منفی سوچ اور چلاس؟ میں حیران ہوں!……عبدالکریم کریمی
’’آج کے حادثہ پر کچھ لکھو نہ۔ اور چلاس کے لوگوں کے بارے میں کہ انہوں نے کیسا رویہ اختیار کر لیا ہے۔ منفی سوچ تو ہمیشہ دیکھتے رہتے ہو۔ چلاس کے لوگوں بارے میں۔‘‘
میری گزشتہ تحریر پر گلابی اردو میں انتہائی بازاری زبان میں لکھا گیا یہ تبصرہ مجھے کل اپر ہنزہ سے واپسی پر عطا آباد جھیل کے پاس موصول ہوا۔ تھوڑی دیر کے لیے تو میں حیران ہوا۔ میں اور منفی سوچ اور وہ بھی چلاس کے بارے میں؟
ایک اور صاحب نے مجھے انباکس کیا ہے ’’آپ کہاں ہیں کریمی صاحب! ہم نے مریضوں کو سنبھالا، خون کے عطیات دئیے۔ آپ خاموش کیوں ہیں؟‘‘
پھر ایک صاحب کچھ زیادہ ہی تپے ہوئے تھے، کہنے لگے ’’آپ کو ہماری بسیں جلانا تو نظر آیا لیکن مریضوں کی دیکھ بھال نظر نہیں آئی۔ شرم آنی چاہئیے۔‘‘
ایک بندہ جو فوجی بھائیوں کا کچھ زیادہ ہی خیر خواہ نظر آرہا تھا، لکھا تھا ’’ہم پر نہ لکھو لیکن جنرل صاحب پر تو کچھ لکھتے۔ نظر نہیں آیا جنرل کی گود میں زخمی۔‘‘
پھر ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی نے لکھا تھا ’’یہ جنرل نہیں فرشتہ ہے۔‘‘
ان کمنٹس کو دیکھ کر دل نے چاہا کہ عطا آباد جھیل میں ڈوب جاؤں۔ پھر فکر ہوئی کہ دیسی دانشور پھر سرگرم ہوں گے کہ غذر والے خودکشی کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات کی کمی ہے وغیرہ وغیرہ۔
میں ڈوبنا کیوں چاہتا تھا کہ جس سماج کے پڑھے لکھے لوگ ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کے آفیسروں کے سامنے سرتسلیم خم کریں، سیاست دانوں کے تلوے چاٹنے کو اعزاز سمجھے اور کسی جنرل کے ساتھ فوٹو سیشن کرکے سال بھر وہی فوٹو سوشل میڈیا پر آن ائیر کرے کہ دیکھیں ہمارے کتنے اونچے تعلقات ہیں تو وہاں عسکری سمینٹ، ڈی ایچ اے کا ٹھیکہ، دکانیں، مارکیٹیں، موبائل کمپنی (سینگلز نہ آئے، مسلہ نہیں۔ آپ جہاں ایس کام وہاں۔) اور اس طرح کی دیگر حیرتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمیں اپنی فوج سے پیار ہے، فوج ہماری شان اور مان ہے۔ کیونکہ ہر مشکل وقت میں جہاں ہمارے سیاستدانوں کو حاضر ہونے چاہئیے وہاں سب سے پہلے فوج پہنچتی ہے اور جنرل احسان محمود صاحب تو جنرل سے زیادہ ایک اچھے انسان ہیں۔ اس لیے بھی ہمیں ان پر فخر ہے۔
لیکن ان تصاویر کا مطالعہ اور کچھ لوگوں کا مجھ سے اس ایشو پر لکھنے کے لیے بار بار کا اصرار یہ بتاتا ہے کہ ہم شاید ذہنی طور پر فی الحال پستی میں ہیں۔ میں ایسے ایشوز پر بہت کم لکھتا ہوں۔ ایک آدھ تحریریں جو دیامر کے دوستوں کے اصرار پر لکھی تھیں کہ جن کے بعد مجھ پر الزام ہے کہ مجھے دیامر کی اچھائی نظر نہیں آتی۔ اب کی بار تو میں اس ایشو پر بالکل لکھنا نہیں چاہتا تھا ایک تو میری صحت ان دنوں ٹھیک نہیں دوسری بات یہ کہ میرے نزدیک یہ کوئی خبر نہیں۔
صحافت کی رو سے اصل خبر یہ نہیں کہ کتے نے آدمی کو کاٹا، اصل خبر تو یہ ہے کہ آدمی نے کتے کو کاٹا۔ کیونکہ انہونی چیز خبر ہوتی ہے۔ یہاں کیا انہونی تھی؟ زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا؟ خون کا عطیہ دینا؟ یا ان لاشوں کو سنبھال کے متعلقہ علاقوں کو روانہ کرنا؟ یہ سب تو انسانیت کی نشانی ہے جوکہ ماشااللہ دیامر کے عوام نے کیا۔ اس کے برعکس اگر کچھ ہوتا تو وہ خبر بنتی کہ ایسا کام تو انسانیت کی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اس دفعہ تو بہت اچھا ہوا، انسانیت کا درس دیا گیا۔ زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا، خون کا عطیہ دیا گیا، سو، ہماری جانب سے اہالیانِ دیامر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
جاتے جاتے صرف اتنا کہنا ہے کہ کاش! سوشل میڈیا پر لاشوں کی تصاویر اپلوڈ نہیں ہوتیں، پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ انسانی لاش کی توہین ہے۔ کاش! اس فرمانِ نبیؐ کو ہی زادِ راہ بنایا جاتا، کاش! خون کا عطیہ دینے والوں کا فوٹو سیشن نہ ہوتا، کاش! جنرل صاحب ہی منع کرتے کہ ان زخمیوں کے ساتھ میری تصویر نہ کھینچی جائے، کاش! ہم اپنے ایک ہاتھ سے کچھ ایسا نیکی کرتے کہ دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چل جاتا۔ کیونکہ ریاکاری کی عبادت اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیبؐ کو بالکل پسند نہیں۔ اور کاش اے کاش! یہ مجھے ہی تنگ نہ کرتے، حالانکہ ان دنوں میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے، میری عیادت نہ کرتے کوئی مسلہ نہیں لیکن بدتمیزی تو نہ کرتے اور میں حیران ہوں کہ یہ احباب آخر مجھ سے سرٹفکیٹ لے کر کیا کرنا چاہتے ہیں۔
میری مجبوری یہ ہے کہ میں گناہ اور گنہگار دونوں سے شدید نفرت کرتا ہوں خواہ ان کا تعلق جہاں سے بھی ہو۔ باقی دیامر ہو یا غذر، ہنزہ ہو یا نگر، استور ہو یا سکردو، خپلو ہو یا شگر یا یوں سمجھیئے کہ پورے گلگت بلتستان کی مٹی میری آنکھوں کا سرمہ ہے۔ جس پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئیے۔
میری دُعا ہے کہ اللہ پاک حادثے میں جان بحق مرحومین کی کامل مغفرت فرمائے، زخمیوں کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور اس سانحے کے دوران خدمات انجام دینے والے دیامر کے ہمارے بھائیوں کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین!
و ما علینا الا البلاغ المبین۔