Chitral Times

چترال جوڈیشل کونسل (میزان) کی تاریخی عمارت ۔ ایک قریب المرگ ورثه کا قبر۔ تحریر:  ڈاکٹر میر بائیض خان

Posted on

چترال جوڈیشل کونسل (میزان) کی تاریخی عمارت ۔ ایک قریب المرگ ورثه کا قبر۔ تحریر:  ڈاکٹر میر بائیض خان

 

میرے بچپن کے یادوں میں ایک یاد یه رها هے که جب میں اسٹیٹ هائی اسکول چترال کا طالبعلم تھا، اسکول کے سامنے دو خوبصورت پریڈ گراونڈ تھے جهان هم کھیلا کرتے تھے. پریڈ گراونڈ کے آخر میں شاهی مسجد اور قلعه سامنے نظر آتیے- پریڈ گراونڈ کے دونوں اطراف سرسبز کھیت اور چنار کے درختوں کا ایک قطار اور نیچے بهتا هوا پانی کا ایک دلکش منظر هوا کرتاتھا. اس دلکش فطری ماحول میں شاهی قلعے کے قریب روایتی اسلامی طرز تعمیر کی ایک سفید عمارت هوتی تھی وه میزان کے نام سے پهچانا جاتا تھا. اس وقت مجھے اس کی اهمیت کا علم نہیں تھا. میٹرک پاس کرنے کے بعد آگے پڑ ھنے کی غرض سے چترال سے باهر جانا پڑا اور پھربهت خواهش کے باوجود کبھی اس میزان کے اندر جاکر اس کی اندرونی ساخت اور اس میں رکھے هوئے تاریخی مواد کو چهان بین کرنے کا موقع نهی ملا. اس طرح وقت گزرتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ میزان کی وه جوبصورت عمارت پوری طرح نظر سے اجل گیا جیسا که وه کبھی وهاں تھا هی نہیں.

 

اس سال چترال میں دو مهینے گزارنے کے دوران مجھے میزان کی عمارت کا پته لگانے کا موقع ملا اور جناب اسسٹنٹ کمیشنر کی اجازت سے کچه تاریخی ریکارڈ کو دیکھنے کا بهی موقع میسرهوا. چونکه میزان کی تاریخی عمارت نظرنهی آرهی تھی تو میرا گمان یه تھا که تاریخی عمارت کو گرا کر اس کی جگه پر نئی عمارتین تعمیر هوئی هونگی- لیکن ایسا نهی تھا، جب میں گیٹ میں پهنچا تو پهلے هی نظر مین مجھے چترالی ورثه کو دفنانی کی جگه محسوس هوئی.

 

میزان کی عمارت کو آج کل جوڈیشل کونسل کا نام دیا جاتا هے- میری خیالوں میں جو تصور میزان کا تھا وه فوری طور پرمیرے ذهن سے نکل گیا. پھر پته چلا که وه عمارت موجود هے لیکن اس کے ارد گرد میزان کی زمین پر وکلاء کے استعمال کے لیے ایک عمارت بنائی گئی هے اور باقی حصوں میں پولیس اسٹیشن کی عمارت تعمیر هوئی هے جن کی وجه سے میزان کی تاریخی عمارت دور سےبھی دیکھائی نهیں دیتی. میزان کی عمارت کے ارد گرد عمارتین تعمیر کرکے اس تاریخی عمارت کے لیے ایک قبر بنایا گیا هے- میزان یعنی جوڈیشل کونسل کی تاریخی عمارت کهین سے بھی نظر نهیں آتی- اندر داخل هوتے هی مجھے ایسا لگا که گویا مجرموں کے لیے بنائے گئے کسی پرانے زمانے کے تهہ خانے میں داخل هو گیا- اس کمرے میں جو دستاویزات هیں وه اصولاً چترالی ورثه کے خزانے کے طور پر رکھے هوے هونا چاهیے تھا لیکن ایسا نهیں هے-

chitraltimes judicial complex chitral mezan council recored room 2

ان اهم تاریخی ریکارڈ ایسے حالت میں هیں که وه چوهوں کے لیے خوراک بنے هوے هیں- ایک چترالی ریسرچر کی حیثت سے میری زندگی میں مجهے اتنی شرمندگی کبھی محسوس نهی هوئی تھی جتنی میزان کے ریکارڈ کو دیکھ کر هوئی- کئی سالوں سے میں یه سنتا آیا هوں که چترال کی ثقافت ایک بمثل ثقافت هے بالخصوص چترال کے تعلیم یافته طبقه جو بڑی فخر سے تین بین الاقوامی هندوکش کلچرل کانفرنس کرائی جس میں میں خود بڑی جوش و خروش سے حصه لیا- میں یه نهیں جان سکا که هماری اپنی ورثه چوهوں کی نذر هو تی جا رهی تھی اور هم بین الاقوامی کانفرنس کرنے پر فخر محسوس کرتے رهے-

 

باتیں تو هم بہت دعوے کے ساتھ کرتے هیں لیکن باهر سے آنے والوں کو دیکھانے کی لیے هماری پاس جدید وقت کے لحاظ سے پیش کرنے کے لیے نه بین الاقوامی معیار کے کوئی تاریخی عمارت اور نه کوئی ثقافتی چیزیں موجود هیں- چترال میں آنے والے سیاحوں کو چند پرائیویٹ ریزیڈینسس میں ناچ گانوں کا محفل کا انتظام کرکے انٹرٹین کیا جاتا هے- یه کهنا بجا هوگا که اگر کلاش وادی کے چترالی نه هوتے تو چترال کا نام باهر کے لوگوں کی یاد داشت سے ابتک مفقود هو چکا هوتا-

 

حیرت اس بات کی هے که چترال کے تعلیم یافته طبقه کو یه خیال نهی آیا که تاریخی ورثه ایک نازک اثاثه هوتی هے جو ایک دفعه ضائع هو جائے پھر اس کا ازاله ممکن نهیں هوتی – ویسی چترالی ورثه کی بات کافی عرصے سے چلتی آرهی هے مگر ساری توجه ایک هی چیز پر مرکوز رها هے اور وه چترال میں بولنے والی زبانیں هیں اس میں بهی سوائے کھوار کے باقی زبانوں پر کوئی خاطر خواه کام نهی هوا هے –

chitraltimes judicial complex chitral mezan council recored room 1

چترالی ورثه میرے نظر میں جوڈیشل کونسل کی تاریخی ریکارڈ کی صورت میں ایک تهخانه میں مدفون هے- اگر اس پر توجه دی جائے تو ابھی بھی ضروری مواد کو بچایا جاسکتا هے- شرط یه هے که چترال کے ایجوکیڈیڈ طبقه اس ورثے کو بچانے پر فوری طور پر سنجیدگی سے غور کرے. تاهم یه یاد دلانے کی ضرورت هے که جو قومیں اپنی ماضی کا سامنا کرنے سے کتراتی هیں اور ماضی کے ورثے سے منه چپاتی هیں چاهے وه پرشکوه رها هو یا پر بلاء تو وه نه ماضی سے کچه سیکھتی هیں اور نه مستقبل کے لیے کچه ورثه چھوڑنیکے قابل هوتی هیں- ان کی زندگی فارسی زبان کے کلاسکی دورکے شاعر عمر خیام کے اس شعر کی مصداق هوتی هے “آمد مگسی پیدا و نا پیدا شد” یعنی ان کی زندگی ایک پشه کی طرح هوتی هے جو نظر آتے هی آنکھ کی ایک جبک میں غیب هو جاتی هے نه کچھ لے کر آتی هے اور نه کچھ چھوڑکر جاتی هے-

 

خود کے ماضی کے حالات و واقعات، رسوم و روایات، اقدار و اعمال، رهن سهن کے طور و طریقے اور علم و ادب کے ماخذ کی روایات کو محفوظ کرنا اور ان کو تحقیق کی ذریعے تجدید کرنا یا اس سے سبق سیکھنا زنده قوموں کی نشانی هے- ان کیلے اپنے ماضی کو اس طرح سے سامنے کرنا هوتا هے جیساکه وه رها هے- اس کو اپنی خواهشات و تعصبات کے مجمع کے طور پر پیش کرنا نهی هوتا اور حقایق کو چھپانا یا ان کو قصداً مٹ جانے کا انتظار کرنا نهی هوتا- ماضی کو ایک مخصوص دور کے حالات کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت هوتی هے اور اس وقت کی انسانی زندگی کا ایک آئینہ سمجھ کر اس سے سبق سیکھنے کی کوشش کی ضرورت هوتی هے جو چیزین ماضی میں حاصل نه هو پائین یا انسانی اقدار کی اصولوں کے منافی انجام پاچکے هوں ان کو ازاله کرنے کا لائحہ عمل بنانے میں تحقیقی کام کی ضرورت هوتی هے-

 

تین دن جوڈیشل کونسل کے چند ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد مجهے یه احساس هوا که ان تاریخی دستاویزات میں هماری اجداد کی سماجی، معاشی، ثقافتی، قانونی، اخلاقی اور سیاسی حالات مضمر هیں. موجوده وقت میں ریسرچ یا تو شهوفی یا انگریزوں کے دور میں انگریز افسروں کے شایع کرده کتابوں پر مبنی ریسرچ پراکتفاء کیا گیا هے اور پرائمری مواد کو تقریباً نظرانداز کیا گیا هے- چترالیوں کی حقیقی تاریخی ماخذ جوڈیشل کونسل کی ریکارڈ میں مدفون هیں جن کے مطالعه اور سنجیده ریسرچ کی ذمه داری چترال کے ایجوکٹیڈ طبقه کے کندوں پر هے-

 

میں اس امید میں رهونگا که چترال کے ایجوکٹیڈ طبقه اپنے ورثه کے تحفظ میں سنجیده هوگا اور اس سے متعلق مواد سے فائده اٹھانے کے ساتھ جوڈیشل کونسل کی تاریخی عمارت کے بحالی پر بھی سنجیدگی سے غور کرینگے۔

 

اس کام کے لیے اگر مثبت قدم ا ٹھایا گیا تو اس میں کوئی شک نهی که لوکل انتظامیه، ترقیاتی ایجینساں اور کلچر اور تاریخی ورثه سے دلچسپی رکھنے والے چترالی اپنی مالی اعانت سے اس میں ضرور تعاون کریں گے-

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93274

جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان . خاطرات :امیرجان حقانی

جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان . خاطرات :امیرجان حقانی

 

گلگت بلتستان میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی حالیہ اندرون جماعت انتخابی سرگرمیوں نے ایک بار پھر اس جماعت کو مقامی سیاسی منظرنامے میں مرکزی حیثیت دلانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سندھ میں مولانا راشد محمود سومرو اور پنجاب میں حافظ نصیر احمد احرار کی قیادت میں نوجوان طبقے کی شرکت سے جمعیت کو ایک نئی روح ملی، جس نے اسے زندہ و جاوید بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دونوں ذمہ داران اور ان کے کارکنوں کی حکمت عملی اور ورک پلان نے تحریکی اور عوامی سیاست کے ذریعے جماعت کو مین آسٹریم پر لایا ۔ یہی ماڈل اور حکمت عملی اب گلگت بلتستان میں بھی دہرائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں بھی جمعیت علمائے اسلام کو مضبوط اور متحرک کیا جا سکے۔

juif flag

گلگت بلتستان میں حالیہ جے یو آئی انتخابات میں مفتی ولی الرحمان اور بشیر احمد قریشی کو قیادت کی ذمہ داری ملی ہے۔ یہ قیادت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے جہاں اخباری بیانات سے آگے بڑھ کر عملی سیاست کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تحریکی اور عوامی سیاست میں قدم نہیں رکھا جاتا، عوام کو اس جماعت کی سچی جدوجہد اور مقاصد کا ادراک نہیں ہوگا۔

 

جے یو آئی کے لیے گلگت بلتستان میں ایک جامع اور مربوط پلان کی اشد ضرورت ہے۔ اگلے پانچ سالوں کے لیے ایک ورک پلان اور ایکشن پلان ترتیب دیا جانا چاہیے، جس میں واضح ہدایات ہوں کہ پارٹی کس طرح علاقے میں ترقیاتی منصوبوں، سماجی مسائل اور نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے عملی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس میں عوامی اجتماعات، سیمینارز، تربیتی ورکشاپس اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جاری منصوبوں کا اعلان شامل ہونا چاہیے۔

 

جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کے لیے پانچ سالہ جامع تجاویز ذہن میں آرہی ہیں۔جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) گلگت بلتستان کو ایک منظم، فعال، اور مؤثر سیاسی و سماجی قوت بنانے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ ان تجاویز کا مقصد جماعت کی تنظیمی، سیاسی، اور سماجی حیثیت کو مضبوط کرنا اور عوامی مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔

 

رکن سازی مہم کو منظم اور وسیع بنانا

جے یو آئی کی موجودگی کو گراس روٹ سطح پر مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک منظم اور وسیع رکن سازی مہم شروع کی جائے۔ اس مہم میں ہر ضلع، تحصیل، اور گاؤں تک جماعت کو پہنچایا جائے اور خصوصی طور پر نوجوانوں، طلباء، اور خواتین کو شامل کیا جائے۔ اس سے جماعت کی تنظیمی بنیادیں مزید مضبوط ہوں گی اور نئی قیادت ابھرنے کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خواتین کی رکن سازی اور انہیں تنظیمی امور شامل کرنا گلگت بلتستان جیسے قبائلی معاشرے میں مشکل ضرور ہوگا مگر یہ کام بہرحال آج نہیں تو کل کرنا ہوگا تو ابھی سی ہی اس کا آغاز کیا جائے ۔

 

عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرنا

عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے جماعت کو زیادہ فعال ہونا چاہیے۔ ہر علاقے میں عوامی مسائل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو مقامی مسائل سننے اور ان کے حل کے لیے فوری اقدامات تجویز کریں۔ اس طرح جے یو آئی گلگت بلتستان کو عوام کی نظر میں ایک خدمتگار جماعت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو اخباری بیانات تک محدود نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔

 

سماجی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کریں

جے یو آئی کو سماجی فلاح و بہبود کے میدان میں بھی متحرک ہونا چاہیے۔ اس میدان میں جماعت کا گلگت بلتستان میں وجود ہی نہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں فلاحی منصوبے شروع کیے جائیں، جیسے کہ مدارس اور سکولوں میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے تعاون، یتیم بچوں کی مالی مدد، اور دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں کا قیام۔ یہ اقدامات عوامی بھلائی کے ساتھ ساتھ جماعت کی مثبت ساکھ بنانے میں بھی مددگار ہوں گے۔ ان کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر ہوم ورک اور اس پر عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ ماہرین کیساتھ مشاورت بھی کی جاسکتی ہے اور جماعت اسلامی کے احباب سے بھی طریقہ سیکھا جاسکتا ہے۔

 

نوجوانوں اور خواتین کو جماعت میں فعال بنانا

نوجوان جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، اس لیے ان کی سیاسی و نظریاتی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تربیتی ورکشاپس اور پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو قیادت کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جائے تاکہ وہ جماعت میں فعال کردار ادا کرسکیں۔ اسی طرح خواتین کے لیے بھی خصوصی پروگرامز ترتیب دیے جائیں تاکہ وہ جماعت کی فلاحی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ خواتین کے پروگرامز اور ورکشاپس کی ترتیب میں علاقائی روایات کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت اہم ہے۔

 

عملی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرنا

تحریکی سیاست کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی احتجاج، مظاہرے، اور جلسے منظم انداز میں کیے جائیں، تاکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے جماعت کی پالیسیوں اور نطریہ و منشور کو عام عوام تک پہنچایا جائے اور انہیں جماعت کے ساتھ جوڑا جائے۔ اس سے جماعت کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوگا اور عوامی حمایت میں بھی بہتری آئے گی۔ عوامی رابطے کی اس مہم کو تانگیر سے شندور تک، استور سے خپلو تک مربوط طریقے سے پھیلانے کی ضرورت ہے ۔

 

مستقبل کے لیے واضح حکمت عملی تیار کرنا

آئندہ کچھ وقت میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہونگے، ان کی ابھی سے مکمل تیاری اور تمام امیدواروں کی کمپین کا جامع اور مربوط پلان تشکیل دے کر ایکشن پلان کے لئے قیادت اور کارکنان کو منتخب کرنا چاہیے تاکہ بہترین نتائج سامنے آئیں۔ انتخابات کے بعد جماعت کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ جماعت اپنے اہداف کے مطابق مزید آگے بڑھ سکے۔ جماعت کی پالیسیوں پر عملدرآمد اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔

 

یہ تجاویز اور ان جیسے دیگر چیزیں جمعیت علمائے اسلام گلگت بلتستان کو نہ صرف تنظیمی طور پر مضبوط کریں گی بلکہ جماعت کو عوامی خدمت کے میدان میں بھی نمایاں مقام دلانے میں مدد دیں گی۔ اس طرح جے یو آئی گلگت بلتستان عملی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لیے مؤثر قدم اٹھائے گی۔

 

سندھ اور پنجاب کی طرح، گلگت بلتستان میں بھی تحریکی سیاست کی بحالی کے لیے بنیادی عناصر پر کام کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جے یو آئی کو عوام کے درمیان جانا ہوگا، ان کے مسائل کو سننا ہوگا، اور ان کے لیے حل تلاش کرنا ہوگا۔ جے یو آئی کو صرف اخبارات اور میڈیا تک محدود رہنے کے بجائے، عوامی سطح پر عملی جدوجہد میں شامل ہونا ہوگا تاکہ عوام کو یہ محسوس ہو کہ جے یو آئی صرف نعرے بازی نہیں بلکہ حقیقی عوامی خدمت پر یقین رکھتی ہے۔

 

یہی وہ وقت ہے کہ مفتی ولی الرحمان اور بشیر احمد قریشی ایک شاندار انٹری دیں اور عوام کو یہ باور کرائیں کہ گلگت بلتستان میں جے یو آئی ایک زندہ و جاوید جماعت ہے۔ مرکز کو بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ پیغام ملے کہ ان کے مسائل کو قومی سطح پر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔

 

اس سلسلے میں رکن سازی کو بھی بڑے پیمانے پر فروغ دینا ہوگا تاکہ جماعت میں نئے اور نوجوان خون کا اضافہ ہو اور یہ جماعت مزید طاقتور اور فعال ہو۔ یہ وقت ہے کہ جے یو آئی اپنی سیاسی تحریک کو ایک نئی بلند سطح پر لے جائے اور عوام کو اس کا حقیقی چہرہ دکھائے جو ان کی بھلائی اور فلاح کے لیے کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔

آپ حضرات سے گزارش ہے۔ ابھی سے کام شروع کریں اور کچھ نیا اور اچھا کرکے دکھائیں، کل پھر ہم جیسے لوگ تنقید کریں گے تو منہ اٹھا کر کہوگے کہ ہماری مخالفت کی جاری ہے اور ہماری مخالفت دین کی مخالفت ہے۔ دین کمزوری اور سستی نہیں سکھاتا، اس لیے آج سے اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور گلگت بلتستان میں راشد سرومرو اور نصیر احرار کی یاد تازہ کرا دیجئے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
93285

دھڑکنوں کی زبان ۔” ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک”۔ محمد جاوید حیات

دھڑکنوں کی زبان ۔” ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک”۔ محمد جاوید حیات

 

کوٸی ستتر سال پہلے کی بات ہے کہ نعرے لگاۓ جارہے تھے ۔۔وعدے جتاۓ جارہے تھے اور محبتوں اور احترام کےخواب دیکھاۓ جارہے تھے ۔ہربندے کے پاس ایک عزم تھا ۔۔جب نعرہ بلند ہوتا ۔۔” لے کے رہیں گے پاکستان ” اس کے جواب میں ایک جذبہ پاکیزہ سا جذبہ سینوں میں انکھڑاٸیاں لیتا ۔۔ایک عزم مسکراہٹ بن کر لبوں پہ پھر جاتا ۔۔یہ وعدوں ،وفاٶں ،محبتوں اور عقیدوں کی سرزمین کے حصول کی جدد و جہد کا زمانہ تھا ۔اس سمے شاید ہم بھاٸ بھاٸی تھے اس لیے ہم نے عہد کیا تھا کہ ہماری آپس میں محبت رہے گی یہ رشتہ عقیدت کا رشتہ ہوگا ۔نہ ہم ایک دوسرے کی سبکی کریں گے ۔نہ ایک دوسرے کو سست کہیں گے ۔نہ ایک دوسرے سے نفرت کریں گے ۔

 

ہمارے بڑے بڑوں نے خوابوں اور محبتوں کی اس سرزمین میں اس منظر کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سےچلے گئے اب ہم انتظار کر رہے ہیں ہمارے دن بلکہ ہمارے لمحے لمحے اس انتظار میں کٹ رہے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو اچھا کہیں ۔۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر جدو جہد کے ان دنوں میں کسی کو پتہ ہوتا کہ ہم ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے ایک دوسرے سے نفرت کریں گے ۔ایک دوسرے پہ اعتماد اٹھ جاۓ گا۔علاقایت ہماری محبتوں کے راستے میں رکاوٹ ہوگی۔فرقہ واریت جنم لے گی۔سیاست گالی بن جاۓ گی ۔۔قومی مفاد کہیں عرق ہوجاۓ گی ۔بھاٸی بھاٸی کا تصور ختم ہوجاۓ گا ہمارا کوٸی قومی Narrative نہیں ہوگا۔مذہب آنا بن جاۓ گا مذہب پارٹیوں میں بٹ جاۓ گا۔۔عدل کاجنازہ نکالا جاۓ گا ۔امیر کےہاتھوں غریب کچلا جاۓ گا ۔محبت ایک افسانے کے سوا کچھ نہ ہوگی ۔عقیدت شخصیت پرستی کی نذر ہو جاۓ گی ۔تب کون یہ سارا جد و جہد کرتا یہ ساری قربانیاں دیتا۔

 

غلامی ویسے کی ویسے رہتی ۔بے چینی ،بے اطمنانی اور نفرت اسی طرح رہتی ۔بھاٸی بھاٸی کا تصور نہ تھا نہ رہتا ۔ہم نے تو خواب دیکھا تھاکہ حکمران عوام کا غم کھاۓ گا ۔جج انصاف کا بول بالا کرے گا ۔محافظ مٹی پہ قربان ہوگا تو قوم کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاۓ گا ۔دفتروں میں صداقت کی حکم رانی ہوگی ۔بدعنوان قوم کا دشمن ہوگا اس کا سر کچلا جاۓ گا ۔فرغونیت کہیں سے جنم نہیں لےگی ۔ہر فرد دوسرے فرد کے نزدیک قابل احترام ہوگا۔محبت کے تاج محل تعمیرکیے جاٸیں گے ہر کہیں اللہ اکبر کی صدا ہوگی اسلام کا معاشی نظام ،معاشرتی نظام ،عدالتی نظام قاٸم کیا جاۓ گا ۔یہ ملک اسلام کا قلعہ کہلاۓ گا ۔اس کی مثالیں دی جاٸیں گی ۔کیا یہ ایک فرد کا خواب تھا ۔کیا اس خواب کی تعبیر کاانتظار صرف ایک غریب باشندے کو ہے۔کیا کسی ذمہ دار کرسی پر بیٹھے ہوۓ کو اس خواب کاادراک نہیں ۔کیا کسی حکمران پر لازم نہیں کہ اس خواب کی تعبیر کی کوشش کرے ۔کیا کسی بد عنوان کو احساس ہی نہیں کہ وہ ایک خوابوں کی سرزمین میں رہتا یے اس کی وجہ سے یہ پاکیزہ خواب ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔

 

ہم انتظار کر رہے ہیں ۔۔ہمیں اس پاکیزہ جدو جہد کے حقیقی نتیجے کا انتظار ہے ۔ہمیں انتظار ہے کہ گاٶں کا کوٸی بوڑھا کسی جنرل کو سینے سے لگا کے اس کی پیشانی چومے اور وہ اس کے ہاتھ کو عقیدت سے اپنے دل پہ رکھے خاموش رہے لیکن کہیں دور سے آواز آۓ کہ ” میں آپ کا محافظ ہوں “اللہ ہمارا محافظ ہے ۔۔ہم انتظار کر رہے ہیں اس دن کا کہ کوٸی تخت نشین حکمران کہدے کہ میرے معزز ہم وطنو! ہم سے پہلے حکمرانوں نے یہ اچھے اچھے کام کیے اب ہم ان کی پیروی میں یوں یوں کریں گے ۔۔ہم انتظار کر رہے ہیں کہ کوٸی مظلوم اس امید پہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاۓ کہ اس کو انصاف ملے گا ۔۔ہم انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارا ملک بدعنوانی اور بد اطواری سے پاک ہو اور ہر دفتر میں ایک انسان بیٹھا ہوا ہو اس کی ذات میں فرغونیت کا شاٸبہ تک نہ ہو ۔ہم انتظار کر رہے ہیں کہ انصاف ،قانون ، اعتماد اور محبت کی خوشبو سے یہ سر زمین معطر ہوجاۓ ۔ہم انتظار کر رہے ہیں ۔

