چترال جوڈیشل کونسل (میزان) کی تاریخی عمارت ۔ ایک قریب المرگ ورثه کا قبر۔ تحریر: ڈاکٹر میر بائیض خان
چترال جوڈیشل کونسل (میزان) کی تاریخی عمارت ۔ ایک قریب المرگ ورثه کا قبر۔ تحریر: ڈاکٹر میر بائیض خان
میرے بچپن کے یادوں میں ایک یاد یه رها هے که جب میں اسٹیٹ هائی اسکول چترال کا طالبعلم تھا، اسکول کے سامنے دو خوبصورت پریڈ گراونڈ تھے جهان هم کھیلا کرتے تھے. پریڈ گراونڈ کے آخر میں شاهی مسجد اور قلعه سامنے نظر آتیے- پریڈ گراونڈ کے دونوں اطراف سرسبز کھیت اور چنار کے درختوں کا ایک قطار اور نیچے بهتا هوا پانی کا ایک دلکش منظر هوا کرتاتھا. اس دلکش فطری ماحول میں شاهی قلعے کے قریب روایتی اسلامی طرز تعمیر کی ایک سفید عمارت هوتی تھی وه میزان کے نام سے پهچانا جاتا تھا. اس وقت مجھے اس کی اهمیت کا علم نہیں تھا. میٹرک پاس کرنے کے بعد آگے پڑ ھنے کی غرض سے چترال سے باهر جانا پڑا اور پھربهت خواهش کے باوجود کبھی اس میزان کے اندر جاکر اس کی اندرونی ساخت اور اس میں رکھے هوئے تاریخی مواد کو چهان بین کرنے کا موقع نهی ملا. اس طرح وقت گزرتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ میزان کی وه جوبصورت عمارت پوری طرح نظر سے اجل گیا جیسا که وه کبھی وهاں تھا هی نہیں.
اس سال چترال میں دو مهینے گزارنے کے دوران مجھے میزان کی عمارت کا پته لگانے کا موقع ملا اور جناب اسسٹنٹ کمیشنر کی اجازت سے کچه تاریخی ریکارڈ کو دیکھنے کا بهی موقع میسرهوا. چونکه میزان کی تاریخی عمارت نظرنهی آرهی تھی تو میرا گمان یه تھا که تاریخی عمارت کو گرا کر اس کی جگه پر نئی عمارتین تعمیر هوئی هونگی- لیکن ایسا نهی تھا، جب میں گیٹ میں پهنچا تو پهلے هی نظر مین مجھے چترالی ورثه کو دفنانی کی جگه محسوس هوئی.
میزان کی عمارت کو آج کل جوڈیشل کونسل کا نام دیا جاتا هے- میری خیالوں میں جو تصور میزان کا تھا وه فوری طور پرمیرے ذهن سے نکل گیا. پھر پته چلا که وه عمارت موجود هے لیکن اس کے ارد گرد میزان کی زمین پر وکلاء کے استعمال کے لیے ایک عمارت بنائی گئی هے اور باقی حصوں میں پولیس اسٹیشن کی عمارت تعمیر هوئی هے جن کی وجه سے میزان کی تاریخی عمارت دور سےبھی دیکھائی نهیں دیتی. میزان کی عمارت کے ارد گرد عمارتین تعمیر کرکے اس تاریخی عمارت کے لیے ایک قبر بنایا گیا هے- میزان یعنی جوڈیشل کونسل کی تاریخی عمارت کهین سے بھی نظر نهیں آتی- اندر داخل هوتے هی مجھے ایسا لگا که گویا مجرموں کے لیے بنائے گئے کسی پرانے زمانے کے تهہ خانے میں داخل هو گیا- اس کمرے میں جو دستاویزات هیں وه اصولاً چترالی ورثه کے خزانے کے طور پر رکھے هوے هونا چاهیے تھا لیکن ایسا نهیں هے-
ان اهم تاریخی ریکارڈ ایسے حالت میں هیں که وه چوهوں کے لیے خوراک بنے هوے هیں- ایک چترالی ریسرچر کی حیثت سے میری زندگی میں مجهے اتنی شرمندگی کبھی محسوس نهی هوئی تھی جتنی میزان کے ریکارڈ کو دیکھ کر هوئی- کئی سالوں سے میں یه سنتا آیا هوں که چترال کی ثقافت ایک بمثل ثقافت هے بالخصوص چترال کے تعلیم یافته طبقه جو بڑی فخر سے تین بین الاقوامی هندوکش کلچرل کانفرنس کرائی جس میں میں خود بڑی جوش و خروش سے حصه لیا- میں یه نهیں جان سکا که هماری اپنی ورثه چوهوں کی نذر هو تی جا رهی تھی اور هم بین الاقوامی کانفرنس کرنے پر فخر محسوس کرتے رهے-
باتیں تو هم بہت دعوے کے ساتھ کرتے هیں لیکن باهر سے آنے والوں کو دیکھانے کی لیے هماری پاس جدید وقت کے لحاظ سے پیش کرنے کے لیے نه بین الاقوامی معیار کے کوئی تاریخی عمارت اور نه کوئی ثقافتی چیزیں موجود هیں- چترال میں آنے والے سیاحوں کو چند پرائیویٹ ریزیڈینسس میں ناچ گانوں کا محفل کا انتظام کرکے انٹرٹین کیا جاتا هے- یه کهنا بجا هوگا که اگر کلاش وادی کے چترالی نه هوتے تو چترال کا نام باهر کے لوگوں کی یاد داشت سے ابتک مفقود هو چکا هوتا-
