ڈاکٹرز اور حکومت کے درمیان جاری کشمکش کا تجزیہ…تحریر: ظفر احمد
گزشتہ چند دنوں سے حکومت اور ڈاکٹرز آپس میں گتھم گتھا ہیں، وجہ ایک مجوزہ بل جس کی تفصیل جانے بغیر اخلاقیات کی باؤنڈری کو چھلانگ لگا کر ڈاکڑز حضرات نے حکومتی صحت کے مشیر پر انڈہ پھینک دیے۔ جواب میں جرم کی حدوں کو پار کرکے وزیر صحت نے کیمرے کے سامنے پروفیسر ڈاکٹر کی مسلح گارڈز لے کر پٹائی کردی۔ کسی مہذب ملک میں یہ سب کچھ ہوتا تو ڈوب کے مر جانے کا مقام ہوتا، مگر ہمارے لیے یہ روز کا معمول ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ ہزاروں میڈیکل آفیسرز اور paramedics کی تعیناتی اور ان کو بھاری بھر الاؤنسس دینے کی باوجود صحت کا انصاف کے ثمرات صرف ٹیچنگ ہسپتالوں تک محدود رہے جبکہ دیہات میں واقع ہسپتالوں کی کارکردگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی لیے انصاف کی علمبردار حکومت MTI ایکٹ 2015 کے طرز پر بل لانا چاہتی ہے جس کے تحت ریجنل ہئیلتھ اتھارٹی (RHA) اور ڈسٹرکٹ ہئیلتھ اتھارٹی (DHA) قائم کیے جائیں گے، جسے حکومت سالانہ بجٹ دے گی جو اپنے متعلقہ ہسپتالوں کے نظام چلانے، سہولیات کی بہتری اور ضرورت کے تحت شفاف طریقے سے عملے لینے میں بغیر کسی سیاسی مداخلت کے بااختیار ہونگے۔ دوسری طرف ڈاکٹرز حضرات کا اسرار ہے کہ حکومت ان کی رضامندی کے بغیر ایسا کوئی بل لائے گی تو ملک گیر ہرتال کی جائیں گی۔ جب کہ حکومت بضد ہے کہ بل پاس کروانا حکومت کا اختیار ہے اور ڈاکٹرز ملازمین ہیں جن کا پاس نہ ماننے کا option موجود نہیں ہے۔
دونوں فریقین صحت جیسے بنیادی چیز پر اپنے اپنے انا کو لے کے حالات کو سنگین بنا کر عوام میں ہیجان کی سی کیفیت کا باعث بن رہے۔ ڈاکٹرز الزامات لگا رہے ہیں کہ حکومت ہسپتالوں کی نجکاری کر رہی ہے جس سے نہ صرف ان کی مستقل ملازمت کی حیثیت ختم ہو جائیں گی بلکہ ڈاکٹرز ناظم کے ماتحت ہوں گے جو ان کے ACRs بھی ترتیب دے گا۔ اس کے علاوہ غریب عوام کی پہنچ سے بھی علاج مہنگا ہونے کی بدولت دور ہوں گی۔ جبکہ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے کہ نہ تو ڈاکٹرز کی سروس اسٹرکچر متاثر ہوں گی، اور نہ ہی وہ ناظم کے ماتحت ہوں بلکہ سیاسی مداخلت سے آزاد ہو کر DHAs اور RHAs اپنے کونسلس کے زریعے جو ڈاکٹرز، نرسسز، کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہریں پر مشتمل ہونگی، ہسپتالوں کے نظام کو بہتر بنائیں گی۔
بل کے مسودے کے مطابق صوبائی لیول پر پالیسی بورڈ بنائی جائے گی جو DHAs/RHAs میں uniformity قائم رکھنے کا کام انجام دے گی۔ Council کا سربراہ صوبائی وزیر صحت ہوں گے جبکہ دوسرے ممبران میں ہئیلتھ سیکریٹری اور ہر RHA کے CEO ہوں گے۔ جبکہ CEO ڈاکٹر ہو گا جسے region کے ڈاکٹرز وؤٹ کے زریعے منتخب کر دینگے۔ اسی طرح نرسسز کا منتخب نمائندہ بھیCouncil کا ممبر ہو گی۔ سول سوسائٹی کے ممبران مثلاً ریٹائرڈ ججز، ایجوکیشنسٹس یا بیوروکریٹس کے خدمات بھی council کو حاصل ہوں گی۔ کونسل RHAs کے معاملات کو چلائے گی، جس کا ہر فیصلہ ممبران کے وؤٹ کے زریعے لیے جائیں گے۔ ٹوٹل 34 DHAs تجویز دیئے گئے ہیں، جو ڈاکٹرز اور دوسرے عملے کی تعیناتی اور مخصوص دورانیے میں ان کی کارکردگی کو جانچے گی۔
