موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کیلئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت – تحریر:عبداللہ شاہ بغدادی
موسمیاتی تبدیلیاں اس وقت پوری دنیا میں نہ صرف حکومتوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ پہلے دس ممالک میں آتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں میں گلیشیئر پگھلنے، خشک سالی اور سیلاب کے واقعات شامل ہیں۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والے جرمنی کے ایک ادارے نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے۔ گزشتہ روز ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے غیر سرکاری تنظیم سائبان ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن صوبہ خیبر پختونخواکے سیلاب متاثرہ ضلع مردان میں ایک کمیونٹی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جس کا مقصد بدعنوانی کے خلاف آگاہی پیدا کرنے، کلائمٹ گورننس کو بہتر بنانا اور فیصلہ سازی میں مقامی آبادیوں کو بااختیار بنانا تھا۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی پروجیکٹ کوآرڈینیٹر نسرین میمن نے مردان میں کلائمٹ چینج کے اثرات پر گفتگو کی اور اس سے مقامی آبادیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں بتایا کہ کس طرح مقامی آبادیاں ان خطرات سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کر سکتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایکٹ کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں کے اداروں کو فعال، بااختیار بنایا جائے، موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے تناسب سے موسمیاتی بجٹ میں رقم مختص کرنی چاہیے، موسمیاتی فنانسنگ پر اوپن ڈیٹا بیس کا قیام عمل میں لایا جائے، جب کہ کلائمیٹ گورننس کی سالمیت کو بڑھانے کے لیے عالمی طریقوں کا استعمال کیا جائے۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے، اور یہ کام صرف حکومت اور سرکاری اداروں نے ہی نہیں کرنا بلکہ اس سلسلے میں عوام نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔
علاوہ ازیں، مشینوں اور گاڑیوں وغیرہ میں ایندھن کے جلنے اور دھوئیں سے ماحول پر جو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ان سے متعلق حکومت کو واضح اور ٹھوس پالیسی بنانی چاہیے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرانا چاہیے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کو جس حد تک ممکن ہوسکے قابو کیا جائے۔اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زمین کے موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سیپاکستان کے درجہ حرارت میں ا ضافہ ہورہا ہے،درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں، جب گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نتیجتاً آس پاس کی آبادیوں میں سیلاب آجاتا ہے جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔یہ گلیشیئرز ملک میں پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کرتے ہیں، لیکن جب بہت سا پانی ایک ساتھ آجاتا ہے تو وہ اسٹور نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے پہلے سیلاب آتا ہے، اور بعد میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2040 تک پاکستان کی دو تہائی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہوگی۔کلائمٹ چینج ہماری زراعت کو بھی بے حد نقصان پہنچا رہا ہے، غیر متوقع بارشوں اور گرمی سردی کے بدلتے پیٹرنز کی وجہ سے ہماری فصلوں کی پیداوار کم ہورہی ہے جس سے ہماری فوڈ چین پر اثر پڑ رہا ہے۔ماہرین کے مطابق کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی فہرست اور ان کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کلائمٹ چینج دنیا میں تیسری عالمی جنگ کو بھی جنم دے سکتا ہے جس کی بنیادی وجہ غذائی قلت اور قحط ہوسکتے ہیں۔ہمیں ماحول کے تحفظ کے لیے پوری کوشش کرنے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے اور بڑھتی ہوئی آلودگی پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائے جائیں۔