ڈاکٹر زبیدہ اسیر کا قابل فخر کارنامہ…….ممتاز گوہر
چترال کی ڈاکٹر زبیدہ اسیر کی فزکس کی برانچ آپٹکس پر لکھی گئی کتاب آمیزون کی تین بہترین بکنے والی کتابوں میں شامل رہی۔ بظاہر خشک اور مشکل سمجھے جانے والے مو ضوع پر سادہ، واضح اور تصاویر کی مدد سے وضاحت کے ساتھ لکھی گئی اس کتاب کو آپٹکس کا مطالعہ کرنے والے طلباءکے لئے ایک خوبصورت اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کتاب کے ادارتی جائزے میں رائل سرے کاؤنٹی ہسپتال انگلینڈ، آغا خان ہسپتال کراچی سمیت ٹیکساس، راولپنڈی اور آئرلینڈ کے متعلقہ شعبوں کے ڈاکٹروں نے اپنا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اور اس کتاب کو سراہتے ہوئے اس فیلڈ میں پڑھنے والے اور عام قارئین کے لئے خاص طور پر تجویز کیا ہے۔ اس کتاب کی ابتدائی قیمت 2.99 ڈالر رکھی گئی ہے۔
ڈاکٹر زبیدہ اسیرکا تعلق چترال کے ایک علمی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد شیر ولی خان اسیر محکمہ تعلیم میں طویل خدمات کے بعد کچھ سال قبل سبکدوش ہو چکے ہیں۔ اسیر صاحب چترال کے علاوہ مردان، ہری پور، صوابی اور ایبٹ آباد میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دوران ملازمت اپنے کام اور پیشے سے اصولی طور پر محبت کی اور اب بھی ایک با اخلاق اور اصول پسند محتمم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ایک جاپانی کہاوت ہے کہ ”اولاد اگر بہتر نکلے تو باب کی خوشی پہاڑ سے بلند اور ماں کی خوشی سمندر سے گہری ہوتی ہے“۔ اور جب اولاد زبیدہ اسیر جیسی ہوں تو والدین کا سینہ خوشی اور فخر سے چوڑا کیوں نہ ہو۔ ہندوکش کے پہاڑوں کے سنگم میں آنکھ کھولنے والی ایک عام سی بچی یورپ جا کر یورپ کے سائنس پڑھنے والوں کے لئے کتاب لکھے اور اس کتاب کو پذیرائی بھی ملے تو اس بچی کے ماں باپ ہی نہیں وہاں کے دیگر لوگ بھی بلاشبہ فخر کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر زبیدہ اسیر آغا خان ہسپتال کراچی سے ایم بی بی ایس کے بعد آئرلینڈ کی مشہور میڈیکل یونیورسٹی گیلوے سے آئی سرجری میں خصوصی مہارت کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر زبیدہ اسیر کی چھوٹی بہن زہرہ ولی بھی ڈاکٹر ہیں اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی (اپر چترال) میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
استاد محترم شیر ولی خان اسیر کے ساتھ میری پہلی ملاقات 2006ء کو ایبٹ آباد میں ہوئی۔ دو سال اس شہر میں ساتھ رہے اکثر ان سے پدرانہ جیسی نصیحتوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور چترال کے بارے میں قیمتی معلومات سیکھنے کو ملتیں۔ میری اسیر صاحب سے قربت کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں نے 2006ء میں اپنے صحافتی کیریئر میں میگزین کے لئے پہلاباقاعدہ انٹرویو انہی کا کیا۔ میری کوشش تھی یہ انٹرویو کسی اچھے میگزین میں چھپے اور اسی نیت سے دو سال اپنے پاس سنبھال کے رکھا اور دو سال بعد” ماہنامہ تریچ میر “میں چھاپ دی۔اس میگزین کے چیف ایڈیٹر ساجد چترالی اور ادارت کی ذمہ داریاں میرے پاس تھیں۔ انٹرویو اور میگزین دونوں کو خوب پذیرائی ملی مگر بدقسمتی سے کچھ شماروں کے بعد یہ خوبصورت میگزین بھی وقت کی ستم ظریفیوں کی نذر ہو گئی۔
اسیر صاحب نے اس وقت چترال کی موسیقی اور آلات موسیقی پر لکھی ہوئی اپنی کتاب بطور تحفہ پیش کی تھی جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔ اسیر صاحب اب تین کتابوں کے مصنف بن چکے ہیں جب کہ سننے میں آرہا ہے کہ چوتھی کتاب اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔
میں جب بھی بچوں کے حوالے سے والدین سے بات کرتا ہوں تو اکثر رابرٹ فلغم کے اس قول کا سہارا لیتا ہوں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ”آپ اس بات کی فکر مت کریں کہ آپ کے بچے آپ کو نہیں سنتے بلکہ آپ اس بات کی فکر کریں کہ وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں“۔ اس میں کوئی شک نہیں والدین کے اکثر عملی کاموں کا اثر بچوں کی زندگیوں پر بھی ہوتا ہے۔ والد نے مقامی سطح پر علم و ادب اور ثقافت پر کتابیں لکھ ڈالیں تو بیٹی کچھ قدم آگے جا کر سائنس پر کتاب لکھ ڈالی۔ کیا کمال کی بات ہے اور یہ وہی سائنس ہے جس کی ابتدا میں مسلمان سائنس دانوں کے کردار کا ذکر کتابوں میں پڑھتے ہیں اور ایک مخصوص دورانیے کے بعد مسلمانوں کی عقل کو تا حال تالے لگ چکے ہیں۔ اب یہ سب قصہ پارینہ بن چکا ہے ایسے میں ڈاکڑ زبیدہ کی علمی کاوش ایک تازہ ہوا کے خوبصورت جھونکے جیسا ہے۔
ڈاکٹر زبیدہ کی یہ کاوش بالعموم پاکستان اور بلخصوص ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے دامن میں آباد لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر اب بھی سوال اٹھانے والے چند دقیانوسی سوچ رکھنے والوں کے لیے ایک مقام فکر بھی ہے۔ بے شک ہمیں ایسی بیٹیوں پر فخر ہے جو اپنی قائدانہ صلاحیتوں، مثبت سوچ و فیصلوں اور جہد مسلسل سے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے علاقے اور ملک کے سوفٹ امیج کو دنیا بھر میں اجاگر کرتی ہیں۔