معلومات اور علم – خاطرات: امیرجان حقانی
معلومات اور علم – خاطرات: امیرجان حقانی
یہ طلبہ بھی بڑے کمال کے ہوتے ہیں! بعض دفعہ ایسے سوالات پوچھتے ہیں کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک طالب علم نے سوال داغا کہ علم اور معلومات میں کیا فرق ہے؟ اور مثالوں سے وضاحت کرنے کا ڈیمانڈ بھی کرلیا۔
تو عرض کیا کہ دنیا معلومات اور حقائق سے بھری ہوئی ہے، لیکن وہ جو انہیں معنی و مفہوم، مقصد اور عمل کی شکل دیتا ہے، وہ علم ہے۔
معلومات محض اعداد و شمار ہیں۔کس نے کیا کہا، کہاں ہوا،، کب ہوا، یا کیا موجود ہے۔ لیکن علم وہ روشنی ہے جو ان معلومات کو ترتیب دے کر زندگی کا حصہ بناتی ہے۔ جیسے کسی بھی فن کی کتاب میں لکھے الفاظ کو جاننا معلومات ہے، مگر ان الفاظ کا مطلب سمجھنا، ان کا تجزیہ و تحلیل کرنا، ان سے سبق حاصل کرنا اور انہیں اپنی زندگی میں لاگو کرنا علم ہے۔ یہی سوال ہارٹ پشاور میں ٹریننگ کے دوران میں نے بھی کسی پروفیسر سے کیا تھا۔ انہوں نے سادگی کے ساتھ کہا تھا کہ کسی چیز کے بارے میں جاننا معلومات ہیں اور اس پر عمل کرنا یعنی عملی زندگی میں نافذ کرنا علم ہے۔
چونکہ میں کالجز میں علم سیاسیات پڑھتا ہوں اور مدرسہ میں دینی علوم۔ اس لئے علم اور معلومات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال علم سیاسیات اور ایک دینیات سے پیش کروں گا تاکہ بات بہتر طریقے واضح ہوجائے۔
علم سیاسیات (Political Science) کے تناظر میں علم (Knowledge) اور معلومات (Information) کو یوں سمجھتے ہیں۔
آپ کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کا آئین 1973 میں منظور ہوا، اور اس میں پارلیمانی نظام حکومت شامل ہے۔ اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے۔یہ حقائق یا اعداد و شمار ہیں، جو معلومات (Information) کہلاتے ہیں۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 1973 کے آئین کو کیوں اہمیت دی گئی، پارلیمانی نظام حکومت کے فوائد کیا ہیں، اور یہ نظام سیاسی استحکام اور عوامی نمائندگی کو کیسے یقینی بناتا ہے اور پاکستانی عوام کے لئے کیسے قابل قبول ہے اور اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنے کی کیا وجہ ہے۔ یہ گہرائی اور تجزیہ علم (Knowledge) کہللاتا ہے۔ یعنی آئین 1973 میں بنایا گیا اور اس میں پارلیمانی نظام شامل ہے۔ یہ معلومات ہیں اور آئین کی تشکیل کے محرکات، اس کے سیاسی و سماجی اثرات، اور اس کے عملی نفاذ کے مسائل اور فوائد کیا ہیں یہ علم ہے۔ یہی فرق کسی بھی سیاسی مسئلے، جیسے جمہوریت یا آمریت، بادشاہت یا شورائیت کے تجزیے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ایک مثال دینی علوم سے عرض کر دیتے ہیں تاکہ سمجھنے میں مزہد آسانی ہو۔
آپ جانتے ہیں کہ زکوٰۃ دینا اسلام کا ایک اہم رکن ہے، اور اس کی شرح 2.5 فیصد ہے۔ یہ ایک حقیقت یا ڈیٹا ہے، جو معلومات کہلاتا ہے۔
آپ سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مقصد غربت کا خاتمہ، دولت کی منصفانہ تقسیم، مال کی پاکی، اور معاشرتی مساوات قائم کرنا ہے۔ یہ زکوٰۃ کے پیچھے موجود حکمت اور فلسفہ ہے، جو علم کہلاتا ہے۔
زکوٰۃ فرض ہے اور اس کی شرح ڈھائی فیصد ہے۔ یہ معلومات ہیں جبکہ زکوٰۃ کے معاشرتی اور روحانی فوائد کیا ہیں اور اس کا اطلاق کیسے کیا جائے۔ یہ علم ہے۔ یہی فرق سماجی علوم میں بھی لاگو ہوتا ہے، جیسے کسی مسئلے کو سمجھنا اور اس کے حل کے طریقے پر غور کرنا۔
آج کے دور میں لوگ معلومات تو بہت جمع کر لیتے ہیں، مگر علم کی گہرائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم اعداد و شمار کے ڈھیر کے محافظ تو بن چکے ہیں، کے ٹو اور ناننگا پربت سے بڑے پہاڑ، معلومات کے اکٹھا کرلیتے ہیں لیکن ایک علم و حکمت ایک معمولی چٹان کا بھی نہیں رکھتے۔ المیہ یہ ہے کہ ان معلومات کے معانی و مطالب اور مفاہیم و مقاصد اور اثرات پر غور کرنے والے کم ہی ہیں۔
یاد رکھیں، معلومات طاقت ہے، لیکن علم وہ حکمت ہے جو اس طاقت کو درست سمت میں استعمال کرنے کا شعور دیتی ہے۔ آئیے، معلومات کی سطحی دنیا سے نکل کر علم کی گہرائی میں جائیں اور شعور و حکمت کی روشنی سے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں روشن کریں۔ یہی راستہ ہمیں بہترین انسان بننے کی طرف لے جاتا ہے۔