چترال کے معروف سماجی و کاروباری شخصیت انجینئر فضل ربی جان کی چترال ٹائمز کیلئے خصوصی انٹرویو
چترال کی معروف سماجی وکاروباری شخصیت انجینئر فضل ربی جان حالیہ دنوں میں جماعتِ اسلامی کی رکنیت سے مستعفی ہوکر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے جس کی وجہ سے چترال کے سیاسی حلقوں میں عمومی طور پر اور جماعتِ اسلامی چترال کے کارکنان خصوصی طور پر کافی دنوں تک اس ابہام میں رہے کہ 27 سالہ طویل رفاقت کو چھوڑ کر ایک ایسی جماعت میں شمولیت جس کا نظریہ جماعتِ اسلامی سے مختلف سمجھا جاتا ہے، میں شامل ہونا سمجھ سے بالا تر تھا۔
جماعت اور جمعیت کے رکن کی حیثیت مؤثر کردار ادا کرنے والے فضل ربی صاحب کے اس فیصلے پر بحیثیت سابق رکن جمعیت میرے ذہن میں بھی کافی سوالات اُٹھ رہے تھے۔
لہٰذا ایک سوالنامہ ترتیب دیا اور انجینئر فضل ربی صاحب سے ٹائم لے کر اُن کی دفتر پر جاپہنچے۔ انجینئر صاحب نے بڑے پُرتپاک انداز میں استقبال کی اور کچھ خوش گپیوں کے بعد میں نے اپنا سوالنامہ انجینئر صاحب کے گوش گزار کردیا۔
میں: جمعیت میں کیسے آئے؟ جمعیت کے نظریات سے متاثر ہوئے یا شخصیات سے؟
فضل ربی جان: بنیادی طور پر میں سکول کے زمانے سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوچکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ابتدائی تعلیم جماعت اسلامی کے چترال پبلک سکول سے حاصل کی۔
نوے کے عشرے میں بہت ہی شفیق اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا جس میں پروفیسر سمیع اشرف الدین، صلاح الدین صالح اور پروفیسر عبیدالرحمن صاحب نے اپنی شخصیت، ایمانداری اور ایک روحانی باپ کی حیثیت سے مجھے اس قابل بنایا کہ میں آج اس مقام تک پہنچا ہوں۔ اپنے اساتذہ اور جمعیت کی تربیتی سرگرمیوں میں شرکت کی وجہ سے میں جمعیت کے قریب تر ہوتا گیا اور یہ رغبت آہستہ آہستہ جنون میں بدل گئی۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ مجھے ایک شب بیداری کا دعوت نامہ دیا گیا۔ میں نے اسے بہت ہی چھپا کر رکھا کیونکہ میرے والد صاحب اور پورا خاندان پیپلز پارٹی کے کارکنان تھے اور میرے اوپر پابندی تھی کہ میں کسی ایسے پروگرام کا حصہ بنوں۔ رات کے وقت جب گھر کے سارے دروازے بند تھے تو روشن دان سے نکل کر میں اس شب بیداری میں شریک ہوا۔
میں: اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق اوراُمیدوار رکن کب بنے؟
فضل ربی جان: تربیتی پروگرامات کے ساتھ ساتھ مولانا مودودیؒ کے لٹریچرکا مطالعہ ہوتا رہا۔ کتاب خالد کے نام اور شہادتِ حق نے ضربِ کاری لگائی اور مجھے 91 میں جمیعت کا رفیق بنادیا گیا۔
پھر اسلامیہ کالج میں انجینئرنگ میں داخلے کے بعد 1994 میں اسلامی جمعیت طلبہ کا اُمیدوار رکن بنا۔
میں : جمعیت سے کیا کھویا اور کیا پایا؟
فضل ربی جان: میں نے اپنی ذندگی میں جو کچھ سیکھا ہے وہ جمعیت کی مرہونِ منت ہے۔ جمعیت نے مجھے بات کرنے کا حوصلہ دیا۔ حق وباطل کی تمیز کرتے ہوئے کلمہ حق بلند کرنے اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کا شعور دیا۔ یہ سارا کریڈٹ ؒ جمعیت کا ہی ہے کہ ایک طالب علم کو خود اعتماد بناتی ہے اور اسے معاشرے میں مؤثر طریقے سے انسانوں کی فلاح کے ذریعے کام کرکے رضائے الٰہی کے حصول کا درس دیتی ہے۔ طالب علموں کی صلاحیتوں کو نکھار کر انہیں معاشرے میں بہتر انسان بناتی ہے۔
