چلتے چلتے…………. زندگی ہے حادثہ در حادثہ……. تحریر محبت علی قیصر
سکردو بس سٹینڈ پر 21ستمبر 2019 ء کی شام بڑی گہما گہمی تھی کوئی اپنوں کو الوداع کرنے آیا تھا تو کوئی اپنوں کو گلے لگانے آیا تھا۔ ابھی اندھیرا چھایا ہوا تھا ساتھ ہی اجل نواز بھی اس اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ ادھر گلگت بلتستان کی مشہور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کمپنی,, مشہ بروم کی نئی نویلی بس BLN1495 اپنے سٹینڈ پر کھڑی تھی۔ اس میں عازم سفر ہونے کے لئے بہت سارے افراد نے ٹکٹ کیا تھا۔ جن میں بچے بھی تھے تو خواتین بھی جوان بھی تھے تو بزرگ بھی علما ء کرام بھی تھے تو پاک فوج کے جوان بھی۔ اس بس میں سفر کرنے کے لئے کل37افراد نے ٹکٹ کیا ہوا تھا۔ ابھی ٹھیک 8بجے اس بس نے اڈے سے نکلنا تھا۔ جب وقت ہونے پر کنڈیکٹر نے اعلان کیا تو سب اپنی اپنی سیٹوں پر برا جمان ہوئے۔ ان مسافروں میں ایک ہی خاندان کے سارے افراد بھی تھے تو کسی گھر سے ایک ایک فرد بھی سوار ہوا تھا۔جب وقت ہوا تو اشرف حسین نامی ڈارائیور نے بسم اللہ پڑھ کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی،بس کو سٹارٹ کیا اور اڈے سے نکالا، اب اس بس کی اگلی منزل راولپنڈی تھی۔ یہ بس کئی کو اپنوں سے دور اور کئی کو قریب لانے کے اعادے کے ساتھ روانہ ہوئی تھی اس کی روانگی کے ساتھ ہی اجل نواز بھی اڈے سے نکلا تھا اور وہ کبھی بس سے آگے تو کبھی بس کے پیچھے ہوتا اسی طرح صبح صادق کے وقت بس چلاس پہنچ گئی تو اجل نواز نے بس کا رخ KKHسے بابوسر کی طرف موڑ دیا۔اور خود ایک دفعہ پھر بس سے آگے نکل گیا۔ صبح ساڑھے چھ بجے کا وقت تھا بس بابوسر کی طرف بڑھتی جا رہی تھی اور ساتھ چڑھائی چڑھتی جا رہی تھی ایک وقت کنڈیکٹر نے اعلان کیا کہ جو مسافر پیچھے بیٹھے ہیں وہ آگلی سیٹوں کی طرف آئیں تو پیچھے وزن زیادہ نہیں ہو گا اور بس آسانی سے چڑھائی چڑھ سکے گی یہ سن کر جو سویا تھا وہ تو رہ گیا جو جاگے ہوئے تھے وہ اپنی سیٹوں سے اٹھ کر آگے آئے خواتین اور علماء کرام پہلے سے ہی اگلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ویسے بھی بہت سارے لوگوں کا شوق تھا کہ آگے بیٹھ کر بابوسر اور دیگر خوبصورت علاقوں کی سیر کی جائے۔اس طرح بس چڑھتی رہی اور ایک ایسے خطرناک موڑ کے سامنے آگئی موڑ کاٹتے ہی ڈرائیور نے چیخ کر کہا کہ بس کو حادثہ ہونے والا ہے جو اپنی بچاؤ کر سکتا ہے کرے۔ اور دروازہ کھول دیا کئی نے چھلانگ لگائی مگر اسی دوران بس ایک اجدھام کی طرح کلٹی کھا کر نیچے کی طرف لڑھک گئی بس کے اندر ایک کہرام بپا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے قیامت برپا ہو گئی۔ بس سامنے کی چٹان سے ٹکرا گئی جس سے بس کا اگلا حصہ مکمل تباہ ہوا۔ ساتھ ہی اور بھی گاڑیاں محو سفر تھیں ان کو اندازہ بھی نہیں تھاکہ اتنا بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ 22 ستمبر2019کی صبح 6 بجکر45 منٹ پر گٹی داس کے قریب ایک اور قیامت برپا ہوئی تھی اس سے پہلے اسی علاقے میں ہی بسوں سے اتار کر درجنوں مسافروں کو شہید کیا گیا تھا اب یہ دوسری قیامت تھی۔ جو جان کی بازی ہار گئے تھے وہ خاموش تھے اور جو زخمی تھے وہ فریاد کنا تھے اور جو زخمی نہیں تھے وہ وا ویلا کر رہے تھے اور امداد کے لئے چلا رہے تھے مرنے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی سب سے پہلے گیٹی داس کے جوان موقع پر پہنچ گئے اور جو بھی ان سے ہو سکتا تھا انہوں نے قربانی پیش کی اور میتوں اور زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر چلاس ہسپتال کی طرف روانہ کر دیا ادھر چلاس ہسپتال میں لوگوں کا جم غفیر تھا اور سب خون کے عطیات دینے اور دیگر خدمات کے لئے چوکس تھے۔ انہوں نے انسانیت کی اعلیٰ مثال قائم کی اس دوران پاک فوج کے جوان بھی پہنچ گئے اور امدادی کاروائیاں شروع کی۔ جن کی نگرانی جناب احسان محمود فورس کمانڈر خود کر رہے تھے۔ اور ہیلی میں میتوں اور زخمیوں کو خود اٹھا اٹھا کر گلگت CMH تک پہنچایا ہم چلاس کے ان درمندوں اور پاک فوج کے جوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
