Chitral Times

Dec 11, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پمز اور پولی کلینک میں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص نہیں لایا گیا، وفاقی وزرا کا غیر ملکی میڈیا سے گفتگو

شیئر کریں:

پمز اور پولی کلینک میں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص نہیں لایا گیا، وفاقی وزرا کا غیر ملکی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ) وفاقی وزرا عطا اللہ تارڑ اور احسن اقبال نے کہا ہے کہ پمز ہسپتال اور پولی کلینک میں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص نہیں لایا گیا، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے سوشل میڈیا کی افواہ ساز فیکٹری احتجاج کی ناکامی پر ہونے والی شرمندگی سے توجہ ہٹانے کے لیے پروپیگنڈا کررہی ہے۔سرکاری ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز میں غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ و ترقیات احسن اقبال نے کہا ہے کہ پْرتشدد احتجاج عمران خان کی مقدمات کے ٹرائل سے فرار کی کوشش ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ہم سب پر مقدمات بنائے گئے تو امریکی کانگریس مین کے پاس رحم کی بھیک مانگنے نہیں گئے، ہم رحم کی بھیک مانگنے برطانوی ہاؤس آف لارڈ نہیں گئے، ہم اقوام متحدہ نہیں گئے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات لڑے اور کیسز کی جلد تکمیل کو پسند کیا کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ مقدمات مکمل ہوں گے تو حقیقت اور سچ سامنے آئے گا، ہم ٹرائل سے بھاگے نہیں۔احسن اقبال نے مزید کہا کہ عمران خان نے عدالتوں میں مقدمات کا سامناکرنے کے بجائے چیخ و پکار کا راستہ اپنایا ہے،

 

ان کے مقدمات کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، مگر وہ خود کو سیاسی قیدی کے طور پر پیش کرکے دباؤ کے ذریعے شاید این آر او حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان ہم پر این آر او لینے کا الزام لگاتے تھے لیکن اب شاید وہ سیاسی قید کا واویلا کرکے خود این آر او کے متلاشی ہیں تاکہ انہیں معاف کردیا جائے۔احسن اقبال نے بین الاقوامی ناظرین کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہاکہ عمران خان پر کوئی ظلم و ستم نہیں ہورہا، وہ سیاسی قیدی نہیں ہیں، انہیں سنگین الزامات کا سامنا ہے جن کی بنیاد پر مغربی دنیا میں کوئی سیاستدان، کوئی عوامی نمائندہ اور کوئی معروف شخصیت آزادی سے نہیں پھرسکتی۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسے شخص کی رہائی کے لیے احتجاج کیا گیا جس پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں، پْرتشدد احتجاج پی ٹی آئی کا ٹریک ریکارڈ ہے، پی ٹی آئی نے2014میں بھی پارلیمنٹ اور سرکاری ٹی وی پر حملہ کیاتھا۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کارکنوں نے رینجرز اور پولیس کو تشدد کرکے شہید کیا، پی ٹی آئی نے9مئی کو سلامتی کیادارے کی تنصیبات پر حملہ آور ہوئی، پی ٹی آئی نے ایس سی او کانفرنس کو سبوتاڑ کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔

 

احسن اقبال نے کہاکہ کسی بھی جمہوری ملک میں پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جاسکتی، پر تشدد احتجاج کیلئے خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل کو استعمال کیاگیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ پْرتشدد احتجاج بانی پی ٹی آئی کی مقدمات کے ٹرائل سے فرار کی کوشش ہے۔ایک سوال پر احسن اقبال نے کہاکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی افواہ ساز فیکٹری احتجاج کی ناکامی پر ہونے والی شرمندگی سے توجہ ہٹانے کے لیے پروپیگنڈا کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کے رہنما بلند بانگ دعوے کرتے تھے کہ ہم عمران خان کی رہائی تک بیٹھے رہیں گے، عمران خان کی اہلیہ اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جس طرح کارکنوں کو سیکیورٹی فورسز کے رحم و کرم چھوڑ کر بھاگے ہیں، اس شرمندگی سے توجہ ہٹانے کے لیے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، انہوں نے ہمیشہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کارکنوں کو استعمال کیا ہے۔اس موقع پر وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے غیر ملکی صحافیوں کے سوال پر کہاکہ محکمہ صحت نے پولی کلینک اور پمز ہسپتال سے دو بیانات جاری کیے ہیں کہ انہیں کوئی لاش موصول نہیں ہوئی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی لسٹ گردش کررہی ہے جسے محکمہ صحت نے جعلی قرار دیا ہے،

 

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی اِدھر اْدھر لاشیں تلاش ضرور کررہی ہے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی ماضی میں عام افراد کے جنازوں پر اپنے جھنڈے رکھ کر انہیں اپنا دکھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔عطا تارڑ نے غیرملکی صحافی کے سوال پر پھر دو ٹوک انداز میں کہا کہ پولی کلینک اور پمز ہسپتال کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی لاش یا گولی سے زخمی شخص موصول نہیں ہوا۔انہوں نے واضح کیا کہ مظاہرین کے خلاف آتشیں اسلحے کا استعمال نہیں کیا گیا، انہوں نے کہاکہ حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ کسی احتجاج میں تعینات فورسز کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں ہوگا۔عطا تارڑ نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایک ایسی جماعت جو اپنے ہر کام کی وڈیو بناتی ہے، اسے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی کوئی ایک ویڈیو بھی نہیں ملی، حتیٰ کی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ بھی کوئی ویڈیو سامنے نہیں لائی گئی۔

 

ان کا کہنا تھا کہ پرتشدد احتجاج ایسے موقع پرکیاگیا جب بیلاروسی وفد دورہ پاکستان پر تھا، ہم نے سنگجانی میں پر امن احتجاج کی پیشکش کی لیکن پی ٹی آئی کے عزائم پرامن احتجاج کے نہیں تھے۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے شرپسند اپنے ساتھ آنسو گیس شیل اور ہتھیار لائیتھے،گرفتار کیے گئے شرپسندوں میں افغان باشندے شامل تھے، پی ٹی آئی سے سوال یہ ہے کہ افغان باشندوں کو احتجاج میں کیوں شامل کیاگیا؟انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کی اپنے صوبے میں امن و امان پر کوئی توجہ نہیں، دہشت گردی پھیلانے کے پیچھے ایک شرپسند جاعت کے لیڈر کا ہاتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اختلافات کا شکار ہے، عاطف خان، شہرام تراکئی، اسد قیصر، حماد اظہر اور شیخ وقاص اکرم سمیت کئی مرکزی رہنما احتجاج میں شریک نہیں تھے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان میں شدید اختلافات ہیں، کیوں کہ بشریٰ بی بی نے پارٹی پر قبضے کی کوشش کی ہے۔

 

 

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا پی ٹی آئی احتجاج کے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

اسلام آباد(سی ایم لنکس)اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج اور سویلینز پر طاقت کے استعمال کے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔اس سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈا پور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے،

 

مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔بدھ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گندا پور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘۔ صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ریاست علی آزاد کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ڈی چوک پر سویلین پر طاقت کا استعمال انسانی، سیاسی اور معاشرتی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کی شدید مذمت کرتے ہیں، طاقت کے استعمال میں ملوث حکام کے خلاف فی الفور کارروائی کی جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعلامیہ میں سپریم کورٹ سے واقعے کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد مستعفی ہوجائیں۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
96045