Chitral Times

Mar 21, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پرندوں کا ذکر و تسبیح اور چترال میں ان کا شکار- رحمت عزیز خان

شیئر کریں:

پرندوں کا ذکر و تسبیح اور چترال میں ان کا شکار- رحمت عزیز خان
چترال ٹائمز

 

duck flying nandinifile

 

ذکر کے معنی ہیں بار بار یاد کرنا چرچا کرنا۔ اصطلاح میں اس کے معنی خدا تعالی کی بڑائی کا بار بار صدق و دل سے یاد کرنا۔ قرآن مجید کو بھی ذکر کہا گیا ہے۔ اس کی تلاوت بھی ذکر ہے۔ یوں تو کائنات میں موجود ہر شئے اور ذی روح اللہ کے ذکر سے خالی نہیں۔ ذکر عبادت کا بہت اہم حصہ ہے۔ مختلف مذاہب میں ذکر مختلف انداز میں موجود ہے۔ لیکن اسلام ذکر الہی پر بہت زور دیتا ہے۔ ذکر نہ صرف انسان ہی کرتے ہیں بلکہ یہ جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ سب اپنے خالق کو پہچانتے ہیں اور اسی کا ذکر اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں

 

قرآن مجید کا فرمان ہے کہ اے ایمان والو صبح و شام اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔ یہاں مخاطب انسان ہے۔ لیکن اس پر عمل پرندے بھی ایک خاص ترتیب سے کرتے ہیں

 

اسی طرح صبح سویرے اور شام کو پرندے مخصوص اواز اور انداز سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ذکر میں ان کی اواز دن کے وقت کی عام اوازوں سے مختلف ہوتی ہے۔ صبح سویرے کوئی پرندہ سویرے جاگتا ہے اور کوئی بعد میں جاگتا ہے۔ اور ذکر کے بعد رزق کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ان میں کوئل سب سے پہلے چترال کا قومی پرندہ مایوں اس کے بعد ایک اور پرندہ جو عشاء تک اور صبح ہونے سے پہلے اواز نکالتا ہے نام مجھے نہیں اتا ہے اور اس کے بعد دوسرے پرندے یکے بعد دیگرے جاگتے ہیں۔ صبح کے وقت مختصر ذکر کے بعد خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں جو مل جاتے ہیں خوشی سے کھاتے ہیں اور اس پر راضی ہوتے ہیں۔ اگلے دن کےلئے خوراک جمع نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے کہ پرندوں کا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ اللہ رازق ہے۔

 

آج ان کو کھلایا پلایا۔ کل بھی وہی ذات موجود ہے۔ رزق ایک جگہ پڑے رہنے سے نہیں ملتا یہ جستجو سے ملتا ہے۔ پرندوں کے اس عمل سے انسانوں کو بھی سبق لینا چاہئے۔ جو پرندے سویرے اٹھ کر ذکر کے بعد خوراک تلاش کرتے ہیں۔ ان کو ذیادہ رزق ملتا ہے بہ نسبت ان کے جو بعد میں جاگتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں میں صبح سویرے اٹھ کر نماز کے بعد کام پر جانے والا مالدار ہوتا ہے اور دیر تک سونے والا دوسروں پر انحصار کر تا ہے۔

 

شام کو پرندے درخت پر جمع ہوتے ہیں تو ایک ہی زیر و بم میں ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں۔ سارے پرندوں کی اواز ایک ہی قسم کی ہوتی ہے۔کوئی اونچی اور کوئی مدہم اواز نہیں نکالتے ہیں۔ ایک ہی ساز میں ذکر الہی میں مصروف ہوتے ہیں۔رزق کھلانے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور دشمنوں سے تحفظ کی دعا مانگتے ہیں۔

 

میں شام کے وقت پشاور یونیورسٹی کے چکر کے بعد جب اسلامیہ کالج یونیورسٹی پہنچا تو پرندے درختو ں پر ذکر اور بسیرا کرنے کےلئے جمع ہو رہے تھے۔ بعض پرندے ذکر میں مصروف تھے اور بعض باہر سے درختوں پر جمع ہو رہے تھے۔ میں جلدی میں تھا۔ اس لئے پرندوں کے اس ذکر کو ذیادہ دیر تک نہ سن سکا۔ اس سے پہلے وان ہوسٹل کے پاس دو فاختے جو چترال میں پائے جانے والے فاختوں کی طرح تھے۔ راستے میں ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ لوگ وہاں سے گزر رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ نہیں اڑتے تھے۔ جب میں قریب ہو گیا تو مجھے چترالی ٹوپی پہنتا ہوا دیکھ کر فورا اڑ کر درخت پر بیٹھ گئے۔ شاید وہ پچھلے سال چترال آ کر چترالیوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہوں گے۔ پھر چترال جانے کی تیاری میں پشاور یونیورسٹی میں ٹھیرے تھے۔

 