 

 

ہمارا انتظار بے سود نہیں ہوگا ۔۔اللہ ہماری مدد فرماۓ گا ۔۔اگر ہمارے اسلاف کی جد و جہد میں خلوص تھا تو ہم مایوس نہیں ہوں گے ایک نہ ایک دن یہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوں گی ۔۔محبت کا سورج طلوع ہوگا اور ہم فخر سے کہہ دیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں۔۔ہم اپنے ابا و اجداد کے خوابوں کی تعبیر ہیں ۔۔ہم محفوظ ہیں ہمارے جان و مال محفوظ ہیں ۔۔ہماری خوشیاں،،محبتیں اورعقیدتیں محفوظ ہیں ۔ہمارا رین بسیرا محفوظ ہے ۔۔۔ان شااللہ

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93282

آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار – میری بات/روہیل اکبر

آئینی ترمیم اور گدھوں کا کاروبار – میری بات/روہیل اکبر

 

مہنگائی، غربت اورتشویش ناک حد تک خراب ہوتے ہوئے ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے عوام ذہنی مریض بنتی جارہی ہے اس وقت حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 8کروڑ سے زائد لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں یہ انکشاف اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں وزارت صحت نے کیا ہے اس خطرناک صورتحال کے باوجود ہماری حکومت امسبلی سے آئینی ترامیم پاس کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اتوار کا ساران دن ٹیلی ویژن کے سامنے اسی چکر میں گذرگیا کہ ابھی کچھ ہوتا ہے لیکن رات گئے معلوم ہوا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نہیں مانے جسکی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنے پڑے خیر میں بات کررہا تھا ذہنی مریضوں کی جنکی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے جبکہ پہلے ہی ہمارے ہاں غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ایک طرف لوگ غربت کی پستیوں میں جارہے ہیں تو دوسری طرف ذہنی مریضوں کی تعداد بھی کروڑوں میں جارہی ہے ورلڈ بنک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا40فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہا ہے

 

جتنی مہنگائی پچھلے تین چار سالوں میں ہوئی ہے خاص کر بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے مڈل کلاس طبقہ بھی پس کررہ گیا ہے اب گھریلو اخراجات پورے کرنا ایک عامآدمی کے بس میں نہیں رہا جبکہ پاکستانیوں کی تقدیر بدلنے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے عوام کے مسائل کو بھول کر آئینی ترامیم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں مجال ہے کہ کسی کو عوام کا کوئی خیال ہو اگر سب ملکر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اورغربت ختم کرنے کے لیے کوئی آئینی ترمیم لے آئیں تو شائد ملک میں ذہنی مریضوں کی کچھ کمی ہو سکے کاش کوئی حکومتی رکن یہ کہہ کر ایک آئینی ترمیم لے آئے کہ ہماری مراعات اس وقت تک بند کردی جائیں جب تک ہم اپنی عوام کو غربت سے نکال نہ لیں کیونکہ ہم اربوں نہیں تو کروڑوں روپے تو اپنے ا لیکشن میں جھونک دیتے ہیں اس لیے ہماری تمام مراعات بند کردی جائیں لیکن یہ نہیں کرینگے کیونکہ جہاں پر انکے مفادات ہیں وہاں یہ سب اکٹھے ہیں اور جہاں عوام کا مفاد ہووہاں کسی نہ کسی آئینی ترمیم پر میدان سجا لیتے ہیں انہیں عوام کے ساتھ ہمدردی اس وقت تک ہوتی ہے

 

جب تک الیکشن سیزن چلتا ہے اسکے بعد یہ سیاستدان خود کو بھی نہیں پہچانتے بلکہ اپنے آنے جانے کے راستوں کو بند کروا کربڑے سکون سے شوں کرکے گذرجاتے ہیں عوام بار بار انہیں ہی منتخب کرتی ہے تاکہ مزید پستیوں میں گرسکے شائد ہمارے ہاں تعلیم کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے اسی لیے تو حکومت نے ابھی تک یونیورسٹیوں میں چانسلرز نہیں لگائے تاکہ ان یونیورسٹیوں کا ماحول بھی خراب ہو اس وقت ملک کی 65 یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر یا ریکٹر کے بغیر چل رہی ہیں جس کے باعث ملک بھر میں یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کا بحران بھی سراٹھانے لگا ہے محکمہ ہائر ایجوکیشن کے دوستوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی 29، خیبرپختونخوا کی 22، بلوچستان کی 5، سندھ کی 3 یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر نہ ہونے کی وجہ سے انتظامی اور تعلیمی معاملات متاثر ہورہے ہیں یونیورسٹیوں کی اکثریت عارضی بنیادوں پر چلنے سے کئی اعلی تعلیمی امور کو بھی شدید دھچکا لگا ہے اسکے ساتھ ساتھ عوام کو مفت اور فوری انصاف فراہم کرنے والا صوبائی محتسب کا ادارہ بھی صوبائی محتسب سے محروم چلا آرہا جو ادارہ دوسروں کو بغیر پیسے کے فوری انصاف دے رہا تھا وہ ادارہ اب خود حصول انصاف کے لیے حکومتی ایوانوں کی طرف دیکھ رہا ہے سنا ہے کہ یہاں بھی سیاسی کشمش چل رہی ہے

 

پیپلز پارٹی اپنا بندہ لگوانا چاہ رہی ہے اور ن لیگ چاہتی ہے کہ انکا بندہ لگ جائے اسی کھینچا تانی میں صوبائی محتسب کا سارا کام رکا ہوا ہے مجال ہے کہ عوام کے مسائل کی طرف بھی کسی کی توجہ ہو ہماری معیشت میں ریڈھ کی ہڈی زراعت ہے اس حکومت نے جو حشر کسانوں کا کردیا وہ وہ گندم کی فصل کاشت کرنے والوں سے پوچھ لیں جبکہ کپاس ہماری زراعت کا ایک اہم جز تھی جو اب توریبا ختم ہو چکی ہے سندھ اور پنجاب میں گزشتہ ماہ اگست میں کپاس کی پیداورا میں 60 فیصد تک کی خطرناک کمی سے ٹیکسٹائل کے شعبے کی بھی چولیں ہل گئی ہے اس سلسلہ میں پنجاب کی کراپ رپورٹنگ سروس (سی آر ایس) اور پاکستان کاٹن گنرز ایسوسی ایشن(پی سی جی اے) نے اعدادوشمار کی روشنی میں بتایاکہ 3 لاکھ سے زائد بیلز کا فرق صنعت کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے فیصل آباد جیسے ہم مانچسٹر بنانے نکلے تھے وہاں خوشحالی کی بجائے غربت ناچ رہی ہے آج سے کچھ عرصہ پہلے گھر گھر انڈسٹری لگی ہوئی تھی لوگ پر امید تھے کہ آہستہ آہستہ وہ خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھ لیں گے لیکن یک دم آنے والی تبدیلی نہ نہ صرف اس انڈسٹری کو بند کروانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس شہر میں بے روزگاروں کی انتہا کردی جہاں ایک وقت میں مزدور تلاش کرنا مشکل ہوچکا تھا

 

جب ایسی صورتحال ہو گی تب ذہنی مریضوں کی تعدا د میں اضافہ بھی ہوگا اور غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والوں کا شمار بھی نہیں ہوگااور سب سے بڑھ کر ملک میں جرائم میں بھی اضافہ ہوگا آج ہماری جیلوں کی حالت دیکھ لیں اپنی گنجائش سے تین گنا زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثریت ذہنی مریضوں کی ہی ہوگی جبکہ جیلوں کے ملازمین کم تنخواہ اور ذہنی مریضوں کے ساتھ رہ رہ کر خود بھی زہنی مریض بنے ہوئے ہیں پاکستان سے باہر بھاگنے والوں میں بھی ذہنی مریض شامل ہیں جو اپنی کسی نہ کسی غیر قانونی حرکت سے پکڑے جاتے ہیں اور اپنے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اس وقت بھی دنیا بھر کے 88 ممالک کی جیلوں میں 20 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں جن میں سزائے موت کے 68 پاکستانی شامل ہیں جنہیں دہشت گردی، قتل اور منشیات اسمگلنگ پر سزائے موت سنائی گئی متحدہ عرب امارات میں 5 ہزار 292، سعودی عرب میں 10 ہزار 432، ملائیشیا میں 463 برطانیہ میں 321، عمان میں 578، ترکیہ میں 387، بحرین میں 371، یونان میں 598، چین میں 406، جرمنی میں 90، عراق میں 40، امریکا میں 114، سری لنکا میں 89، اسپین میں 92، افغانستان میں 85، ساتھ افریقا 48 اور فرانس میں 286 پاکستانی قید ہیں جو یقینا ذہنی مریض ہی ہونگے

 

ہم گدھوں کو خوشحالی کی آس دلا کر ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہونے والے ہمارے حکمران پارلیمنٹ میں بھی گدھوں کی خریدوفروخت پر ہی غور کرتے ہیں نہیں یقین تو جمعرات پانچ ستمبر دن دو بجے پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم نمبر ایک میں چیئرمین سینٹر انوشہ رحمان خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی کاروائی ہی دیکھ لیں جس میں گدھوں کے گوشت اور کھال کو بیرون ملک برآمد کرنے کے معاملے کا جائزہ لیاگیا کہ پاکستان دنیا میں گدھوں کی پیداوار میں تیسرا بڑا ملک ہے اور چین میں گدھوں کے گوشت اور کھال کی بہت زیادہ مانگ ہے اور اس کی بہت زیادہ قیمت بھی ادا کی جاتی ہے اوروزارت تجارت پاکستان سے بالخصوص چین کو گدھوں کا گوشت اور کھال برآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ کمانا چاہتی ہے کاش گدھوں کے ساتھ ساتھ حکومت ذہنی مریض بنتی ہوئی قوم کے لیے بھی کوئی آئینی ترمیم لے آئے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93250

 -مواخات اور بھائی چارہ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

 -مواخات اور بھائی چارہ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں – خاطرات: امیرجان حقانی

