”موضوع نو“ ………….”دو چترال “……….تحریر :شفیق احمد
چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کی نوٹیفیکشین جاری ہونے پر ، واقعی اچھی خبر سننے کو ملی ۔۔۔۔۔ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اسی تاریخی فیصلے پر انکا شکریہ اداکرتا ہوں اور چترال کے مقامی راہنماوں کی دانشمندانہ طریقے سے چترال کے دیرینہ مطالبے کی طرف توجہ مبذول کراکر اس سے پایہ تکمیل تک پہنچانے پر اور خصوصی طور نوجوان، پر عظم اور مخلص اقلیتی ایم ۔پی ۔اے وازیر زادہ صاحب کی خصوصی دلچسپی لینے پر اور اسی کارواں میں شامل ان تمام کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انکو مباکباد بھی پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی تحریک انصاف کی حکومت نے دو اضلاع کی پرانی حیثیت کو بحال کرکے، منصفی کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔۔۔۔۔ یقینا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع کو تقسیم کرنے سے عوام کو سہولیات ان کے دہلیز پہ میسر انے کے ساتھ ساتھ روز گار اور کاروبار کے بے شمار مواقع بھی پیدا ہونگے ، اسی تاریخی فیصلے سے عوام کو وقت کے ضاٸع نہ ہونے اور پیسوں کی بچت کی شکل میں بہت جلد اس کے ثمرات ملنے شروع ہو جاٸینگے۔۔۔۔۔۔۔ایک وقت ایسا بھی اٸے گا دروش کو بھی ضلع کا درجہ حاصل ہوگا اور بحیثیت چترالی قوم چترال نام پر اتحاد واتفاق کو قاٸم رکھ کر ہی چترال ڈویژن کا بھی مطالبہ کرینگے ۔۔۔۔۔۔ ہم بے شک انتظامی لحاظ سے دو لخت ہو گٸے ہیں لیکن باطنی لحاظ سے ہم ایک ہی قوم ہیں ۔جس سے تاریخ ”چترالی قوم “ کے نام سے یاد رکھے گی ۔۔۔۔ اور یہی نام ہمیں اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ کیونکہ ہم دنیا کی انتہاٸ مشکل ترین خطے میں اباد باشندے ہیں۔ہمیں ملک کے دیگر باشندوں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لٸے کچھ زیادہ جتن کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اسی لٸے منافرت پھیلا کر فاصلے پیدا کرنے والے حربوں سے باز رہنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ کیونکہ جب دو بھاٸ الگ گھر بنا کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں، تو اپنی پدری گھر کو چھوڑنے والا بھاٸ کچھ زیادہ پریشان ہوگا کیونکہ نٸے گھر میں منتقل ہونے والےکو دلاسہ دینے کے لٸے چترالی روایت کے مطابق اس کی دلجوٸ کرتے ہیں، انکے لٸے تخفے تخاٸف لے اتے ہیں ،اس کو دلاسہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے اپنے گھر کو نٸے سرے سے اباد کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور گاوں کے باشندے ہر گز اس پر تماشہ ، طعنہ یا کسی قسم کی دل ازاری والی بات اور دلخراش جملوں کا تبادلہ نہیں کرتے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔ ویسے ہی کھو قوم کی حکومت پہلے بھی چترال میں رہ چکی ہے، ابھی بھی اسی قوم کی اثررسوخ اس لٸے قاٸم رہے گی کہ ٹاون چترال اور دیگر علاقوں میں، سب سے بڑی جاگیریں کھو قوم کے پاس ہیں ۔۔۔ ان میں ایوبیہ خاندان، مہتر چترال ، اتالیق کا خاندان ، راٸین قاضی کا خاندان ، راٸین چارویلو کا خاندان ، میمون بیگ پینین شوے کا خاندان ،چھیر برار سنگور کا خاندان ،خواجہ قوم ،ہندوکش ہاٹیٹس ہوٹل کے مالک شھزادہ سراج الملک صاحب کے علاوہ اویری ، کشمی ،مداکیچی ، نیشکیچی ، تیریچ ، کہوتیک ،مہڑپیک ، اجنیک ، ریچیک ،تور کھو ،موڑکھو مستوج کےعلاقوں سے اباد باشندے لویر چترال میں کھو قوم کی ثقافت کوقاٸم رکھنے اور اسے ترقی دینے کے لٸے کافی ہیں۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ زیریں چترال کی کھوثقافت پر تین قسم کے بیرونی قوموں کی تہذیبی و ثقافتی اثرات سنگین خطرے کے باعث بن جاٸینگے ۔۔۔۔۔۔۔ لواری ٹنل کے کھلنے کے بعد کاروباری حضرات اور چترال سے باہر بڑی تعداد میں شادی بیاہ کی وجہ سے امدو رفت میں اضافہ ہوگا اسی بنا پر نت نٸے رسوم رواج کھو کلچر کو اپنی لپیٹ میں لے کر غیر محسوس طریقے سے سراٸیت کرتی جاٸے گی اور بے شمار قسم کی تبدیلیاں رونما ہونگے اور اسی بنا پر ہم اپنی شناخت کو کھو بیٹھیں گے ۔۔۔۔۔۔ اس کے لٸے چترال میں قدیم ایام سے اباد کھو قوم ، کیلاش قوم گواربتی ، دامیلی ، پلولا ،گجر قوم اور قدیم اباد پشتون قومیتوں پر مشتمل مشترکہ تنظیم بنا کرکوششیں کرنے کی ضرورت پڑے گی أج سے پہلے ہمارا مرکز چترال تھا اسی وجہ سے چترال کے طول وعرض سے ہم مختلف بہانے سے اکٹھے ہوتے تھے أج کے بعد نصف ابادی بونی میں اکٹھی ہوجاٸے گی کیونکہ اسے چترال انے کےلٸے سو مرتبہ سوچنا پڑے گا کیونکہ یہاں پر اس کا کوٸ کام نہیں ہوگا لہذا ہمیں اکٹھا ہونے کے لٸے ایک مشترکہ تنظیم بنانے کی ضرورت پڑے گی تاکہ ہم اسی بہانے اکٹھے ہو کر اپنی پیاری خالص چترالی روایات و ثقافت اور شناخت کو قاٸم رکھنے کے ساتھ ساتھ، ہمیں چترال کی تعمیر وترقی کے لٸے بھی مشترکہ کوششیں کرنےمیں اسانی پیدا ہو گی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