Chitral Times

Nov 13, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 چترال کے مختلف میگاپراجیکٹس کے لیے 13 ارب روپے کا پیکچ بجٹ میں شامل کرلیا گیا۔ سابق ایم این اے۔ شہزادہ افتخار الدین

شیئر کریں:

 چترال کے مختلف میگاپراجیکٹس کے لیے 13 ارب روپے کا پیکچ بجٹ میں شامل کرلیا گیا۔ سابق ایم این اے۔ شہزادہ افتخار الدین

 

چترال ( نمایندہ چترال ٹایمز ) سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین نے کہا کہ انکی کوششوں سے چترال کے مختلف میگاپراجیکٹس کے لیے دس آرب سے زیادہ فنڈ موجودہ بجٹ میں رکھے گیے ہیں۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد مذکورہ پراجیکٹس کے لیے فنڈز کی ایلوکیشن کے بارے میں سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین نے چترال ٹایمز ڈاٹ کا م کو ٹیلی فون پر بتایا کہ انکی کوششوں سے چترال کے میگاپراجیکٹس کے لیے خطیررقم مختص کیا گیا ہے ۔شہزادہ افتخار نے بتایا کہ انھوں نے سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے یہ پراجیکٹ منظور کروائے ہیں جلد ہی ان پراجیکٹس کیلئے فنڈ ریلیز کرکے کام تکمیل کو پہنچایا جائے گا ۔یہ  سارے پراجیکٹس جب شہزادہ افتخار الدین ایم این اے تھے تب منظور کروایا تھا بدقسمتی سے حکومت چلی گئی اور گزشتہ حکومت میں ان پراجیکٹس کو ڈراپ کرکے پھر دوبارہ شروع کرنے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ جب وفاق میں دوبارہ پی ایم ایل این کی حکومت آئی تو شہزادہ افتخار الدین نے ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں ۔

شہزادہ افتخار  نے بتایا کہ میاں نواز شریف کو فون کرکے چترال کے تمام میگاپراجیکٹس کے حوالے سے بتایا تو انھوں نے وفاقی وزیر احسن اقبال کو فون کرکےان تمام پراجیکٹس کے لیے فنڈز مختص کرنے کی ہدایت کی ۔ جس پر احسن اقبال نے انھیں اپنے گھر بلا کر یقین دہانی کروایی تھی اور آج بجٹ اجلاس میں ان تمام منصوبوں کے لیے خطیر رقم مختص کردیا گیا ہے۔ شہزادہ افتخارالدین نے مذید بتایا کہ انھوں نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور احسان اقبال کو شندور فیسٹیول کے لیے مدعو کیا ہے تاکہ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ مذید پیکج کا بھی اعلان کیا جاسکے ۔

انھوں نے مذید بتا یاکہ گندم میں حصوصی سبسڈی کے لیے بھی انھوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے بات کی ہے انشاء اللہ اس میں بھی آنے والے دنوں میں اچھی خبر ملنے کی امید ہے  ۔سابق ایم این اے نے مذید بتایا کہ وہ مستوج خاص میں زرعی ترقیاتی بینک کی برانچ اور نادراآفس کھولنے کے لیے بھی کوشش کررہے ہیں اسی طرح اپر چترال میں شاگرام میں نادرا آفس ، بونی میں پیسکو سب ڈویژن ، دروش پیسکو سب ڈویژن اور چترال کو پیسکو ڈویژن بنانے کے لیے ڈاکومنٹیشن پرکام جاری ہے بہت جلد ان کو عملی جامہ پہنایا جایگا۔ انھوں نے مذید بتایا کہ بجلی کی ترسیل کے لیے ڈیڈھ آرب روپے منظور ہوچکے ہیں ۔ جس سے آرندو، عشریت ، ارسون، ودیگر ان علاقوں کو بجلی  مہیا کی جائے گی۔جہاں یہ سہولت نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شہزادہ افتخارالدین نے بتایا کہ  وفاقی وزرا جب چترال آئیں گے تو وہ خود بتائیں گے کہ کس کے کہنے پر بجٹ میں اتنی بڑی رقم مختص کی گئی ہے۔  اگر کسی دوسری سیاسی رہنما نے بجٹ میں اتنی بڑی رقم مختص کروائی ہے تو وہ گزشتہ چار سالو ں میں کیوں نہیں کراسکا۔لہذا ہمیں سیاسی سکورنگ سے خود کو باہر نکال کرعلاقے کے ترقی اور مفاد میں سوچنا ہوگا۔

 

شہزادہ افتخارالدین نے بتایا کہ بجٹ 2023-24 میں منظور کیے ہوے فنڈ ز میں بونی ٹو بوزند روڈ کے لیے اٹھارہ کروڑ پچاس لاکھ روپے، چترال بمبوریت روڈ کے لے ایک ارب پچاس کروڑ روپے ، چترال گرم چشمہ روڈ کے لیے ایک ارب روپے، یونیورسٹی آف چترال کے لیے دس کروڑ روپے، چترال کے مختلف علاقوں میں بجلی فراہمی کے لیے چھیانوے کروڑ چالیس لاکھ روپے، موجودہ 132 KV گرڈ سٹیشن کی اپگریڈ یش کے لیے پندرہ کروڑ دس لاکھ روپے، چترال لوکل بجلی گھر کی اپگریڈ یش کے لیے اکیس کروڑ نوے لاکھ روپے، اور چترال شندور روڈپانچ ارب روپےشامل ہیں۔

شہزادہ افتخارالدین نے چترال کے عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت میں چترال کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا گیا ، ہمارے ایکنک سے منظور شدہ منصوبوں کو سرد خانوں میں ڈالا گیا ، اور عوام کو صرف لالی پاپ سے ٹرخایا گیا ، سابق ایم این اے نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہویے چترال کی ترقی میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی خصوصی دلچسپی کو سراہا ہے۔

chitraltimes ishaq dar addressing budget session met pm shehbaz

 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چترال گرم چشمہ روڈ کے لئے پچھلے چھ سالوں سے ہر سال ایک ارب روپے پی ایس ڈی پی میں مختص کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کام کا آغاز ہی نہیں ہوا ہے، اسی طرح چترال بموریت روڈ کے ساتھ بھی یہی ہورہاہے، دوسری جانب بونی بوزند تورکھو روڈ کے باقی ماندہ فنڈز صرف دو سو پچاسی ملین رہ گئے ہیں مگر پچھلے تین سالوں سے یہ قلیل رقم بھی یکمشت مختص اور ریلیز نہیں کئے جارہے ہیں اس سال اس روڈ کے لئے صرف ایک سو پچاسی ملین روپے رکھے گئے ہیں جسکی وجہ سے یہ منصوبہ اگلے سال بھی مکمل نہیں ہوگا۔جبکہ دوسری جانب لواری اپروچ روڈ کے لئے حیران کن طور پر صرف پانچ سو ملین کے قلیل فنڈز رکھے گئے جو کہ ریلیز اور خرچ ہوتے صرف دو سو ملین رہ جائیں گے ۔جبکہ یونیورسٹی آف چترال کو سولہ سو ملین میں سے صرف سو ملین روپے رکھے گئے ۔ اگر چترال کے منصوبوں کو اس طرح کے فنڈز مختص کئے گئے تو یہ منصوبے اگلے دس سالوں میں بھی مکمل نہیں ہو نگے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged
75496