اسٹنٹ پروفیسر:  پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو قیامت کی صبح تک کے لیے معیار بنادیا۔سیرت طبیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے لے کر رحلت تک کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالی کی منشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے محفوظ کیا۔
حضور  نبی اکرم ﷺ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت اور جملہ مخلوقات الہیہ کے لیے رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک میں وہ جملہ  اخلاقی، سماجی اور روحانی  اوصاف موجود ہیں جن کو اپنا کر  انسانیت  اپنے اصل مقام تک پہنچ سکتی ہے اور دنیا کے جملہ انسان دو جہانوں میں کامیابی پاسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ظلم و جبر اور بربریت کے گھٹا ٹوپ  اندھیروں میں عدل و انصاف اور محبت و ہمدردی کے چراغ روشن کیے اور انسانوں کو ایک دوسرے  کے حقوق کا محافظ بنا کر ایک ایسا بہترین اور آئیڈیل معاشرہ قائم کیا جہاں ہر فرد کو  عزت و احترام،محبت و مودت اور مساوات کا حق حاصل تھا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کا محور  صرف ایک قوم، ایک علاقہ، ایک زمانہ یا صرف  ایک مذہب  تک محدود نہیں تھا ، بلکہ آپ ﷺ نے تمام بنی نوع انسانیت کو اپنے خُلق اعلی اور کردار کی قوت و عظمت سے   اس حقیقت سے آشنا  کیا کہ انسانیت کی  اصل خدمت  اس میں ہے کہ  ہر شخص دوسرے کے لئے رحمت اور محبت کا پیکر بنے۔آپ ﷺ کی عظیم اور مثالی شخصیت میں مہر و وفا کا دریا موجزن تھا جس نے دلوں کے قفل کھول دیے  اور انسانیت کو اس کےا علی ترین مقام و مرتبہ پر فائز کیا۔
مواخات اور بھائی چارہ: سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں
اسلام میں بھائی چارہ  اور مواخات کا تصور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لئے ایک اہم اصول کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں اس تصور کا عملی مظاہرہ پہلے پہل مکہ معظمہ میں ہوا، مکہ میں مسلمانوں کے درمیان مواخات کی چھوٹی چھوٹی مثالیں قائم کی گئی تاہم  مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان قائم ہونے والی مواخات کی شاندار روایت قائم ہوئی۔ اس مواخات نے نہ صرف مہاجرین کی مشکلات کو کم کیا بلکہ ایک مضبوط معاشرتی نظام کی بنیاد بھی رکھی۔
اسلام کا نظم اجتماعی، اخوت اور بھائی چارہ کی اساس پر قائم و دائم ہے۔اس عظیم الشان اخوت اسلامی میں میں انسانی رنگ و نسل، برادری و قومیت، حسب و نسب، ملک و وطن اورقبیلہ و ریاست جیسی  کوئی تفریق رکاوٹ نہیں۔ ذات پات، قومیت ، رنگ، زبان، نسل، علاقائیت، صوبائیت  اور اس جیسی دیگر چیزیں اخوت اسلامی اور بھائی چارہ کے تصور کے واضح طور پر منافی ہیں۔ اخوت ایک روحانی اور ایمانی قوت کا نام ہے جس کی بنیاد رحم و کرم،ایثار و تعاون،صبر ، عفو و درگزر اور عزت و اکرام جیسے جذبات اور اس کے عملی اطلاق و اقدام پر منتج ہے۔
مواخات کی تعریف اور اس کی اسلامی اہمیت
لفظ “مواخات” عربی زبان کے لفظ “اخوۃ” سے نکلا ہے، جس کا مطلب بھائی چارگی یا بھائی بھائی کا رشتہ ہے۔ اسلام میں اخوت اور بھائی چارگی کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کا بارہا ذکر کیا گیا ہے۔
قرآن میں اخوت کا تصور
اللہ  رب العزت کا ارشاد ہے۔
“إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ” (1)
ترجمہ: “بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔”
قرآن کریم کی یہ آیت اسلامی اخوت کی بنیاد ہے، جس میں مومنوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی تاکید کی گئی ہے۔اور دینی و ملی بھائی چارہ کی بنیاد ہے یہ آیت۔
ایک اور جگہ میں اللہ کا ارشاد ہے۔
”فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ  فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا”۔(2)
ترجمہ: ” تو اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔”
قرآن کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی مواخاۃ اسلامی کے متعلق کئی ایک فرامین موجود ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:
“المُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ، لا يَظْلِمُهُ ولا يُسْلِمُهُ، ومَن كانَ في حاجَةِ أخِيهِ كانَ اللَّهُ في حاجَتِهِ” (3)
ترجمہ: “مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔”
ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی ﷺ ہے:
“مثلُ المؤمنين في تَوادِّهم ، وتَرَاحُمِهِم ، وتعاطُفِهِمْ ، مثلُ الجسَدِ إذا اشتكَى منْهُ عضوٌ تدَاعَى لَهُ سائِرُ الجسَدِ بالسَّهَرِ والْحُمَّ”(4)
ترجمہ: “مومنوں کی مثال آپس کی محبت، رحم دلی اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔”
سیرت النبی ﷺ میں مواخات کا عملی مظاہرہ
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں مواخات کا سب سے نمایاں مظاہرہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا۔ جب مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنی پڑی، تو مدینہ کے انصار نے ان کے ساتھ اخوت و بھائی چارگی کا وہ عملی مظاہرہ کیا جو تاریخ میں بے مثال ہے۔مواخات مدینہ سے قبل  مکہ معظمہ میں بھی مواخات کا عملی مظاہرہ کیا گیا تھا۔
مواخات مکہ  مکرمہ
رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بھی مسلمانوں کے درمیان مواخات کروائی تھی۔اس دور میں مسلمان سماجی، معاشی اور دیگر مشکلات و مسائل کا شکار تھے۔رسول اللہﷺ نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اسلام قبول کرنیو الے بھائیوں کے درمیان مواخات کرائی۔
محمد بن حبیب (م ٢٤٥ھ) نے  مکہ مکرمہ کی مواخات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”رسول اللہﷺ نے باہمی ہمدردی و تعاون کی بنیاد پر مواخات کرائی اور یہ مکہ مکرمہ میں وقوع پذیر ہوئی تھی”۔(5)
علامہ بلازری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ یہ مواخات مندرجہ ذیل افراد کے درمیان کرائی گئی۔
سیدناحمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ او زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام) کے درمیان۔
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مابین۔
سیدناعثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان۔
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان۔
سیدنا عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ اورسیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے مابین۔
سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مابین۔
سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور سیدنا سالم الموالی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان۔
سیدناسعید بن زیدرضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے مابین  (6)
سیرت مصطفی  اور وفاء الوفاء میں مذکور ہے کہ : اس موقع پر سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ نے ان لوگوں کے درمیان تو مواخات کرادی، میں رہ گیا ہوں، میرا بھائی کون ہوگا؟ اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ میں تمہارا بھائی ہوں۔ (7)
سیدناعلی رضی اللہ عنہ تو پہلے ہی سے رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے تھے اور آپﷺ ہی ان کی کفالت فرمایا کرتے تھے اس لیے شاید آپﷺ نے ان کے لیے یہ ضرورت محسوس نہ کی ہو، بہر حال یہ فرما کر کہ میں تمہارا بھائی ہوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دلجوئی فرمائی۔
مواخات مدینہ منورہ
محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں: مدینہ منور ہ میں پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ اپنا مواخاۃ کا رشتہ قائم کیا اور پھردوسرے صحابہ یعنی کچھ مہاجر کا مہاجر صحابہ اور کچھ انصار و مہاجر صحابہ کرام کا  رشتہ مواخات قائم کیا۔(8)
رسول اللہ ﷺ نے مواخات کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہ مہاجر اور انصار کے درمیان مواخات فرمایا کرتے تھے۔ اصحاب رسول مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے رہتے اور رسول اللہ مدینہ کے کسی صحابی سے ان کی مواخات کراتے رہتے۔سیرت نگاروں نے  ان کی تعداد پچاس کے قریب بتائی ہے۔ اس طرح تقریبا پچاس مہاجر خاندان پچاس انصار خاندانوں کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک ہو گئے۔ سیرت کی مختلف کتب کا مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سو تیس انصار و مہاجرین کے ناموں کا ذکر ملتا ہے جن کے درمیان مواخات کرائی گئی۔ ااس مواخات کا مقصد مہاجرین کی ضروریات کو پورا کرنا ،ایثار و تعاون کا معامہ فرمانااور انہیں مدینہ کے معاشرتی نظام اور سماجی زندگی میں ضم کرنا تھا۔بظاہر ان مقاصد کے لئے یہ رشتہ قائم کیا گیا تاہم مواخات کا یہ رشتہ اسلامی نظم کے قیام اور اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے تھا۔
آپ  کی دلچسپی کے لئے کچھ مشہور صحابہ کرام کے اسمائے گرامی دیے جارہے ہیں۔
١: سیدنا ابو بکر صدیق ۔۔۔ سیدنا خارجہ بن زید بن ابی زہیر
٢: سیدنا عمر فاروق ۔۔۔ سیدنا عتبان بن مالک
٣: سیدنا عبدالرحمن بن عوف۔۔۔یدنا سعد بن الربیع
٤: سیدنا عثمان بن عفان۔۔۔سیدنا اوس بن ثابت
٥: سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ۔۔۔سیدنا سعد بن معاذ
٦: سیدنا زبیر بن العوام  ۔۔۔سیدنا سلمہ بن سلامہ
٧: سیدنا مصعب بن عمیر ۔۔۔ سیدنا ابو ایوب خالد بن زید
٨: سیدنا عمار بن یاسر ۔۔۔ سیدنا حذیفہ بن الیمان
٩: سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ ۔۔۔ سیدنا عباد بن بشر
١٠: سیدنا بلال بن رباح ۔۔۔سیدنا ابو رویحہ عبداللہ بن عبدالرحمن الخشعمی
١١: سیدنا عبیدہ بن الحارث بن المطلب ۔۔۔سیدنا عمیر بن الحمام اسلمی
١٢: سیدنا سلمان الفارسی ۔۔۔سیدنا ابو الدرداء
١٣: سیدنا سعد بن ابی وقاص ۔۔۔سیدنا سعد بن معاذ
١٤: سیدنا عثمان بن مظعون ۔۔۔ سیدنا ابو الہیثم بن التہان
١٥: سیدنا ارقم بن الارقم ۔۔۔سیدنا طلحہ بن زید بن سہل
١٦: سیدنا علی بن ابی طالب۔۔۔سیدنا سہل بن حنیف
١٧: سیدنا زید بن الخطاب۔۔۔سیدنا معن بن عدی
١٨: سیدنا عمر و بن سراقہ۔۔۔ سیدنا سعد بن زید
١٩: سیدنا عبداللہ بن مظعون۔۔۔ سیدنا قطبہ بن عامر
٢٠: سیدنا شماع بن وھب ۔۔۔سیدنا اوس بن خوالی
٢١: سیدنا عبداللہ بن جحش  ۔۔۔ سیدنا عاصم بن ثابت بن ابی افلح
٢٢: سیدنا ابو سلمہ بن عبدالاسد ۔۔۔ سیدنا سعد بن خیشمہ
٢٣: سیدنا طفیل بن الحارث  ۔۔۔سیدنا مقدر بن محمد
٢٤: سیدنا سالم مولی ابی حذیفہ ۔۔۔سیدنا معاذ بن ماعص
٢٥: سیدنا خباب بن الارت۔۔۔سیدنا جبار بن صحر
٢٦: سیدنا صہیب بن سنان۔۔۔ سیدنا حارث بن الصمہ
٢٧: سیدنا عامر بن ربیعہ الغزی۔۔۔سیدنا یزید بن المقدر
٢٨: سیدنا سعید بن زید بن عمرو۔۔۔ سیدنا رافع بن مالک
٢٩: سیدنا وھب بن سرخ ۔۔۔سیدنا سوید بن عمرو
٣٠: سیدنا معمر بن الحارث۔۔۔سیدنا معاذ بن عفراء
٣١: سیدنا عمیر بن ابی وقاص۔۔۔ سیدنا عمر بن معاذ
٣٢: سیدنا زید بن حارثہ۔۔۔سیدنا اسید بن حضیر ، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (9)
انصارکا جذبہ ایثار
مواخات مدینہ کے بعد انصار نے بالخصوص اپنے مواخاتی بھائیوں اور بالعموم تمام مہاجر صحابہ کا جو اکرام، ہمدردی اور خدمت کی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
بخاری شریف میں ہے:
”جب مہاجر لوگ مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھا مال لے لیں اور میری دو بیویاں ہیں آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں”۔ (10)
ایثار کا ایک اور واقعہ بھی سنیں:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا ملک بطور جاگیر انہیں عطا فرما دیں۔ انصار نے کہا جب تک آپ ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی اسی جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔”۔ (11)
ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا:
یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ” (12)
ترجمہ: وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان کو دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔
مواخات کا عمل آج بھی دہرایا جاسکتا ہے۔آج بھی دنیا بھر میں مسلمان مظلوم و مقہور ہیں۔افغانستان، بوسنیا، کوسوو، کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین، برما اور بہت سے شورش زدہ علاقوں کے مسلمان معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور جنگی مسائل کا شکار ہیں۔ برما، فلپائن اور بعض دیگر علاقوں میں بھی مسلمان پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ بعض علاقوں میں مسلمان بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کے مسائل ہیں۔ان کے علاوہ دنیا بھر میں  مسلمان سیاسی و معاشی ابتری کی وجہ سے تہذیبی و اقتصادی  مشکلات کا شکار ہیں۔کہیں علم و سائنس  میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ آج کی مسلم امہ  کو ان مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک نے  اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے اور مواخات کے ادارے کا احیاء کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کا اسوہ حسنہ ہر دور اور ہر زمانہ میں واجب العمل ہے۔مواخات کے ادارے کا قیام انفرادی، اجتماعی اور ریاستی و عالمی سطح پر مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔رسول اللہ کی سیرت کی  پیروی ہی میں ہماری نجات و کامیابی کا راز مضمر ہے۔
