Chitral Times

Dec 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میاں بیوی: ایک مقدس رشتہ –  تحریر : رقیہ موسی

شیئر کریں:

میاں بیوی : ایک مقدس رشتہ –  تحریر : رقیہ موسی

“خالق کائنات ” نے اپنے اپنے اختیار “کن” سے روئے زمین پہ سب سے  پہلے حضرت آدم کو تخلیق کر کے کائنات کی عظمت کو چار چاند لگائے اور پھر اسی جسم(حضرت آدم ) کی بائیں پسلی  سے حضرت حواء کو  سانسیں بخشی۔ یوں اس حکمت والے نے اپنی حکمت عملی سے اس بات کو حتمی شکل دی کہ ہم نے انسانوں کو ایک ایک جوڑے میں پرویا ہے۔ جیسے جسم و روح  لازم و ملزم ہیں اسی ترتیب سے ہر رشتے کی جوڑی کو یکجاں کر کے تخلیق کیا گیا ہے۔

کرہ ارض کو رونق بخشنے والا سب سے پہلا اور آخری رشتہ میاں بیوی کا ہے۔اسی  رشتے کی بنیاد پہ دنیا کے باقی رشتے اور نسلیں وجود میں آئیں ہیں ۔ یوں اس رشتے کی اہمیت و افادیت سر فہرست ہے۔دنیا کا ہر رشتہ اسی رشتے سے منسوب ہوتا ہے اور یوں بیوی سے ماں اور ماں  سے  ساس تک کا سفر چلتا رہتا ہے۔ ہر رشتہ اپنے رتبے ،وقار اور عزت واحترام کا حامل ہے۔ کوئی بھی ایک رشتہ باقی رشتوں کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا۔

ہر رشتہ اپنا ایک الگ اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔ماں کے رشتے کو جنت سے منسلک کیا گیا ہے اور باپ کو جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔  بیٹی کو باعث رحمت اور بیٹے کو باعث برکت بنا کے بھیجا گیا ہے۔ یوں نسل در نسل رشتے اپنی حثیت برقرار رکھتے ہیں اور ان  کے عہدے میں کسی بھی تبدیلی کی گنجائش ممکن نہیں۔

ماں کے رشتے کو سب سے مقدم رکھا گیا ہے اسے ”  کل کائنات” کے لقب سے نوازا گیا ہے۔اور اس رشتے کی تلافی  پورا جہاں متحد ہو کر بھی نہیں کر سکتا۔ باپ کو “تاج کا ئنات ” کہنے میں ذرہ
برابر بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔ بھائی کو “ڈھال” اور ” محافظ” سے تشبیہ دیا گیا ہے۔ بہن کو عزت و حیا کی پاسداری کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔مندرجہ بالا تمام رشتے عارضی ہیں اور ان کا وجود دنیا تک ہی محدود ہے۔

ایک واحد رشتہ میاں بیوی کا ہے جن کا ساتھ اس جہاں سے دوسرے جہاں تک ہے۔ اس دنیا کی بنیاد رکھنے والا یہ رشتہ اللہ تعالی کی نظر میں سب سے ذیادہ پسندیدہ،مقدس،پاکیزہ  اور محبوب ہے۔اس رشتے میں جڑنے کے بعد ہر مرد وعورت کے اعمال کا پلہ اور بھی بھاری ہو جاتا ہے۔
مرد وعورت کا رشتہ ایک سفر ہے جس کا اختتام منزل مقصود ہے۔ دوران سفر ہر قسم کی مشکلات،مصائب،رکاوٹوں اور آزمائشوں سے گزرنا ہے۔خوشی میں خوش اور دکھ میں ایک دوسرے کا ہمدرد بننا ہے، مشکل میں ساتھ،آزمائش میں صبر کا پیکر،تکلیف میں ذریعہ دعا اور دوا، پریشانی میں راحت اور تنگدستی میں شکر کا اعلی نمو نہ پیش کرنا ہے۔

