Chitral Times

Mar 21, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ویلنٹائن ڈے و شبِ برأت کا اجتماع اور چھانٹی کی رات ( نیویریکو چھوئی) کی حقیقت – ابو سفیان ظاہر الدین چترالی

Posted on
شیئر کریں:

ویلنٹائن ڈے و شبِ برأت کا اجتماع اور چھانٹی کی رات ( نیویریکو چھوئی) کی حقیقت – ابو سفیان ظاہر الدین چترالی

 

اکثر احباب کو معلوم ہوگا ک 14 فروری کا دن ویلنٹائن ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے ہر سال بڑے اہتمام کے ساتھ یہ دن منایا جاتا ہے اور تاریخی حوالے سے اس کے پسِ منظر کے بارے میں مختلف آراء پائیں جاتیں ہیں کہ اسے ویلنٹائن ڈے کیوں کہا جاتا ہے ، اور کس یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے ؟؟؟
ویلنٹائن ڈے کے پسِ منظر کے متعلق تقریباً تین سال پہلے ایک اخبار سے مواد لیکر پوسٹ لکھی تھی جس میں کافی وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پسِ منظر کیا ہے ؟

اسی طرح آج رات چونکہ پندرہویں شعبان کی رات بھی ہے جسے شب برات کہا جاتا ہے اور کل نصف شعبان ہے اور ویلنٹائن ڈے بھی ۔ کل کچھ خوش قسمت احباب تو روزے رکھیں گے عبادت میں مصروف ہوں گے جبکہ ایک طبقہ مسلمان ہونے کے باوجود ویلنٹائن ڈے کی خوشیوں میں مگن رہیں گے ۔ بہرحال اتفاق سے ان دو مختلف تہواروں کا ایک ہی دن میں مجتمع ہونا ایک مسلمان کے لئے کسی آزمائش سے کم نہیں ۔

 

باقی رہی بات شب برات کی تو اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف علماء کرام کے بیانات اور تحریرات گردش کر رہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ شب برات بے اصل ہے کوئی کہتا ہے کہ اس رات کی فضیلت ثابت ہے وغیرہ وغیرہ البتہ میں تطویل لا طائل سے بچتے ہوئے اتنا عرض کروں کہ اس شب برات کے حوالے سے چند احادیث مروی ہیں جن کو ذکر کرنے کے بعد دار الافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتیان کرام لکھتے ہیں کہ

 

” ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:

 

۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔

 

۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔

 

۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

 

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے “””

 

لہٰذا ان تین نکات پر محدود رہتے ہوئے اگر کوئی آج رات کو نفل نماز ، ذکر و اذکار میں مشغول رہے اور کل کے دن روزہ رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔

 

البتہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ عوام الناس میں مشہور و معروف ہے کہ شب برات یعنی پندرہویں شعبان کی رات کو پورے سال کے لیے انسانوں کے موت و زندگی اور رزق وغیرہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس رات سے لیکر اگلے سال کی اسی رات تک کتنے بچے پیدا ہونگے، کتنے لوگ مریں گے اور کس کو کتنا رزق دیا جائے گا ؟؟وغیرہ ۔

 

قارئین_کرام یاد رکھنا !

کہ اس رات میں ان امور کی تقسیم کے حوالے سے اگر چہ ایک حدیث خبرِ واحد کے درجے میں مروی ہے لیکن تحقیق اور جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ اس رات میں ایسے فیصلے نہیں کیے جاتے بلکہ قرآن مجید کی نصوص سے ثابت ہے کہ وہ رات حقیقت میں شب قدر ہے جس میں موت و حیات اور رزق وغیرہ کے فیصلے کیے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں سورۃ الدخان کی ابتدائی آیات مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے ۔
حٰمٓ ۔ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۔ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ۔ فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ۔ اَمۡرًا
مِّنۡ عِنۡدِنَا اِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ ۔

 

ترجمہ: حم ۔ قسم ہے اس واضح کتاب کی ۔ یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں ۔ اسی رات میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر حکیمانہ کام کا ( موت ،حیات رزق وغیرہ کی تقسیم ) یعنی ہماری طرف سے حکم دیا جاتا ہے ، بے شک ہم ہی بھیجنے والے ہیں ۔

 

ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید جس مبارک رات میں نازل ہوا ہے اسی مبارک رات میں رزق , زندگی اور موت وغیرہ کا فیصلہ بھی ہوتا ہے ۔ اب وہ مبارک رات جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا ہے کس مہینے میں پائی جاتی ہے اور اس رات کا نام کیا ہے ؟؟
تو قرآن مجید اس مہینے کے متعلق سورہ البقرہ میں واضح طور پر بتا دیا کہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ رمضان المبارک ہے جیسا کہ فرمایا شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے ۔
اور وہ رات کونسی ہے ، اس رات کا نام کیا ہے ؟؟ تو قرآن کریم نے مزید وضاحت کے ساتھ اس رات کا نام بھی بتا دیا کہ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ
ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہیں ۔
یعنی اس رات کا نام شبِ قدر ہے ۔

 

#قارئین_کرام

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جس رات میں قرآن کا نزول ہوا اسی رات میں انسان کی ایک سالہ تقدیر کا فیصلہ بھی ہوتا ہے اور وہ رات لیلۃ القدر ہے نہ کہ شب برات۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے مہینے میں پائی جاتی ہے اور قرآن کا نزول بھی اسی مبارک مہینے کی مبارک رات میں ہوا ہے ۔
لہٰذا ہمیں شب برات میں موت و حیات اور رزق کی تقسیم والا نظریہ بدلنا چاہیے جسے چترالی زبان میں “” نیویریکو چھوئی یا پورونیکو چھوئی “” کہا جاتا ہے

یعنی چھانٹی کی رات ۔
آپ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید کے واضح نصوص کے مطابق چھانٹی کی رات یعنی نیویریکو چھوئی یا پورونیکو چھوئی رمضان المبارک کی شب قدر کو ہے ۔ قرآن مجید کے واضح نصوص کے ہوتے ہوئے خبرِ واحد کا سہارا لیکر ہمیں شب برات کو چھانٹی کی رات والا نظریہ اپنانے سے گریزاں رہنا چاہیے ۔

واللّٰه اعلم باالصواب ۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99084