جہاں تک کھونے کی بات ہے تو جمعیت سے صرف پایا جاتا ہے کھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں: جمعیت میں کن کن ذمہ داریوں کو سرانجام دیا؟
فضل ربی جان: جمعیت میں مختلف ذمہ داریاں دی گئیں جن کو احسن طریقے سے نبھانے کیلئے پوری کوشش کی۔ اسلامیہ کالج میں ہاسٹل کی ذمہ داری تھی۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری، نشرواشاعت کی ذمہ داری، طلبہ امور کی ذمہ داری اور 1996 میں قائم مقام ناظم UET کی حیثیت سے کام کیا اور ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کیلئے اپنی پڑھائی کو دوسرے درجے پر رکھا اور کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
میں: جمعیت کی تربیت پریکٹیکل لائف پر کس طرح متاثر ہوئی؟
فضل ربی جان: جمعیت نے ہمیں جواں مردی اور خود اعتمادی دی ہے اور میرے پورے کیرئیر کو اگر آپ دیکھیں تو میں نے ذندگی میں بہت رسک لیے اور اسی خود اعتمادی کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ سماجی طور پر بھی لوگوں کی بھلائی اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کی خاطر جدوجہد کرنا بھی جمعیت سے ہی سیکھا ہے۔
میں: جمعیت سے فراغت کے بعد کیا کیا؟
فضل ربی جان: جمعیت سے فراغت کے بعد کیرئیر کا آغاز واپڈا میں ملازمت سے کیا لیکن واپڈا کے ادارے میں کرپشن اور سفارش کے کلچر میں خود کو ڈھالنا ناممکن تھا اور یہی جمعیت کی تربیت تھی لہٰذا واپڈا سے مستعفی ہونے میں ہی بہتری تھی۔
اس کے بعد آغا خان رورل سپورٹ پروگرام میں انجینئر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا اور چترال کے تمام علاقوں میں چھوٹے پن بجلی کے حوالے سے کام کرنا یقینی طور پر قابل فخر تھا اور دلی تسکین کا باعث بھی تھا کہ اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنا میرا مشن رہا۔ اس دوران پورے چترال میں تقریباً 22,000 گھرانوں میں بجلی کی فراہمی اور تنظیمات کی تشکیل کیلئے کام کیا ۔ اسی دوران افغانستان اور تاجکستان میں بھی کام کرنے کا موقع ملا اور ایک سال تعلیم کے سلسلے میں لندن میں بھی مقیم رہا۔ 2004 میں وطن واپس آیا او ر 2005 میں اپنا کاروبار شروع کرنے کا سوچا۔ جمعیت نے یہی سکھایا تھا کہ ملک وقوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے لہٰذا چھوٹے پن بجلی گھر کو پروموٹ کرنے کا پروگرام بنایا کیونکہ اس میں انسانیت کی خدمت کا پہلو بہت اہم نظر آیا۔ 2008 میں ہائیڈرولنک انجینئرنگ کمپنی کی بنیاد رکھی اور باقاعدہ اس پر کام کا آغاز کیا۔ چترال کے نوجوانوں کو روزگار ملا اور دور دراز کے علاقوں کو بجلی کی صورت میں ترقی کی ایک نئی راہ ملی۔
میں: جمعیت کے دور کا کوئی دلچسپ واقعہ جو آپ کو یاد ہو:
فضل ربی جان: 1994 میں جب میں اسلامیہ کالج کا طالب علم تھا اور میری ہاسٹل کی ذمہ داری تھی تو اس وقت کے پرنسپل ارباب سکندر کے خلاف جمعیت نے تحریک کا آغاز کیا۔ اس وقت جناب ظریف المعانی (Buner DC) کالج کے ناظم تھے اور اس تحریک کے دوران پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ آنکھ مچولی، گھیراؤ، لاٹھی چارج یادگار لمحات تھے۔
