چترال شندور روڈ پر کام کی معیارمیں بہتری اورنہ ہی کام کی رفتار میں کوئی تیزی لائی گئی ہے۔ سینئرممبران سی ڈی ایم
چترال شندور روڈ پر کام کی معیارمیں بہتری اورنہ ہی کام کی رفتار میں کوئی تیزی لائی گئی ہے۔ سینئرممبران سی ڈی ایم
چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال شندور روڈ پر کام کی معیار اور رفتار کے بارے میں چترالی عوام کی احتجاج صدا بصحرا ثابت ہوئے اور گزشتہ دوسالوں کے دوران این ایچ اے کو نشاندہی کردہ نقائص میں سے ایک فیصد بھی دور نہیں کئے گئے اور نہ ہی کام کی رفتارمیں کوئی تیزی لائی گئی ہے جس کے نتیجے میں اس روڈ پراجیکٹ سے وابستہ امیدیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ چترال ڈیویلپمنٹ مومنٹ (سی ڈی ایم) کے سینئر رہنماؤں شریف حسین، عبدالغفار لال، شیر زمین اور دوسروں نے مستوج تک اس روڈ پراجیکٹ کی پراگریس اور معیار کا جائزہ لینے کے بعد میڈیا کو بتایاکہ کام کی رفتار مایوس کن حدتک سست روی کا شکار ہے جبکہ معیار کے لحاظ سے بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی جبکہ اس پلیٹ فارم سے کئی مرتبہ این ایچ اے کے افسران اور کنسٹرکشن کمپنی عمرجان اینڈ کمپنی کے ذمہ داروں کو عام نظر آنے والی نقائص کی نشاندہی کی گئی تھی۔ انہوں نے اس بات پر شدید مایوسی کا اظہار کیاکہ دو ماہ قبل راغ لشٹ کے مقام پر اسفالٹ بچھانے کا کام شروع کیا گیا تھا لیکن د و ماہ بعد بمشکل ایک کلومیٹر سڑک پر تارکول بچھایاگیا ہے جس کا مطلب ہے کہ چترال سے شندو ر ٹاپ تک 150کلومیٹر کے لئے 300مہینے یعنی 25سال درکار ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ مختلف پہاڑی مقامات پر بریسٹ والز اور ریٹیننگ والز کی حقیقت تو گزشتہ موسم سرما کے دوران کھل گئی ہے جب یہ ریت کی دیوار ثابت ہوگئے۔ انہوں نے کہاکہ این ایچ اے اور کنسلٹنٹ کی طرف سے کام کے معیار کی نگرانی بہت ہی مایوس کن ہے جس کی وجہ سے اسٹرکچر کے کام غیر معیاری ہورہے ہیں۔ سی ڈی ایم کے رہنماؤں نے کہاکہ راغ گاؤں میں گزشتہ ہفتے حال ہی میں تعمیر شدہ کلورٹ کی اصلیت اس وقت ظاہر ہوگئی جب سیلابی ریلا ناقص کلورٹ سے گزرنے کی بجائے اس سے ٹکراکر گاؤں کا رخ کرلیا۔ انہوں نے کہاکہ سینکڑوں مقامات پر معمولی کٹائی سے موڑ ختم کرکے سڑک کو سیدھا رکھ کر حادثات اور فاصلے کو کم کیا جاسکتا تھا لیکن بار بارتوجہ دلانے کے باوجود ان موڑوں کو برقرار رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تین سال قبل این ایچ اے کی طرف سے کنسٹرکشن فارم کو بل کی ادائیگی کرنے کی خاطر چترال شہر سے بونی تک اعلیٰ معیار کے تارکو ل کی سطح کواکھاڑنا اور صرف دوگھنٹوں کی مسافت کو پانچ گھنٹوں تک طول دینا پی ڈی ایم حکومت کا سیاہ ترین کارنامہ ہے جس کا ازالہ کرنے کے لئے تارکول بچھانے کے کام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔
انہو ں نے اس حدشے کا بھی اظہار کیاکہ چترال شہر سے بونی تک درجنوں مقامات پر ندی نالوں پر آر سی سی پل بھی ڈیزائن میں شامل ہیں جن میں سے کسی بھی کام شروع نہیں ہوا اور اس کے بجٹ کو زمین کی کٹائی اور دوسرے منافع بخش آئٹیمز میں خرچ کردیا جائے گا۔ کنسٹرکشن فارم عمرجان اینڈ کمپنی کے پراجیکٹ منیجر عرفان سے ان کا موقف پوچھنے پر بتایاکہ حکومت کی طرف سے فنڈز ریلیز ہونے اور انہیں ادائیگی کے بعد ہی اسفالٹ بچھانے کے کام میں تیزی لائی جائے گی۔انھوں نے بتایا کہ فنڈز کی بروقت دستیابی کی صورت میں اس سال سردیوں سے پہلے چترال شندور روڈ پر پیکج ون سے پیکج تین تک دس دس کلومیٹر ترکول بچھائی جائیگی۔