
ٹیلی فون آپریٹر اور پی آروز کا کام . میری بات/روہیل اکبر
ٹیلی فون آپریٹر اور پی آروز کا کام . میری بات/روہیل اکبر
ہمارے سرکاری اداروں میں نوکری ملنے کے بعد عام اور سادہ سے انسان کا بھی دماغ ساتویں آسمان تک جا پہنچتا ہے اسکی وجہ شائدیہ ہو کہ اسے عام روٹین سے ہٹ کر عزت ملنا شروع ہو جاتی ہے ایک تو تنخواہ کا اثر ہوتا ہے جو اسے گھر والوں میں بھی نمایاں بنا دیتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے اسے عام لوگوں جھک کر ملنا شروع ہو جاتے ہیں بلخصوص جہاں پر زیادہ پبلک ڈیلینگ ہوتی ہے وہاں کے نوکروں میں نخرہ بھی زیادہ ہی آجاتا ہے جبکہ کچھ نوکریوں کا تقاضاہی کچھ اور ہوتا ہے جہاں غصے کو کنٹرول کرکے پیار بھرے لہجے اختیار کرنا پڑتے ہیں شکل جیسی بھی ہو لیکن اس پر مسکراہٹ سجائے رکھنی ہوتی ہے لہجہ جتنا مرضی کرخت ہو لیکن اس نوکری میں اپنی آواز میں شہد بھرنا پڑتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم ایسی نوکری پر بغیر سوچے سمجھے ایسے لوگوں کو رکھ لیتے ہیں جن کی تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں اپنے ادارے کی عزت کا خیال ہوتا ہے اسی لیے تو آج عوام کی نظروں میں کسی بھی ادارے کی عزت نہیں کیونکہ عزت کروانے والے خود کسی کی عزت کا خیال نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے ویسے تو ادارے کا افسر یا سربراہ ہی ان تمام خرابیوں کا ذمہ دار ہے لیکن اسکے باوجود دو افراد کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اخلاق،کردار اور اپنے کام سے نہ صرف اپنے ادارے کا خراب تااثر ختم کرنا ہوتا ہے بلکہ ادارے کی ساکھ بھی بحال رکھنی ہوتی ہے ان دو لوگوں میں ایک محکمہ کا پبلک ریلیشنز آفسیر ہوتا ہے اور دوسرا ٹیلی فون آپریٹر اگر ان د ونوں میں سے ایک بھی زبان دراز،کم عقل اور بیوقوف ہو تو اسکا اثر محکمہ کے سربراہ تک جاتا ہے اور اگرکسی ادارے میں یہ دونوں افراد ہی بددماغ اور بدزبان ہو تو پھر اس محکمے کا حال اللہ ہی حافظ اسکے ساتھ ساتھ صوبہ میں پبلک ریلیشنز کا ایک الگ سے ادارہ بھی ہے جسکا کام حکومت کی اچھی پالیسیوں کو عوام تک پہنچانا ہوتا ہے
اس محکمہ کا نام ہی ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز ہے ایک دور ہوتا تھا جب اس محکمہ کا بڑا چرچا تھا ہر ادارے کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے لیے ڈی جی پی آر سے پی آر او لیے جائیں تاکہ انکی اچھی پالیسیاں میڈیا کے زریعے عوام تک پہنچ پائیں اور یہ پی آر اوز بہترین اخلاق کے مالک ہوتے تھے مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ صرف اشتہارات تک محدود ہوگا اور یہاں بھی افسر تعینات ہوگئے اور اس محکمہ کا بیڑہ ہی غرق کردیا اس وقت جو اس ادارے کے سربراہ ہیں پورے محکمہ سے الگ تھلگ کوئی انہیں پوچھتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو پوچھتے ہیں اور نہ ہی کوئی انکے دفتر جاکر گپ شپ لگانا پسند کرتا ہے اور تو اور اس محکمہ کے پی آر اوز(افسران)پورے پنجاب میں پھیلے ہوئے ہیں جنہوں نے آج تک اپنے سربراہ کو ٹیلی فون کرکے کوئی بات پوچھی اور نہ ہی بتائی سب ایک دوسرے سے دوریوں پر ہیں جسکی وجہ سے یہ محکمہ بھی اپنے اصل کام سے ہٹ گیا
عظمی بخاری اس محکمہ کی وزیر ہیں جو میڈیا کے حوالہ سے بہت ہی باخبر اور رابطے میں رہنے والی خاتون ہیں لیکن انہوں نے اپنے تعلقات کو نبھاتے محکمہ تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کردی ہیں اب اس محکمہ میں ہر ملازم نے اپنی الگ سے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے بات لمبی ہوجائیگی میں نے ایک ادارے اور دو شعبوں میں کام کرنے والے افراد کا ذکر کیا ہے انکے کام کی نوعیت کا احاطہ کرتے ہیں پھر اندازہ ہوگا کہ ان تینوں کے ذمہ کتنا اہم کام ہے لیکن ان ہی کی غیر ذمہ داری سے ادارے کتنا بدنام ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک تلخ تجربے کے بعد لکھنے پر مجبور ہوا ہوں تاکہ ہمارے ارباب اختیار سوچیں کہ آستین کے سانپ تو انہوں نے خود پال رکھے ہیں اور پھر الزام کسی اور پر دھر دیا جاتا ہے سب سے پہلے ٹیلی فون آپریٹر کی بات کرلیتے ہیں گذشتہ روز کوٹ لکھپت جیل لاہور کے ٹیلی فون پر کیمپ جیل کا نمبر لینے کے لیے فون کیا تو آپریٹر نے نمبر بتانے سے پہلے میرا پورا شجرا نسب جاننا ضروری سمجھا اور رویہ آپریٹر کی بجائے کسی گھٹیا پولیس والے کی طرح ہی تھا جس سے اللہ اللہ کرکے جان چھڑوائی جبکہ آئی جی میاں فاروق نذیر کے آپریٹر کا رویہ اور کیمپ جیل کے آپریٹر کا رویہ انتہائی پیارا اور خوشگوار ہے
