Chitral Times

Jan 16, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مقام عبرت – تحریر:اقبال حیات اف برغذی

شیئر کریں:

مقام عبرت – تحریر:اقبال حیات اف برغذی

معاشرتی زندگی میں بعض ایسے واقعات کا تذکرہ ہوتا ہے جواپنی نوعیت کے اعتبار سے اگرچہ مکروہات پر مبنی کیوں نہ ہوں مگر وہ انسانی عقل وخرد کو جلا بخشنے اور زندگی گزارنے میں رہنمائی کا کردار ادا کرنے کے حامل ہوتے ہیں۔ اس قسم کی کیفیت پر مبنی ایک خوبصورت واقعے کو اگر مثال کے طور پر پیش کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔

ایک شیر،بھیڑیا اور ایک لومڑی ایک ساتھ رزق کے تلاش میں نکلتے ہیں۔جنگل کو چھان مارنے اور جان بلب ہونے کے بعد ایک ہرن کے ساتھ ایک خرگوش کا شکار انہیں نصیب ہوتا ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ایک بیل بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ تینوں شکار شدہ جانوروں کو ایک جگہ رکھنے کے بعد شیر بھیڑے سے ا ن کی تقسیم کا تقاضا کرتا ہے۔بھیڑیا خوشی سے پھولا نہ سماتے ہوئے بڑے ہونے کی بنیاد پربیل شیر کو دینے ہرن کو اپنے نام اور خرگوش کو لومڑی کے لئے مخصوص کرتا ہے۔شیرا س تقسیم پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بھیڑیا کو بے ادب بے شرم اور بے حیا قرار دیکر ایک زور دار تھپڑ مارنے پر بھیڑیا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اور لومڑی کی طرف رخ کرتے ہوئے کہتا ہے “چلو یار اب تمہارے امتحان کا وقت آگیا۔ تم ان جانوروں کی تقسیم کو کیسے عمل میں لاو گی” لومٹری انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ کہتی ہے کہ “عالیجاہ بیل کا گوشت ابھی تناول فرمائیں ہرن کوشام اور خرگوش کو ناشتے کیلئے رکھ دیجیئے۔ مجھے ان کی انتھڑیان اور ہڈیان مل جائیں تو اکتفا کروں گی۔

 

شیر خوشی کا اظہارکرتے ہوئے لومڑی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ تم نے یہ ادب اور رواداری کس سے سیکھی ہے۔جواب میں لومڑی دم ھلاتی ہوئی ذرافاصلے پر جاکر اپنا سر پاوں پر رکھتی ہوئی عاجزانہ انداز میں جواب دیتی ہے کہ حضرت میری آنکھوں کے سامنے بھیڑے پر بیتنے والے واقعے سے مجھے یہ درس ملا کہ بادشاہوں کے سامنے خود غرضی کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔شیر اسے شاباشی دیتے ہوئے تینوں شکار ان کو انعام کے طور پر مرحمت کرتے ہوئے اپنے لئے کسی اور شکار کی تلاش میں نکلتا ہے۔

 

شیر کے جانے کے بعد لومڑی اپنا سر سجدے میں رکھتی ہوئی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتی ہوئی کہتی ہے کہ اگر پہلے مجھے تقسیم کے لئے کہا جاتا تو میں بھی جسمانی کیفیت کی بنیاد پر تقسیم کرتی اور میرا انجام بھی بھیڑیا جیسے ہوتا۔اس واقعے سے دو قسم کے اخلاقی سبق حاصل ہوتے ہیں۔اول یہ کہ ہمیں اپنے رب کریم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں اخری امت کی حیثیت سے نوازا۔اور ان اعمال بد سے اپنے عظیم پیغمبرکے ذریعے ہمیں روشناس کیاجن کے ارتکاب کیوجہ سے سابقہ امتیں قہر خداوندی کا شکارہوگئیں۔ اور موجودہ امت میں اگر کوئی بد بختی سے ان بدکرداروں کا مرتکب ہوجائے تو پیغمبر کی دعا کے طفیل ان کی سزا قیامت کے لئے موخرکردی گئی۔

 

دوسرااخلاقی پہلو یہ ہے کہ خود غرضی یعنی اپنی ذات تک سوچ کو محدود رکھنے سے بے قدری اور محرومی سے واسطہ پڑنا یقینی امر ہے۔اور جس کام کو بیغرض اور خلوص کے ساتھ روبہ عمل لایا جائے تو اس سے سرخروئی او رکامیابی کا ثمر حاصل ہوتا ہے۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96980