اخوت اسلامی کے قیام کے لئے چند شرائط
اخوت اسلامی کے قیام کے لئے چند اہم شرائط ہیں جن کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
اخوت صرف رضا الہی کے لئے ہو۔
اخوت ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر ہو۔
اخوت اسلامی اصولوں اور احکام کی روشنی میں ہو۔
اخوت خیر خواہی اور بھلائی کے لئے ہو۔
اخوت کا اظہار  مشکلات و تکالیف اور خوشی و آرام ہو۔(13)
دور حاضر میں مواخات کا اطلاق
موجودہ دور میں جہاں معاشرتی ناہمواریاں، اقتصادی مشکلات اور طبقاتی تفریق عروج پر ہیں، اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کے اصولوں کو اپنانا مسلمانوں کے لئے نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ اس کی چند ایک عملی صورتیں بیان کی جاتیں ہیں تاکہ سیرت البنی ﷺ کی روشنی میں یہ کام آسانی سے کیا جاسکے۔مواخات اسلامی کی ملکی اور بین الاقوامی صورتیں آسانی سے قائم کی جاسکتیں ہیں۔ ہم اس مختصر مقالے میں سیرت البنی ﷺ کی روشنی میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر مواخات اور بھائی چارہ کی چند ایک صورتیں سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ سوشل ویلفیئر تنظیمیں
 سوشل ویلفیئر تنظیموں کے ذریعے اسلامی اخوت کو فروغ دیا جا سکتا ہے جو لوگوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی مسائل میں مدد کر سکیں۔یہ کام دنیا بھر میں بھی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔اور کسی حد تک ہوبھی رہا ہے مگر اس میں شفافیت اور وسعت کی ضرورت ہے۔
2۔مساجد کمیٹیاں
دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑی اور چھوٹی لاکھوں مساجد موجود ہیں۔مساجد کو اخوت اور بھائی چارگی کا مرکز بنایا جا سکتا ہے جہاں نمازیوں کے درمیان تعاون اور مدد کا نظام قائم کیا جا سکے۔اور مساجد ویسے بھی بہترین کمیونٹی سینٹر کا درجہ رکھتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ اخوت ، ایثار اور تعاون کے کئی سلسلے مسجد نبوی سے چلایا کرتے تھے۔آج بھی مسلمان انتہائی آسانی سے کرسکتے ہیں۔ بس درد دل کی ضرورت ہے۔
3۔تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز
مواخات کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مفت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کا قیام ضروری ہے تاکہ ہر فرد اپنے معاشی مسائل کا حل خود نکال سکے۔دینی مدارس کسی حد تک یہ کام کرتی ہیں تاہم اس کو بھی ریاستی اور بین الاقومی سطح پر وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
4۔فوڈ بینکس اور صحت کے مراکز
معاشرتی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لئے فوڈ بینکس اور صحت کے مراکز کا قیام بھی اسلامی اخوت کا بہترین عملی مظہر ہو سکتا ہے۔اس کی بھی کچھ مثالیں ملک عزیز میں ملتی ہیں تاہم اس کام کو بھی انتہائی منظم اور وسیع پیمانے میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی انسان بھوکا نہ رہے اور نہ ہی  بے
علاج۔
5۔کمیونٹی سروسز
 اخوت اسلامی کے اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمیونٹی سروسز جیسے کہ صحت کے مراکز، یتیم خانوں، بیوہوں کی مدد اور بے روزگاروں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
6۔پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی مدد
 آج کے دور میں پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی مدد کرنا اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کا عملی مظاہرہ ہو سکتا ہے۔ ان کے لئے عارضی رہائش اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ایک اہم قدم ہے۔سیلاب اور قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کو بھی اسی اخوت کے جذبے کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک میں کچھ سال پہلے سیلاب نے تباہی مچادی تھی۔ اخوت فاؤنڈیشن نے اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بساط سے زیادہ ان متاثرین کو گھر بنانے اور بسانے میں معاونت کی جو انتہائی  مستحسن ہے۔
7۔انسانی حقوق اور انصاف کے لئے کوششیں
 مواخات کا ایک اور عملی اطلاق یہ ہے کہ ہم انسانی حقوق اور انصاف کے قیام کے لئے بھرپور کوششیں کریں، اور مظلوموں کی مدد کریں تاکہ وہ معاشرے میں اپنے حقوق حاصل کر سکیں۔اس کام کو  بھی مختلف شکلوں میں کیا جاسکتا ہے۔
8۔ ملاقات، مصافحہ اور خبرگیری
یہ بھی اخوت کے اظہار کی ایک شکل ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے ملاقاتیں کریں، سلام کریں اوروقتا فوقتا  خبرگیری کرتے رہے۔
9۔عیادت، جنازہ اور دعوت
اخوت اسلامی کے لئے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کریں، ان کے جنازوں میں شریک ہوجائیں اور دعوتوں کا اہتمام کریں۔
10۔تکالیف دینے سے بچنا،خطاؤں کو معاف کرنا
اخوت کی بہترین شکل یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے حسد ،کینہ اور ضد نہ کریں اور نہ کسی قسم کا ظلم، استہزا، تحقیر و اہانت کریں۔اسی طرح اپنے مسلمان بھائی کی خطاؤں کو معاف کریں، عیوب چھپائیں اور غیبت سے پرہیز کریں۔
غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کیساتھ مواخات اور بھائی چارگی کا تصور
آج کی اس خوبصورت محفل میں ہم آپ سے غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے مواخات اور بھائی چارہ کی عملی صورتوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ دنیا کیسے مواخات اور بھائی چارگی قائم کرسکتی ہے؟
غزہ اور فلسطین کے مسلمان ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم اور جنگی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان اور انسانیت دوست افراد غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی اور بھائی چارگی کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن ان جذبات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مخصوص اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسلام میں مواخات اور بھائی چارگی کا تصور ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے دکھ درد کو اپنا سمجھیں اور ان کی مدد کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات قائم کرنے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔
قرآن مجید میں امداد و تعاون کی تعلیم
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ” (14)
ترجمہ: “اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں مدد نہ کرو ۔”
حدیث میں مدد اور حمایت کی اہمیت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد الواحد، إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى” (15)
ترجمہ: “مومنوں کی مثال آپس کی محبت، رحم دلی اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔”
دنیا کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کے لئے عملی اقدامات
فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات اور بھائی چارگی قائم کرنے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کو مندرجہ ذیل عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
1۔ مالی امداد اور انسانی ہمدردی کی خدمات
فنڈز کا قیام
دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی مالی استطاعت کے مطابق فلسطین کے مسلمانوں کے لئے فنڈز جمع کرنے چاہئیں، تاکہ انہیں کھانے پینے، صحت کی سہولیات اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کی جا سکیں۔
امدادی تنظیموں کی مدد
فلسطینی مظلوم بھائیوں سے اخوت قائم کرنے کے لئےایسی تنظیموں کی مدد کریں جو غزہ اور فلسطین میں انسانی ہمدردی کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔امداد کرتے وقت نقالوں سے ہوشیار رہ کر ان تنظیموں کی مدد کی جائے جو حقیقی معنوں میں فلسطین کے مظلوں کے لئے کام کررہی ہیں۔
2۔سیاسی حمایت اور بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھانا
سیاسی دباؤ
 دنیا کے مسلمان حکومتوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھائیں۔ریاستی سطح پر موثر  آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔مسلم ریاستوں اور  اثر رسوخ رکھنے والے عالمی شخصیات کو اس حوالے سے مربوط پالیسی اور موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔یہ بین الاقوامی سطح پر مواخات کی ایک بارآور کوشش ہوسکتی ہے۔
مظاہرے اور احتجاج
 دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں مظاہرے اور احتجاج کریں، تاکہ عالمی برادری اس مسئلے پر توجہ دے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔ اور بالخصوص اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے ممالک کے سفارت خانوں تک اس احتجاج کو موثر انداز میں پہنچائے۔
3۔تعلیمی و تربیتی مدد
فلسطینی طلباء کے لئے تعلیمی وظائف
 دنیا بھر کے مسلمانوں کو فلسطینی طلباء کے لئے تعلیمی وظائف فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں اور مستقبل میں اپنے ملک کی خدمت کر سکیں۔اخوت کا یہ رشتہ بہت دیر پا ثابت ہوسکتا ہے۔
آن لائن تعلیمی مواد
 آن لائن تعلیمی مواد فراہم کیا جائے تاکہ فلسطینی طلباء اور نوجوان اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر سکیں۔اور انہیں جدید دور کی آن لائن تعلیم  کی جو شکلیں ہیں ان کو اپنا کر انہیں اپنی مدد اور تعاون پہنچانا چاہیے۔
4۔سوشل میڈیا اور میڈیا کی حمایت
سوشل میڈیا مہمات
 سوشل میڈیا پر فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کریں، اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ فلسطینی مسلمان کس طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے دسویں موثر فورم ہیں ان کو ہر سطح میں استعمال کرنا چاہیے۔
میڈیا ہاؤسز کی حمایت
ایسے میڈیا ہاؤسز کی حمایت کریں جو فلسطین کے مسئلے کو حقائق کے ساتھ دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔یہ ہاوسز نیشنل اور انٹرنیشنل دونوں سطح پر موجود ہیں۔ان کے ہمنوا بننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مزید بہتر طریقے سے اس مسئلے کو مسلسل اٹھائیں۔
5۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی حمایت
انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون
 انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں جو فلسطین کے مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں بلارنگ و نسل اور علاقہ کام کررہی ہیں۔ ان کو متوجہ کرکے مزید ان کی ایکٹویٹیز کو فعال بنایا جاسکتا ہے۔
عالمی عدالت انصاف میں مقدمات
ایسے مقدمات کا حصہ بنیں یا سپورٹ کریں جو عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لئے چلائے جا رہے ہیں۔عالمی عدالت انصاف کو اگر مسلم امہ اور مسلم ریاستیں مجبور کریں تو شاید بہت بہتری ہوسکتی ہے۔
6۔بائیکاٹ کی مہمات
بائیکاٹ اسرائیلی مصنوعات
 اسرائیلی مصنوعات اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں جو فلسطین میں ظلم و ستم میں ملوث ہیں۔اس حوالے سے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
بائیکاٹ مہمات کی حمایت
بائیکاٹ مہمات کو عالمی سطح پر سپورٹ کریں تاکہ ان کی مؤثر رسائی ہو۔
7۔دعاؤں اور روحانی حمایت
مساجد میں دعائیں
 مساجد میں فلسطینی مسلمانوں کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ الحمد للہ! ہمارے ملک میں مدارس و مساجد اور دینی اجتماعات میں فلسطینی بھائیوں کے حق میں مسلسل دعاؤں کا اہتمام جاری ہے ۔یہ بھی اعانت اور اخوت و ہمدردی کی شاندار روایت ہے۔
عبادات اور صدقات
 اپنی عبادات اور صدقات کا اجر فلسطینی مسلمانوں کے نام کر کے ان کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی مدد کی دعا کریں۔
فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات اور بھائی چارگی کا تقاضا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اور انسانیت دوست افراد اپنے اخلاقی، مالی، اور سیاسی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ان کی مدد کریں۔ یہ نہ صرف اسلامی اخوت کا تقاضا ہے بلکہ انسانی ہمدردی کی ایک اعلیٰ مثال بھی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو سکتے ہیں۔آج نبی رحمت ﷺ کی سیرت کا یہی بین الاقوامی اخوت اسلامی کا تقاضہ ہے۔
حوالہ جات:
1 : القرآن، سورۃ الحجرات،آیت،10۔
2: القرآن، سورۃ آل عمران،آیت، 103۔
3: بخاری، صحیح بخاری،حدیث نمبر 6951۔
4: بخاری، صحیح بخاری، حدیث نمبر 6011۔
5:  ابن حبیب،المحبر (المکتب التجاری، بیروت)، ص 70۔
6:  البلاذری، احمد بن یحییٰ ، انساب الاشراف (تحقیق محمد حمید اللہ (دارالمعارف مصر ١٩٥٩)، ج١، ص ٢٧٠، ابن حبیب المحبر، ٧٠، ٧١،
7: المہودی ، وفاء الوفاء (بیروت ١٣٩٣ھ ج ١، ص ٢٦٦، ہاشم معروف حسنی، سیرت مصطفی،مترجم، سید علی رضا، ج اول، ص 231،جامعہ تعلیمات اسلامی
کراچی پاکستان۔
8: ہیکل، محمد حسین  ،حیات محمد ،مترجم ابو یحیٰ،ص 389،طبع اول،علم و عرفان پبلشر۔
9: شبلی نعمانی، سیرۃ البنی،  ص  178، ج اول۔
10: بخاری، صحیح بخاری،ح ،3780 ۔
11: بخاری ، بخاری حدیث نمبر 3794۔
12: القرآن، سورہ حشر، آیت 9۔
13: عبداللہ ناصح علوان، اسلامی اخوت، ص 22 ، الدارالسلفیہ ممبئی انڈیا، 2001۔
14: القرآن،سورۃ المائدہ، 5:2۔
15: بخاری، صحیح بخاری، ح 6011۔
نوٹ: یہ مق
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
93248

دھڑکنوں کی زبان۔”چترالی ثقافت میں دوپٹے کا کردار ” ۔محمد جاوید حیات

Posted on

دھڑکنوں کی زبان۔”چترالی ثقافت میں دوپٹے کا کردار ” ۔محمد جاوید حیات

 

اسلام سے پہلے عورت آزاد تھی ۔۔ناچ گانے سے لے کرننگے سر پھرنے تک آزادی تھی بلکہ کٸ ہزار سال آگے جایا جاۓ تو مشہور مصری شہزادی قلوپطرہ جس نے کئی شاہوں شہزادوں کو اپنے حسن کا دیوانہ بنایاتھا اپنے سیزر جیسے جنرل کو ٹاسک دی کہ شام فتح کرو میں تم سے شادی کروں گی وہ شام فتح نہ کر سکا مگر بے چارہ ٹنشن میں مرگی کا مریض بن گیا تاریخ کہتی ہے کہ یہی قلوپطرہ کوٸی چاند چہرہ والی نہیں تھیں چہرے مہرے پر جابجا داغ تھے مگر وہ اس وقت بیوٹی کریم بناتی تھی خالص مکھن اور گلاب کے پھول کی پھنکڑیاں ابالتی تھیں کریم بناتی تھی اس کے حسن کا یہ راز کسی کو معلوم نہ تھا یہ خاتون کی پوزیشن تھی اسلام آیاتو قران عظیم الشان میں حکم دیاگیا کہ اپنے گھروں میں قرار پکڑوں اور پہلے والی جاہلیت اختیار نہ کرو ۔۔۔سوال یہ ہے کہ قران نے پہلی والی عریانیت کو جاہلیت قرار دیا ۔ ۔پردے کو آگاہی اور علم قرار دیا ۔۔اسی کو ثقافت اور تہذیب کا درجہ دیا ۔۔

 

 

اب پھر سے جدید تعلیم کی بدولت بے پردگی اور عریانی “آگاہی” ہے اور “پردہ “جہالت ہے ۔۔ہم ماڈرن ہورہے ہیں سوال ہے کہ یہ تعلیم ہمیں آگاہی اورہنر دینے کی بجاۓ ہمارے اقدار(values) کو قتل نہیں کررہی ۔۔اس سوال کا جواب جدید تعلیم یافتوں کے پاس نہیں آیٸن باٸین شاٸین ضرور ہے ۔۔اسلام کے اصولوں میں اپنے اختیار کی کوٸی حیثیت نہیں اسلام میں لباس پر کوٸی قدغن نہیں مگر لباس کا مقصد پردہ ہے جس لباس سے پردے کا مقصدزاٸل ہوتا ہے وہ اسلامی لباس نہیں ۔۔چترال ایک ایسا خطہ رہا ہے کہ اس میں اسلام کے آنے کے بعد عین اسلامی کلچر ترقی کرگیا ۔۔خواتین اسلامی اصولوں کی پابندی اپنی تہذیب کے اندر کرتی ہیں ان میں پردہ بہت نمایان وصف ہے اگرچہ چترال کی خواتین محنتی (working women) ہیں اس کے باوجود اپنے مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہوٸی بھی کسی خاتون کو ننگا سرنہیں دیکھا جا سکتا ۔اپنے گھر کے اندر بھی اپنے دوپٹے کی اتنی حفاظت کرتی ہیں جتنی باہر جاتے ہوۓ کرتی ہیں ان کی روایتی برقعہ قبایا ان کے استعمال میں ہوتی یے ۔ابھی تک یہ پردہ چترالی عورت کی پہچان رہی ہے ۔آج کل جو عریانی آگئی ہے یہ یلغار لگتا ہے اور نہھلے پہ دہھلا جدید تعلیم یافتہ جوان جابجا اس کی حمایت کررہے ہیں ۔اس کو خاتون کی مرضی اور اس کے گھرانے کا کلچر کہتے ہیں ۔۔کہتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار باپ کی تعلیم یافتہ میچور بیٹی ہے ۔۔

 

کہنے کی بات یہ ہے کہ اس کاخاندان اس کا باپ جو بھی ہےان کی سوچ جس طرح بھی ہے اس پرکلام نہیں کلام اس پر ہے کہ اس عریانی اور فحاشی کی گنجاٸش اسلام اور چترالی کلچر میں ہے کہ نہیں ہے جدید تعلیم اسلامی اور خالص چترالی ثقافت سے متصادم کیوں ہے ؟ ہم نےکالج یونیورسٹیوں میں بھی ایسی بچیوں کو دیکھا ہے جو مکمل پردے میں ہوتی ہیں ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت یاخاندان سے ہوتا ہے وہ بڑے بڑے عہدوں پر ہوتی ہیں تب بھی ان کا پردہ ان کی زندگی میں کوٸی رکاوٹ نہیں ۔۔ماننے والی بات ہے کہ وقت کے تقاضے بدلے ہیں لیکن جس اسلام کو ہم مانتے ہیں اس کے زرین اصولوں کو ماننا پڑتاہے ۔اگر پردے کا حکم قران میں ہے تو پھر ہمیں (justification ) کا حق نہیں پہنچتا ۔۔۔ہمیں یا تو طوغا کرہا مانا پڑے گا یا صاف انکار کرنا پڑے گا ۔اب قران کے کسی صریح حکم سے انکار کی صورت میں کیا ہم داٸرہ اسلام میں شامل رہ سکتے ہیں یا باہر ہوتے ہیں

 

یہ بھی واضح ہے ۔چترال بہت تیزی سے ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں عریانی کی طرف جارہا ہے ۔ہم اپنی روایات کھوتے جارہے ہیں ۔۔ہمارے جو اقدار تھے وہ عین اسلامی تھے ان کی حیثیت ختم ہوتی جارہی ہے ۔دنیا کی ہرقوم اور تہذیب کے اندر عورت کا مقام اور عورت سے منسوب اقدار متعین ہیں عورت ان سے کبھی باغی نہیں ہوٸی ۔۔بغاوت اس وقت جنم لیتی ہے کہ بندہ اپنے اقدار چھوڑ کر بخوشی دوسروں کے اقدار اپناۓ۔۔۔ ہم فخر سے ایسا کر رہے ہیں ۔۔اگر ہماری کوٸی بچی یا بچہ پڑھنے کے لیے کسی دوسرے ملک پہنچتا ہے تو پہلے بچی کے سر سے دوپٹہ اور بچے کی شلوار قمیص بدلتی ہے ۔کیا یہ کلچر اور لباس تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔۔میں خود ہار چکا ہوں پہلے گھر میں عورت کے سر سے دوپٹا گرتا تو وہ گھر کے مردوں کے سامنے شرمندہ ہوتی اب ہم ان کو ننگا سر دیکھ کر شرمندہ ہوتے ہیں ان کو احساس تک نہیں ہوتا ۔۔دارالعلوم کے بچے بچیاں مکمل شرعی پردہ کرتے ہیں کیا وہ زندہ نہیں ہیں ۔۔۔کیا زندگی ان پر بوجھ ہے۔ کیا پردے میں ان کا دم گھٹتا ہے ۔سوال احساس کی ہے ۔

 

احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ ۔۔۔۔۔انچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی ۔۔۔۔۔چترالی کلچر میں دوپٹے کی بڑی اہمیت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ چترالی عورت کی پہچان ہے یاں اگر کوٸی اس سے انکاری ہے تو ڈھنکے کی چوٹ پر کہدے کہ میں نے چترالیت اپنے سر سے اتار پھینکا یے ۔۔۔حدیث شریف ہے ۔۔۔اگر کسی کی حیا مرجاۓ تب اس کی مرضی ہے جو بھی کرے ۔اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر مجبور ہیں تو ان حقیقتوں سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ اسلام کے متعین کردہ اصول ہماری اولین ترجیحات ہیں

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93235

داد بیداد ۔ اعتما د کا فقدان ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ اعتما د کا فقدان ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

 

80سال کے ایک نیم خواندہ تاجر مقا می پریس کلب میں کسی سے ملنے آئے، دوستوں نے بزرگ کو باتوں میں لگا یا ان کی باتیں بڑے بڑے دانشوروں سے زیا دہ دلچسپ تھیں ان کے مشاہدات اور تجربات میں معلو مات کا خزانہ نظر آتا تھا، جب وہ آئے تھے ہم مو جود ہ سیا سی صورت حال اور اس میں تازہ ترین بیانات پر رائے زنی کر رہے تھے ہماری باتیں سن کر انہوں نے بڑے پتے کی ایک بات کہی اُس نے کہا ”چوہے بلی کا کھیل ہے“ پھر انہوں نے جو کچھ کہا وہ لکھا نہیں جا سکتا، ہم نے بات کا رخ ملک کو درپیش مسائل کی طرف موڑ دیا اُس نے کہا اعتماد کا فقدان پہلا مسلہ ہے یہ مسلہ حل ہوا تو سارے مسائل حل ہو جائینگے ہم نے کہا اعتماد کو کیا ہوا؟ اُس نے کہا 1961کا زما نہ مجھے یا د ہے میں کپڑے کے بڑے کارخا نے میں مزدوری کر تا تھا کراچی کو غریب پرور شہر کہا جا تا تھا ہم 5مزدور ایک کمرے میں رہتے تھے، ہمارے ایک ساتھی کے پا س ٹرنسسٹر ریڈیو تھا صدر جب ریڈیو پر قوم سے خطاب کر تا تو ہم بڑے شوق سے اس کی انگریزی تقریر سنتے جو 6سے 7منٹ کی مختصر تقریر ہوتی تھی اور سال میں ایک یا دو بار ہو تی تھی

 

اُس کی ہر بات پر ہم کو یقین ہوتا تھا ہم ان کی باتیں تر جمہ آنے کے بعد سمجھتے تھے اور اگلے روز دوسروں کو بتا تے تو وہ بھی پوری یقین کے ساتھ دلچسپی لیکر سنتے تھے، یہ اعتماد تھا، چند سال بعد میں نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا تجارت میں ہم سالا نہ بجٹ کو دیکھتے تھے، کونسی چیز سستی ہو گی کونسی چیز مہنگی ہو گی بجٹ کو دیکھ کر ہم جواندازہ لگا تے وہ سال بھر ایسا ہی ہو تا تھا اس میں انیس بیس کا فرق نہیں ہوتا تھا بجٹ پر تا جروں کو اعتماد تھا، سال میں ایک آدھ بار ہمارے بازار میں کوئی مسلہ ہوتا تو بازار کے چوہدری کو کسی ممبر یا افیسر سے ملنے کے لئے بھیجتے تھے، ممبر یا افیسر جو کچھ کہتا تھا ایسا ہی ہو جا تا تھا ہم کو اس کی بات پر پورا پورا اعتماد تھا چونگی، محصول، ٹیکس اور دیگر چھوٹے موٹے مسائل کے لئے بازار کا چودھری ایک درخواست بھیجتا تھا دوسرے دن اس درخواست پر غور ہو جا تا تھا، دفتر پر ہمارا پورا اعتماد تھا آج میرے بیٹے اور پوتے کاروبار کر تے ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے آج بازار میں شٹر ڈاون ہڑ تال کے بغیر کوئی معمولی مسلہ بھی حل نہیں ہوتا،

 

