چترال کے مسائل اورنامزد امیدواراں – عبادہ انصاری چترال
ادارے کامراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں !
چترال کے مسائل اورنامزد امیدواراں – عبادہ انصاری چترال
سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے،میدان کارزار میں امیدواران کی جانب سے نت نئےحربے آزمائے جا رہے ہیں مجموعی صورتحال یہ ہے کہ سابقہ امیدواران کی جانب سے مختلف عوامی اجتماعات میں اپنی سابقہ کارکردگی اور اگلہ لائحہ سامنے رکھ کر ووٹ مانگنے کے بجائے باہر سے آئے ہوئے مہمان امیدوار برائے قومی اسمبلی سینیٹر طلحہ محمود صاحب کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اھل چترال نے جمعیت علمائے اسلام سمیت تمام سیاسی پارٹیز کووقتا فوقتا موقع دیا ہے لیکن سیاسی بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے باسیان چترال گذشتہ کئی سالوں سے زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔گذشتہ 20سالہ تاریخ کو اگرسامنے رکھا جائے تو کسی بھی سیاسی جماعت سے خاطرخواہ نمائندگی کی امید رکھنا فضول ہے،مولانا چترالی اور ان کی جماعت تو ہمارے کھوار میں نہ توشو سوری نہ رشو سوری ہے جیتنے کی صورت میں اگلے پانچ سال کیلئے فاتحہ پھر ہمارے ہی حصے میں!!!
پاکستان تحریک انصاف کو اگر چہ چترال سے اب تک عوامی نمائندگی نہیں ملی اس کے باوجود ان کی صوبائی و قومی حکومت میں چترال کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ نمائندگی ملنے کی صورت میں وہ چترال کیلئے کیا کچھ کرسکتے ہیں،بالفرض عبداللطیف یا پی ٹی ائی کا کوئی بھی امیدوار اگر چترال سے نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہے تو نتیجہ کیا نکلے گا وہ اظہر من الشمس ہے،پاکستان تحریک انصاف اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جس صورتحال سے دوچار ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بار فاتحہ ہمارے حصے میں آئے نہ آئے لیکن ڈیسک بجانا ہمارے حصے میں ضرور آئے گا،عبداللطیف صاحب اتنے ہوشیار ہے نہیں کہ جیتنے کے بعد چترال کی ترقی کی خاطر حکومت کے ساتھ مل جائے بلکہ وہ تو ایڈوانس میں چترالی قوم کو اگلے پانچ سالوں کیلئے اندھیروں میں رکھنے کی قسم کھا چکے ہیں خود تحریک انصاف چترال کی مخلص قیادت کی آئے روز مختلف لیک آڈیوز اس کا بین ثبوت ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی سابقہ ادوار میں چترال کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے علاوہ کوئی بھی پراجیکٹ سرزمین چترال میں نظر نہیں آتا ،لواری ٹنل پراجیکٹ جو کہ چترالیوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا سلیم خان صاحب اپنے دور اقتدار میں اس کیلئے ایک روپے بھی منظور نہ کرواسکے،مولانا ہدایت الرحمن صاحب کے پاس سب سے بڑا بہانا یہی ہے کہ صوبے میں چونکہ تحریک انصاف کی حکومت تھی لہذا میں کسی بھی قسم کی ملامت سے بری الذمہ ہوں۔
اب آتے ہیں سینیٹر طلحہ محمود صاحب کی طرف!چترال کے چند نامور دانشوروں کو یہ شکایت ہے کہ موصوف کئی قسم کے غلط دھندوں میں ملوث ہیں لہذا ان کو چترال کی نمائندگی کا حق حاصل ہی نہیں ہے توان کی خدمت میں گذارش ہے کہ بڑا اچھا موقع ہے موصوف چترال میں موجود ہے، عدالتیں کھلی ہوئی ہیں،میڈیا آزاد ہے آپ ثبوتوں کے ساتھ قدم بڑھائیں گے ہم تمہارے ساتھ ہیں پوری چترالی قوم آپ کے ساتھ ہیں صرف فیس بک کی دنیا میں آکر کسی کی عزت اچھالنا آپ لوگوں کی شان کے خلاف ہے خدارا اس اجتناب کیجئے،یہ بندہ جیتے نہ جیتے اس کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا لیکن ایک بہت بڑے طبقے کے دل سے آپ کا احترام ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا یہاں میری مراد وہ دانشور ہیں جو تہذیب کے دائرے میں رہ کر الزامات لگاتے ہیں باقی جو فیس بک میں آکر سب کے سامنے بھی ماں بہن کی تمیز نہیں رکھتے ان کیلئے میں دانشور کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا وہ میرے اور چترالی قوم کے نزدیک انسان کہلانےکے بھی لائق نہیں ہیں۔
جہاں تک پیسے تقسیم کرنے اور لوگوں کی مدد کی بات ہے اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اگر غلط ہے تو اس کے لئے آئین و قانون موجود ہے اس کے شرعی اور غیر شرعی ہونے کا فیصلہ اس وقت محض سیاسی بیانیہ ہے ہمیں یہی نظر آرہا ہے کہ ایک مسلمان کی اپنی ذاتی آمدنی کا پیسہ ہے جس سے غریب عوام بلاامتیاز رنگ و نسل مستفید ہو رہا ہے،پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس ملک میں یہ سب کچھ اسی کا نتیجہ ہےآپ سے بھی میری یہی گذارش ہے کہ کسی غریب کو روزی روٹی نہیں دے سکتے تو خدارا خدارااپنے من پسند فتووں سے اسکی راہ میں رکاوٹ بھی مت بنئیں،
سینیٹر صاحب پوری دنیا میں بے سہارہ لوگوں کی مدد کرتے ہٰے وہاں سے تو کوئی لالچ نہیں ہے تو تمہارے چھوٹے سے چترال میں اقتدار کی لالچ کہاں سے آگئی؟؟جہاں تک شہزادہ افتخارالدین صاحب کی بات ہے تو ان کے پاس ایک پلس پوائنٹ ہے وہ یہ کہ اگلی حکومت قرائن کی بنیاد پر ان کی پارٹی کی بنے گی چنانچہ وہ چترال کیلئے بہتر اپشن ثابت ہوسکتے ہیںکم از کم فاتحہ پڑھنا اور ڈیسک بجانا تو ہمارے حصے میں نہیں آئے گا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹر صاحب بھی آنے والی کسی بھی حکومت کے کنفرم اتحادی ہے گویاکہ اس حوالے سے افتخار الدین اور طلحہ صاحب میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن سینیٹر صاحب شہزادہ صاحب سے زیادہ اثررسوخ والے آدمی ہیں وہ چترال کا حق حاصل کرنے میں بنسبت شہزادہ صاحب کے زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں اور دوسرا پلس پوائنٹ جو صرف سینیٹر کے پاس ہے وہ یہ کہ سینیٹر صاحب کا اپنا ایک فاونڈیشن بھی ہے جس کا ایک سالانہ بجٹ ہی چترال کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کیلئے کافی ہے۔
اس تمام تر صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے آزمائے ہوئے چہروں سمیت پی ٹی ائی کے میدواروں کو ووٹ دینا یقینا نا سمجھی اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔۔۔۔۔۔وما علینا الا البلغ
بقلم عبادہ انصاری چترال