حیرت اس بات کی هے که چترال کے تعلیم یافته طبقه کو یه خیال نهی آیا که تاریخی ورثه ایک نازک اثاثه هوتی هے جو ایک دفعه ضائع هو جائے پھر اس کا ازاله ممکن نهیں هوتی – ویسی چترالی ورثه کی بات کافی عرصے سے چلتی آرهی هے مگر ساری توجه ایک هی چیز پر مرکوز رها هے اور وه چترال میں بولنے والی زبانیں هیں اس میں بهی سوائے کھوار کے باقی زبانوں پر کوئی خاطر خواه کام نهی هوا هے –
چترالی ورثه میرے نظر میں جوڈیشل کونسل کی تاریخی ریکارڈ کی صورت میں ایک تهخانه میں مدفون هے- اگر اس پر توجه دی جائے تو ابھی بھی ضروری مواد کو بچایا جاسکتا هے- شرط یه هے که چترال کے ایجوکیڈیڈ طبقه اس ورثے کو بچانے پر فوری طور پر سنجیدگی سے غور کرے. تاهم یه یاد دلانے کی ضرورت هے که جو قومیں اپنی ماضی کا سامنا کرنے سے کتراتی هیں اور ماضی کے ورثے سے منه چپاتی هیں چاهے وه پرشکوه رها هو یا پر بلاء تو وه نه ماضی سے کچه سیکھتی هیں اور نه مستقبل کے لیے کچه ورثه چھوڑنیکے قابل هوتی هیں- ان کی زندگی فارسی زبان کے کلاسکی دورکے شاعر عمر خیام کے اس شعر کی مصداق هوتی هے “آمد مگسی پیدا و نا پیدا شد” یعنی ان کی زندگی ایک پشه کی طرح هوتی هے جو نظر آتے هی آنکھ کی ایک جبک میں غیب هو جاتی هے نه کچھ لے کر آتی هے اور نه کچھ چھوڑکر جاتی هے-
خود کے ماضی کے حالات و واقعات، رسوم و روایات، اقدار و اعمال، رهن سهن کے طور و طریقے اور علم و ادب کے ماخذ کی روایات کو محفوظ کرنا اور ان کو تحقیق کی ذریعے تجدید کرنا یا اس سے سبق سیکھنا زنده قوموں کی نشانی هے- ان کیلے اپنے ماضی کو اس طرح سے سامنے کرنا هوتا هے جیساکه وه رها هے- اس کو اپنی خواهشات و تعصبات کے مجمع کے طور پر پیش کرنا نهی هوتا اور حقایق کو چھپانا یا ان کو قصداً مٹ جانے کا انتظار کرنا نهی هوتا- ماضی کو ایک مخصوص دور کے حالات کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت هوتی هے اور اس وقت کی انسانی زندگی کا ایک آئینہ سمجھ کر اس سے سبق سیکھنے کی کوشش کی ضرورت هوتی هے جو چیزین ماضی میں حاصل نه هو پائین یا انسانی اقدار کی اصولوں کے منافی انجام پاچکے هوں ان کو ازاله کرنے کا لائحہ عمل بنانے میں تحقیقی کام کی ضرورت هوتی هے-
تین دن جوڈیشل کونسل کے چند ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد مجهے یه احساس هوا که ان تاریخی دستاویزات میں هماری اجداد کی سماجی، معاشی، ثقافتی، قانونی، اخلاقی اور سیاسی حالات مضمر هیں. موجوده وقت میں ریسرچ یا تو شهوفی یا انگریزوں کے دور میں انگریز افسروں کے شایع کرده کتابوں پر مبنی ریسرچ پراکتفاء کیا گیا هے اور پرائمری مواد کو تقریباً نظرانداز کیا گیا هے- چترالیوں کی حقیقی تاریخی ماخذ جوڈیشل کونسل کی ریکارڈ میں مدفون هیں جن کے مطالعه اور سنجیده ریسرچ کی ذمه داری چترال کے ایجوکٹیڈ طبقه کے کندوں پر هے-
میں اس امید میں رهونگا که چترال کے ایجوکٹیڈ طبقه اپنے ورثه کے تحفظ میں سنجیده هوگا اور اس سے متعلق مواد سے فائده اٹھانے کے ساتھ جوڈیشل کونسل کی تاریخی عمارت کے بحالی پر بھی سنجیدگی سے غور کرینگے۔
اس کام کے لیے اگر مثبت قدم ا ٹھایا گیا تو اس میں کوئی شک نهی که لوکل انتظامیه، ترقیاتی ایجینساں اور کلچر اور تاریخی ورثه سے دلچسپی رکھنے والے چترالی اپنی مالی اعانت سے اس میں ضرور تعاون کریں گے-