کے قیمتی اوقات کو مشتہر اسامیوں کے انتظار میں ضائع کر رہا ہے ، ہمیں اس حقیقت کا ادراک بے حد ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس جو وسائل موجود ہیں وہ نوے فیصد نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں کھپانے کے لئے ناکافی ہیں ، پیش آمدہ مسائل خوفناک اور گھمبیر ہیں اس لئے نسل نو کو اپنے عزائم کو بلند رکھتے ہوئے ہنر مند بننے کی کوشش کرنی چاہئے اور حکموت کے چاہئے کہ ایسا پلان بنائیں اپنا پڑوسی چین کے ماہرین معاشیات سے مشاورت کے بعد ان کو اس بات پر آمداہ کیا جائے کہ مختلف قسم کی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیاں گلگت بلتستان میں انویسٹ کریں ، پوری دنیا کی مارکیٹ میں جو مال تیار ہو کر جا رہا ہے سی پیک کے راستے سے گوادر تک ان صنعتی فیکٹریوں کا جال خطے میں پھیلایا جائے ، قبل ازیں مختلف ٹیکنیکل اداروں کا قیام از حد ضروری ہے یہاں ہمارے یہ نوجوان ہنر سیکھیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں ۔ بد قسمتی سے موجودہ صورت حال نا گفتہ بہ ہے جس میں 80فیصد مزدوروں کو پیدا کر رہے ہیں نہ کہ ہنر مندوں کو،ایسے میں ڈگری بردار نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ خدا را پنا مستقبل تباہ کرنے کے بجائے ذہنی طور پر خود کو آمادہ کریں کہ محنت کر کے ملک و ملت کا نام روشن کریں گے، حکومت کو چاہئے کہ ہنگامی بنیادوں پر بے روزگار ڈگری بردار نوجوانوں کے اعداد و شمار کا اندازہ لگائیں اور ان کو متبادل روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کریں تاکہ اقبال کے شاہیں ہماری اس دھرتی کے لئے بوجھ نہ بن سکیں بلکہ ایک کار آمد شہری بن کر ملک و ملت کے لئے کام کر سکیں اور ملکی تعمیر و ترقی کے لئے معاو ن و مددگار بن سکیں۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں