پیغام- ڈاکٹر شاکرہ نندنی
پیغام- ڈاکٹر شاکرہ نندنی
ایک دن، اس نے ایک محبت بھرا پیغام لکھا اور کبوتر کے پروں پر باندھ کر روانہ کر دیا۔ اس کے دل میں ایک امید تھی کہ یہ پیغام تم تک پہنچے گا، مگر پھر خیال آیا کہ شاید یہ پیغام ادھورا ہے، جیسے کچھ رنگ ابھی الفاظ میں بھرنا باقی تھے۔ اسی عجلت اور بے صبری میں اس نے تتلی کو بھی پیغام لے جانے کے لیے بھیج دیا۔ سوچا، تتلی کی خوبصورتی اور اس کے پروں کی نرمی شاید اس پیغام کو تم تک زیادہ مؤثر انداز میں پہنچا دے۔
پھر ایک خیال نے دل کو دوبارہ بے چین کر دیا۔ “کیا یہ محبت کی شدت، یہ سوز، یہ تڑپ، یہ دل کی لگن اس پیغام سے عیاں ہو پائے گی؟” ایک ہلکی سی تشویش تھی کہ شاید اس کی جذباتی گہرائی کو کبوتر یا تتلی مکمل طور پر بیان نہ کر سکیں۔ اس نے بلبل کو بھی سفر پر روانہ کر دیا کہ شاید اس کے نغموں میں اس تڑپ کی جھلک مل جائے، شاید اس کی آواز کے سروں میں دل کی دھڑکن سما جائے۔
مگر دل کو ابھی بھی قرار نہ آیا۔ دل میں ایک اور اضطراب اٹھا، اور اس نے سوچا کہ شاید کوئل کی سریلی اور مدھرت آواز ہی اس پیغام کی شدت کو تم تک پہنچا سکے۔ کوئل کو روانہ کر دینے کے بعد اسے لگا کہ اب شاید سندیسہ مکمل ہو چکا ہے۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور دل میں تسکین محسوس کی۔
اسی اثنا میں ایک ہوا کا جھونکا شرارت سے اس کے قریب آیا اور سرگوشی کرنے لگا، “کہو تو میں تمہارا لمس بھی لے جاؤں؟” اس کی سرگوشی نے دل کو ایک لمحے کے لیے ساکت کر دیا، اور نہ جانے کیوں، اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس کی آنکھوں سے چند آنسو گرے، جنہیں بادل نے جھک کر چپکے سے پی لیا، جیسے وہ اس کے آنسوؤں کا بوجھ بانٹنا چاہتا ہو۔
وہ بادل اب ہوا کے سنگ فضاؤں میں سفر پر ہے، ہر سمت، ہر جانب۔ اب وہ جانتی تھی کہ یہ پیغام، یہ محبت کی مہک، یہ لمس، ہوا اور بادلوں کے ذریعے تم تک پہنچیں گے۔ اب جہاں بھی تم جاؤ، جس سمت بھی دیکھو، وہاں یہ پیغام تمہیں محسوس ہوگا۔