اس کے بعد 1998 میں جب میں انجینئرنگ یونیورسٹی کا قائم مقام ناظم تھا اور ہم نے ویلکم پارٹی کا انعقاد کیا۔ ہمیں اجازت نہیں ملی اور کہا گیا کہ ویلکم پارٹی کیمپس سے باہر کی جائے۔ بحرحال ہم نے کان نہ دھرے اور تمام انتظامات کرنے کے بعد جب صبح ویلکم پارٹی کیلئے پہنچے تو پولیس نے ہال کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور اس وقت کے ناظم صوبہ جو مشتاق احمد صاحب (صوبائی امیر) تھے ہمارے مہمان خصوصی تھے۔ حالات کشیدہ ہونے پر 4 ماہ تک یونیورسٹی بند رہی اور مجھے گرفتار کیا گیا اور یونیورسٹی سے بھی خارج کردیا گیا۔ میرے والد صاحب کو جب خبر ہوئی تو افغانستان کے راستے پشاور پہنچے اور جب مجھے مطمئن دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہیں سے واپس چلے گئے بعد ازاں ہمیں بحال کردیا گیا۔
میں : جماعت اسلامی میں کب شامل ہوئے اور کب رکن بنے؟
فضل ربی جان: اسلامی جمعیت طلبہ کی فراغت کے بعد ہی جماعتِ اسلامی کا باقاعدہ کارکن اور کچھ ہی عرصے میں اُمیدوار رکن بن چکا تھا اور جماعت کی جانی ومالی معاونت کے ساتھ دعوتی وتربیتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا لیکن کچھ Development Org. میں کام کرنے کی وجہ سے رکنیت کی منظور میں کافی رکاوٹیں آئیں۔ پھر جب اپنا کاروبار شروع کیا تو 2010 میں جماعت اسلامی نے میری رکنیت منظور کی۔
میں: جماعت میں شخصیت سے متاثر یا نظریات سے؟
فضل ربی جان: اسلامی جمعیت طلبہ نے ہمیں ایک نظریہ دیا ہے اور وہ نظریہ یہی ہے کہ انسانیت کی خدمت اور ملک کی تعمیر وترقی میں بہتر کردار ادا کرکے رضائے الٰہی کا اصول ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے اور حق کا پرچار کرکے اس ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔ اور یہی نظریہ جب شخصیات بھی اپنا لیں تو وہ بھی مجبوب بن جاتی ہیں ، لہذاء ناسلامی اقدار اور نظریات ہی جماعت اسلامی کا خاصہ ہیں۔
میں: جماعت میں کیا کیا ذمہ داریاں انجام دیں؟
فضل ربی جان: جماعتِ اسلامی میں مختلف ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ جماعت کی سیاسی وانتخابی کمیٹی کی حیثیت سے کام کیا اور سیاسی طور پر جماعت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جلسوں کے دوران سٹیج اور جلسہ گاہوں کے تمام انتظامات سرانجام دیے ۔ نوجوانوں کو جماعت سے قریب تر کرنے کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ چترال کی سطح پر پہلی بار فہم القرآن کلاس کا انعقاد کروایا۔
میں: جماعت کی وہ خوبیاں جو اسے باقی سیاسی جماعتوں سے ممتاز بناتی ہے؟
فضل ربی جان: جماعت ایک دعوتی اور نظریاتی جماعت ہے اور جماعت کا نظریہ ہی اسے باقی سیاسی جماعتوں سے ممتاز بناتا ہے۔ جماعت ملک کو ایک باشعور رہنما مہیا کرنے کی نرسری ہے۔ اس میں باقی جماعتوں کی طرح وراثت میں لیڈر نہیں بنتے اور ہر کارکن اپنی محنت اور خلوص کی بنیاد پر جماعت میں آگے آتا ہے۔ جماعت میں کسی ایک فرد یا خاندان کی اجارہ داری نہیں ہے جو جماعت کو باقی جماعتوں سے ممتاز بناتی ہے۔