دیہاتیوں، کسا نوں، مزدوروں، سرکاری ملا زمین کا بھی ایسا ہی حال نظر آتا ہے وہ بھی اپنے مطا لبات کے لئے جلو س، جلسہ، ریلی اور بھوک ہڑ تا ل کر تے ہیں تو مسلہ حل ہو جا تا ہے اس کے بغیر ان کی بات کوئی نہیں سنتا بزرگ رخصت ہوا تو گفتگو کا رخ ہم نے اعتماد کے فقدان کی طرف موڑ دیا اور اخباری روایت کے مطا بق ”فلیش بیک“ کر کے ماضی میں جھا نکنے کی کو شش کی تو 1980کا عشرہ نظر آیا جو اعتماد ٹوٹنے کا پہلا عشرہ تھا کر اچی میں تبا ہی اور بربادی اُس دور میں آئی، وزیر ستان میں دہشت گردی اُس زما نے میں لائی گئی ایک آگ جنو ب کی طرف سے پھیلنے لگی دوسری آگ شمال کی طرف سے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی، عوام اور حکام میں بد اعتمادی پیدا ہوئی، دونوں ایک دوسرے کو شک کی نگا ہ سے دیکھنے لگے بدا عتمادی کی یہ وبا سیا ستدانوں تک پھیل گئی سیا ست دانوں پر عوام کا اعتماد ختم ہوا پھر بد اعتمادی نے عدلیہ کو اپنے لپیٹ میں لے لیا خو د کش جیکٹ کے ساتھ مجر م پکڑے جا تے تھے چند دنوں کے بعد باعزت بری کئے جا تے تھے،

 

لو گ سوچنے لگے ہمارا دشمن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا پھر کس طرح بری ہوگیا؟ آہستہ آہستہ بدا عتما دی کی یہ لہر دوسرے قومی اداروں تک پھیل گئی الغرض کسی کو کسی پر اعتماد نہیں رہا، 1961میں صدر 6منٹ تقریر کرتا تھا تو لو گ مان لیتے تھے آج کا حکمران گھنٹہ، سوا گھنٹہ بولتا ہے مگر مانتا کوئی نہیں ایک ٹرانسسٹر کی جگہ سینکڑوں ٹیلی وژن چینل حکمران کی تقریر دکھا تے ہیں مگر لوگ چینل بدل کرنیشنل جیو گرافک یا ڈسکو ری دیکھنا پسند کر تے ہیں حکمران کی باتوں میں عوام کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے ہم نے مانا یہ اعتما د کا فقدان ہے سب سے پہلے اعتماد کے فقدان سے نجا ت پا نے کی ضرورت ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93201

وقت سے پہلے بے ذوق ذمہ داریاں – خاطرات :امیرجان حقانی

وقت سے پہلے بے ذوق ذمہ داریاں – خاطرات :امیرجان حقانی

زندگی کے مختلف ادوار میں ہمارے سامنے طرح طرح کی ذمہ داریاں آتی ہیں، اور یہ ذمہ داریاں کسی حد تک ہماری شخصیت کی تعمیر میں بھی کردار ادا کرتی ہیں اور ہمیں آگے بڑھنے کی ڈھارس بندھاتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم مڈل کلاس اور غریب طبقے کے افراد، بالخصوص نوجوان، اپنی زندگی کے سب سے اہم، حسین، خوبصورت اور تخلیقی دور یعنی 20 سے 40 سال کی عمر میں ایک غیر متوازن زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انہیں خود کو ثابت کرنے اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کے مواقع ملنے چاہییں، لیکن اکثر اوقات یہ لوگ بے ذوق اور بھاری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب کر وقت سے پہلے بوڑھے ہونے لگتے ہیں، جوانی جواب دینے لگتی ہے، خواب ٹوٹنے لگتے ہیں اور انسان بکھر سا جاتا ہے۔

 

زندگی کی یہ ذمہ داریاں جیسے کہ خاندانی تقاضے، معاشرتی دباؤ، نوکری کی تلاش اور اس کی کارستانیاں، اور مالی مشکلات اور دوسروں کے توقعات، نوجوانوں کو اس قدر جکڑ لیتی ہیں کہ ان کے خواب اور امنگیں رفتہ رفتہ دبنے لگتی ہیں۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب انسان اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب آپ تخلیقی سوچ یا نئے منصوبے پیش کرتے ہیں تو بڑے بوڑھے اکثر ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان پر تنقید کرتے ہیں یا آپ کی سوچ کو ناپختہ قرار دیتے ہیں۔

 

معاشرتی روایات اور ذمہ داریوں کی پابندیاں ان نوجوانوں کو اپنی زندگی میں جمود کا شکار کر دیتی ہیں۔ جس وقت آپ کو اپنی زندگی کے بڑے فیصلے لینے کا اختیار ملتا ہے اور آپ خود مختاری کی طرف بڑھتے ہیں، تب تک جسمانی طاقت اور ذہنی توانائی زوال پذیر ہو چکی ہوتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے زندگی ایک ایسی گاڑی ہو جو تیز رفتاری سے چلتے چلتے اچانک بریک لگاتی ہو، اور آپ بس اس کے ہچکولے کھاتے رہ جاتے ہیں۔

 

یہ صورتحال اس قدر سنگین اور افسوسناک ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں شاید ہم نے کبھی اپنے لئے کچھ کیا ہی نہیں۔ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی زندگی بے رنگ اور بے ذوق ہو جاتی ہے، اور انسان کی ذات ایک ایسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح محسوس ہوتی ہے جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔

 

اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب انسان زندگی کی ان ذمہ داریوں کو نمٹاتے نمٹاتے عمر کے ایک ایسے موڑ پر پہنچتا ہے جہاں سے پیچھے مڑ کر دیکھنے کا موقع نہیں ہوتا، تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے بجائے دوسروں کی توقعات کو پورا کرنے میں گزار دیا۔ اور جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو جسمانی توانائی اور ذہنی جوش جواب دے چکے ہوتے ہیں۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی بس یہی ہے؟ کیا ہمیں بس یہ بے ذوق ذمہ داریاں نبھاتے رہنا ہے؟ یا پھر کیا کوئی ایسا راستہ ہے جہاں ہم اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوابوں اور ذوق کو بھی زندہ رکھ سکیں؟

 

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زندگی کے اس سفر میں توازن پیدا کریں۔ ذمہ داریاں اور دیگر کے توقعات اور خوشیاں اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اگر ہم اپنے ذوق اور خوشیوں کو مکمل طور پر قربان کر دیں تو زندگی کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ یہ توازن کیسے پیدا کیا جائے؟ اس کا جواب شاید اس میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان چیزوں سے بھی بھرپور بنائیں جو ہمیں خوشی دیتی ہیں، جو ہمیں زندہ محسوس کراتی ہیں اور آگے بڑھنے کا راستہ بتاتی ہیں۔

 

ہمیں خود کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ زندگی صرف بوجھ اٹھانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں ہمیں اپنے لئے بھی کچھ وقت نکالنا چاہئے۔ خوابوں کو زندہ رکھنا اور زندگی کے ذوق کو برقرار رکھنا نہ صرف ہماری اپنی ذات کے لئے ضروری ہے بلکہ یہ ہمارے آس پاس کے لوگوں کے لئے بھی ایک مثبت پیغام ہے۔

 

زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنے آپ کو کہیں گم نہ ہونے دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا ضرور ہے، لیکن آپ کا ذوق، آپ کے خواب، اور آپ کی خوشیاں بھی اس زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اگر ہم ان دونوں کے درمیان توازن قائم کر سکیں تو شاید ہم وقت سے پہلے بوڑھے ہونے کے بجائے ایک بھرپور اور متوازن زندگی گزار سکیں۔

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93180

داد بیداد ۔ اسوہ حسنہ اورعہد حا ضر۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ اسوہ حسنہ اورعہد حا ضر۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

مسلما نوں کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے کہ تمہارے لئے خا تم الانبیا ء محمد مصطفی ﷺ کی زند گی بہترین نمو نہ ہے اس نمو نے پر چلو گے تو اللہ کی رضا اور آخر ت کی کا میابی حا صل ہو گی شارحین نے لکھا ہے کہ دنیوی باد شا ہت، کامیا بی اور کا مرانی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا منطقی نتیجہ ہے اس لئے آ خر ت کے مقا بلے میں اس کا ذکر نہیں آیا اس کو اخفا میں رکھا گیا ہر سال 12ربیع الاول کو اسلا م اباد میں حکومت پا کستان قومی سیرت کا نفر نس کا اہتمام کر تی ہے عام تقا ریر، خطبات اور مقا لا ت کی طرح اس کا نفرنس میں بھی مسلمانوں کی 1400سالہ تاریخ دہرائی جا تی ہے جدید زما نے کے چیلینجوں کا ذکر نہیں ہو تا، عہد حا ضر کو سامنے رکھ کر مطا لعہ سیرت کی دعوت نہیں دی جا تی اور اسوہ حسنہ کی روشنی میں عہد حا ضر کے واضح اور نما یاں خطرات کا مقا بلہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے پر تو جہ مر کوز نہیں کی جا تی

 

اس وقت امت مسلمہ کو پوری دنیا میں دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے پہلا چیلنج یہ ہے کہ دنیا کی 8ارب آبادی میں دو ارب مسلمان ہیں ان میں سے 80کروڑ کی مسلم آبادی غیر مسلم مما لک میں اقلیت کی حیثیت سے محکوم زند گی گذار رہی ہے جبکہ ایک ارب 20کروڑ مسلم آبادی ایسے مما لک میں رہتی ہے جن کے حکمران مسلمان ہیں اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، کسی کے محکوم نہیں مگر 57اسلا می مما لک میں سے ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں معیشت سود سے پا ک ہو، جہاں عام خوراک حرام سے مبرا اور پا ک ملتی ہو عوام پر کسی شخص حکومت کا ظلم و جبر نہ ہو اور جہاں مسلمانوں کو شریعت کے مطا بق زند گی بسر کرنے کی پوری آزادی ہو یہ بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہے ستم یہ ہے کہ اس چیلنج کا کسی کو بھی احساس نہیں علا مہ اقبال نے 100سال پہلے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا ”اے وائے نا کا می متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جا تا رہا“ عہد حا ضر کا دوسرا چیلنج یہ ہے کہ جدید دنیا کو علوم و فنون کی تر قی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے موٹر، لا ری، بس، ریل سے لیکر ہوائی اور سمندری جہازتک حمل و نقل کے لئے ذرائع آئے، بجلی اور کمپیو ٹر کے ذریعے لا کھوں اقسام کی آسا نیاں اور سہو لتیں زندگی میں داخل ہو گئیں،

 

خلا ئی سائنس میں نئے علوم دریافت ہوئے، کمپیو ٹر نے مصنو عی ذہا نت کے نا م سے نیا جا دو ایجا د کر لیا ان تما م ایجا دات و احترا عات میں مسلما نوں کا حصہ صفر کے برابر ہے آنے والی صدیوں کے لئے بھی مسلمانوں کے پا س علوم و فنون میں آگے بڑھنے اور دیگر اقوام کا مقا بلہ کرنے کا کوئی ارادہ، پرو گرام یا منصو بہ نہیں ہے، مذکورہ بالا دونوں خطرات یا چیلنج ایسے ہیں جو ہمیں اسوہ حسنہ کی طرف خلو ص نیت اور خلو ص دل سے رجو ع کرنے کی دعوت دیتے ہیں اس پر باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہے کہ عہد حا ضر کے لئے اسوہ حسنہ کا پیغام کیا ہے؟ اور جو بھی پیغام ہے اس کو عملی طور پر اپنا کر دکھا نے کی حکمت عملی کیا ہو گی! مدنی زندگی کے دوسرے سال جنگ بدر کے مشرک اور کافر قیدیوں کا معا ملہ سامنے آیا، اسوہ حسنہ کی صورت میں جو نمو نہ سامنے آیا وہ یہ ہے کہ مشرکین اور کا فروں میں جو پڑھے لکھے قیدی ہیں وہ نا خواندہ مسلما نوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں گے تو ان کو آزاد کیا جا ئے گا

 