شائد میاں صاحب اور وڑائچ صاحب کا رویہ خود بہت پیارا ہے اسی لیے انکا رنگ انکے سٹاف میں بھی جھلکتا ہے ٹیلی فو ن آپریٹر کامحکمہ میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے اوراسکی بنیادی ذمہ داریوں میں کمیونیکیشن کی سہولت،کال کی منتقلی،معلومات کی فراہمی،مسائل کا حل،پیشہ ورانہ رویہ،ریکارڈنگ اور رپورٹنگ سمیت پیار بھرے رویے سے خدمات شامل ہیں جنکا تمام محکموں میں شدید فقدان پایا جاتا ہے اسی طرح اداروں میں پی آر اوز (پبلک ریلیشنز آفیسرز) کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جیسے کہ میڈیا کے ذریعے مثبت معلومات کی ترسیل مختلف ایونٹس، سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کروانا اور اپنے محکمہ کی پالیسیوں کو بہتر انداز میں عوام تک پہنچانا جب ادارے کے خلاف منفی معلومات یا بحران پیدا ہو تو پی آر اوز اس کی درست وضاحت اور تصویر کو بہتر انداز میں پیش کرتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ تحقیق و تجزیہ کی بنا پر عوام کی رائے اور میڈیا میں آنے والی خبروں نگرانی کرتے ہیں تاکہ ادارے کی کارکردگی جائزہ اور ضروری تبدیلیاں کی جا سکیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت پورے پنجاب میں چند ایک پی آروز کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتا بلکہ چند ایک محکموں کے پی آروز ایسے بھی ہیں جو اپنے ہی سربراہان کے خلاف میڈیا میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں
ان میں ساہیوال ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے پی آر ویاسین صاحب ہیں شائد وہ کسی تھانہ میں جانا چاہتے ہیں اسی لیے وہ اس نازک سیٹ پر بیٹھ کر انتہائی بدتمیزی والا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ ساہیوال کے ڈائریکٹر انفارمیشن ویسے بھی کسی کا فون سننا گوارا نہیں کرتے رہی بات ڈی جی پی آر کی یہ وہ محکمہ ہے جو کسی دور میں پنجاب کے36محکموں میں سب سے زیادہ طاقتور ہوا کرتا تھا کیونکہ میڈیا کی طاقت اسکے ساتھ تھی لیکن یہ محکمہ بھی اپنے اصل کام سے ہٹ گیا اور آج یہ محکمہ لاوارثوں کی مانند سسکیاں لے رہا ہے اگر اشتہارات کا اختیار ان سے لیکر اداروں کو ہی دیدیا جائے تو یہاں سے سسکیوں کی آوازیں بارڈر پار تک سنی جائیں گی اس محکمہ کے کردار کے بارے میں بات کریں تو یہ ادارہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسان کیلیے آکسیجن اسی ادارے کے پی آروز حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے تھے جو اب ختم ہوگیااس ادارے کے ذمہ کبھی یہ کامہوا کرتے تھے معلومات کی ترسیل،میڈیا کے ساتھ بہترین اور مثبت تعلقات تاکہ حکومت کی خبریں اور معلومات بہتر انداز میں پیش کی جا سکیں۔ مہمات کی منصوبہ بندی،تنقید کا ہر لحاظ سے مثبت جواب،سٹریٹجک کمیونیکیشن،رائے عامہ کا جائزہ(مارکیٹ ریسرچ اور رائے عامہ کے جائزے کے ذریعے عوام کی سوچ اور احساسات کو سمجھتے ہیں) عالمی رابطے (بین الاقوامی سطح پر بھی تعلقات کو فروغ دینے اور دیگر اداروں کے ساتھ رابطے میں رہنے کا عمل) یہ وہ ان درجنوں کاموں میں سے چند ایک ہیں جن پر بھی عمل نہیں ہوتا اسی لیے تو ہر ادارے نے ڈی جی پی آر کی بجائے اپنے اپنے پی آروز رکھے ہوئے ہیں جو اپنے ہی ادارے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں
اس وقت مریم نواز شریف صاحبہ بہت اچھا کام کررہی ہیں اور واقعی غریب لوگوں کے دکھ درد دور کرنے میں مصروف ہے خاص کر دھی رانی پروگرام تو بہت ہی اعلی ہے لیکن عوام تک انکا درست پیغام نہیں پہنچ رہا اس لیے اگر حکومت نے عوام میں اپنا کردار اور مقام بنانا ہے تو محکمہ ڈی جی پی آر کی سمت درست کردی جائے۔