چترال کی ثقافت میں شازیہ کی منگنی اور دوپٹے کا کردار۔ تحریر: احتشام الرحمن
چترال کی ثقافت میں شازیہ کی منگنی اور دوپٹے کا کردار۔ تحریر: احتشام الرحمن
چترال کی ثقافت ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ اس حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی طوفان کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ کوئی اس کی حمایت میں، تو کوئی اس کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ میں اس موضوع پر نہ لکھتا اگر یہ دو واقعات نہ ہوتے۔ پہلا واقعہ ہمارے قابل احترام دوست آصف علی اور شازیہ اسحاق صاحبہ کی منگنی کے رسم کے حوالے سے خبر ہے۔ اس منگنی کو چترالی ثقافت کا نمائندہ عمل کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ دوسری خبر چترال کی ایک بیٹی کا چترالی ثقافت میں دوپٹہ کی اہمیت کی نفی کے حوالے سے تھی۔
آصف اور شازیہ کی منگنی کو ایک خاص علاقے اور قومیت سے جوڑ کر اس طرح پیش کیا گیا گویا کہ چترال کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہوا ہو۔ اس پر مضامین لکھے گئے۔ منگنی کی رسم کو چترالی ثقافت اور روایات کا امین کر کے پیش کیا گیا۔ ایسا لگا کہ اس منگنی سے پہلے جو منگنی کی رسمیں ہوتی آئی ہیں وہ بیکار تھیں اور یہ اپنی نوعیت کی ایک اہم ترین رسم تھی۔ ایک صاحب یہاں تک لکھ گئے کہ اس خاندان کے ساتھ ہمارے کئی سالوں کا تعلق ہے۔ دونوں کے خاندانوں کو چترالی رسم و رواج کا امین بنا کر پیش کیا گیا۔
آصف علی کے ساتھ میرا سات سال پرانا تعلق ہے۔ اگر میں اس کو دقیانوسی روایت کا بت شکن نہ کہوں تو زیادتی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی منگنی کے حوالے سے ان مضامین کو پڑھ کر خود انہیں بھی عجیب لگا ہو گا۔
اب کچھ کام کی باتیں کرتے ہیں۔ کیا منگنی کی رسم واقعی میں چترالی ثقافت کا اہم جز ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ چترال میں ڈش اینٹینا کی آمد سے پہلے اس رسم کا تصور بھی نہیں تھا۔ ہماری روایات اور تھیں۔ میں اس کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ شاہ کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کی خوش امدانہ باتیں کی جا رہی ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا شازیہ کی منگنی کو وہ پذیرائی ملتی اگر وہ تورکھو کے سکول میں ٹیچر ہوتیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو گویا یہ مدح سرائی منگنی کی رسم کی نہیں بلکہ شازیہ صاحبہ کے عہدے کی ہو رہی ہے۔
دوسری خبر چترالی ثقافت میں دوپٹے کی اہمیت کے حوالے سے چترال کی ایک بیٹی کی رائے تھی۔ اس پر ہمارے محترم جناب ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب نے ایک کمنٹ کیا۔ اس پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بات درست تھی یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس پر بات کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن فی الحال اس بیٹی کی رائے کو جانچنے کی ضرورت ہے۔
چترالی کی یہ بیٹی ایک پڑھی لکھی اور خود مختار خاتون ہے۔ انہیں ان کے خاندان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ وہ جو پڑھنا چاہتی ہے, جہاں جانا چاہتی ہے، جیسے جینا چاہتی ہے اور جیسا پہننا چاہتی ہے، اس کے گھر والوں کی طرف سے اسے اجازت ہے۔ میں بھی اس کی اس لبرٹی کا احترام کرتا ہوں۔ شٹل کاک برقعہ پہننے والی ایک لڑکی بھی اتنی ہی قابل، آزاد اور خودمختار ہو سکتی ہے جتنی کہ ایک شٹل کاک برقع پہننے والی آزاد ہوتی ہے۔ میں نے کئی پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کو برقعہ پہنتے دیکھا ہے۔ اگرچہ میں خود شٹل کاک برقعہ کا مخالف ہوں لیکن میری نظر میں اس عورت کی چوائس کا احترام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
ایک پرسنل چوائس ہوتی ہے اور ایک اجتماعی عمل۔ اپنے پرسنل چوائس کو اجتماعی عمل پر حاوی اور مسلط کرنا کسی لحاظ سے بھی اظہار رائے کی آزادی اور لبرلزم نہیں ہے۔ گلوبلایزیشن کے زیر اثر ہمارے یہاں لبرلزم کی ایک عجیب تعریف کی جاتی ہے۔ لبرل اس شخص کو سمجھ لیا جاتا ہے جو مذہب بیزار ہو۔ لیکن مغربی لبرلزم کا مقصد پوری دنیا میں عیسائیت کا پرچار ہے۔ ہمارے یہاں لبرل اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جو اپنی روایات اور ثقافت کو برا بھلا کہے، لیکن مغربی لبرلزم کا نچوڑ ہی یہی ہے کہ پوری دنیا میں مغربی ثقافت اور روایات کا بول بالا ہو۔ یونیورسٹی جانے کے بعد ہمارے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ سیگریٹ پینا، کلبنگ کرنا, مئے نوشی کرنا اور مذہب بیزار ہونا ہی لبرلزم ہے۔ (نوٹ: ایک مذہب بیزاری ہوتی ہے ایک ملا بیزار ہونا ہوتا ہے۔ دونوں فرق ہے) اسی طرح لڑکیوں کا یہ خیال ہے کہ جینز پہنے بغیر اور دوپٹہ اوڑھ کر کوئی لبرل نہیں بن سکتی ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک ذاتی رائے ہوتی ہے اور ایک اجتماعی عمل۔ ذاتی رائے پر اجتماعی رائے کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ ثقافت اسی اجتماعی عمل کا نام ہے۔ مثلا مجھے چترالی ثقافت میں ڈھول اور اشٹوک پسند نہیں۔ کئی لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا ہے۔ لیکن اکثریت اس کو پسند کرتی ہے۔ اس بنیاد پر کہ یہ مجھے پسند نہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چترالی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چترالی ثقافت میں یہ جز مجھے پسند نہیں ہے۔
دوپٹہ کو یکسر نظر انداز کرنا اور اس سے جڑے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے خواتین کو کوئی فائدہ تو حاصل نہ ہوگا، نہ ہی ان کو خود مختاری ملے گی۔ ہاں البتہ بہت سے ماں باپ اور بھائی اس بات کو جواز بنائیں گے کہ یونیورسٹی جا کر بچیاں اپنی روایات اور قدار بھول جاتی ہیں، اس لئے ہائیر ایجوکیشن چترال کی لڑکیوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ دوپٹے کی مخالفت کا ان کا موقف نیک نیتی پر ہو سکتا ہے۔ وہ عورتوں کی خود مختاری کے لئے یہ موقف اپنا رہی ہوں گی لیکن اس سے دور دراز کی ایک بیٹی کو فائدہ پہنچنے کی بجائے اس کی آزادی میں مزید رکاوٹیں کھڑی ہوں گی۔ ایک پڑھی لکھی خاتون جو کہ معاشرتی مسائل سے واقف ہو اس کو اس طرح کی سوئیپنگ اسٹیٹمنٹز دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ ان سے ریفارمز آنے کی بجائے ایک سخت ری ایکشن آتا ہے جو کہ حقوق نسواں کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