Chitral Times

Dec 5, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میٹریکولیٹ……..تحریر: ثمرخان ثمر

شیئر کریں:


 وہ دن اب نہیں رہے جب میٹرک کا خواب سینکڑوں لوگ دیکھتے تھے لیکن خواب کو شرمندۂ تعبیر بمشکل درجن بھر “خوش نصیب” ہی کر پاتے تھےـ اکثر یہ سہانا خواب محض خواب ہی رہ جاتا تھا ـ میٹرک کی سرحد عبور کرنے والا اعلی تعلیم یافتہ تصور کیا جاتا تھا ۔ گاؤں دیہات میں میٹرک بہت بڑی ڈگری سمجھی جاتی تھی میٹریکولیٹ کی اماں ہمہ وقت بیٹے کے گُن گاتی پھرتی تھی۔ ” ارے شاہدہ ! سنتی ہو ، مُنا دس جماعت پاس کر چکا ہے۔بڑا آدمی بنے گا میرا لعل” ۔ اس کا سینہ مسُرت سے پھول جاتاـ سر فخر سے اُونچا ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو باقی عورتوں سے الگ تھلگ اور ممتاز سمجھنے لگتی۔ کوئی عورت اس کی ہمسری کر ہی نہیں سکتی تھی۔ باپ کی حالت بھی اس سے جدا نہ تھی۔ بیٹے کی تعریف و توصیف کے لیے وہ بھی موقع محل کا منتظر رہتا۔ دوستوں کی محفل میں گھما پھرا کر میٹرک پاس بیٹے کی کہانی چھیڑ دیتا۔ اپنی مقدور بھر معلومات کی پوٹلی دوستوں کے سامنے کھول کر پہلے انھیں انگشت بدنداں اور پھر بیٹے کی تعریف میں رطب اللساں بنا لیتا۔ خود میٹریکولیٹ کی خوشی و مسرت قابل دید ہوتی۔ وہ سر اُٹھا کر چلتا کیونکہ اس نے جوئے شیر جو بہا لی تھی۔


 واقعی ان دنوں میٹرک پاس کرنا کارنامۂ فرہاد سے کم ہرگز نہ تھا۔ سماج میں میٹریکولیٹ کی عزت، رتبہ اور مقام تھا۔ لوگ رشک بھری اور توصیفی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ وہ لوگوں کی اُمیدوں اور توقعات کا محور و مرکز ہوتا تھا اور ان پر پورا اترنے کی بھرپور صلاحیت اور اہلیت بھی رکھتا تھا۔ کتنے ہی لوگوں نے عملی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں جن کی تعلیمی قابلیت میٹرک رہی ہے۔ اس زمانے میں ” امداد غیبی”  کا رجحان اول تو تھا ہی نہیں اور اگر کہیں پر یہ دروازہ کھلتا تھا تو بہت ہی کم “چور” اس چور دروازے سے واقف تھے۔ ایک ہی درجہ دو دو تین تین بار پڑھنے والا اُف تک نہیں کہتا تھا۔ ہمت ہار کر پسپا ہو جانا اس نے سیکھا نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا میٹرک یا اسے نیچے کے زینے بنا بیساکھی کے عبور کر لے۔ اسے معلوم تھا جب تک اپنی ٹانگوں میں دم خم باقی نہیں ہے، بیساکھیاں کٹھن، دشوار اور پرپیچ راہوں میں کام نہیں آئیں گی۔ سہاروں کی محتاجی پر نہیں اپنی ٹانگوں کی سلامتی پر بھروسہ تھا۔ سفارش کے جراثیم سے چڑ تھی بلکہ بیشر لوگ ان جرثوموں سے بالکل انجان تھے جو سفارش کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ المختصر وہ ان چیزوں کو اپنی توہین، تحقیر اور تذلیل گردانتا تھا۔


 پورے ضلع میں ایک امتحانی مرکز ہوتا تھا اور نہم دہم کے تمام طلبہ امتحانی مرکز میں جمع ہوتے تھے۔سخت اور بااصول ممتحن تعینات کیے جاتے جن کی ایک چنگھاڑ امتحانی ہال میں سناٹا برپا کردیتی تھی۔ ذرا سی کُھسر پھُسر کی آواز ہال کے کسی گوشے سے برآمد ہوتی تو فوراً ممتحن کرخت آواز میں کہتا ، ” خاموش”۔ یہ کرخت آواز  ہال کی دیواروں سے ٹکرا جاتی اور دیر تک بچوں کے کانوں میں اس کی بازگشت سنائی دیتی۔ سادہ لوح دیہاتی بچے تھرا جاتے اور کھُسر پُھسر تو کُجا ،پانی پینا بھی بھول جاتےـ سخت اور کڑے پہرے میں وہ میٹرک کا امتحان دیتے اور محض اپنی محنت کے بل بوتے پر امتحان پاس کرلیتے۔ ایسا میٹریکولیٹ اپنی کامیابی پر ناز کرتا جو اس کا حق بھی تھا ۔ جیسے ہی جگہ جگہ امتحانی مراکز کھلتے  گئے۔ کہیں سونے کی بارش اور کہیں پتھر برسنے لگے۔   “نقل” وہ سم قاتل ہے جو آج پوری طرح ہمارے تعلیمی اداروں میں سرایت کر چکا ہے۔ وہ کند چھری ہے جس کے نیچے آ کر بچے بہ رضا و رغبت ذبح ہو رہے ہیں۔ جب تک نقل کی لت سے طلبہ مبرا تھے،  لیاقت و قابلیت میں اُولیٰ تھے۔ بیشک سہولیات کا فقدان تھا لیکن صلاحتیں جوان تھیں۔ آج کیا وجہ ہے کہ جدید سہولیات اور اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی دستیابی کے باوجود رو بہ زوال ہیں؟  نقل اس بربادی کی اساس ہے۔ ساری خرابی نقل سے جنم لیتی ہے۔ نقل کے پیچھے عموما چار عوامل کارفرما ہیں۔ رشوت، سفارش، اقرباپروری اور دہشت۔ الگ الگ امتحانی مراکز میں الگ الگ حربہ کارآمد ہو سکتا ہے۔ کہیں پر سفارش اثرانداز ہوتی ہے، کہیں پر رشوت اپنا جلوہ دکھاتی ہے، کہیں رشتے ناطے ممتحن کے پایۂ استقلال کو ڈگمگانے کا باعث بن جاتے ہیں تو کہیں پر غنڈوں کی غنڈہ گردی کے آگے ممتحن ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یوں نقل ایک منظم طریقے سے پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں جاری و ساری ہے۔ جب تک نقل پر مکمل قدغن نہیں لگائی جاتی، بہتر نتائج کی توقع عبث ہے۔