میں: جماعت سے کیا پایا اور سیکھا؟
فضل ربی جان: میں نے الحمدللہ جو وقت بھی جماعت میں گزارا ہے وہ دین کی سربلندی اور حق کا پرچار کرتے ہوئے گزارا ہے اور یہی مجھے جماعت نے سکھایا ہے کہ سورۃ العصر کی تفسیر بن کر زندگی گزارنی ہے یعنی ایمان اور اعمال صالح کے ساتھ ساتھ حق بات کا پرچار کرنا ہے اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر اس راہِ حق میں آنے والی مصیبتوں پر صبر کرنا ہے اور میں چاہے جہاں بھی رہوں میں حق کا پرچار کرتا رہوں گا اور اپنے جانی ومالی وسائل اس راہِ حق میں آئندہ بھی صرف کرنے کیلئے تیار ہوں۔ میں ابھی بھی اپنے بزرگوں کے زیر سایہ ہوں اور اللہ کی رضا کیلئے اپنے تمام تر وسائل خرچ کرنے کیلئے مجھے تیار پائیں گے۔
میں: انتخابی سیاست میں جماعت کو ذیادہ پزیرائی نہ ملنے کی وجہ؟
فضل ربی جان: میرے خیال میں جو سیاسی طور پر جماعت کو ناکامی کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ جماعت خالصتاً دعوتی اور نظریاتی جماعت پہلے ہے اور ایک سیاسی جماعت بعد میں ہے۔ جماعت کو ہمیشہ نظریے اور دعوت کو ترجیح دینی چاہیے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جماعت نے بائیکاٹ اور اتحاد کی سیاست میں جاکر اپنے نظریے کو پیچھے دھکیلا ہے اور اسی وجہ سے علاقائی ، صوبائی اور قومی سطح پر جماعت کو ناکامی اور مایوسی کا سامنا ہے۔ جماعت کو اپنے نظریے اور دستور کو سامنے رکھ کر لوگوں کے دل اور اسمبلیوں کی سیٹیں جیتنی ہیں۔
میں: سُننے میں آیا ہے کہ آپ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے جماعت سے مستعفی ہوئے؟
فضل ربی جان: دیکھیں۔ میں جماعت کا کارکن اور رکن رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ منصب کا خواہشمند ہونا جماعت کے دستور کے خلاف ہے۔ شوری اور اراکین اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ موجودہ ناظم ضلع کو ایک بار پھر سے میدان میں اتارا جائے اور آزمایا جائے۔
مولانا اکبرچترالی صاحب کے ساتھ میرا بہت اچھا تعلق ہے اور میں ہمیشہ سے انھیں اپنا سرپرست مانتے آیا ہوں۔2013 کے انتخابات میں بھی میں نے مولانا صاحب کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ان کی نامزدگی کے حوالے سے تمام اراکین میں یکسوئی تھی اور انھیں صوبائی و مرکزی قیادت کا بھی اعتماد حاصل تھا۔ اسی طرح مغفرت شاہ سے بھی میرا بہت قریبی تعلق رہا ہے اور بلدیاتی انتخابات میں ہم نے انکی پوری مہم میں حصہ لیا ہے اور کامیابی ہمارا مقدر بنی ہے لیکن ہماری اس کامیابی کا صحیح استعمال تب ہوتا جب حاجی مغفرت شاہ ناظم کی حیثیت سے جماعت کے امیدواروں کے دست و بازو بنتے۔ اس سلسلے میں صوبائی قیادت سے بھی ملا اور ان کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ مغفرت شاہ صاحب کو ڈسٹرکٹ نظامت پر رہ کر دو صوبائی اور ایک قومی سیٹ کیلئے میدان میں اُتر کر کام کرنا چاہیے اور اسی سے جماعت کی کامیابی متوقع ہے۔ رسک لے کر دوبارہ الیکشن لڑوانا غیر سیاسی اور غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے اور جماعتِ اسلامی کے دستور کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے تو بہتر نتائج آسکتے ہیں۔
