چترال کی پسماندگی کے اسباب اور ترقی کے وسائل و ذرائع – تحریر: انجینئر فہیم عزیز
چترال کی پسماندگی کے اسباب اور ترقی کے وسائل و ذرائع – تحریر کیپ پریذیڈنٹ انجینئر فہیم عزیز چترال
چترال پاکستان کے شمال میں ہندوکش اور ہندو راج پہاڑوں کے درمیاں واقع ایک خوبصورت وادی ہے ۔اس کے معرب میں افعانستان شمال کی طرف واخان پٹی، تاجکستان اور چین واقع ہیں۔چترال کے مشرق میں گلگت اور سوات کے علاقے ہیں جبکہ جنوب میں دیر اور افعانستان کا علاقہ بریکوٹ واقع ہے۔
چترال بروغل درے کے ذریعے چین اور وخان پٹی سے ہوکر تاجکستان اور افعانستان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ چترال کےمعرب کی طرف کئی درے افعانستان میں کھلتے ہیں اور مشرق کی طرف بھی کئی درے گلگت اور سوات سے ملتے ہیں۔جنوب میں وادئ چترال ارندو کے مقام پر وادئ کنڑ کے ساتھ شامل ہوتا ہے اور لواری ٹاپ اور ٹنل کے ذریعے دیر سے ملا ہوا ہے۔
اگر چترال کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو چترال کئی دور اور حالات سے گزرا ہے۔چترال پر تین خاندان حکومت کر چکے ہیں۔پہلے اس علاقے پر کلاش کی حکمرانی تھی لیکن کوئی باضابطہ اور منظم حکومت قائم نہیں تھی صرف اس علاقے پر کلاش کا دور دورا اور اجارہ داری قائم تھا
کلاش کے بعد چترال پر رئیس نے اپنی حکومت قائم کی تو چترال کو امن اور استحکام ملا۔باہر سے لوگ آ کر چترال میں سکونت اختیار کرنے لگے۔رئیس کے تین سو سالہ حکومت کے بعد چترال کی حکمرانی کٹور خاندان کے قبضے میں آئی۔جو 1526ء سے پاکستان بننے تک جاری رہی۔اس خاندان کے پہلے حکمران محترم شاہ سے امان الملک تک کا زمانہ اقتدار کے لئے جنگ و جدل اور چترال پر بیرونی حملوں کے لئے مشہور رہا ہے۔ اس دور میں شندور پاس شاہ سلیم پاس اور بروغل سے اس علاقے کی طرف امدورفت اور لین دین ہوتی تھی۔ خاص کر درہ بروغل سے تجارتی قافلے وسطی ایشیا کے ممالک کے علاوہ روس اور چین سے چترال اتے تھے۔
ریاستی دور کے حکمران چترال کو ترقی اس لئے نہ دے سکے کیونکہ ریاست کی امدنی بہت کم تھی۔حکومت کی امدنی صرف زرعی پیداوار اور مال میویشیوں پر ٹیکس سے حاصل ہوتی تھی جو صرف ریاستی امور چلانے کےلئے بھی ناکافی تھی۔اس وجہ سے ریاستی حکمرانوں نے چترال کی ترقی میں کردار ادا نہ کرسکے۔
امان الملک مہتر چترال نے اس ریاست کو مضبوط بنانے کی خاطر انگریزوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔امان الملک کے وفات کے بعد آپ کے بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد نے تحت نشینی کےلئے اپس میں لڑ پڑے جس کے نتیجے میں مہتر امان الملک کے دو بیٹے حکمران بنتے ہی اپنوں کے ہاتوں قتل ہوئےچترال میں بد امنی پھیل گئی ۔اس دوران انگریزوں نے چترال میں اقتدار کی منتقلی اور چترال کی شاہی ریاست کو مضبود بنا کر برصغیر کو ممکنہ روسی حملوں سے بچانے کی خاطر جوق در جوق چترال آئے اس کشمکش کی جنگ میں کئی انگریز اور چترالی جان سے گئے۔اخرکار انگریز ہزہائنس شجاع الملک کو تحت نشین کرکے شاہی ریاست کو دوام بخش دیئے۔
