ڈاکٹر زہرہ ولی اسیر۔ ایک ہونہار اور خدمت گار بیٹی کا سانحہ ارتحال: قاری فیض اللہ چترالی
ڈاکٹر زہرہ ولی اسیر۔ ایک ہونہار اور خدمت گار بیٹی کا سانحہ ارتحال: قاری فیض اللہ چترالی
میں اس وقت برطانیہ کے سفر پر ہوں۔ گزشتہ دن میں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا تو اس غم ناک خبر نے گویا میرے قدم جکڑ کر رکھ دیے کہ ڈاکٹر زہرہ اسیر صاحبہ رضائے الٰہی سے انتقال کر گئی ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر زہرہ اسیر کے نام سے ضلع اپر چترال کا ہر گھر، ہر ماں اور ہر بہن اچھی طرح با خبر تھی اور وہ پورے ضلع کیلئے ایک ہمدرد و خیر خواہ ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ڈاکٹر زہرہ اسیر معروف ماہر تعلیم، ممتاز دانشور اور خدمت و تعلیم کے قابل فخر نام جناب شیر ولی خان اسیر صاحب کی بڑی صاحبزادی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر امراض چشم اور ہماری قابل فخر بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر کی بڑی بہن تھیں۔ ڈاکٹر زہرہ اسیر کے ایک اچھے اور قابل بھروسا تعارف کیلئے اتنا ہی کافی تھا، مگر ان کی اپنی ذاتی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع اور وقیع ہے کہ یہ خاندانی تعارف نہ بھی ہوتا تو ان کی اپنی خدمات اور کام ان کی شناخت کو نمایاں کرنے کیلئے کافی ہیں۔ وہ طویل عرصے سے ضلع اپر چترال کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں گائناکالوجسٹ تھیں ۔
ڈاکٹر زہرہ اسیر صرف پیشے اور تعلیم کے لحاظ سے گائناکالوجسٹ نہیں تھیں، بلکہ جس جذبے و خلوص کے ساتھ اور جن سخت اور مشکل حالات میں وہ بونی کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں گائنی کے شعبے کو تن تنہا سنبھالے ہوئے تھیں، مجھے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے پیسوں کیلئے نہیں، بلکہ صرف اور صرف ماو ¿ں، بہنوں اور بیٹیوں کی خدمت کیلئے ہی اس پیشے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ میرے اس گماں کی صداقت کی شہادت ان کی طویل عرصے سے بونی جیسے دور افتادہ علاقے کے ہر طرح کی سہولت سے عاری اسپتال میں لگن اور خلوص کے ساتھ خدمت سے بھی مل جاتی ہے اور اس بات سے بھی کہ ملک کے بڑے شہروں کے اچھے اچھے پرائیویٹ اسپتالوں ہی نہیں، بیرون ملک بھی مواقع کے باوجود ڈاکٹر زہرہ اسیر نے اپنے علاقے، اپنی مٹی اور اپنے وطن کی ماو ¿ں، بہنوں اور بیٹیوں کی خدمت کو ترجیح دی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ چاہتیں تو کسی بھی بڑے شہر یا بیرون ملک آسانی سے سیٹل ہوسکتی تھی، جس سے انہیں زندگی کی مادی آسائشیں بھی میسر آجاتیں اور ان کی زندگی یقینا اپر چترال کی دور افتادہ پہاڑی بستی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان اور پرتعیش ہوتی، مگر انہوں نے شاید مادی آسانی اور راحتوں پر دل اور ضمیر کے اطمینان اور سکون کو ترجیح دی، جو آج کے اس مادہ پرستی کے دور میں یقینا بڑی اور حقیقی دولت ہے اور یہ دولت بلاشبہ ڈاکٹر زہرہ اسیر جیسے مخلص اور نیک دل لوگوں کو ہی قدرت مہیا کرتی ہے۔
ڈاکٹر زہرہ اسیر کے جذبہ خدمت اور خلوص کا درست اندازہ اس ماحول کے جائزے سے لگایا جاسکتاہے، جس ماحول میں وہ کام کر رہی تھیں۔ میں خود ان سے عرصہ پہلے ڈی ایچ کیو اسپتال میں ان کے روم میں ملا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے تنگ کمرے میں وہ مریضوں کو دیکھتی ہیں، اس سے ملحقہ ایک تنگ کمرے کو انہوں نے آپریشن تھیٹر بنا رکھا تھا، جہاں ضرورت پڑنے پر وہ آپریشن کیا کرتیں، جبکہ ایک تیسرے چھوٹے سے کمرے کو وہ فارمیسی کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ گرمی ہو یا سردی، آندھی ہو یا طوفان ناکافی سہولتوں کے باوجود وہ اسپتال میں حاضر ہوتیں اور ماو ¿ں بہنوں کا علاج کرتیں۔ میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ بیٹی کسی غریب خاتون کو پیسے نہ ہونے پر دوا کے بغیر مت جانے دینا، ہر ممکن کوشش کرنا کہ ایسی نادار خواتین کے ساتھ تعاون ہو، ایسے کیسزمیں میں بھی حسب توفیق تعاون کیا کروں گا۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئی تھیں اور حق یہ کہ انہوں نے اس کی بھرپور پاسداری کی۔ بالخصوص جب کوئی میرے ریفرنس سے ان سے ملتا تو کہتیں قاری صاحب کیلئے تو ہماری جان بھی حاضر ہے۔ اس تفصیل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر مخلص اور نیک دل خاتون تھیں۔ موت سے کوئی مفر نہیں، یہی ہمارا ایمان ہے، تاہم ڈاکٹر زہرہ اسیر کی ناگہانی وفات یقینا ہم سب کا بڑا نقصان اور بڑا دکھ ہے، ان کی وفات سے ہم ایک محنتی، مخلص اور خدمت گار بیٹی سے محروم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اگلی منزلوں کو آسان بنائے، آمین۔
غم و اندوہ کے اس موقع پر میں جناب شیر ولی خان اسیر صاحب، ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اسیر صاحبہ اور ان کے جملہ اہل خانہ سے دلی تعزیت کرتا ہوں۔