میں نے ان کو یہ تجویز بھی دی کہ ان کے علاوہ کوئی اور بندہ آگے لائیں تو میں اپنے جانی ومالی وسائل خرچ کرنے کیلئے تیار رہوں گا اور اس کی کامیابی کیلئے پوری قوت لگادیں گے لیکن مایوسی ہوئی اور اسی بات پر جماعت سے علیحدگی میرے پاس واحد راستہ بچا تھا۔ بہت سے اور اراکین بھی اس فیصلے پر ناخوش تھے لیکن میں ان سب کے گھر گیا اور انہیں سمجھایا کہ میں قربانی دیتا ہوں۔ شاید میری قربانی سے جماعت کی ساخت خراب ہونے سے بچ جائے۔میرے پاس اس انتہائی اقدام کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
میں: کیا آپ اپنے اس انتہائی اقدام پر مطمئن ہیں؟
فضل ربی جان: موجودہ دنوں میں جو ایم ایم اے کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے اس کے بعد سے میں مطمئن ہوں کیوں سراج الحق صاحب کی ایک طرف’ احتساب سب کا کی ‘پوری تحریک جس میں کرپٹ پانامہ مافیہ کے خلاف ایک پوری جدوجہد کی گئی اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن جو انہی اہلیانِ پانامہ کی صفوں میں موجود رہ کر ان کو تقویت رہے کا ایک جگہ جمع ہونا جماعت کے تشخص کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
میں: PPP میں شمولیت کیسے اختیار کی؟
فضل ربی جان: میرا پورا خاندان اور برادری شروع سے ہی PPP میں تھے تاہم جب میں نے جماعت اسلامی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو پورے چترال کا مختصر دورہ کیا جس میں گرم چشمہ، اوکری، کریم آباد، یارخون، لس پور، خُط ویلی تیریچ ویلی اور مروعی شامل ہیں۔ مروعی سے لے کر دروش تک عوامی حلقوں سے مشاورت کی اور PPP کے صوبائی ضلعی قیادت کے مسلسل رابطوں پر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ PPP ہی واحد سیاسی پارٹی ہے جو چترال کی تینوں Communities کی نمائندگی کررہی ہے اور بروغل سے ارندو تک تمام قومیتوں کی نمائندہ جماعت ہے جس میں سنی، اسماعیلی اور کیلاش برادریاں شامل ہیں۔
میں PPP کی ضلعی قیادت اور صوبائی قیادت کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے عزت بخشی اور میں سلیم خان (صدر PPP چترال) عبدالحکیم (PPP GS) اور امیر اللہ صاحب کی کاوشوں کو سراہتا ہوں۔ انجینئر ہمایوں خان (صوبائی صدر) اور جناب آصف زرداری کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے PPP میں شمولیت پر دلی مبارکباد اور خوش آمدید کہا۔
میں: اب آپ کاآگے کا کیا لائحہ عمل ہے:
فضل ربی جان: میرے لیے سیاست میں MNA یا MPA بننا کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی میں نے اس وجہ سے جماعت کو چھوڑ کر PPP میں شمولیت اختیار کی ہے اور نہ ہی میں اس مزاج کا بندہ ہوں۔ لوگ مجھے ایک کاروباری اور سماجی شخصیت کے طور پر جانتے ہیں کیونکہ میں ایک Social Enterprenur ہوں اور ذاتی کاروبار کے بجائے میرے لیے چترال کے نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور میں اسے آگے بڑھاؤں گا کیونکہ یہی میرا مشن ہے کہ چترال کا ہر نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑا رہے اور میں اس کیلئے کام کرتا رہوں گا۔ ( انٹرویو انجینئر سردار فہد)