اس رشتے کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے جو من  کو ڈھکنے کیساتھ ساتھ  ہمارے تن کی خامیاں بھی ڈھانپ دیتا ہے بلکل اسی طرح یہ رشتہ ایک دوسرے کے عیب اور رازوں کو پوشیدہ رکھنے کا حامی ہے۔ قرآن اور دین اسلام میں اس کے حقوق وفرائض کو متعین کیا گیا ہے۔ ایک کا حق دوسرے کا فرض بنتا  ہے اور یوں ان کے حقوق و فرائض کوواضح کر دیا گیا ہے۔ اگر ایسا کہا جائے کہ  اس رشتے کی اہمیت و عظمت کو  کوئی قلم بند نہیں کرسکتا تو ایسا کہنے میں کوئی  گستاخی نہیں۔

ملال و غم  تو اس بات کا ہے  کہ خدا کا یہ “محبوب ترین” رشتہ ہر گزر تے دن کے ساتھ  اپنے وقار کو پامال کرتا جا رہا ہے اور خود کو خدا کی نا پسندیدہ اعمال کی صف میں لا کھڑا کر دیا ہے۔ معاشرے کی بنیاد رکھنے والا یہ رشتہ آج تباہی کے دھانے پہ کھڑا ہے۔ مغربی نظام کا گرویدہ ہو کر یہ رشتہ اپنی عظمت ورتبے  کو کھوتا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں بھی فیملی سسٹم برباد ہوتا جارہا ہے.

دین اسلام کے مقرر کردہ حقوق و قوانین میں یہ رشتہ خود کو ایک پنجرے میں جکڑا ہوا محسوس کر رہا ہے۔آج کی بیوی،اسلام کے لاگو کئے گئے قوانین کو نظر انداز کر کے وہی آزادی اور خود مختاری چاہتی ہے جو مغربی عورت کی اولین ترجیح ہے۔اسلام کے عین مطابق زندگی گزارنا اس ( بیوی) کے لیے ایک “قیدی” اور ” خریدی ہوئی لونڈی” کے معنی رکھتا ہے۔

گھر کی چاردیواری میں مقیم رہنا،اپنے تن من کو پوشیدہ رکھنا، بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریاں وہ وجوہات ہیں جو اس کی شخصیت پہ بدنما داغ کا اثر رکھ رہے ہیں۔آج کی بیوی، بیوی بن کے نہیں بلکہ ” مس ورلڈ ” کی طرح زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ شوہر اگر پردے کی تلقین کے تو اسے اس کی “تنگ نظری” اگر ساس ،سسر کی خدمت گزاری کا کہے تو خود کو”نوکرانی” بازار کے حسن و نما ئش سے اجتناب کا کہے تو خود کو “قیدی” بچوں کی تربیت پہ خود کو “ایا”اور “گورنس” سے تشبیہ دیتی ہے۔شوہر کی تھوڑی سی سختی اور اصلاح کو جبر وتشدد کے ضمرے میں گردانتی ہے۔ اپنی آزادی و عیاشی کے لئے مرد کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر نے میں بلکل بھی نہیں گھبراتی۔ اپنی  نفسانی خواہشات اور وقتی سکون کے لئے خلع کے مطالبے کے لئے عدالت سے رجوع کر رہی ہے۔ آئے دن اسائشات ،خواہشات اور لگثری لائف کی ڈیمائنڈز ایک کم آمدن شوہر کو خودکشی اور جرائم کی دنیا کی طرف دھکیل رہی ہے۔
دور حاظر کی بصیرت اور مشاہدہ کا نچوڑ یہ ہے کہ “آج کی بیوی ،شوہر پہ غلبہ پارہی ہے”.