 ہر ذی شعور شخص بہ خوبی جانتا ہے کہ نقل ہی سارے فساد کی جڑ ہے۔ جس جس ملک کے تعلیمی اداروں میں دوران امتحان غیرقانونی مواد کا استعمال سرعام ہو رہا ہے وہاں کی نوجوان نسل “معمار قوم” نہیں بلکہ “بیمار قوم” بن کر نمو پا رہی ہے۔ جس “معمار” کی تعلیمی اساس ہی ہیراپھیری کی مرہون منت ہو وہ کل کسی ادارے کو صحیح سمت میں کیسے چلا پائے گا؟ لیکن ترقی پذیر ممالک کے “ترقی یافتہ” معمار آج سب کچھ چلا رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی اداروں کا حال تقریبا یکساں ہے۔ یہاں پر امتحانات طلبہ کی صلاحتیوں کو جانچنے اور پرکھنے میں تقریبا ناکام ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب طلبہ  کے ساتھ امتحان میں مساوی سلوک روا رکھا جاتا۔ زید ، بکر میں امتیاز باقی نہیں رہتا۔ آپ مجھے بتائیں کیا ایسا ہو رہا ہے؟


 ایک ریجن کا بورڈ بیک وقت درجنوں بلکہ بعض اوقات سینکڑوں امتحانی مراکز میں موجود ہزاروں بچوں کا امتحان لیتا ہے۔کیا ان مراکز میں بچوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ ہوتا ہے؟ مساوی سلوک یہ ہے کہ نقل کی پرچھائی سے بھی طلبہ کو دور رکھا جائے۔نقل آئی ، عقل گئی۔ بچوں کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحتیں تلف ہو کر رہ گئیں۔ وہ اپنے دماغ کو کام میں لانے سے قاصر رہتے ہیں یوں ایک “بیمار” قوم پروان چڑھتی ہے۔ میٹرک تعلیمی عمارت کی اساس ہے، اگر بنیاد ہی دھوکہ دہی پر رکھی جائے تو عمارت کیونکر کھڑی ہو سکتی ہے؟  اساتذہ اور والدین کو سرجوڑ کر سوچنا ہوگا۔ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے۔ اکیلا ایک فریق اس نازک مسئلے سے نپٹ نہیں سکتا۔ ذمہ داریاں دونوں فریق پر عائد ہوتی ہیں۔ والد امتحان میں ناجائز طریقے سے بچے کا بیڑا پار لگوانے کے لیےممتحن کے پیر چھونا چھوڑ دے اورممتحن بچے کی ناجائز سفارش لے کر آنے والے ہر باپ کو جھڑک دے۔ مسئلہ اپنے آپ حل ہو جائے گا۔


 یہ کام مشکل ضرور ہوگا پر ناممکن نہیں ہے۔ رسم توڑنا دشوار ہے لیکن انسان کوشش کرے تو کیا کچھ نہیں کر سکتا۔ نقل بھی رسم بن چکی ہے اور اس کی بیخ کنی بہت زیادہ ضروری ہے۔فرض کریں، مجھے کسی امتحان کے لیے ممتحن مقرر کیا جاتا ہے۔ میرے اندر درست طریقے سے امتحان لے پانے کی استعداد نہیں ہے تو میرا فرض بنتا ہے میں یہ بارگراں اٹھانے سے معذرت کرلوں تاکہ کوئی ایسا شخص میری جگہ لے سکے گا جو یہ فرض بخوبی نبھانے کا اہل ہوگا ، لیکن حق الخدمت (معاوضہ) کا لالچ اور نمود و نمائش کی خواہش انسان کو درست فیصلہ کرنے سے باز رکھتی ہے۔ چند ہزار پیسوں اور نمود و نمائش کی خاطر نااہل شخص یہ بارگراں اٹھانے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور پھر نتیجہ کیا نکل آتا ہے؟ وہ آپ سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سفارش  اور رشوت کا ہتھیار وہ شخص زیادہ استعمال کرتا ہے جو سماج کے اندر  باعزت تصور کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ان خرافات کو “فیشن” بنا رکھا ہے۔ سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر بگڑی سنوار لینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ بیچارہ غریب شخص یہاں بھی مار کھا جاتا ہے۔ معاشرے کے ہر ذی فہم شخص کا فرض بنتا ہے کہ نقل اور دیگر غیرقانونی دھندوں کی روک تھام کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے تاکہ ہر طالب علم بیمار نہیں بلکہ معمار کے روپ میں آگے بڑھے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
48626