موروثی سیاست جمہوریت ہی ہے ………تحریر: ظفر احمد
مملکت خداداد میں ابتدا ہی سے عوام دشمن عناثر جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈوں میں مصروف ہیں۔ جن میں سے ایک نہایت ہی شاطرانہ پروپیگنڈا یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر بدبودار موروثیت رائج ہے جس سے عوام تنگ ہیں۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت اس کے برعکس ہے؛ ہمار ہاں رائج موروثی سیاست نہ صرف عوام دوست ہے بلکہ جمہوری ارتقاء کی اعلی شکل بھی ہے۔
.
موروثی سیاست کوئی غیر قانونی چیز نہیں ہے کیونکہ قانون تو عوام کے نمائندے بناتے ہیں اور پارٹی کا سربراہ پارٹی کے نظریاتی لوگ۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کے نظریاتی لوگوں نے مخدوم فہیم، رضا ربانی، اعتزاز احسن وغیرہ جیسے غیر جمہوری قوتوں کو پیچھے دھکیل کر بلاول زرداری کو پارٹی کا تاحیات چیرمین بنا دیے۔ فریال تالپور کی بھی یہی کہانی ہے۔ اس طرح مریم نواز اور ہمزہ شہباز کو بھی ن لیگ کے نظریاتی لوگوں نے منتخب کیے ہیں نہ ان کے پاپا نے۔ مغربی ممالک سے جسٹن ٹروڈیو، بش جونیر اور ہیلری کلنٹن کی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں، جو موروثی سیاسی جمہوریت کے زریعے آئے۔ البتہ بلاول اور مریم کے برعکس انھیں ان کے بالترتیب پاپا اور شوہر نے عوام پر دستخط کے زریعے مسلط کیے تھیے ورنہ جسٹن ٹروڈیو، بش جونئر اور ہیلری کلنٹن کی پارٹی اور سیاست میں کوئی خدمات نہیں تھیں۔ انڈیا کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جہاں کانگریس کے موروثی جمہوریت میں معاشی ترقی کی شرح 7 جبکہ اب مودی کی آمریت میں محض 4 کے قریب ہے۔
.
بلاول، مریم اور حمزہ کی سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کی مثالیں تاریخ میں چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ بلاول نے سیاسی جدوجہد ماں کے پیٹ میں ہی شروع کی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے خون میں بھی ابتدا ہی سے سیاست ہی گردش کرتی رہی ہے۔ پیدائش کے بعد تو ان کی زندگی سیاسی لیبارٹری رہی ہے، ان کے ماں کے دودھ میں بھی سیاسی وٹامنز تھے، جس بوتل سے وہ دودھ پیتے تھے وہ بھی سیاسی مواد سے بنی تھی۔ الغرض ان کے اٹھنے بیھٹنے، کھانے پینے ہر چیز یہاں تک کہ ماں کے پیار، باپ کی ڈانٹ اور پھوپھی کے روعب میں بھی سیاست ہی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے خود کہی تھیں کہ سیاست ان کے بچوں کی خون میں ہے۔
.
یہی بلاول بے مثال سیاسی تربیت و تجربے کے بعد سیاست کی تھیوری پڑھنے کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔ جمہوریت کش لوگ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ انھیں ماں کی وصیت کے مطابق چیرمین بنا دیا گیا، یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ وصیت نامہ میں یہ لکھا تھا کہ پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبران کی طرح بی بی شہید کا بھی ایک ہی ووٹ تھا اور مرنے کی صورت میں ان کا ووٹ زردادری صاحب استعمال کر سکتے تھے ۔یوں زرداری صاحب نے بی بی شہید کا ووٹ استعمال کیے۔ اس کے باوجود بلاول کا اصرار تھا کہ کسی بوڑھے کارکن کو چیرمین بنایا جائے۔ بلاول کو قائل کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا، جس کے مطابق بلاول کے جینس میں دوسروں کے مقابلے میں سیاسی جراثیم ہزار گنا زیادہ تھے۔
.
