نمک حرامی ۔ تحریر: اقبال حیات آف برغذی
نمک حرامی ۔ تحریر: اقبال حیات آف برغذی
سرزمین چترال کے ایک معتبر خانوادے کے چشم و چراغ کا تعویز کرنے والے کے پاس جا کر اپنے والد محترم کی زبان کو لگام دینے کے لئے تعویزکا تقاضا کرنے کی دلخراش خبر سن کر بد ن میں کپکپی پیداہوئی اور سر کے بال کھڑے ہو گئے۔ کیونکہ یہ اپنی نوغیت کے اعتبار سے انتہائی بدترین فعل ہے۔ والدین انسانی معاشرے میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے انمول اور مقدس حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان رشتوں کی دنیا ہر قسم کی بد خواہی، لالچ اور مطلب پرستی کے تصورات سے خالی ہو تی ہے۔ قرآن ان رشتوں کے تقدس کا خیال رکھنے اور ان کے احکامات کی بر آوری کو یقینی بنانے اور ان کے سامنے اف تک کہنے سے اجتناب کر نے کی ہدایت کر تا ہے۔ اور اسلامی تصور کے مطابق ماں کے قدموں کے نیچے جنت اور باپ کی زبان سے نکلنے والے اولاد کے لئے دعائیہ کلمات کے براہ راست اللہ تعالی تک رسائی کا عندیہ ملتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کر سکتا کہ بچپن میں زبان کی گفتار سے محرومی کے ایام میں والدیں اپنے بچے کے بولنے کے آرزو مند ہوتے ہیں اور جب بچہ بولنے کی طاقت سے مستفید ہو تا ہے تو ہر لفظ کو بلبل کے چہچہانے سے منسوب کیا جا تا ہے۔ یہی والدین اپنی اولاد کی روشن مستقبل کے آرزو مند ہوتے ہیں اور انکی درخشان زندگی کے لئے رب کائنات کے حضور دست بد عا ہو تے ہیں۔ لخت جگر، آنکھوں کا تارا،دل کا ٹکڑا وغیرہ جیسے زبان کے خزانے میں دستیاب خوبصورت الفاظ اس پر نچھاور کر تے ہیں اور دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر اپنی اولاد کو فائیز دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ پنگوڈے میں مکھی اور مچھر سے خود کو بچانے کی طاقت سے محرومی اور بے بسی کی حالت میں والدین کے سہارے ہی سے جیون ممکن ہوتی ہے۔
مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنے پر دل میں سرور پیدا ہونا اور مفموم اور غمزدہ دیکھ کر دکھ کا احساس ہونے کی صفت کو اگر والدین سے منسو ب کیا جائے تو بیحانہ ہو گا۔ یہی والدین کا رشتہ ہی ہے جو تمام دکھ درد خود سہنے اور اولاد کی شادمانی پر اپنا سب کچھ قربان کر نے سے گریز نہیں کرتے۔ ان اوصاف کے حامل رشتوں کی خدمات کو فراموش کر نا اور انکی نافرمانی کا ارتکاب کرنا یقینا بہت بڑی بد بختی اور کم ظرفی کی علامت ہے اور اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس مسلمہ حقیقت سے انکاری کی گنجائش نہیں کہ جب تک
شرین نانیئی مہ خوش نانیئی تہ کوشکوتے غیری آسوم
مجبتو ووریہ ٹیپ کیہ کو شکہ کی بوردی آسوم
جیسے جذبہ اولاد کے دل میں پیدا نہ ہو جائے تو ان عظیم محسنوں کے قدموں تلے سے جنت نکلنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے اور ساتھ سا تھ” ومکرو و مکر اللہ ” “یعنی جیسا کرو گے ویسا برو گے ” کا خمیازہ بھگتا بھی یقینی امیر ہے۔