وادی وادی گھوم ………… محکم الدین اویونی
سیاحت Tour ایک ایسا دل خوش کُن اور دلکش لفظ ہے ۔ کہ سنتے ہی دل میں خوشی کی لہر پیدا ہوتی ہے ۔ ذہن سے غم و آلم کے سائے چھٹنے لگتے ہیں ، دماغ کا بوجھ ہلکا اور پابندیوں سے آزادہو جاتا ہے ، لمحہ بہ لمحہ مسرت کا احساس ہو تا ہے ، نظروں کے سامنے فلک بوس پہاڑوں ، جنگلات سے مزین کوہساروں ، طلسماتی جھیلوں کے نیلگون اور پُر کیف نظاروں اور نئے نئے مقامات کی ایک فلم سی نظروں کے سامنے چلنے لگتی ہے ۔ ان نظاروں کو دیکھنے کا شوق جنون کی حد تک دل کو بیقرار کرتی ہے ۔ اور سفر کے آغاز سے پہلے ہی سیاحتی کیفیات و احساسات شروع ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں ٹور اگر دوستوں کے ساتھ ہو ۔ تو بات ہی کچھ اور ہے ۔ یعنی سیاحت کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے ۔کیونکہ ایک طرف قدرت کے حسین نظاروں کے ساتھ مختلف لوگوں کی تہذیب و ثقافت دیکھنے کو ملتی ہیں اور دوسری طرف بر محل تبصرے کیلئے دوست موجود ہوتے ہیں ۔
چترال پریس کلب کا حالیہ ٹور پروگرام اس مرتبہ عجلت میں بنا ۔ صدر پریس کلب ظہیر الدین نے عید الاضحی کے فورا بعد ٹور کی تاریخ مقرر کی ۔ کیو نکہ چترال پریس کلب نے خلاف معمول سردیوں میں شہروں کی طرف ٹور کرنے کی روایت تبدیل کرکے گذشتہ سال سے سرد اور معروف سیاحتی مقامات کی سیر کا آغاز کیا ہے ۔ اس لئے کوشش یہ تھی کہ آف سیزن سے پہلے ٹور کی جائے ۔ یوں چترال پریس کلب کی 9رکنی سیاحتی ٹیم صدر ظہیر الدین کی قیادت میں ایک ہفتے کے ٹور پر روانہ ہوئی ۔ جس میں نائب صدر سیف الرحمن عزیز ، جنرل سیکرٹری عبدالغفار لال ، فنانس سیکرٹری نور افضل خان ،سنیئر ممبران شاہ مراد بیگ ، شہریار بیگ کے علاوہ بشیر حسین آزاد ،سید نذیر حسین شاہ اور راقم بھی شامل تھا ۔ چترال پریس کلب کایہ ٹور گذشتہ سال کی سیاحتی تشنگی دور کرنے کی کوشش اور اُسی کا تسلسل بھی تھا ۔ جس میں خنجراب پاس سے واپسی پر بابو سر ٹاپ کے راستے رات کے وقت ناران کی حسین وادی میں داخل ہوئے ۔ لیکن وقت کی کمی اور انتہائی سخت ٹور شیڈول کے باعث یہاں کی سیر خصوصا جھیل سیف الملوک کی سیر سے محروم رہے تھے ۔ اور وہ تشنگی دل کو مسلسل محسوس ہو رہی تھی ۔ جس کاساتھیوں کو بہت قلق تھا ۔ پس گذشتہ سال کی سیاحتی کمی پوری کرنے اور چند نئے مقامات دیکھنے کا فیصلہ کیا گیا ، جس میں خصوصی طور پر وادی کُمراٹ ،جھیل سیف الملوک اور وادی کلام وغیرہ شامل تھے ۔
25اگست کی صبح جب چترال سے ٹور کا آغاز ہوا ۔ تو ہماری پہلی منزل وادی کمراٹ تھی ۔ دیر پہنچے تو معلوم ہوا ۔ کہ ایس آر ایس پی دیر کے آر پی ایم نور عجب خان نے پُر خلوص مہمان نوازی کا مظاہرہ کرکے گرین ہلز میں ٹیم کیلئے ناشتے کا انتظام کیا ہے ۔چترال سے منہ اندھیرے روانگی اور سفر کی تھکان میں ہم نے ناشتے کا بھر پور لطف اُٹھایا ۔ اُس کے بعد وادی کُمراٹ کی راہ لی ۔ کُمراٹ جانے کیلئے دیر شہر کے اختتام پر مین روڈ سے بائیں طرف موڑنا پڑتا ہے ۔ اس وادی کا نام اگر چہ ہمارے لئے نیا نہیں تھا ۔ اور ہم میں سے کچھ دوست اپنے کاموں کے سلسلے میں اسی راستے پر موجود شیرینگل یونیورسٹی تک سفر کر چکے تھے ۔ تاہم دل میں کُمراٹ کا نام لینے پر ایک خفیف سی گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی ۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ وادی بھی گذشتہ کئی سالوں سے اس علاقے میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کی لپیٹ میں تھی ۔ اگر چہ امن بحال ہوئی ہے ، پھر بھی ذہن میں وہم کا پیدا ہونافطری اامر تھا ۔ چونکہ ہر نئی چیز میں دلکشی ہوتی ہے ۔ اور دیر خصوصا کُمراٹ ویلی کو اللہ تعالی نے کمال حسن و دلکشی اور رعنائیوں سے نوازا ہے ۔ پس ہم اس خوبصورتی کے اندر گم ہو کر ایک دوسرے کو مختلف مناظر دیکھانے اور تبصرے کرنے میں مگن ہو گئے ۔ اور فلم کی سین کی طرح یہ مناظر لمہ بہ لمحہ بدلتے رہے اور ہم بھی قدرت کو داد دیتے رہے ۔ راستے میں شیرینگل یونیورسٹی پر نظر پڑی ۔ جو ایک بڑے ایریے پر محیط ہے ۔ اور انگریزوں کے دور میں فارسٹری ڈویلپمنٹ کی غرض سے اس بلڈنگ کی تعمیر کا خاکہ پیش کیا گیا تھا ۔ جسے قیام پاکستان کے بعد مکمل کیا گیا ۔ لیکن اس بلڈنگ سے فارسٹ کی کتنی ترقی ہوئی ۔ اُس بحث میں پڑے بغیریہ بات ہمارے لئے حیران کُن تھی۔ کہ دیر کے ایم این اے نجم الدین خان نے خالی پڑی ہوئی بلڈنگ کو یونیورسٹی کا کیمپس بنانے کیلئے اُس وقت کی حکومت کو قائل کرنے میں کس طرح کامیاب رہے۔ جو کہ دیر شہر سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ رسائی کیلئے آج بھی مشکل ہے ۔ جبکہ چترال یو نیورسٹی کیلئے ہمارے ارباب اختیار چترال شہر کی آٹھ کلومیٹر مربع ایریے سے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
دیر شہر سے کُمراٹ ویلی کے ٹورسٹ سپاٹ تک پہنچنے کیلئے تین سے ساڑھے تین گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن جوں جوں سفر آگے بڑھتی ہے ۔ وادی کے حسن اور سولہ سنگار کو مزید چار چند لگ جاتے ہیں ۔ وادی کے دونوں طرف دیودار کے دیو قامت اور گھنے جنگلات و سبزہ و خود رو جڑی بوٹیوں سے مُزین سبزی مائل چادرنے مٹی اور پتھر تک کو ڈھانپ لیا ہے ۔ اور بیچ اس وادی کے دود ھ کی مانند اُچھلتی کودتی پانی کا بہاؤ دل و دماغ کو قدرت کی صناعی پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ ہم ویلی کے اندر پھیلی وسیع آبادی سے بھی محظوظ ہوتے رہے ۔ اور قدرت کی مہربانیوں اور اپنے ملک کے حکمرانوں کی نااہلی پر تبصرہ کرتے ہوئے بالاخر اُس مقام پر پہنچ گئے ۔ جہاں سیاح گُم صم ہو جاتے ہیں ۔ اور بُت بنے اپنی حالت میں نہیں رہتے ۔ قدرت کی خوبصورتی کو دل و دماغ اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے میں مد ہوش ہو جاتے ہیں ۔ لیکن ان مناظر کو سمیٹنا جتنا آسان نظر آتا ہے ۔ اُتنا ہی مشکل ہے ۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی زمین جس میں قدرت نے اس ترتیب کے ساتھ دیودار کے درختوں کی نرسری لگائی ۔ کہ صدیوں سے تناور درخت بن کر اس وادی میں رونما ہونے والے واقعات و حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ یہاں سیاحوں کیلئے درجنوں کی تعداد میں خوبصورت عارضی ریسٹوران اور ہو ٹل قائم ہیں ۔ جہاں سیاحوں کو کھانے پینے کی تمام اشیاء مناسب ریٹ پر ملتی ہیں ۔ جبکہ قیام کیلئے اوپن شیلٹر بنے ہوئے ہیں ۔ دیودار کے درختوں کے نیچے جگہ جگہ کیمپ ہوٹلوں کی سہولت بھی دستیاب ہیں ۔ اور سیاح اپنی مرضی سے بھی کیمپ لگا سکتے ہیں ۔ بہت سارے ٹورسٹ گروپ کی شکل میں اپنا پکاؤ اپنا کھاؤ کے اُصولوں پر عمل پیرا کھانا پکانے ، برتن مانجھنے اور صفائی کرنے میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں تو بعض من چلے اس کُھلے ماحول کا فائدہ اُٹھا کر خود کو موسیقی کی دھنوں کی نذر کرکے رقص کرتے اور گاتے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ گویا جنگل میں منگل ہے ۔ایک شہر آباد ہے۔ جہاں سے دہشت گردی کی خوف کو بھگا دیا گیا ہے ۔ دوستوں نے یہاں پہنچتے ہی بھوک مٹانے پر توجہ دی ۔ اور کُھلی فضا میں قائم ریسٹوراں جس کی کُرسیاں بہتی بل کھاتی پانی کی نہر کے ساتھ ایک خوبصورت دیودار کے درخت کے نیچے لگی ہوئی تھیں ، بیٹھ گئے ۔ اور ہلکی پُھوار میں کھانے کا وہ مزا لیا ۔ کہ ہنوز ذائقہ موجود ہے ۔ ہم یہ خیال کرتے تھے ۔ کہ اتنی دور پہاڑوں میں کھانے کی منہ مانگی قیمت وصول کی جائے گی ۔ لیکن ہمارا اندا زہ بالکل غلط نکلا ۔ وہ لوگ ہمارے چترال کے ریسٹورانوں کی طرح سیاحوں کو لوٹنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ بلکہ مناسب دام لے کر مزید سیاحوں کو اس وادی میں آنے کی دعوت د یتے ہیں ۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم نے ا س طلسماتی ، جنت نظیر سیاحتی مقام کی مختصر سیر کی ۔ اور جتنے فوٹو کیمروں اور موبائلوں میں سما سکتے تھے ۔ اُن کو محفوظ کرنے میں بُخل نہیں کیا ۔ ہمارے نائب صدرسیف الرحمن عزیز جو کچھ عرصے سے سیلفی کے اسیر ہو گئے ہیں ۔ ہمیں بھی کئی بار اپنے موبائل کے اندر قید کرلیا ۔ کُمراٹ وادی کے اس سیاحتی مقام پر ہر سال جشن کُمراٹ منایا جاتا ہے ۔ اور ہزاروں سیاح اس وادی کی ہواؤں نظاروں ، برف پوش پہاڑوں اور دودھ کی نہر کی طرح جلترنگ بجاتی ٹھنڈا یخ پانیوں کے آبشاروں اور ٹھنڈی ہواؤں سے مستفید ہوتے ہیں ۔ اور کئی کئی دنوں تک یہاں قیام کرتے ہیں ۔ اس سیاحتی مقام میں جو کمی دیکھنے میں آئی ۔ وہ صوبائی حکومت اور ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخوا کی بے حسی ہے ۔ جو اپنی روایتی ناقص کارکردگی کے ساتھ سیاحت کے فروغ کی بات کرتے نہیں تھکتے ۔
کُُمراٹ میں ہمارا پروگرام رات کے قیام کا نہیں تھا ۔ بلکہ ہم اس ویلی کی طرف جانے سے پہلے فیصلہ کر چکے تھے ۔ کہ رات کا قیام کالام میں ہو گا ۔ اب دوبارہ اس وادی سے دیر پہنچ کر سوات کالام پہنچنا کسی طور بھی ممکن نہیں تھا ۔ اس لئے ہم نے شارٹ راستہ ڈھونڈنے کی کو شش کی ۔ کہ آٹھ گھنٹوں کی طویل مسافت اور شہری علاقوں کی گرمی سے بچا جا سکے ۔ ہماری یہ کو شش کا میاب رہی ۔ ہمیں بتا یا گیا ۔ کہ کمراٹ ویلی سے کالام کیلئے جنگلوں سے ہو کر راستہ نکلتا ہے ۔ لیکن یہ سڑک کچی ہے اور بہت بلندی سے ہوکر گزرتی ہے ۔ ا سلئے فور بائی فور گاڑی کے بغیر سفر کرنا مشکل ہے ۔ جبکہ ہمارے پاس ہائی ایس تھی ۔ ہماری گاڑی کا ڈارئیور نعمت خان جس کا تعلق چارسدہ سے تھا ۔ دیکھنے میں ایک نحیف و کمزور لیکن بلا کا بہادر نوجوان تھا ۔ جب راستے کی موجودگی کی بات سُنی تو کہا ۔ آپ بے فکر رہیں میں آپ کو اسی راستے سے کالام پہنچا دونگا ۔ ہمیں بھی اُس کی ہمت دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ کیونکہ ہم جس راستے سے آئے تھے ۔ واپس اُسی راستے سے جانا نہیں چاہتے تھے۔
( جاری ہے )