میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود کے ہم احسان مند ہیں……..عبد الکریم کریمی
شہید دیدار حسین قتل کیس دبا دیا جاتا اگر جنرل صاحب خود ایکشن نہ لیتے۔ جو کام ہمارے نام نہاد سیاست دانوں کو کرنا چاہئیے تھا وہ فورس کمانڈر صاحب نے کرکے دکھایا۔ کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں یہ دیامر ہو یا غذر، سکردو ہو یا استور جنرل صاحب خود وہاں پہنچتے ہیں اور عام لوگوں سے ملتے ہیں۔ سکردو کے ایک دوست بتا رہے تھے کہ خپلو میں کسی جلسے میں جنرل صاحب اور وہاں کے مقامی آفیسروں کے بیٹھنے کے لیے لوگوں نے کرسیاں لگائیں تو وہ کرسی پر نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ کھلے میدان میں نیچے بیٹھ کر ان کا درد بانٹا۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر آفیسرز بھی بادلِ نخواستہ نیچے بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔ انسانیت اسی کا نام ہے ورنہ تو ہم نے بہت چھوٹے چھوٹے آفیسروں کے گردن پر غرور کا سریا دیکھا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فوجی جوان شہید ہوتا ہے تو پورا ملک روتا ہے اور جب کوئی سویلین مرتا ہے تو اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اچھا ہوا ایک کام چور کی کمی ہوئی۔ میں جرنیلائز نہیں کر رہا۔ سویلینز میں بھی اچھے اور باکردار لوگ موجود ہیں جن پر ہمیں فخر ہے لیکن ان کی تعداد اتنی کم کہ انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ البتہ بے ضمیر و بے ایمانوں کی ایک فوجِ ظفر موج ہے۔ کردار سازی بہت مشکل چیز ہے۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے:
’’بال سفید کرنے کے لیے عمر نکل جاتی ہے کالے تو آدھے گھنٹے میں ہوجاتے ہیں۔‘‘
میں ذاتی طور پر جنرل صاحب کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے ایک انتہائی پسماندہ علاقے کے لیے آواز اٹھائی۔ دیدار حسین کے قاتل چند دنوں کے اندر ہی پکڑے گئے۔ اس حوالے سے جنرل صاحب کے ساتھ ساتھ آئی جی پی گلگت بلتستان، غذر انتظامیہ، خصوصاً ایس پی غذر اور پوری پولیس فورس بھی مبارک کی مستحق ہے کہ ان سب کی کاوشوں سے یہ ممکن ہوا۔ اب اگلہ مرحلہ ان مجرموں سے نمٹنے کا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ان سارے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اس حوالے سے ایک دفعہ پھر ہماری امیدیں جنرل صاحب سے وابستہ ہیں کہ وہ خود اس کیس کی نگرانی کریں اور فوجی عدالتوں میں اس کیس کو چلایا جائے۔
یہ پچھلے سال کی بات ہے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کی ایک کانفرنس میں جنرل صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ دو روزہ کانفرنس تھی۔ ہم پہلے دن تقریر کرچکے تھے جبکہ جنرل صاحب دوسرے دن کے مہمان تھے۔ وہ سامنے بیٹھے جہاں مقررین کو سن رہے تھے وہاں کانفرنس کا بروشر دیکھ رہے تھے کہ کانفرنس میں کس کس نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے ہماری کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ پھر جب ان کو تقریر کے لیے بلایا گیا۔ وہ پہلے رو میں بیٹھے مہمانوں کا نام لے کر اپنی تقریر کا آغاز کر رہے تھے ہماری حیرت اس وقت دو چند ہوئی جب وہ میری طرف اشارہ کرکے میرا نام لے ہی رہے تھے کہ فدا ناشاد کی آواز گونجی۔ جنرل صاحب کریمی صاحب الواعظ بھی ہیں۔ پھر کچھ لمحے تو وہ مجھے اور میں انہیں دیکھتا رہا۔ میں اس لیے انہیں دیکھ رہا تھا کہ نہ جان نہ پہچان وہ مجھے پہچان کیسے گئے۔ نام تو خیر اخبارات میں میری تحریروں کے ذریعے بھی ان کو معلوم ہوسکتا ہے۔ وہ لفظ الواعظ سن کے میری طرف جس طرح دیکھ رہے تھے وہ انداز بتا رہا تھا کہ پتلون کوٹ میں یہ الواعظ کیسے ہوسکتا ہے۔ کیونکہ میرے آس پاس جو علما تشریف فرما تھے وہ اندر سے عالم تھے یا نہیں لیکن اپنے عبا و قبا سے عالم ہی معلوم ہو رہے تھے تو ایسے عالموں کے بیج یہ کوٹ پتلون والا ایک الواعظ کم کسی فلم کا ہیرو زیادہ لگ رہا تھا۔ اس لیے جنرل صاحب کا یوں دیکھنا اچنبھے کی بات نہ تھی۔ کیونکہ ہمارے ہاں جب بھی واعظ، مولوی، شیخ اور مولانا کا نام ذہن میں آتا ہے سب سے پہلے شلوار قمیض اور عبا و قبا اور ایک مخصوص روایتی حلیہ ہمارے سامنے ہوتا ہے۔
ٹی بریک میں بھی جنرل صاحب پوچھتے رہے کہ آپ اتنی چھوٹی عمر میں الواعظ ہیں؟ خیر کوٹ پتلون کا نہیں پوچھا۔ پوچھتے بھی کیسے کہ وہ صرف ایک جنرل نہیں بلکہ ایک پی ایچ ڈی اسکالر بھی ہیں۔ اسکالرز حلیے سے زیادہ علم کی قدر کرتے ہیں۔ اس لیے علمی گفتگو ہوئی۔ میری کتابوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ میں نے اپنی کتابوں کی اعزازی کاپی انہیں پہنچانے کا وعدہ کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک کرنل صاحب نے میرا نمبر بھی لیا۔ لیکن پھر مصروفیات نے ایسا گھیرا کہ کرنل صاحب کا فون آیا نہ ہمیں موقع ملا کہ ان تک کتابیں پہنچائیں۔
میری دوسری حیرت جنرل صاحب کی تقریر تھی۔ جس میں انہوں نے جس ادبے پیرائے میں گلگت بلتستان کے جغرافیہ، لسانیات اور ادب پر بات کی وہ بجائے خود ان کے اسکالر ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔ ان کا پی ایچ ڈی بھی غالباً یہاں کی جغرافیہ پر ہے۔ پھر اپنی تقریر کے بیج شنا اور بلتی کے جملوں کا برمحل استعمال اور خاص طور پر باسیان بلتستان کے ساتھ ان کا خلوص دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ کئی لوگوں کو انہوں نے اسٹیج سے نام لے کر پکارا کہ سرمیک کے باسیوں کا کیا حال ہے، روندو کا فلان شخص کیسا ہے، شگر والے بھی آئے ہیں، خپلو والوں کا کیا حال ہے۔ یہ وہ انداز تھا جو ایک اچھے انسان کی خوبیاں بیان کرتا ہے۔
اللہ پاک انہیں خوش رکھے اور وہ اسی طرح حلیمی و انکساری سے لوگوں کے دل جیتتے رہیں۔ آمین!