وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے”ڈرگ فری پشاور” پروگرام کے تیسرے مرحلے کااجراءکردیا
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے”ڈرگ فری پشاور” پروگرام کے تیسرے مرحلے کااجراءکردیا
پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ )وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے”ڈرگ فری پشاور” پروگرام کے تیسرے مرحلے کااجراءکردیا ہے ۔ پروگرام کے اس مرحلے میں نشے کے عادی دوہزار افراد کی بحالی عمل میں لائی جائے گی جس کےلئے صوبائی حکومت نے 32 کروڑ روپے کی خطیر رقم جاری کر دی ہے ۔ پروگرام کے تحت منشیات کے عادی افراد کو تحویل میں لے کر بحالی مراکز منتقل کیا جائے گاجہاں انہیں علاج اور بحالی کی معیاری سہولیات مہیا کی جائےں گی۔اس کے ساتھ ساتھ صوبائی دارالحکومت پشاور کو منشیات سے پاک کرنے کےلئے تعلیمی اداروں میں ایک جامع آگاہی مہم کا اجراءبھی کیا گیا ہے جس کا مقصد نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی تباہ کاریوں کے خلاف شعور کو اُجاگر کرنا ہے ۔ منشیات کے خلاف آگاہی مہم کے تحت بدھ کے روز جامعہ پشاور میں ایک سیمینار اور آگہی واک کا انعقاد کیا گیا جس کی قیادت وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈ اپورنے کی ۔ صوبائی کابینہ اراکین سید قاسم علی شاہ اور مزمل اسلم کے علاوہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ، سرکاری حکام ، صوبے کی جامعات کے سربراہان، فیکلٹی ممبران ، علماءاور طلبہ کی کثیر تعداد نے سیمینار میں شرکت کی۔
وزیراعلیٰ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منشیات کے خلاف صوبائی حکومت کی زیرو ٹالرنس پالیسی ہے ، متعلقہ محکموں اور اداروں کو منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی واضح ہدایات جاری کی جاچکی ہےں، متعلقہ محکمے بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالیں اور انہیں عبرت کا نشان بنائیں ، چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ منشیات فروشی ایک ایسا گھناو ¿نا جرم ہے جس کی جتنی بھی سزا دی جائے کم ہے۔ ڈرگ فری پشاور پروگرام کا مقصد صوبائی دارالحکومت پشاور کو منشیات سے پاک کرنا اور نشے کے عادی افراد کا علاج کرکے انہیں دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف واپس لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام کی مو ¿ثر مانیٹرنگ اور اس کو نتیجہ خیز بنانے کےلئے ڈپٹی کمشنر آفس اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں کنٹرول روم قائم کئے گئے ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پروگرام کے پہلے دو مرحلوں میں 2400 منشیات کے عادی افراد کا علاج کیا گیا ہے جن میں پنجاب ، سندھ، بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان اور پڑوسی ملک افغانستان کے باشندے بھی شامل ہےں۔ آگے بھی یہ پروگرام ایساہی چلے گا اور بلاتفریق سب کا علاج کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے صوبے کے دیگر ڈویژنل کمشنرز کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ بھی اپنے اپنے ڈویژنز میں منشیات کے عادی افراد کا ڈیٹا مرتب کرےں ، صوبائی حکومت ان کی بحالی کیلئے بھی اقدامات کرے گی ۔ صوبے کو منشیات سے پاک اور نشے کے عادی افراد کی بحالی کرکے دم لیں گے اور حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ انہیں بوجھ کی بجائے اثاثہ بنایا جائے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں کرپشن کے خاتمے کیلئے وسل بلور قانون پر کام جاری ہے ، بے نامی جائیدادوں سے متعلق اطلاعات دینے والے شخص کو مخصوص حصہ دیا جائے گا ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ عوام حکومت کی ٹیم ہے، جب تک عوام حکومت کاساتھ نہیں دیتے ، حکومت آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ عوامی شکایات کے اندراج اور ان کے ازالے کےلئے خصوصی پورٹل بنایا گیا ہے ، شہری پورٹل پر اپنی شکایات درج کریں ، ان کا ازالہ یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ کسی ایسی چیز کو سپورٹ نہیں کرتے جو عوام کےلئے نقصان دہ ہو ۔ وزیراعلیٰ نے محکمہ سوشل ویلفیئر ،کمشنر پشاور اور ان کی پوری ٹیم کو ڈرگ فری پشاور پروگرام کے تیسرے مرحلے کے اجراءکو یقینی بنانے پر سراہا اور کہا کہ امید ہے کہ منشیات کے عادی افراد بحالی کے بعد ایک کارآمد شہری کے طور پر سامنے آئیں گے۔ وزیراعلیٰ نے علمائے کرام ، اساتذہ ، سول سوسائٹی ، میڈیااور عوامی نمائندوں پر زور دیا کہ وہ صوبے کو منشیات سے پاک کرنے کے حکومتی مشن کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاءکا پشاور میں وزیراعلیٰ سے ملاقات
