میری جاں! آج پھر بائیس اکتوبر ہے………..عبد الکریم کریمی
میری جاں! آج پھر بائیس اکتوبر ہے
(شادی کی چوتھی سالگرہ پرسوسن کے ساتھ کچھ یاتیں، کچھ یادیں)
کبھی کبھی مذاق مستی میں کہی گئی باتیں بھی بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوتی ہیں۔ شاید وہ وقت قبولیت کا ہوتا ہے۔ گئے وقتوں کی بات ہےمیں اکثر اپنے دوستوں کی محفل میں کہا کرتا تھا کہ آخر بیوی ایسی ہونی چاہئیے کہ آپ گھر سے دفتر کی طرف نکلے تو وہ باہر گیٹ تک آکے پُرنم آنکھوں سے آپ کو رخصت کرے، پھر واپسی پر گیٹ پہ آپ کی منتظر ہو، آپ کا لیپ ٹاپ اٹھائے آپ کے ساتھ چلتے ہوئے ڈائننگ ہال تک آئے، آپ کی جرابیں اُتاریں، فوراً آپ کو پانی کا گلاس پیش کرے اور پوچھے ’’زندگی! آفس میں دن کیسا گزرا؟ مجھے تو آپ کے بغیر ایک ایک لمحہ کاٹنا مشکل ہورہاتھا۔‘‘ پھر آپ کو فریش ہونے کا کہہ کر خود کیچن کی طرف جائے تاکہ آپ کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرسکیں۔ آخر ہوم منسٹر جو ٹھہری۔ میری یہ باتیں سن کر دوست زبردست قہقہے لگاتے اور طنزیہ کہتے ’’اسکالر صاحب! لوگ رات کو خواب دیکھا کرتے ہیں آپ دن کو جاگتی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھتے ہیں۔ کم از کم آپ کے اس خواب کی تعبیر اس زمانے میں ممکن نہیں۔ موم بتی مافیا اور خصوصاً خواتین کے حقوق کی نام نہاد تنظیمیں اس خواب کی تعبیر میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ آج ہر پڑھی لکھی لڑکی کو یہ کہہ کر اُس سے اُس کی نسوانیت چھینی جاتی ہے کہ آپ مرد سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے آخری حد تک لڑو چاہے اس کا انجام شوہر سے علیحدگی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ میں ایک دم ان کی بات کاٹ دیتا اور کہتا آپ کی ہر بات معقول لیکن ہر لڑکی ایسی نہیں ہوتی۔ ہم کیوں جرنیلائز کرتے ہیں۔ جس طرح سارے مرد ایک جیسے نہیں اسی طرح ساری عورتیں بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ بات صرف خاندانی تربیت کی ہوتی ہے اعلیٰ خاندانوں کی خواتین ہوں یا مرد، ان کو موم بتی مافیا اور نام نہاد تنظیموں سے نہیں گھر سے تربیت ملتی ہے کہ گھر والوں کے کیا حقوق ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی زندگی خوشیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ جبکہ جن کو گھروں سے تربیت نہیں ملتی وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں موم بتی مافیا کا شکار ہوتے ہیں پھر یہ سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیتے ہیں اور جہاں لڑکیاں مردوں کو درندے ثابت کرنے کی تگ و دو کرتی ہیں تو وہاں لڑکے بھی گھر سے باہر نکلی ہوئی ہر لڑکی کو شمعِ محفل، بدکردار اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہر کوئی اپنے تجربے کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔ میں ایسی بہت ساری خواتین کو جانتا ہوں جن کے شوہر اچھے نہیں ہیں اور بہت سے ایسے مردوں کو جانتا ہوں جن کی بیویاں اچھی نہیں ہیں۔ اب آپ ان افیکٹٹ خواتین سے مردوں کے بارے میں پوچھے تو ان کی نظر میں پوری دُنیا کے مرد درندے ہیں اور ان مردوں سے پوچھے تو ان کی نظر میں دُنیا کی ساری عورتیں بدچلن ہیں۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ آپ کی بیوی یا آپ کا شوہر اچھا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دُنیا کی ساری خواتین اور سارے مرد اچھے نہیں ہیں اور آپ کو کس نے یہ ٹھیکہ دیا ہے کہ آپ اپنے گھر کے ماحول کو سامنے رکھ کر پوری دُنیا کے لیے رائے قائم کریں۔ آپ کے گھر میں مسلہ ہے تو آپ اپنا گھر ٹھیک کریں ٹھیکیداری چھوڑ دیں۔ سو، مسلہ دونوں طرف ہے۔ اس کی وجہ خاندانی تربیت اور دینی اقدار سے دُوری ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں خواتین کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اگر سجدہ خدا کے علاوہ کسی کو جائز ہوتا تو میں عورت سے کہتا کہ وہ اپنے مجازی خدا (شوہر) کو سجدہ کرے۔‘‘ تو وہاں مردوں کو بھی نہیں بخشا۔ آپؐ نے فرمایا ’’اپنی بیویوں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ رکھو اور ان کے حقوق کا خیال رکھو۔‘‘
ایسی دلچسپ بحث دوستوں کے ساتھ ہوتی رہتی تھی۔ خیر وقت کی دُھول میں زندگی گزرتی رہی۔ اس دوران کئی لوگ زندگی میں آئے اور گئے۔ میرا ایک زیرِ طبع ناول ’’رانی سے کہانی تک‘‘ تک انہی یادوں کے گرد گھومتا ہے کہ جس کو آپ اپنی زندگی کی رانی بنانا چاہتے ہوں اور وہ اس قدر موم بتی مافیا کا شکار ہوجاتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کی رانی تو نہیں بن سکتی لیکن آپ کے ساتھ بیتی ہوئی یادوں کی ایک دلچسپ کہانی ضرور بنتی ہے۔
یہ بات جملۂ معترضہ کے طور پر آئی۔ آمد برسرِمطلب۔ آج بائیس اکتوبر ہے۔ ہاں یہی کوئی چار سال پہلے کی بات ہے یہی بائیس اکتوبر کا دن ہی تھا جب میں اور سوزی (میں سوسن کو سوزی کے نام سے پکارتا ہوں۔) ایک ہوئے تھے۔ شادی کے کچھ دن بعد مذکورہ بالا دوستوں سے ایک دفعہ پھر آمنا سامنا ہوا تو بڑی دلچسپ بحث ہوئی تھی۔ جلے کٹے لہجے میں پوچھا گیا تھا ’’اسکالر صاحب! خواب کی تعبیر کیسی رہی؟ یقیناً تعبیر اُلٹ رہی ہوگی۔ آخر بھابھی ایم اے انگلش اور ہنزہ جیسی ماڈرن علاقے کی دُختر نیک اختر بھلا آپ کی جرابیں کیسے اُتارے گی۔ گیٹ تک الوداع کرنے کیسے آئے گی اور وہ بھی پُرنم آنکھوں کے ساتھ؟ بھائی جان! خواب، خواب ہی اچھے لگتے ہیں تعبیر پہ پریشان مت ہوئیے گا۔‘‘
جس پر میں بہت ہنسا تھا۔ دوستوں کی ان جلی کٹی باتوں کے جواب میں میری ہنسی خلافِ توقع تھی۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ میں پہلے بھی کہا کرتا تھا کہ ہم جرنیلائز کرتے ہیں۔ سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں نے جو سوچا تھا سوزی تو میری سوچ سےبھی کئی گنا بڑھ کے نکلی تھی۔ میری تو خواہش تھی کہ میری شریکۂ حیات گیٹ تک آکے مجھے الواداع کہہ دے سوزی تو گیٹ سے بھی باہر آکے جب تک مجھے گاڑی میں نہیں بٹھاتی، چین سے نہیں بیٹھی۔ ابھی جبکہ سوزی دُلہن سوٹ میں ملبوس تھی، مہندی کا کلر بھی پھیکا نہیں پڑ گیا تھا اورکھنکتی چوڑیوں اور پائل کے ساتھ اس کو گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ بیٹھنا چاہئیے تھا لیکن ان کو مہمانوں کی کیا پروا، جونہی آفس میں میری چھٹی کا ٹائم ہوتا ان کی کئی کالیں آتی ہیں کہ کہاں پہنچے؟ وہ گیٹ تک نہیں کھنکتی چوڑیوں اور پائل کے ساتھ گیٹ کے باہر آکے میرا بیگ اٹھاتی ہے۔ وہ صرف میرے کھانے پینے کا انتظام نہیں کرتی بلکہ جب تک میں گھر نہ پہنچوں وہ خود بھی کھانا نہیں کھاتی ہے۔ سوزی کا کہنا ہے کہ آخر مجازی خدا کے بغیر کھانے کا لقمہ حلق سے کیسے اُتارے۔
یہ تو تب کی بات ہے جب وہ نئی نئی دُلہن بنی تھی۔ نیا ارمان، نئی خواہشات اور کچھ نیا کرنے کی جستجو۔ بھیا! اب تو چار سال گزر گئے ہیں۔ دو بچوں کے پالنے کی ذمہ داری آسان تھوڑی ہے۔ محبت میں کمی آنی چاہئیے تھی لیکن نہیں۔ سوزی نے کچھ دن پہلے فون پہ بتایا کہ’’زندگی! (وہ مجھے اکثر زندگی کہہ کے پکارتی ہے۔) کچھ یاد ہے بائیس اکتوبر کو ہماری شادی کی سالگرہ ہے۔ آؤگے نا؟ میں نے کہا سوزی یہ کیا بات ہوئی میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میں ضرور آجاؤں گا۔ اور پتہ ہے کل شام گاہکوچ میں اپنی ہزار مصروفیات کو پسِ پشت ڈال کر میں سوئے گلگت روانہ ہوا تھا۔ گلگت بازار سے سوزی کے لیے گفٹ اور سالگرہ کا کیک لے کر جب میں سونیکوٹ پہنچا تو سوزی آشا اور اذین کا ہاتھ تھامے گیٹ پہ میری راہ تک رہی تھی۔
اب بھی جب میں ویک اینڈ پہ گلگت جاتا ہوں تو واپسی پر ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو رقص کرتے ہیں گویا میں گاہکوچ آفس نہیں آرہا سیاچن محاذ پہ جنگ لڑنے جا رہا ہوں اور دوبارہ ملاقات شاید ممکن نہ ہو۔ ایسے میں مجھے مجبوراً کہنا پڑتا ہے ’’سوزی! بس بھی کرو، حد کر دی۔‘‘
کل اکیس اکتوبر کی شام کو ہم نے اپنی شادی کی چوتھی سالگرہ منائی۔ ہمیں بائیس کو منانی چاہئیے تھی لیکن بائیس کو کسی کانفرنس میں مجھےشرکت کرنی تھی۔ سو ہم نےاکیس کی شام کو بچوں کے ساتھ کیک کاٹا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں کیک کھا کے اور کچھ شرارتوں کے بعد نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ اب میں اور سوزی رہ گئے تھے۔ کوئی اور تھا تو بس سونیکوٹ کی رات تھی۔ رات بارہ بج چکے تھے ہمیں جاگ کے اپنی سالگرہ کا استقبال کرنا تھا۔ سوزی کے ہاتھوں کی بنی ادرک والی چائے ایک دفعہ پھر میرے ہونٹوں کو حلاوت بخش رہی تھی۔ میں نے سوزی کو مخاطب کیا تھا ’’سوزی ایک پڑھی لکھی لڑکی ہونے کی حیثیت سے مرد کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟‘‘ سوزی نے مختصر جواب دیا تھا ’’مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘ میں نے فوراً کہا تھا کیا اچھا لگتا ہے؟ پھر گویا سوزی نے ایک داستان گو کا روپ دھار لیا تھا۔ کہنے لگیں۔ ’’مجھے اچھا لگتا ہے مرد سے مقابلہ نہ کرنا اور اس سے ایک درجہ کمزور رہنا۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب کہیں باہر جاتے ہوئے میرا مجازی خدا مجھ سے کہتا ہے رکو! میں تمہیں لے جاتا ہوں یا میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھ سے ایک قدم آگے چلتا ہے۔ غیر محفوظ اور خطرناک راستے پر اس کے پیچھے پیچھے اس کے چھوڑے ہوئے قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے احساس ہوتا ہے اس نے میرے خیال سے قدرے ہموار راستے کا انتخاب کیا۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب گہرائی سے اوپر چڑھتے اور اونچائی سے ڈھلان کی طرف جاتے ہوئے وہ مڑ مڑ کر مجھے چڑھنے اور اُترنے میں مدد دینے کے لیے بار بار اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب رات کی خنکی میں میرے ساتھ آسمان پر تارے گنتے ہوئے وہ مجھے ٹھنڈ لگ جانے کے ڈر سے اپنا کوٹ اُتار کر میرے شانوں پر ڈال دیتا ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے میرے سارے غم آنسوؤں میں بہانے کے لیے اپنا مضبوط کاندھا پیش کرتا ہے اور ہر قدم پر اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلاتا ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ بدترین حالات میں مجھے اپنی متاعِ حیات مان کر تحفظ دینے کے لیے میرے آگے ڈھال کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے۔ ڈرو مت میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے غیر نظروں سے محفوظ رہنے کے لیے نصیحت کرتا ہے اور اپنا حق جتاتے ہوئے کہتا ہے کہ تم صرف میری ہو۔ لیکن افسوس اکثر لڑکیاں ان تمام خوشگوار احساسات کو محض مرد سے برابری کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے کھو دیتی ہیں۔‘‘
سوزی کی آخری بات بڑے پتے کی تھی۔ کہنے لگیں ’’جب مرد یہ مان لیتا ہے کہ عورت اس سے کم نہیں تب وہ اس کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانا چھوڑ دیتا ہے۔ تب ایسے خوبصورت لمحات ایک ایک کرکے زندگی سے نفی ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر زندگی بے رنگ اور بدمزہ ہوکر اپنا توازن کھو دیتی ہے۔ مقابلہ بازی کی اس دوڑ سے نکل کر اپنی زندگی کے ایسے لطیف لمحات کا اثاثہ محفوظ کرنا اعلیٰ خاندانوں کی اچھی عورتوں کا متاعِ زیست ہوتا ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ میں اس سلسلے میں خوش نصیب واقع ہوئی ہوں۔‘‘
میں نے کہا ’’سوزی شکریہ۔‘‘ تو سوزی یک دم کہنے لگیں ’’زندگی! اپنوں کو شکریہ نہیں کہتے۔‘‘ میں نے کہا ’’نہیں جان! لوگ کہتے ہیں رشتوں میں شکریہ اور معذرت نہیں لیکن درحقیقت یہی دو الفاظ رشتوں کو بچاتے ہیں۔‘‘
آخری بات۔۔۔
اس پوری تفصیل کا حاصل یہی ہے کہ خواتین اگر چاہتی ہیں کہ اُن کے شوہر فرشتہ صفت ہوں تو پہلے گھر کو جنت بنائیں فرشتے دوزخ میں نہیں رہ سکتے۔ اگر مرد چاہتے ہیں کہ اُن کو حوریں بطورِ بیوی ملیں تو پہلے خود کو انسان بنائیں حوریں شیطانوں کو نہیں ملا کرتیں۔
دلچسپ گفتگو جاری تھی۔ رات بیتی جارہی تھی۔ چراغ حسن حسرت کا شعریاد آرہا تھا؎
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑیئے رات گئی بات گئی