”چہرے نہیں نظام بدلو“ ۔:تقدیرہ رضا خیل
”چہرے نہیں نظام بدلو“ ۔:تقدیرہ رضا خیل
ائیرمارشل اصغر خان نے ”چہرے نہیں نظام بدلو“ کے عنوان پر کتاب لکھی جو یقیناً ان کی پارٹی کارکنوں‘صحافیوں‘ استادوں اور دانشوروں نے پڑھی ہوگی۔ لوگ یہ بھی جانتے ہونگے کہ صدرمسلم لیگ ن میاں محمد نوازشریف نے اپنی سیاست کا آغاز ائیر مارشل کی سیاسی جماعت تحریک استقلال سے کیا تھا وہ عرصہ تک اس سے وابستہ رہے۔ جنرل ضیاء کا دور آیا تو میاں خاندان کا جھکاؤ مسلم لیگ کی طرف ہوگیا پھر وہ مسلم لیگ جونیجو گروپ سے فیضاب ہوکر وزیراعلی پنجاب اور پھر تین بار وزیراعظم رہے اب ان کی بیٹی وزیراعلیٰ اور بھائی وزیراعظم ہیں۔مشہور ہے کہ میاں صاحبان کتاب یا اخبار بینی نہیں کرتے چوکہ انہیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ملک کی ساری کریم یعنی عقل ودانش کے سبھی روشن مینار ان کے دربار کو منور رکھے ہوئے ہیں جناب عرفان صدیقی مستند استاد، دانشور اور دور حاضر کے”شمس العلماء“ ہیں۔ یادش بخیر ……
مصری وزیر تعلیم طہ حسین کی خدمات یو این او سے مانگی تو صدر جمال عبدالناصر نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو لکھا کہ طہ حسین مصر کی دو آنکھیں ہیں اگر طہ حسین اقوام متحدہ میں چلے گئے تو مصر نابینا ہو جائے گا یاد رہے کہ طہ حسین پیدائشی نابینا تھے مگر ان کے علم ودانش کی روشنی سے مصر روشن تھا۔ نو لیگ کے پاس صرف عرفان صدیقی ہی نہیں بلکہ علم وحکمت کی ہر صنف کے استاد موجود ہیں۔ وزیر قانون‘ وزیر اطلاعات اور وزیر خارجہ وداخلہ بھی نابغہ روز گار ہیں جن کی اہمیت سے افکار ممکن ہیں۔ بات ائیر مارشل کی تصنیف کی ہورہی تھی جوشاید میاں صاحب نے پڑھی ہو یا پھر کسی حکیم‘ عالم نے انہیں پڑھ کر سنائی ہو ”چہرے نہ بدلو نظام بدلو“ آخر کار میاں صاحبان نے اپنے زیرک سیاسی وزیروں اور مشیروں کی مدد سے ائیر مارشل کی خواہش پورکردی اور تقریباً ایک سال کی علمی‘ عقلی اور دوسروں کے زور پر اکتوبر 1924 کے دوسرے ہفتے میں ملکی نظام بدل ڈالا ائیر مارشل مرحوم کے خواہش پر چہرے نہیں بدلے گئے چونکہ چہرے بدلنے سے نظام دھڑم سے گرنے کا اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے، ابھی اس نظام کی ابتدا ہے۔ ابتداء میں ہر دیوار کمزور ہوتی ہے اوراسے بیرونی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
شیخ سعدیؒ کا مشہور قول ہے کہ ”گل مندن کا گل مندن دیوار بے بنیاداں“ فرماتے ہیں کہ جو دیوار کی بنیاد مضبوط نہ ہو اس پرجتنا بھی سیمنٹ‘ گارا اور چونا لگاؤ وہ کبھی مضبوط نہیں ہوسکتی۔ ملا طاہر غنی کاشمیری کا فرمان ہے کہ اسے شخص باخبر رہ کر دریا کا پانی دیوار کے قدم چومتا ہے مگر آخر کار اسے گرا دیتا ہے۔ نئی آئینی ترمیم تو لاگو ہو چکی ہے مگر یہ آئینی دیوار کسی ایک معمار کا کرشمہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن‘ پی ٹی آئی کے منحر فین‘ جناب جسٹس فائز عیسیٰ کے کچھ تاریخی فیصلے‘ پی این پی کے منحر فین‘ ایم کیو ایم اور سب سے بڑے دانشور صدر زرداری‘ ان کے فرزند بلاول بھٹو زرداری‘ اور بقول جناب فیصل وواڈ کے”باپ اور باپ کے باپ“ ترمیم کے راستے سے رکاوٹیں ہٹا کر پچھتر سال کے بعد ایک مضبوط‘ مستحکم اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ایک نظام ملکی سلامتی‘ ترقی وخوشحالی کے پیش نظر قوم کو دیا ہے۔ جناب ”مفتی اعظم پاکستان“ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا قوم پر عظیم احسان ہے کہ وہ آخر کار ایک فرسودہ نظام بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔ علمی شخصیات کے بعد اب روحانی شخصیت کے کسی بیان کا انتظار ہے مگر میرے نزدیک جناب فیصل ووڈا ہی وقت کے سب سے بڑے روحانی استاد ہیں۔
