
چترال کو حق دو – تحریر : عطاواللہ جان عسکری
چترال کو حق دو – تحریر : عطاواللہ جان عسکری
گذشتہ سال سردیوں کے موسم میں پشاور اسلام اباد میں چترال کے نوجوانوں نے چترال کو حق دو والی نعرے کی بنیاد پر ایک تحریک شروع کی تھی اور اس تحریک کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں اس وقت بھی جاری ہے ـ جس میں چترال کے اندر سڑکوں کی خستہ حالی کے علاوہ بجلی کی فراہمی کاذکر خاص طور قابل ذکر تھا ـ
ایک طرف اپر چترال کے لوگ اس سوگ سے نہیں نکلے تھے کہ کچھ دن پہلے پرواک کے مقام پر روڈ حادثے کی وجہ سے تین قیمتی جانوں کا ضیاں ہوا تھا اور اج پھر کڑک کے مقام پر ایک حادثہ پیش ایا جس میں دو بچے جان بحق ہوۓ ـ چترال کو گلوبل ورمینگ کے بادلوں کی جانب سے بھی پریشانی ہے جن کا کوئی ایک ٹکڑا کسی علاقے کے اوپر اکر یوں رُکتی ہے جیسے اسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ سے روکا گیا ہو ـ جب برستی ہے تو ایسی کہ پہاڑوں سے پتھروں کا طوفانی سیلاب نیچے اتار لاتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کچڑ اور چھوٹے بڑے پتھر وں کے نیچے دب چکی ہوتی ہے ـ جبکہ ساتھ والی قریبی گاؤں کو اس بارش کا پتہ ہی نہیں چلتا ہے ـ
اللہ ہر افت سے ہمیں محفوظ کرے ـ
دوسری جانب گذشتہ کئی مہینوں سے پشاور ، اسلام اباد اور اب چترال کے مختلف علاقوں میں بجلی اور گندم کے نرخوں میں کئی گننا اضافے کے خلاف اپر چترال کے تحصیل مستوج اور تحصیل موڑ کہو کی جانب سے احتجاجی کیمپ لگائی گئیں ہیں جو جشن شندور سے لیکر اج تک جاری ہے ـ
میں نے چرون کے یو سی کیمپ کے احتجاجی مظاہرین سے الگ الگ سوال کیا تو عنایت اللہ چیرمین وی سی چرون نے تفصیل سے دھرنے کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوۓ کہا کہ اپر چترال میں بجلی کی فراہمی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس قدر پچیدہ اور مشکل بنادیا گیا ہے کہ اب ہمیں لینے کے بدلے دینے پڑ گیے ہیں ـ انہوں نے کہا کہ ریشن ہائڈیل پاور اسٹشین ہماری زرعی اور قدرتی وسیلہ چرس کے متبادل ایک پروجیکٹ ہے ـ جسے جرمن حکومت کی تعاون سے اپر چترال کے پنتس فیصد ابادی پر مشتمل کمیونٹی کے لیے بنایا گیا تھا ـ اس پروجکٹ کو شیڈو کے نام سے ایک ادارہ چلا رہا تھا ـ 2015کے دوران سیلاب سے اس بجلی گھر کو جزوی نقصان پہنچا ـ جس کی وجہ سے عوام کو کافی عرصہ مشکلات میں گزرنا پڑی ـ بعد میں دوبارہ اسے تعمیرو مرمت کرکے چلنے کے قابل بنا دیا گیا اور عوام کو پھر سے سستی بجلی میاثر ہوئی تھی ـ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دسمبر 2023 کو واپڈا کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے ہم اس معاہدے کی پرزور مذمت کرتے ہیں ـ اس خودساختہ معاہدے کو اپرچترال کے غریب عوام اپنے لیے ایک افت سے کم نہیں سمجھتی ہے ـ ایک غریب ادمی ایک بلب کا استعمال کرکے اس کے عوض ہزاروں روپے دینے کے متحمل کبھی نہیں ہو سکتا ـ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو جلد از جلد ختم کیا جاۓ تاکہ عوام کو ان کی اپنی قدرتی وسائل سے تعمیر شدہ پراجکٹ سے سستی بجلی ملنا شروع ہوجاۓ ـبصورت دیگر اس احتجاجی دھرنے میں تیزی اجاۓ گی اور ہم اپنی اس پروجکٹ کو خود سنبھالیں گے اور خود چلائیں گے ـ انہوں نے گندم کی قیمتوں میں حوش ربا اضافے ا ذکر کرتے ہوۓ کہا کہ گذشتہ کئی سالوں سے گلوبل ورمینگ کی وجہ سے چترال بری طرح متاثر ہورہا ہے ـ
چترال کے اندر دو فیصد سے بھی کم زمین ایسی ہیں جہاں لوگ اباد ہیں ـ لیکن ایک طرف چترال کی بڑھتی ہوئی ابادی تو دوسری طرف ہر سال پہاڑوں سے نیچے انے والی پتھروں کی سیلابی ریلہ دیہاتوں کو صفاۓ ہستی سے مٹا رہی ہے ـ جس کی وجہ سے لوگوں کی املاک اور باغات کے علاوہ کھتی مکمل طور پر برباد ہوتےجارہے ہیں ـ گلشیرز تیزی سے پگلتے ہیں جس کی وجہ سے چترال کو نقصان پہنچتا رہتا ہے ـ ایسی حالات میں حکومت چترال کے عوام کو ریلف دینے کے بجاۓ گندم کی قیمتوں کئی گننا اضافہ کرکے عوام کو مزید مشکل میں ڈالنا ایک ظلم سے کم نہیں ـانہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف بجلی اور گندم کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے ـ تو دوسری طرف سڑکوں میں جمع شدہ ملبہ عوام کے لیے اجیرن بنی ہوئی ہے ـ اگر حکومت چترال کے اندر ہونے والی دھرنوں میں موجود شراکاء کی پکار پر کان نہ دھری تو دھرنا مزید احتجاجی مظاہرین کی صورت میں سڑکوں کے اوپر ہو گی اور اپنا جائز حق حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے ـ