آخر اس غلبے کے اسباب کیا ہیں؟
مخلوط تعلیم،مغربی نظام کی کشش، غلط سوسائٹی، بے حیائی پہ مبنی ڈرامے اور میڈیا کی ذاتی معاملات میں بے جا دخل اندازی سامنے اتی ہیں۔
مختصراً ، آج کی بیوی کو شوہر نہیں “الہ دین کا چراغ ” چاہیے جسے رگڑتے  ہی جن حاضر ہو اور تمام احکام کی  بجا اوری ہو۔
اب ذرا آج کے شوہر کو تحریر میں لاتے ہیں،تمام خواہشات سے بالا تر خواہش یہ ہے کہ اسے بیوی نہیں “پرائز بونڈ” چاہیے جسے وہ خزانے کی چابی کے طور پہ استعمال کر سکے۔ بدقسمتی سے اگر “پرائز بونڈ” سے محروم رہ جائے تو اس کے طنز وتیر آنے والی کے لئے تاحیات جلاد کا روپ دھار لیتے ہیں۔ آج شوہر، شوہر نہیں  “کنگ آف کنگز” بننا چاہتا ہے ۔حکم عدولی پہ وحشی درندگی پہ اتر آتا ہے۔ حد سے ذیادہ سختی، بلاوجہ کی پابندیاں، اپنے فرائض میں کوتاہی،ذہنی و جسمانی تشدد کیوجہ سے بیوی یا تو “باغی” بن جاتی ہے یا اپنی زندگی ختم کرنے پہ امادہ ہو جاتی ہے۔
تاریخ بشر اس حقیقت کی گواہ ہے کہ باقی رشتوں کی بہ نسبت اس رشتے میں اللہ تعالی نے اپنی صفات پیدا کی ہیں۔

عورت کو ماں کا درجہ دے کر خود کی طرح “رحم گوئی” کے احساس سے اس کے دل کو منور کیا ہے۔ رب کائنات کی تخلیق کی کی گئی ہر شے میں اس کی جھلک نظر آتی ہے لیکن وہ خود پوشیدہ ہے اسی لئے عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرد کو اللہ تبارک و تعالی نے اسی صفت سے نوازا ہے جس کی نفی کرنے کو “شرک عظیم” کہا گیا ہے اور وہ ہے شراکت۔ اللہ تعالی خود بھی شراکت برداشت نہیں کرتا اسی طرح مرد کے نکاح میں بھی شراکت کی جگہ نہیں بچتی۔

ماحاصل یہ ہے کہ بیوی اللہ تبارک و تعالی کی عظیم نعمت ہے۔ بیوی کی سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے شوہر کے گھر اتی ہے،اسی لئے شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کی قربانیوں اور صفات پہ نظر رکھے اور زندگی کے ہر موڑ پہ اس کا ساتھ دے، اسی طرح بیوی کا  فرض ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے اور زندگی کی مشکلات میں اسکا ساتھ دے اور اسکی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرے۔

قران وسنت کے عین مطابق زندگی گزاریں بیوی اور شوہر کو چاہیے کہ وہ امھات اللمومنین اور او نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں ازدواجی زندگی بسر کریں تاکہ ایک مثالی معاشرہ کا بقا جاری رہے. سماج کے ان رستے ہوئے مسائل پر آیندہ مستقل لکھا جائے گا. خواتین کے حقوق فرائض بھی آسان بھاشا میں اپنی بہنوں کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے اور شوہروں کے حقوق و فرائض سے بھی انہیں آگاہ کیا جائے گا. اسلام اور مشرقی فیملی سسٹم اور اس کی افادیت و اہمیت اور اس کے بقا کے وجوہات سے بھی آپ کو مطلع کیا جائے گا اور مغربی فیملی سسٹم کی تباہی اور اس کے بد اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا. آپ پڑھیں اور اپنے فیڈ بیک سے آگاہ کیجیے. آپ کی حوصلہ افزائی اور فیڈبیک ہمارے لیے مزید لکھنے کے لئے کی طرف راغب کرے گا. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر رہے. آمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
68453