انگریزوں کے چترال آمد پر اس علاقے کے مفاد میں کچھ بہتری اور روشنی دیکھنے کو ملی۔ انگریز شاہی ریاست سے مل کر چترال کو دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانے کےلئے دفاع کا شعبہ اپنے ہاتھ لے لیئے۔ چترال کے معرب اور شمال کی طرف سے جو درے تجارت کے لئے استعمال ہو رہے تھے ان دروں کو بند کر دیا گیا۔ انگریزوں نے اٹھارہ سو پچھانوے کو دیر کی طرف سے لواری پاس کے ذریعے چترال کےلئے امد و رفت کا راستہ کھول دیئے اس سے پہلے دیر کی طرف سے چترال کےلئے کوئی راستہ موجود نہ تھا۔ انگریزوں نےچترال میں جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں تعمیر کئے۔ٹیلیفون اور ٹیلی گراف یہاں متعارف کر دیئے اور ساتھ ہی چترال کے راستوں کو بہتر بنائے اور چترال کے باؤنڈریز کا تعین کردیئے۔جس کے نتیجے میں اعلٰی حضرت شجاع الملک مہتر چترال نے اکتالیس سال شاہانہ حکومت کی۔اس کے بعد سر ناصر الملک جو تعلیم یافتہ مہتر اور بانیاں پاکستان میں شامل تھا نے چترال کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔آپ نے چترال میں پہلا سکول کا قیام عمل میں لاکر تعلیم کا سلسلہ اس علاقے میں پہلی بار شروع کیا اور رعایا کو کئی ریاستی پابندیوں سے اذاد کیا۔ہزہائنس سر ناصر الملک کے بعد مضفر الملک تحت نشین ہوا اور اس کے دور میں پاکستان بنا۔مہتر چترال شجاع الملک سر ناصر الملک کی وصیت پر چترال شاہی ریاست کو پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا۔
پاکستان بننے کے بعد سے اب تک چترال کی طرف حکمرانوں کی توجہ بہت کم رہی ہے۔اس وجہ سے چترال ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکا۔لواری ٹنل بننے سے پہلے چترال پاکستان کے دوسرے علاقوں سے سال میں چھ ماہ لواری ٹاپ پر برف باری کی وجہ سے بند رہتا تھا۔لواری ٹنل پر ذوالفقار علی بٹھو نے کام شروع کیا اور اس کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ٹنل کا کام بھی رک گیا۔اس کے بعد پرویز مشرف نے لواری ٹنل بنا کر دیر اور چترال کو ٹنل کے ذریعے ملا دیا۔ٹنل کے ذریعے امد و رفت شروع ہوچکی تھی اور اسکی بلیک ٹاپنگ، فنشنگ وغیرہ کام باقی تھے نواز شریف کی حکومت نے یہ کسر بھی پورا کر دیا۔
لواری ٹنل بننے سے پہلے چترال میں اشیائے خورد و نوش کی قلت ہوتی تھی۔ لواری ٹنل بننے سے یہ مسلہ بھی حل ہوا۔لیکن چترال کی ترقی پھر بھی سست روی کا شکار رہا۔اگر کسی علاقے کو ایک ہی ٹنل یا سوراخ کے ڈریعے امد و رفت ہو یعنی اسی ایک ٹنل سے داخل ہوں اور باہر بھی اسی سے نکلنا پڑے اور اس علاقے کے سارے باہر کھولنے والے درے بند ہوں تو وہ علاقہ کیا خاک ترقی کرے گا بلکہ سلیمان علیہ السلام کے قید خانے کا منظر پیش کرے گا۔
چترال کی پسماندگی میں اور بھی کئی عوامل کار فرما رہے ان میں سیاسی عدم استحکام مخلص قیادت کا فقدان اور اس کا محل وقوع عوامی نمائندوں کی نا اہلی اور عوام کی لاشعوری سر فہرست ہیں۔
چترال اب تک پسماندہ رہنا عقل سے باہر ہے۔کسی نے بھی اس کو ترقی دینے کےلئے کمر بستہ نہ ہوسکے۔اس لئے چترال اب تک پسماندہ ہے
چترال کی ترقی کے ذرائع بھی چترال ہی میں موجود ہیں صرف حکومت کو ان وسائل کا استعمال سمجھ کر کرنا چائے
