پہلا ووٹ – از: فرحین فضا
پہلا ووٹ – از: فرحین فضا
چھ فروری 2024 کو جب اکیڈمی میں ضمنی انتخابات کی وجہ سے چار دن کے لیے چھٹی ہوئی۔ تو میں خالہ کے گھر گئی جو کہ نیو سٹی ہوم ( بدائی ویلیج )پشاور میں واقع ہے ۔ابھی پہنچی ہی تھی تو امی کا فون ایا اور ساتھ ہدایات مل گئیں “تمھارے ابو کہہ رہے ہیں کہ کل شام آپ کے چچا اور چچی چترال آ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کی بھی سیٹ کنفرم ہے ان کے ساتھ اپ بھی ا جائیں”. کیونکہ آپ کا نام ووٹر لسٹ میں موجود ہے تو آپ ساڑھے سات بجے چترال کے اڈے میں پہنچ جائیں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔۔ کم چھٹی، خراب صحت کے باوجود لمبے سفر کے لیے ٹھان لی۔ فون رکھ کے جب بتایا کہ امی کا فون تھا اور مجھے چترال آنے کا کہہ رہی ہیں ووٹ دینے۔۔ تو میری کزن کو اعتراض ہوا کہ ایک ووٹ کے لیے اتنی خواری۔۔۔ آپ کے ایک ووٹ سے ملک کے حالات کونسے ٹھیک ہوں گے؟ اور آپ کی ایک ووٹ کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ بات کچھ دل کو لگی مگر میں جو خود کو بہت عزیز رکھتی ہوں میری کوئی قیمت نہ ہو کب برداشت کر سکتی ہوں۔ بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنا پہلا ووٹ کاسٹ کرنے چترال آنے کے لیے تیار ہو گئی۔۔۔ مزے کی بات یہ تھی کہ یہ ووٹ کس کو دوں یہ فیصلہ ابھی نہیں کیا تھا۔۔ مگر پھر بھی خراماں خراماں کہ میں بھی اب “رائے دے سکتی ہوں” اگلی شام بس میں سوار ہو گئی۔ لمبا سفر، سرد رات ۔۔۔ جب سردی لگی تو سوچنے لگی “جا تو رہی ہوں لیکن اپنی پہلی رائے کس کے حق میں استعمال کروں ۔۔۔ اور کروں تو کس لیے کروں۔۔ اور کرنے کا کیا فائدہ ہو گا؟ اگر نہ کرتی تو کیا نقصان ہوتا؟ سارے سوالوں کے جواب تو میرے پاس نہیں تھے لیکن یہ سوچ کر ہنسی ضرور آئی کہ ہم بھی عجیب عوام ہیں کہ مخالف “فلانے” کے حمایتی “بستانے” کے اور ووٹر “دھمکانے” کے۔۔۔اور یہ ہے ہماری نصف عوام کی حالت۔ اور اسی عوام میں میرا بھی شمار ہونے جا رہا ہے ۔۔
کیونکہ میرے گھر میں بھی اس ملک کی جمہوریت کی طرح کی جمہوریت رائج ہے۔۔۔ رائے بے شک سب کی اپنی اپنی ہو اور مضبوط بھی ہو لیکن فیصلہ ہمیشہ اوپر ہی سے آتا ہے ۔۔ ملک کی جمہوریت کی طرح خیر پھر بھی نہیں کہہ سکتی کیوں کہ یہاں پر بولنے کی اجازت ہے اور خیر سے بندہ اپنی رائے دینے کے بعد اگلی صبح کا سورج دیکھ سکتا ہے۔۔۔ ورنہ ملک خداداد میں بندہ راتوں رات غائب ہو جاتا یے۔۔
تو بات ہو رہی تھی اپنی اپنی رائے دہی کے بارے میں ۔۔۔تو میرے گھر میں پارٹیاں تین لیکن ٹھپہ سب کا ایک ہی نشان پر ۔۔۔۔ چاہے مخالفت جتنی بھی زور دار ہو فیصلہ صرف ایک کا۔۔۔ اور اس مثالی اتحاد کی وجہ میری والدہ محترمہ ہیں ۔۔ وہ اپنی باتوں اور دلیلوں سے سب کو قائل کرنے کا گر جانتی ہیں کہ ووٹ کس کو دینا ہے؟
پھر میں تو پوچھنے سے ہی رہ جاتی ہوں کیونکہ اُدھر ایک دلیل ادھر میں قائل۔۔۔
مگر اس دفعہ مجھے خود سوچنا تھا کہ میں کس کو دوں؟