ان کی پیشن گوئیاں سچ ثابت ہورہی ہیں جو کبھی خطرناک ہوسکتی ہیں۔ جناب قدرت اللہ شہباب نے ”شہباب نامہ“ میں جموں میں پلیگ کے عنوان سے مضمون رقم کیا، لکھتے ہیں کہ ان کی یکطرفہ محبوبہ کسی مولوی سے بیاہ دی گئی جموں وکشمیر میں طاعون کا مرض پھیلا تو محلوں کے محلے صاف ہوگئے مرض مولوی صاحب کے محلے تک جاپہنچا تو ہم خوش ہوگئے کہ چلو مولوی سے چٹھکارا مل جائے گا۔ ابھی ہم اسی خوشی میں مبتلا تھے کہ مولوی صاحب کی حسین وجمیل بیوی چل بسی!!پتہ نہیں اس آئینی ترمیم کی خوشی کب تک قائم رہتی ہے اور فیصل ووڈا آنے والے دنوں میں کون سی نئی پیشن گوئی کر دیتے ہیں۔اسی وباء کے دوران کشمیر میں ایک صاحب اپنے پیرومرشد کے پاس گئے اور عرض کی کہ مجھے کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ مجھے پتہ چل جانا کرے کہ میرے علاقہ میں کونسا شخص طاعون میں مبتلا ہونے والا ہے پیر صاحب نے کہا کہ یہ تو امر ربی ہے۔ یقین اسی کی طر ح سے نازل ہوتی ہیں اور وہ ہی شفایاب کر نے والا ہے۔ مرید نے ضد کی تو پیر صاحب نے اسے کو ایک رجسٹر دے کر کہا کہ اپنے محلے سمیت جتنے لوگوں کو جانتے ہو ان کے نام لکھ لو جس کسی پر طاعون کا حملہ ہوگا اس کا نام رجسٹرسے خود بخود غائب ہو جائے گا یہ شخص آئن گر تھا صبح دکان کھولتے ہی لوگ آجاتے اور یہ رجسٹر دیکھ کر پیشن گوئی کر دیتا کہ فلاں کا پتہ پیلا ہوگیا بس گیا کہ گیا اور پھر ایسا ہی ہوتا وہ دنوں میں مشہور ہوگیا کہ بہت پہنچا ہوا ہے۔
لوگ ڈرنے بھی لگے کہ کیا پتہ کل کلاں ان کے نام لے لے لوگ نیاز اور شریناں بھی دینے لگے اور صحت کیلئے دوا کرواتے۔ آئن گر کا ٹیہا چند دن تک ہی قائم رہا ایک دن رجسٹرلیکر پیر صاحب کے آستانے پر حاضر ہوا اور سر میں خاک ڈالنے لگا رجسٹر پھاڑ کر پھینک دیا اور گریہ کرنے لگا پیر صاحب نے پوچھا تو رورو کر عرض کرنے لگا کہ آج صبح رجسٹر دیکھا تو میرے اکلوتے بیٹے اور بیوی کا نام غائب پایا۔ پیر صاحب نے کہا کہ جاؤ صبر کرو اور کبھی کسی کی تکلیف پر خوشی مت مناؤ۔ رجسٹر تو تمہاری خواہش تھی ورنہ کام سب اللہ ہی کرتا ہے۔ اسی کا نظام کامل‘ مکمل اور مستحکم ہے باقی سب دھوکہ‘ فراڈ اور جھوٹ ہے۔ جناب فیصل ووڈا بھی رجسٹر لکھ کر پریس کانفرنسیں کرتے ہیں ورنہ ان کی اہمیت اور حیثیت آئن گر سے بھی کم ہے۔ کیا پتہ وہ کسی روز منیب‘ طلعت‘ شامی‘ جامی‘ بخاری یا بادامی کے سامنے بیٹھ کر کہہ دیں کہ اب اس نئے نظام کی اہمیت ختم ہو چکی۔ رجسٹر سے بہت سے چہرے بھی غائب ہیں چند دنوں میں نیا نظام اور نئے چہرے سامنے آنیوالے ہیں کیا پتہ وہ جن دانشوروں کے سامنے بیٹھ کر اپنا مدعا بیان کررہے ہو ان کے نام بھی رجسٹر پر نہ ہوں یاد رہے کہ ہر لکھنے والے کے اوپر بھی ایک لکھنے والا ہے جس کا لکھا کبھی مٹتا نہیں۔ ووڈا صاحب کو بھی اپنا خیال رکھنا چاہیے نام تو کسی کا بھی مٹ سکتا ہے!!