وہ افسوسناک اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے تو میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ مجھ سے یہ کہنا چاہتے تھے۔ کہ ہم معصوم پرندے ہیں۔ پاکستان کے تمام علاقوں میں ہم امن سے رہتے ہیں۔ یہاں گرمی کی وجہ سے نقل مکانی کرکے اپریل کے شروع میں چترال میں جب ہم نسل کشی کےلئے پہنچتے ہیں تو وہاں کے مجاہدین مختلف بندوقوں کے ذریعے ہم پر حملہ کرکے ہمیں صفا کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ان کے مذہب اسلام پر حملہ کر چکے ہیں۔فاختوں کی اس شکایت پر مجھے اپنی قوم چترالیوں کی اس درندانہ معصوم پرندے فاختوں کی نسل کشی والا شکار پر شرمندگی بھی ہوئی اور افسوس بھی کیا۔

 

جو بھی علاقہ انسانی اور پرندوں کے ذکر الہی سے خالی ہو۔ وہاں عذاب انا لازمی امر اور قہر خدا وندی ہے جو سیلاب یا کسی اور شکل میں رونما ہوتا ہے۔ چترال پرندوں سے خالی ہوتا جاتا ہے۔ انسانوں میں بھی ذکر کی کمی آ گئی ہے۔ اس ذکر الہی کی کمی کی وجہ سے ائے سال چترال مختلف تکالیف اور مصیبتوں سے دوچار ہے۔ میں وسوق سے کہتا ہوں کہ چترال میں پرندوں کی جان محفوظ ہو لوگون کی زبان پر ذکر الہی ہو تو نہ سیلاب ائے گا اور نہ ہی غربت آئے گی۔ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ جو لوگ پرندوں کے شکار میں رزق تلاش کرتے ہیں۔ ان کا رزق محدود ہوتا ہے۔

 

جب شکار پر پابندی کا کہا جاتا ہے تو شکاری کہتے ہیں کہ اللہ نے شکار کو جائز اور حلال قرار دیا ہے۔ میں بھی مانتا ہوں کہ یہ جائز اور حلال ہے۔ اللہ نے کہاں فرمایا ہے کہ جانوروں کی نسل کشی جائز ہے کہ زمین سے ان کی نسل ختم کر دیا جائے۔ چھوٹے پرندوں سے لے کر بڑوں تک کسی کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ بندوقوں کے ذریعے ان کا شکار کھلا جائے۔ ایک ہی وار میں ان کا صفایا کر دیا جائے۔ قرآن و حدیث اور کسی بھی کتاب میں یہ نہیں لکھا گیا ہے۔ کہ موجودہ قسم کا شکار جائز ہے۔ کیا قرآن مجید میں تم زمین والوں پر رحم کرو اسمان والا تم پر رحم کرے گا نہیں فرمایا گیا ہے۔ رحمان، رحیم اور رحمت کے معنی کیا ہیں اور یہ الفاظ کس لئے ہیں۔ کیا یہ قرآن میں نہیں فرمایا گیا ہے کہ میرے ذی روح( جانور) میرے کنبے کے افراد ہیں۔

 

شکارجائز اس لئے اسلام میں ہے۔ کہ پہلے زمانے میں جانواروں کی کثرت سے تھی۔ اور خوراک کا ذریعہ محدود تھے۔ لوگ پتھروں سے جانوروں کا شکار کرتے تھے. جدید قسم کے بندوق نہیں تھے۔ انسان اشرف المحلوق ہے۔ اسلام انسان کو بھوک سے بچانے کےلئے شکار کو جائز قرار دیتا ہے۔نسل کشی اور موجودہ جدید بندوقوں سے جانوروں کا قتل عام بالکل نا جائز ہے۔ اگر کوئی اس قسم کے شکار کو جائز قرار دیتا ہے تو مجھے قرآن و سنت سے قائل کرے ورنہ شوق کےلئے جانواروں کا قتل عام چترال میں بند کیا جائے۔

 

اب خوراک کے حصول کےلئے بہت سےذرائع موجود ہیں۔ بازار میں مرغی بڑا چھوٹا ہر قسم کا گوشت دستیاب ہے۔ صبح سے شام تک اللہ کے مخلوق کے پیچے پڑ کر تنگ کرنے سے، مچن بنا کر پاکستان کے قومی پرندے کو دانہ ڈال کر بیٹھنے سے، پہاڑوں پر چڑھ کر تیتر کےپیچے پورا دن لگا کر تکلیف اٹھانے اور دریا کے کناروں میں مصنوعی تالاب بنا کر تالاب میں مصنوعی بطخ ڈال کر اور الات کے ذریعے ان کی اوازیں نکال کر دھوکہ سے شکار کھیلنے سے بہتر ہے کہ کسی حلال طریقے سے پیسہ کما کر بازار سے گوشت خرید کر اپنے گھر والوں کو کھلایا جائے۔ چترال میں پرندوں کی زینت اور سریلی اوازوں میں چہچانا بھی باقی رہے گا۔ اگر پھر بھی شکار کرنا ہے تو اسلامی طریقے سے کبھی کبھار شکار کریں جو پرندوں کی نسل کشی کا سیزین نہ ہو۔
مجھے امید ہے کہ چترال کے میرے بھائی اب بات سمجھ گئے ہوں گے۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99656