یہی حال مریم نواز اور حمزہ شہباز کا بھی ہے۔ جنھوں نے سیاسی جدوجہد تب شروع کی تھیں جب ان کے پاپا جنرل ضیاالحق سے سیاست سیکھتے تھے۔ جنرل صاحب میاں برادران کو سیاست سیکھاتے تھے اور وہ گھر آکر اپنے بچوں کو۔ جمہوریت کش قوتوں کے ہاتھوں قیدِجمہوریت میاں صاحب کی معزولی کے بعد بڑے سوچ بچار کے بعد جب پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے جمہوریت کی کمان مریم نواز کے ہاتھ میں دے دی تو مریم نے فوراً جاوید ہاشمی اور پرویز راشید کے نام تجویز کیے۔ بڑی مشکل سے مریم اور حمزہ شہباز کو قائل کیا گیا کہ یہ نہ صرف پارٹی کا بلکہ بیس کروڑ عوام کا بھی فیصلہ ہے۔
.
جمہوری سیاست میں میرٹ کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ انھی عوام نے مریم، بلاول اور شہباز کو تاحیات ملک کے دو بڑی جمہوری جماعتوں کے لیے لیڈر چنے ہیں۔ کیونکہ عوام کو پتہ ہے کہ سیاست کسی تک سیکھی تو جا سکتی ہے مگر سیاست کے گُر اور لیڈرشپ کا حق قدرت نے موروثیت میں ہی رکھا ہے۔ یہ عوام بھی بڑے باشعور اور چالاک ہوتے ہیں خود ساری زندگی سب سے آسان کام یعنی ووٹ دیتے ہیں جبکہ ووٹ کے زریعے بیچارے بلاول اور مریم جیسے لوگوں سے دن رات اپنی خدمت کرواتے ہیں۔ یہی نہیں جلسوں میں جا کر مفت میں بریانی اور قیمے والے نان کے بھی مزے لیتے ہیں۔ کچھ زیادہ ہوشیار ووٹ کے وقت پیسے بھی وصول کرتے ہیں۔ یوں خدمت بھی ہوتی ہے، مفت میں کھانا بھی ملتا ہے اور زندگی بھی سکون سے بسر ہو جاتی یے۔
.
بلاول اور مریم اپنی زندگی عوام کے لیے جینا کا فیصلہ کر چکے ہیں اور عوام بھی عقیدت سے مرے جا رہی ہیں۔ ایسے میں عوام دشمن طاقتیں پروپیگنڈہ پھیلار رہی ہیں کہ ن لیگ اورپیپلز پارٹی کے قائدین جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ کر خاندانی آمریت قائم کر رہے ہیں۔ اوپر سے قوم کا پیسہ لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنا رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، ہمارے ہاں کے سیاستدان عوام کا پیسہ نہیں بلکہ اپنے ذاتی پیسے عوام پر خرچ کر رہے ہیں۔ اب دیکھیے سرمایہ درانہ جمہوریت میں سیاست کرنے کے لیے مال دار ہونے کی شرط ہے، ہمارے عوام غریب ہیں جمہوریت پر خرچ کرنے کے لیے پیسے کہان سے لائیں گے؟ اسلیے سرمایہ دار عوام کی خاطر الیکشن میں پیسے بھی اپنے لگاتے ہیں۔
.
اب اتنی قربانیوں کے باوجود بھی اگر کوئی موروثی سیاسی جمہوریت کے خلاف پرپیگنڈہ کر رہا ہے تو انھیں اکسپوز کرنا فرض ہے۔ یہ کام تو صرف ہمارے لبرلز ہی کر سکتے ہیں، جو وہ دن رات کر رہے ہیں۔ یہ جودجہد تو جاری رہے گی مگر موروثی جمہوری انقلاب کے راستے میں ہمارے ہاں روکاوٹیں بہت زیادہ ہیں، اسلیے لبرلز تبلیغی جماعت کو مغربی ممالک بھیجنا ضرروی ہے تاکہ وہ وہاں موروثی جمہوری انقلاب لائیں گے اور پھر وہی سے ہمارے ہاں کے جمہوریت کش طاقتوں سے نمٹا جائےگا۔