Chitral Times

Dec 11, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج: ایک تجزیہ ۔ تحریر: صلاح الدین چترال

Posted on
شیئر کریں:

چترال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج: ایک تجزیہ ۔ تحریر: صلاح الدین چترال

 

پس منظر اور صورتحال:
چترال کے عوام گزشتہ کئی مہینوں سے بجلی کی شدید غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں، اور علاقے کے لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ چترال میں گولین گول پاور اسٹیشن میں پورے چترال کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اتنی بجلی پیدا ہوتی ہے، جو اس علاقے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے، مگر اس کے باوجود چترال میں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ اس شدید صورتحال سے تنگ آ کر چترال کے مختلف سیاسی و سماجی حلقوں نے آپس میں مشاورت کرکے آل پارٹیز میٹنگ بلائی، جس میں ایک احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا گیا۔دھرنا شروع ہو کر تین دن تک جاری رہا جس میں چترال کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

 

لوگوں نے مطالبہ کیا کہ علاقے میں بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے اور موجودہ لوڈ شیڈنگ کا فوری خاتمہ کیا جائے اور بلوں سے غیر متعلقہ ٹیکس اور دوسرے اخراجات ختم کئے جائیں، تین دن کے دھرنے کے دوران کوئی شنوائی نہ ہوئی تو دھرنے کے منتظمین نے اعلان کیا کہ اگلے دن پسکو (پیسکو) کے دفتر پر تالے لگا کر سٹاف کو دفتر سے باہر نکال دیا جائے گا۔ تاہم، شام کے وقت پسکو کے مقامی ایس ڈی او (SDO) نے دھرنا منتظمین سے رابطہ کیا اور اور دھرنے میں آکر بتایا کہ اس نے اعلیٰ حکام سے بات کی ہے اور طے پایا ہے کہ چترال میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ آٹھ گھنٹے سے کم کرکے صرف دو گھنٹے روزانہ کر دیا جائے گا۔ یہ سن کر دھرنے کے شرکاء نے ان کی یقین دہانی کا خیر مقدم کیا اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

 

 

وعدے کی خلاف ورزی اور دھرنے کے بعد کی صورتحال:
دھرنا ختم ہونے کے بعد چترال کے عوام کو امید تھی کہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہو جائے گا، مگر صورتحال پہلے جیسی ہی رہی اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ برقرار رہا۔ پسکو کے حکام کی یقین دہانی کے باوجود، بجلی کی غیر اعلانیہ بندش کا سلسلہ جاری رہا جس نے لوگوں کو سخت مایوسی میں مبتلا ہوکر چومیگویئاں کر کے الزام عائید کر رہےہیں کہ دھرنے کے منتظمین نے پسکو کے حکام کے وعدے کو غیر سنجیدگی سے قبول کرکے اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کی کیوں کہ ان کے پاس کوئی متبادل پلان نہیں تھا۔

 

 

دھرنے کی ناکامی کی وجوہات:

1. مکمل حکمت عملی کا فقدان: دھرنا دینے والوں نے مسئلے کے حل کے لئے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب نہیں دی تھی۔ ان کے پاس مختلف ممکنہ مراحل کے لئے پلان اے، پلان بی، یا کسی متبادل حکمت عملی کی کمی تھی۔

 

2. غیر یقینی اقدامات: پسکو کے حکام کی طرف سے دی گئی یقین دہانی کے بعد دھرنا فوری طور پر ختم کر دیا گیا۔ حکام کی بات پر بغیر کسی ٹھوس یقین دہانی کے اعتماد کرنا، دھرنے کے منتظمین کی جانب سے غیر سنجیدگی کی علامت سمجھی گئی۔

 

3. عوامی اعتماد کی کمی: بار بار بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی کی عدم دستیابی کے باعث عوام میں حکومت اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے۔ عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ بجلی کے بل تو مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر بجلی کی فراہمی میں کوئی بہتری نہیں آ رہی۔

 

مسائل کا تجزیہ: چترال میں 80 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا جاری رہنا ایک سوالیہ نشان ہے۔ ممکنہ طور پر یہ مسئلہ بجلی کی تقسیم اور مینجمنٹ کے نقائص کی وجہ سے ہے۔ عوامی حلقے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ چترال کی بجلی مقامی طور پر ہی فراہم کی جائے، نہ کہ اسے قومی گرڈ میں شامل کیا جائے۔

 

حل اور سفارشات:

1. عوامی سطح پر آگاہی: چترال کی عوام کو چاہیے کہ وہ مسئلے کے حل کے لئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔

 

2. بجلی کی مقامی تقسیم: چترال میں پیدا ہونے والی بجلی کو مقامی سطح پر تقسیم کرنے کے لئے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہییں تاکہ چترال کے عوام کو ان کا حق مل سکے۔

 

3. مسلسل رابطہ اور مانیٹرنگ: مستقبل میں اس قسم کے احتجاج یا دھرنے کے دوران کسی بھی وعدے کو قبول کرتے وقت دھرنا منتظمین کو ان وعدوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے نگرانی جاری رکھنی چاہیے۔

نتیجہ: چترال کے عوام کا مطالبہ جائز اور ضروری ہے۔ چترال جیسے دور دراز اور سرد علاقے میں بجلی کی طویل بندش لوگوں کی روزمرہ زندگی اور معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرے اور چترال کے عوام کے لئے بجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنائے۔

 

4۔چترال نمائیندگان ایم این اے ،ایم پی اے ، سینیٹر، اسپیکر مل کر حکومتی حلقوں آور ذمہ داروں کو عوام کے مسائل و مشکلات ت سے باخبر کرکے ان مسائل کو جلد حل کرنے پر امادہ کریں ۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95234