اس المناک سانحے میں پاک فوج کے10 جوانوں کے علاوہ سکردو کے5 گانچھے کے4 قمراہ کے 2 کھرمنگ کے2 اور کتپناہ کا ایک مسافر شامل تھا۔ اور ان کے ساتھ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کل ملا کر 26 افراد کو اجل نواز وہاں سے اٹھا کر روانہ ہوا۔ ان میں دو علما کرام جان بحق ہوئے اور ایک عالم دین شدید زخمی ہوا اور ان کی بیگم بھی زخمی تھی جب کہ ان کے تین بچے جان بحق ہوئے تھے ان کے علاوہ سکردو کے ایک ہی گھر کے 5 جنازے علاقے میں پہنچ گئے تو علاقے میں کہرام مچ گیا۔ ان جان بحق افراد کو پہلے گلگت ہیلی پیڈ لایا گیا پھر وہاں سے ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کر دیا گیا یہاں تمام سیاسی وہ مذہبی تنظیموں نے تین دن کے سوگ کا اعلان کر دیا۔
جب چلاس اور گرد ونواح کے جوان اور پاک فوج کے جوانوں نے اپنی خدمات سر انجام دی تو تب جا کر کہیں انتظامیہ خواب خرگوش سے بیدار ہوئی اور انہوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے ایکشن لیتے ہوئے مشہ بروم اڈہ سکردو کو سیل کر دیا اور فٹنس اور این او سی کا ڈرامہ رچانا شروع کیا۔ اس سے پہلے کہاں کہاں فٹنس اور میڈیکل چیک کی گئی تھی جب بھاشہ، ہربن، گونر فارم اور لولوسر میں پے درپے سانحات ہوئے اور لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر چن چن کر مارا گیا تو اس وقت یہ انتظامیہ کہاں تھی اس دوران تو دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دی گئی اور گلگت میں نہتے شہریوں کو ہراساں کیا گیا سانحات دیامر اور کوہستان میں ہوئے جب کہ کرفیو گلگت شہر میں لگا یا گیا۔گونر فارم میں بھی جب کھلی دہشت گردی ہوئی تو وہاں بھی شہید کئے جانے والے تقریباً مسافروں کا تعلق سکردو سے تھا۔ وہاں موجود دہشت گرد بھی دیامر کے تھے اور آج یہاں موجود انسانیت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے بھی دیامر ہی کے تھے۔ دیکھنے میں آیا کہ گونر فارم سانحے کے دوران ایک شہید کی لاش کے اوپر پاؤں رکھ کر ایک دہشت گرد کھڑا ہے اور اوپر چھت پر چڑھ کر سامان اتارنے والے شخص کو کہہ رہا ہے کہ ارے سامان چوری نہ کرو نیچے اترو سامان چوری کرنا گنا ہ ہے۔ جب کہ یہ نہیں سوچتا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کو مارنے میں کتنا بڑا گناہ ہو گا۔ گیٹی داس اور چلاس کے نوجوانوں نے جب انسان دوستی کی مثال قائم کی تو یہ نہیں دیکھا کہ کون کیا ہے صرف انسانیت کے ناطے انہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ہر طرح کی مدد کی لوگ خون دینے ا مڈ پڑے اور اپنا سب کچھ ان زخمیوں اور پریشان حال لوگوں کے سامنے پیش کیا اب ایک برا ہو یا دہشت گرد ہوا تو سب تو ایسے نہیں ہمارا سلام ان جوانوں پر، ان جیسے اقدامات سے دہشت گردوں اور شر پسندوں کے ارادے خاک میں ملتے ہیں اور ہمارے دلوں کی ملن ہوتی ہے اور ہمدردیاں بڑھ جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ اس سے پہلے درجنون حادثات اس سے بھی بڑے بڑے ہوئے ہیں اور سینکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ اب تک انتظامیہ نے کیا اقدامات کئے تھے ایک اڈے کو سیل کرنے سے کام نہیں چلے گا یہ حادثات کی روک تھام نہیں ہو گی بلکہ کمپنی والوں کو چاہئے کہ بسوں کو ٹھیک رکھے اور ہر گاڑی کے ساتھ دو دو ڈرائیور رکھیں اتنے لمبے سفر پر ایک ہی انسان گاڑی ڈ رائیو کرے گا تو لازمی امر ہے تھکاوٹ بھی ہوگی اور رات کو سفر ہوتا ہے تو نیند بھی آئے گی۔انتظامیہ کو چاہئے کہ گلگت سے ہوں یا پنڈی سے تمام گاڑیاں صبح سویرے روانہ کردی جائیں تاکہ دن کو سفر کیا جاسکے اور حادثات میں کمی ہو۔ اور کوئی دہشت گردی کا خطرہ بھی نہ ہو۔ہمیں امید ہے انتظامیہ مفید اقدامات کرے گی اور مشہ بروم کے دفتر کو آزاد کرے گی اور تمام ٹرانسپورٹ اڈو ں کی نگرانی کرکے ان کی فٹنس اور میڈیکل چیک کرتی رہے گی اور ہر کمپنی کو لازمی قرار دیا جائے گا کہ دو دو ڈرائیور ہر گاڑی میں ہو۔ اس کے ساتھ امید رکھتے ہیں کہ دہشت گردی ک ے قلع قمع کے ساتھ دیامر کے تمام افراد اس طرح کی محبت اور انسانیت کی مثال قائم کرتے ہوئے مہر و محبت بانٹ لیں گے۔ اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین۔عبد الحفیظ شاکر کہتے ہیں۔
.
زندگی ہے حادثہ در حادثہ
دور تک بے مائیگی کا سلسلہ
زندگی عاقل بھی ہے فرزانہ بھی
خود بناتی ہے یہ اپنا راستہ
.