حکومت کی اس مجوزہ بل نے ڈاکٹرز کو غیض و غضب کا شکار کر دیا ہے، جو حالیہ مشیر صحت پر انڈہ پھینکنے اور پھر اسسٹنٹ پروفیسر پر وزیر صحت کے گارڈز سمیت دہشتگردانہ حملے کا سبب بنا، جس کے بعد صوبے بھر کے ڈاکٹرز مریضوں کو ہسپتال کے برآمدوں میں بے یارو مددگار چھوڑ کر سڑکوں پہ ہیں۔
اس بیچ اگر کوئی چیز سامنے آئی ہے تو وہ ہے ہماری اجتماعی اخلاقیات اور ذہنی کیفیت۔ نہ حکومت کو حالات کا صحیح فہم ہے اور نہ ہی ڈاکٹرز اپنے ذاتی مفادات سے آگے سوچتے ہیں۔ دیگر سرکاری ملازمین کی طرح ڈاکٹرز کو بھی سارے مراعات چاہیے مگر کارکردگی کا سوال اگر حکومت یا عوام کرے، تو ان کی انا متاثر ہو گی۔ ہماری کیفیت PK فلم کے اس ڈائیلاگ کی مانند ہے کہ “payment وا پورا چاہیے مگر کام نہیں کرنا”۔ الاؤنسس اور آپگریڈیشن کے لیے شور مچائینگے مگر کبھی کارکردگی اور نظام کی بہتری کےلیے کوشش نہیں کرینگے۔ ہماری تاریخ میں کبھی کسی ڈاکٹر نے ہسپتالوں میں سہولیات کی بہتری کےلیے احتجاج نہیں کیے، کسی سرکاری ٹیچر نے تعلیمی اداروں میں تدریسی نظام کی بہتری کے لیے کبھی رنجیدہ نہیں ہوئے۔ اگر فکر ہے تو سب کو اپنے اپنے مفادات کی۔
دوسری طرف سرکار ہے، خود سے ملکی حالات کو ٹریک پر لانے کے لیے کوئی پالیسی بن نہیں پا رہی، اپنی نااہلی کا نزلہ ڈاکٹرز اور اساتذہ پر گرا رہے ہیں۔ ان کو یہ تک پتہ نہیں کہ بڑے بڑے سرمایہ دار ممالک بھی بنیادی حقوق سے متعلقہ شعبے یعنی صحت اور تعلیم کی نجکاری کی بات نہیں کر ہو رہے۔ یہ شعبہ صحت اور تعلیم کو بھی فیکٹریاں سمجھ رکھے ہیں جنھیں خود کو بیج کر شوگر ملز اور پیٹرول پمپوں کی طرح اپنے لیے منافع بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ ہوم ورک سرے سے ہے نہیں اور چل پڑے نیا پاکستان بنانے اور عوام کو بیوقوف بنانے۔
ان سے حالات ٹھیک ہونے والے نہیں، اسی لیے ڈاکٹرز سمیت دوسرے ملازمین کو سمجھنا ہو گا کہ دھرنے دینے اور ذاتی مفادات کے لیے لڑ نے کی بجائے نظام کی بہتری اور اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر دیانتداری سے کام کرنے ہونگے۔ جب ہسپتالوں اور دوسرے سرکاری اداروں کی کارکردگی ٹھیک ہو گی تو کون مائی کا لال ان کی نجکاری کی بات کر سکتا ہے؟ اگر ملازمین اسی طرح مراعات اور شہری علاقوں کے لیے مریں گے، دیہاتی کوٹے پر نوکریاں لینگے مگر خدمات کے لیے وہاں نہیں جائیں گے تو نجکاری تو آج نہیں تو کل ہونا ہی ہے، کب تک یوں ہی دھرنوں، نغروں اور ہیجان پیدا کرکے وقت کو ٹالتے رہینگے۔