اور جب بس میں اور مسافروں نے اس متعلق باتیں کیں تو پتہ چلا کہ اس کشمکش کے سفر میں، میں اکیلی نہیں اور بھی راہی ہیں جنہیں صحیح سمت کا پتہ نہیں ہے سوائے چند کے۔۔۔ کوئی کسی کے خلاف ووٹ ڈالنے جا رہا ہے ۔۔کوئی کسی کے کہنے پر کسی کو جتوانے کے لیے جا رہا ہے تو کوئی اپنا ووٹ کیش کروانے کے لیے اور کوئی مفت کی سواری پر اپنے گھر جا رہا ہے۔ کوئی اپنا تیر صحیح نشانے پر پھینکنے کا ارادہ رکھتا ہے تو کسی کو اپنے نعیم (اپنے شوہر)سے دل لگی کی قیمت ووٹ کے ذریعے چکانا ہے۔۔ ان کی باتیں سن کر اپنا آپ بہت اچھا لگا ۔۔۔ اپنا قد تھوڑا اونچا محسوس ہونے لگا کیونکہ میری سوچ ان سب سے الگ تھی۔۔۔۔ میں اپنے وطن کے لیے ایک مخلص اور غیرتمند لیڈر چننے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔
سارے اُمیدواروں کے متعلق میرے اندر بھی بے شمار سوالات تھے ۔۔۔کہ کیا فلاں ،فلاں میں وہ خصوصیات موجود ہیں جو اس ملک کو موجودہ حالات سے نکال سکتے ہیں۔۔؟ اور آگے جا کر مجھے کوئی پیشمانی نہ ہو کہ میرا ووٹ ضائع ہو گیا ۔۔اور جب بہتر مستقبل دیکھوں تو فخر سے کہہ سکوں کہ میرے ووٹ کا نتیجہ ہے۔۔۔ یہ سوچ کر بسم الله کر کے اپنی سوچ کی رخ اپنے ہی گھر کی طرف کر دی۔۔۔ اب گھر میں تھے تین پارٹیوں کے حمایتی ۔۔۔ دو بھائی مجھ سمیت خان صاحب کے فین، ابو پہلے تو شیر کے شیدائی تھے (شیر تو وہ اب بھی بنے پھرتے ہیں گھر میں امی کا سامنا ہونے تک) لیکن اب نہیں کیونکہ ان کی زوجہ محترمہ میزان والوں میں سے ہیں۔ اور ابو کی ساری کی ساری پھرتیاں امی کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہیں ۔۔ یہ ابو کی امی سے بے انتہا محبت ہے یا امی کی سینہ زوری ،کچھ بھی کہہ لیں مگر ان کی پارٹی ہی گھر میں سب سے مضبوط پارٹی ہے۔۔۔ اور ان کے پاس کئی ثبوت ہیں ۔۔مثلا ان پارٹی ایک سیاسی پارٹی ہی نہیں ایک احیائی تحریک ہے۔ہر مشکل وقت میں پہلا اور آخری ساتھ انہی کی طرف سے مستحقین و متاثرین کے لیے ہوتا ہے۔۔۔ اور ان کا کہنا ہے کہ “مانو نہ مانو حل صرف ۔۔۔۔۔۔امی کے اس دعوے نے خاص کر مجھ پر اتنا اثر چھوڑا ہے کہ اب تو مجھے بھی لگتا ہے کہ میرے ETEA کا حل بھی صرف انہی کے پاس ہے۔۔۔
یہ سوچتے سوچتے جب گھر پہنچی تو گھر میں بھی کچھ اسی قسم کے حالات تھے بھائی ،بہن سب موبائل میں پوڈ کاسٹ سن رہے تھے کوئی سراج الحق صاحب کا ،کوئی سینیٹر مشتاق کا اور کوئی خالد محمود صاحب کو سن رہے تھے۔۔۔اور باری باری تمام پارٹیوں کے۔لیڈرز کو سن رہے تھے ۔۔۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہی ۔۔۔ حل صرف جماعت اسلامی والا قصہ۔۔۔۔ ٹھپہ صرف ترازو پہ لگانا ہے تو خود کو شعوری طور پر تیار کر رہے ہیں۔۔۔ تو میں بھی امی کے پاس ہی پلٹ گئی ڈھیر ساری شکوک وشبہات کو دور کرنے ۔۔۔ پتہ ہے وہ کچھ ذیادہ نہیں دو چار ہی بول دیتی ہیں تو بندی اپنی تمام دعووں اور اصولوں کو بھول جاتی ہے ۔۔خوشی کی بات ہو یا پریشانی کی، بتانے کی حقدار ہمیشہ سے والدہ ہی رہی ہے۔ ہمیشہ سوچتی تھی کہ اپنی پہلی کمائی بھی انہی کے ہاتھ میں دوں گی۔اب سوچا تو ووٹ کا اختیار کیوں نہیں ۔۔۔۔یوں اپنا پہلا ووٹ (قرآنی آیات پڑھ کے دم کرکے اور اس دعا کے ساتھ کہ الہی میری یہ گواہی، میری یہ سفارش قبول کر لے) بھی امی کے لیے ان کے نظریے کو دے کر اپنے دل کو مطمئن کر لیا۔۔۔ کافی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