پشاور ( چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور سے نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاءنے بدھ کے روز پشاور میں ملاقات کی۔ متعلقہ حکام کی جانب سے شرکاءکو صوبے میں امن و امان، انتظامی معاملات، ترقیاتی منصوبوں، مالیاتی معاملات، اصلاحاتی اقدامات اور دیگر اہم امور سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کا قیام سب سے بڑا چیلنج اور موجودہ صوبائی حکومت کی سب سے پہلی ترجیح ہے۔ صوبے کے جنوبی اضلاع میں امن و امان کے مسائل درپیش ہیں جن سے نمٹنے کےلئے پولیس کو ترجیحی بنیادوں پر وسائل فراہم کر رہے ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہم امن کےلئے سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا خصوصا ضم اضلاع فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہے ہیں، ضم اضلاع کے عوام نے بہت زیادہ قربانیاں دیں اور تکالیف برداشت کی ہیں۔ ہم ضم اضلاع میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی اور بے گھر ہونے والے افراد کی دوبارہ بحالی پر کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ انضمام کے وقت ضم اضلاع کے لوگوں کے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے،این ایف سی میں ضم اضلاع کے شیئرز اور دس سالہ ترقیاتی پروگرام کے فنڈز کم مل رہے ہیں۔ حالانکہ ضم اضلاع کے لوگوں کی تکالیف کم کرنے اور ان کے احساس محرومی کو دور کرنے کےلئے وہاں پر معمول سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں وفاق اور تمام وفاقی اکائیوں کو اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ پن بجلی کے خالص منافع جات کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے 1610 ارب روپے بقایا ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے واضح کیا کہ ان تمام تر مشکلات کے باوجود صوبے کو مالی طور پرخود کفیل بنانے کےلئے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں، اس مقصد کےلئے معدنیات، سیاحت اور ہائیڈل پاور سمیت استعداد کے حامل دیگر شعبوں میں خطیر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ اسی طرح صوبے میں مالی نظم ونسق کو بہتر بنانے کےلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کےلئے ڈیبٹ منیجمنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ آٹھ مہینوں کے دوران صوبائی حکومت کے ریونیو میں 44 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا آئی ایم ایف کی طرف سے سرپلس بجٹ کا ہدف پورا کرنے والا واحد صوبہ ہے،اس وقت صوبے کا سرپلس بجٹ 100 ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت قومی ائیر لائن کو خریدنے میں سنجیدہ ہے۔ دیگر شعبوں میں جاری اقدامات اور ترجیحات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں 800 میگاواٹ پن بجلی کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے اور یہ منصوبے 2028 تک مکمل کئے جائیں گے۔
صوبائی حکومت نے اپنی ٹرانسمشن لائن بچھانے پر کام شروع کردیا ہے، ہم اپنی بجلی سستے نرخوں پر مقامی صنعتوں کو دیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو صوبے کی طرف راغب کیا جاسکے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ صوبے کے نوجوانوں کو باروزگار بنانے اور انہیں اپنے پاو ¿ں پر کھڑا کرنے کےلئے 12 ارب روپے کی خطیر لاگت سے تین مختلف اسکیموں کا جلداجراءکریں گے، ان اسکیموں میں خواتین اور ضم اضلاع کو خصوصی ترجیح دی جائے گی۔ ماحولیات کے شعبے میں خیبر پختونخواہ حکومت بہترین کام کررہی ہے، ملکی جنگلات کے رقبے کا 46 فیصد حصہ خیبر پختونخوا میں ہے، صوبے میں جنگلات کا رقبہ 18 فیصد سے بڑھا کر 26 فیصد کیا گیا ہے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ صوبے میں پانی کے وسائل کے تحفظ کےلئے بھی کئی اہم منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