چترال بونی مستوج شندور روڈ کی ناقص تعمیر کا نوٹس لیکر قومی خزانے کونقصان سے بچایا جائے۔ سینئرقیادت سی سی ڈی ایم
چترال بونی مستوج شندور روڈ کی ناقص تعمیر کا نوٹس لیکر قومی خزانے کونقصان سے بچایا جائے۔ سینئرقیادت سی سی ڈی ایم
چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال میں سڑک کے منصوبوں سمیت ترقی کے دوسرے سیکٹرز میں ترقیاتی کاموں پرکڑی نگاہ رکھنے والی سول سوسائٹی تنظیم چترال ڈویلپمنٹ مومنٹ (سی ڈی ایم)کی سینئر قیادت نے گزشتہ دنوں زیر تعمیر چترال شندور روڈ کا دورہ کرنے کے بعد متعدد نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی فوری اور ہنگامی بنیادوں پر درستگی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ اہم ترین روڈ پراجیکٹ دی گئی معیار کے مطابق اور بروقت پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔ سی ڈی ایم کے سینئر ممبرز لیاقت علی، عنایت اللہ اسیر اورسید برہان شاہ ایڈوکیٹ نے نقائص کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئرکرتے ہوئے کہاکہ چترال شہر سے لے کر بونی تک واقع پہاڑی مقامات پر سڑک کی توسیع کے لئے سائنسی خطوط پر کٹائی یا بلاسٹنگ کی بجائے اوپن بلاسٹنگ کا طریقہ اپنائی گئی ہے جس سے پہاڑی سلسلے کا بہت بڑا رقبہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف دریائے چترال کی سطح میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے بلکہ پورا پہاڑاس ارتعاش کی وجہ سے چوٹی تک لرزہ لرزہ ہوگئے ہیں اور یہ اگلے پانچ دس سال تک بارش کے دوران سڑک پر گرتے رہیں گے۔سڑک پر آنے والے پہاڑوں کی ٹوٹ پھوٹ پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس روڈ پر روزانہ سفر کرنے والے ہزاروں مسافروں کے سروں پر یہ لٹکتی تلوار سے کم نہیں اور کسی بھی وقت کہیں بھی جان لیوا حادثات کا باعث بن سکتی ہیں۔
انہوں نے بلاسٹنگ اور زمین کی کٹائی کے ملبے کو دریا ئے چترال میں ڈالنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس کے نتیجے میں ڈاون اسٹریم میں واقع دیہات دریا کی طغیانی کے موسم میں عرق آب ہورہے ہیں جس کا ثبوت گزشتہ سال شاہی قلعہ اور شاہی مسجد کے پہلو میں پانچ سو سالہ قدیم چناروں کی دریابردگی اور گنکورینی سنگور کے مقام پر واپڈا کے بجلی گھر کا چار دنوں تک پانی میں ڈوب جانا ہے جبکہ دریائے چترال کے زیرین علاقوں میں دریانے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین بہالے گئی ہے اور یہ ایک دائمی خطرے کی صورت اختیارکرگئی ہے۔
انہوں نے پراجیکٹ کی مزید خامیاں بیان کرتے ہوئے کہاکہ چترال سے بونی تک متعدد غیر ضروری مقامات پر کلورٹ اسٹرکچر بنائے گئے ہیں جن کی قطعی طور پر ضرورت نہ تھی جہاں سے برساتی پانی کی ریلے کا گزر کبھی نہیں ہوگا اور این ایچ اے حکام یہ سب کچھ کنسٹرکشن کمپنی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے بنوائی ہیں۔ سی ڈی ایم کے قائدین نے اس بات پر انتہائی افسوس اور تشویش کا اظہار کیاکہ کام کی کوالٹی اور کوانٹٹی کو موقع پر چیک کرنے کے لئے این ایچ اے کا کوئی عملہ سائٹ پر موجود نہیں ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھاکر بریسٹ وال اور ریٹیننگ وال کی تعمیر بھی نہایت ناقص ہیں اور حالیہ بارشوں کے بعد چترال سے لے کر مستوج تک یہ سب زمین بوس ہو کر این ایچ اے کی خراب کارکردگی کا منہ چڑارہی ہیں لیکن ابھی تک کسی ذمہ دار کو خراش تک نہیں آئی۔ سیمنٹ کے کم مقدار میں استعمال اور پھر پانی کی کیورنگ نہ ہونے سے یہ تمام اسٹرکچرز موئنجوداڑو کے کھنڈرا ت کا منظر پیش کررہی ہیں۔
سی ڈی ایم کے قائدین نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیاکہ اس پراجیکٹ میں چترال سے لے کر شندور تک کئی مقامات پر نالوں کے اوپر آر سی سی پل بھی شامل ہیں لیکن ان میں سے کسی پر بھی کام شروع نہیں ہوا کیونکہ باوثوق ذرائع کے مطابق پلوں سمیت دوسرے اسٹرکچرز کی ریٹ بہت کم ہے اور این ایچ اے کے افسران کنسٹرکشن فارم ان سے یہ کام نہیں لے رہے ہیں بلکہ بجٹ کو زمین کی کٹائی پر ہی خرچ کرتے ہوئے جارہے ہیں جس کا اس نے ذیادہ ریٹ دیا ہوا ہے۔
انہوں نے چترال سے بونی تک تارکول کو بہت ہی قبل آز وقت اکھاڑ کر کنسٹرکشن کمپنی کو اس بہانے بل کی ادائیگی کو چترال دشمنی سے تعبیر کرتے ہوئے کہاکہ یہ کام کوئی دشمن بھی کسی علاقے پر قبضہ جمانے کے بعد نہیں کرتا جو این ایچ اے نے کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تارکول اکھاڑکر سڑک کو کھڈے میں بدلنے سے چترال سے بونی تک صرف ڈیڑھ گھنٹے کا مسافت اب 5گھنٹے لے رہی ہے جس سے مسافر انتہائی پریشانی میں مبتلا ہیں۔