ہم چترال کو تب ترقی دے سکتے ہیں جب ہم چترال کو تجارت کی عرض سے دوسرے ممالک کے ساتھ دروں کے ذریعے قانونی تجارت کو فروع دیں ۔پھر ہمیں افعانستان کی طرف جانے والے دروں کو تجارت کےلئے کھولنا پڑےگا۔درہ بروغل کے ذریعے وسطی اشیائی ممالک،چین اور روس سے تجارتی معاہدات کے ساتھ بروغل،شاہ سلیم اور ارندو پاس کو تجارت کےلئےکھولنا پڑے گا۔ان دروں تک رسائی کے روڈز کو بہتر بنانے سے تجارت میں ترقی ہوگی۔اور ساتھ ہی پاک چینا اکنامکس کوریڈور کا ایک سڑک جترال سے گزارنے پر بھی اس علاقے کی ترقی میں مدد ملے گی۔
دوسری طرف چترال کے وسائل کو بروئے کار لاکر چترال کی ترقی کےلئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
اللّٰہ نے چترال کو پانی اور معدنیات کے وسائل سے مالامال کیا ہے۔تھوڑا سا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دریائے چترال اور معاون دریا اور ندی نالوں میں کئی ہزار میگاواٹ بجلی گھر بن سکتے ہیں۔دریائے چترال کو کئی جگہ بند باندھ کر دریا کے پانی کو استعمال کرنا ہوگا۔اس سے نہ صرف چترال کو فائدہ ہوگا بلکہ ملک میں توانائی کی کمی کا مسلہ بھی حل ہوگا۔
چترال وادی کے دونوں جانب ہندوکش اور ہندو راج پہاڑی سلسلوں میں قیمتی معدنیات کو نکال کر چترال کی ترقی میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔ان پہاڑوں میں لوہا، سونا، سنگ مرمر، اینٹی منی سیسہ، یورینئیم، ابرق، فاسفورس، چینا مٹی، جپسم تانبا، سمینٹ کے پہاڑ کے علوہ بہت سے قیمتی معدنی وسائل موجود ہیں۔
ان کے علاوہ چترال میں کئی کارخانے بھی بن سکتے ہیں جن کےلئے خام مال چترال ہی میں دستیاب ہیں مثلاً سمینٹ، ماچس، رنگ سازی، چینی برتن سازی، مٹی کے برتن سازی اونی کپڑے سازی، صابن سازی کے کارخانوں کے علاوہ بہت سے اور کاخانے چترال میں بن سکتے ہیں۔اگر اس سلسلے میں حکومت سنجیدہ ہو۔
چترال اپنی ثقافت زبان، رسم و رواج، تہوار اور انداز زندگی میں دنیا کے دوسرے اقوام سے منفرد ہے۔یہاں دنیا کی ایک پرانی تہذیب کلاش کے علاوہ کھوؤ تہذیب بھی دوسرے تہذیبوں سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے
چترال ایک حسین وادی ہے جہاں اونچے پہاڑ گلیشئر جھیل سبزہ زار گرم چشمے، صاف شفاف ندی نالے قدیم روایات، تاریخی عمارات اور قدرت کے حسین منظر کے ساتھ ٹورزم کےلئے بہترین مقام ہے۔ اگر ٹورزم کو گورنمینٹ یہاں پروموٹ کرے تو چترال ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
علاوہ ازین. چترال کے بنجر غیر آباد سلوپ اور ہموار قابل کاشت زمینوں کو پانی مہیا کرنے سے بھی اس علاقے کی امدنی میں اظافہ ہوگا۔ چترال کے پہاڑوں میں موجود جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ساتھ ننگے پہاڑوں پر جنگلات لگانے اور اچھے مال میویشی پالنے سے بھی اس علاقے کی ترقی میں مدد ملے گی۔
قدیم زمانے میں چترال میں انواع و اقسام کے ضروری مصنوعات گھروں میں بنائے جاتے تھے۔مثلاً اونی قالین جرسی گلوبند کوٹ پتلون ٹوپی چغہ جرابیں، شال وغیرہ گھروں میں بنتے تھے۔اس کے ساتھ عورتیں گھروں میں نیٹینگ کے ذریعے کشیدہ کاری گل کاری سے سوربند، زنانہ ٹوپی، ہار، پرس چادر، میز پوش، سرہانے کے غلاف رومال بھی تیار کرتی تھیں اب یہ کام ماند پڑ گئے ہیں ان کو دوبارہ گھریلو صنعت کے طور پر ترقی دینے سے چترال کی امدنی میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری میں کمی ائے گی۔یہاں سے شہروں کی طرف منتقلی بھی رک جائےگا اور علاقے کی معیشت مضبوط ہونے سے چترال کے لوگ بھی خوشحال ہوں گے.