پہلی صدی ہجری میں جو علم پڑھنے لکھنے تک محدود تھا وہ علم پندر ھویں صدی ہجری میں سائنس اور ٹیکنا لو جی کہلا تا ہے یہ علم آج بھی یہو د و ہنود، مشرکین، ملحدین اور نصا ریٰ کے پا س ہے اسوہ حسنہ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان غیر وں سے یہ علوم حا صل کر کے ترقی کی دوڑ میں دوسری اقوام سے آگے نکلنے کی کوشش کریں ہجرت کے پانجویں سال غزہ احزاب کا معرکہ پیش آیا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ایران سے آئے ہوئے عجمی صحا بی سلمان فارسی ؓ کی تجویز پر خندق کھو د کر مدینہ کا دفاع کیا یہاں عرب و عجم کا فرق مٹا دیا مو جود ہ دور کے بے شمار فتنوں میں ایک فتنہ بغض، حسد، اور دشمنی کا فتنہ ہے جس نے امت مسلمہ کو متحا رب فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے اسوہ حسنہ کا تقا ضا یہ ہے کہ ختم نبوت کے منکر ین کو چھوڑ کر باقی سب کے لئے رحمتہ العا لمین کی محبت کو عام کیا جائے نبی کریم ﷺ کی سنت صرف نکاح، مسواک اور خوشبو ہی نہیں عفو و در گذر بھی مستقل سنت ہے، نبی اکرم ﷺ نے اپنے خون کے پیا سوں پر جب قابو پا یا تو پہلی نظر میں ان کو معاف کر دیا، دل میں کسی کے لئے کدورت نہیں رکھا عہد حا ضر کے فتنوں کا مقا بلہ کرنے کے لئے خا تم الانبیاء ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں آج مسلما نوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے جو بغض و عداوت ہے اس کو اسوہ حسنہ پر اخلا ص کے ساتھ عمل کرتے ہوئے محبت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
سلا م اس پر جس نے بیکسوں کی دست گیری کی
سلا م اس پر جس نے باد شا ہی میں فقیری کی

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامین
93122

بزمِ درویش ۔ نور ہی نور۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ نور ہی نور۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

آج سے تقریبا سوا چودہ سو سال قبل تمام دنیا پر ظلم و جبر اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اہل فارس آگ کی پوجا اور ماں کے ساتھ وطی کرنے میں مصروف تھے ترک شب و روز انسانی بستیوں کو تباہ برباد کر رہے تھے بندگان ِ خدا شدید اذیت میں مبتلا تھے اِن کا دین بتوں کی پوجا اورکمزور بے بس انسانوں پر ظلم کرنا تھا۔ ہندوستان کے لوگ بتوں کی پوجا اور خود کو آگ میں جلانے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے نیوگ جیسی انتہائی پست رسم کو جائز سمجھتے تھے یہ عالمگیر ظلمت اِس امر کی متقاضی تھی کہ ایک مسیحا ِاعظم اور ہادی تمام دنیا کے لیے مبعوث ہو اِس کے لیے خالقِ کائنات نے عرب کی سر زمین کو چنا اس وقت سر زمین عرب تمام برائیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔اہل عرب میں ہر طرح کی برائی موجود تھی عرب میں زیادہ تر لوگ خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے رہتے جہاں پانی اور سبزہ نظر آتا وہیں ڈیرہ جما لیتے چارہ ختم ہوتا تو خیمے سمیٹ کر آگے چل دیتے تھے یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ منظم شہر اور دیہات بہت کم تھے لوگوں کا آپس میں میل جول نہ ہونے کے برابر تھا

 

 

اور نہ ہی کوئی با قاعدہ مضبوط حکومت تھی۔اِن حالات میں طاقت ور کا راج تھا مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ تھا طاقت ور اپنی طاقت کے زور پر اپنی مر ضی کرتا اور کمزور طبقہ طاقتورو ں کی غلامی پر مجبور تھا۔ زیادہ تر قبائلی سسٹم تھا ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع ہو تا جو برسو ں تک چلتا لڑائیوں میں بے شمار لوگ مارے جاتے غالب قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیتا۔شراب اور جوا کی لت عام تھی شراب پی کی سرِ عام فحش باتیں کی جاتیں۔ خود پسندی، تکبر و غرور اتنا زیادہ تھاکہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے عرب بہت زبان آور تھے ان میں کئی بڑے شاعر بھی تھے لیکن ان کی یہ خوبی بھی برائی میں کام آرہی تھی بے ہودہ اشعار کہے جاتے عورتوں کا نام لے کر فحش شاعری اور کہانیاں بیان کی جاتیں اگر کسی کے گھر بیٹا پیدا ہو تا تو خوب خوشیاں منائی جاتیں۔

 

لیکن اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو اس کو زندہ دفن کر دیا جاتا بیٹی کا سوگ منا یا جاتا جس کے گھر بیٹی پیدا ہوتی وہ اپنا منہ چھپا تا پھرتا۔ آپس کی لڑائیوں میں دشمنوں کو زندہ جلا دیا جاتا۔ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے جاتے بچوں کو خنجروں اور تلواروں سے بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا۔ غرض کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہ تھی معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ عورتیں تھیں عورتوں کی حالتِ زار بہت ہی قابل ِ رحم تھی عورتوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا۔ جانوروں کی طرح عورتوں کو سر عام منڈیوں میں نیلام کیا جاتا۔ لڑکیوں کو اِس خیال سے کہ جب بڑی ہونگی تو اِن کی شادی کرنا پڑے گی پیدا ہوتے ہی بچیوں کو مار دیا جاتا اکثر میاں بیوی میں نکاح کے وقت ہی یہ معاہدہ طے پا جاتا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اس کو زندہ دفن کر دیا جا ئے گا مرد و عو رت کے اختلاط کی انتہائی گھٹیا صورتیں تھیں۔ جنہیں بد کاری و بے حیائی، فحش کاری اور زنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ نکاح کی چار مختلف صورتیں تھیں۔ ایک صور ت تو آج جیسی تھی جبکہ باقی تین صورتیں صرف فحاشی اور زنا کاری پر مشتمل تھیں دو سگی بہنوں سے نکاح کرنے کی رسم عام تھی باپ کے وفات پانے پر بیٹا اپنی ماں کے علاوہ باقی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتا اقتصاص طور پر عرب پورے دنیا سے پیچھے تھے تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات ِ زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی۔

 

کیونکہ زیادہ تر وقت آپس میں لڑائی جھگڑوں میں صرف ہوتا اِس لیے اقتصادی حالت بھی اچھی نہ تھی مردار کھانے کی عادت عام تھی عرب میں زیادہ تر لوگ حضرت اسماعیل کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دین ابراھیمی کے پیروکار تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خدائی درس و نصیحت کا بڑا حصہ بھلا دیا ایک دفعہ اِن کے ایک سردار عمر و بن لحی نے شام کا سفر کیا تو وہاں پر بتوں کی پوجا کو دیکھا تو متاثر ہو کر واپسی پر اپنے ساتھ ہبل نامی بت بھی لے آیا اور لا کر اسے خانہ کعبہ میں نصب کر دیا۔ عرب میں بت پرستی کا بانی یہی شخص تھا اِس نے اہلِ مکہ کو بت پرستی کی دعوت دی جس پر اہلِ مکہ نے لبیک کہا اِس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اِس بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا پھر وادی نخلہ میں عزی نامی بت رکھا گیا یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے۔اِس کے بعد عرب کے ہر خطے میں بتوں کی بھر ما ر ہو گئی جدہ میں بہت سارے مدفون بت نکالے گئے اور جب حج کا زمانہ آیا تو ان بتوں کو مختلف قبائل میں تقسیم کر دیا گیا اِس طرح ہر قبیلے اور پھر ہر ہر گھر میں ایک ایک بت رکھ دیا گیا مشرکین نے خانہ کعبہ کو بھی بتوں سے بھر دیا گیا۔ بیت اللہ کے گردا گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ غرض شرک اور بت پرستی اہل ِ جاہلیت کے دین کا سب سے برا مظہر بن گئی۔ مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے انہیں زور زور سے پکارتے۔

 

مشرکین عرب کا ہنوں اور نجومیوں کی باتوں پر ایمان رکھتے مختلف ہڈیاں گھروں میں لٹکاتے۔ بعض دنوں، مہینوں میں جانوروں گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھتے بیماریوں اور چھوت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ روح کے الو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے بڑے درختوں کی پوجا کرتے تھے۔ بیماری کا علاج جادو منتر ٹونے ٹوٹکوں سے کرتے۔ ہر طرف بد اخلاقی، بے انصافی قتل و غارت کا دور دورہ تھا گویا عرب اور پوری کائنات اندھیر نگری بن چکی تھی بندگان خدا کے حقوق بری طرح پا مال ہو رہے تھے۔ خالقِ کائنات کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب بھی انسانوں کی حالت زار آخری حدوں تک پہنچ جاتی ہے تو وہ کسی مسیحا کو بھیج دیتا ہے اور پھر کرہ ارض کی سب سے قیمتی ساعت طلوع ہوئی رب کعبہ نے ایک ایسا مسیحا اِعظم بھیجا جس کی ایک جنبش چشم سے صدیوں سے بیمار اور پیاسی روحوں کو سیرابی ملنے والی تھی وہ مسیحا کہ روز اول سے قیامت تک پیدا ہو نے والے انسانوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو اِس مسیحا کے پیروں سے اٹھنے والی خاک کو بھی چھو سکے۔

 

جذبوں کا حکمران، جسموں اور روحوں پر حکومت کرنے والا قیامت تک آنے والی اندھی اور کثیف روحوں کو روشن کرنے والا، مردہ دلوں کو اپنے سوز ِ دل سے زندگی کی حرارت بخشنے، سنگلاخ زمینوں کی طرح بنجر روحوں کو روشن کرنے والا ایک ایسا مسیحا جس کے قدموں سے اٹھنے والے غبار کا ایک ذرہ جس پر بھی پڑا وہ سونے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔صدیوں سے سسکتی تڑپتی انسانیت کی پیاس بجھانے کے لیے حضرت آمنہ کے لال 9یا 12ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن فجر کے وقت رحمت دو عالم دنیا میں تشریف لائے آپ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح نورانی اور آنکھیں قدرت الہی سے سر مگیں۔آپ کا نام محمد رکھا گیا۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے پورے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت ایوان ِ کسری کے چودہ کنگورے گر گئے۔ فارس کا ہزاروں سال سے جلتا آتش کدہ بجھ گیا۔ عرب کے سارے بت منہ کے بل گرے اور سر بسجود ہو گئے بحیرہ سا وہ خشک ہو گیا اس کے گرجے منہدم ہو گئے۔ حضرت آمنہ کے لال کے نور سے ساری کائنات جگمگا اٹھی اور آپ کی خوشبو سار اعالم معطر ہو گیا۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93095

دادبیداد ۔  قومی مکالمہ – ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

دادبیداد ۔  قومی مکالمہ – ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

وطن عزیز پاکستان کو درپیش حالات اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے قومی مکالمہ کے نام سے وسیع تر اتحاد اور اتفاق کی تجویز اخبارات اور ٹیلی وژن کے ذریعے پیش کی گئی ہے لیکن وطن کے اندر مچھلی بازار یا نقارخانے کا شوروغوغا برپا ہے اس لئے کوئی بھی شخص کسی سنجیدہ بات کو سننے پر آمادہ نہیں 25کروڑ عوام اور مٹھی بھر خواص کوجب بھی کچھ کہنے کاموقع ملتا ہے ان میں ہرایک مایوسی اور ناامیدی کی بات کرتا ہے مثلاً کچھ نہیں ہوگا یہ ملک نہیں سدھرے گا،زوال کی طرف سفر کوروکنا محال ہے،سرنہ کھپاؤ،اپنا کام کرو،ملک اور قوم کا خداحافظ،یہ ایسی باتیں ہیں جو خود زوال کی علامتیں ہیں مایوسی کفر ہے مسلمان اللہ پاک کے رحم وکرم سے کبھی مایوس نہیں ہوتا،اللہ پاک کا کرم ہروقت اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ مشکلات اور بھنورسے اپنے بندوں کونکالتا ہے۔ہمارے سرپراس وقت جوکالے بادل منڈلارہے ہیں

 

یہ وہی بادل ہیں جو 1971میں وطن کی فضاوں پرگردش کررہے تھے بادلوں کامنبع بھی وہی جگہ ہے یعنی بحرہندکی طرف سے آنے والے بادل ہیں ان بادلوں کے اندر جو عذاب نظرآرہا ہے وہ بھی نہایت خوف ناک اور بھیانک عذاب ہے اس عذاب سے خود کواور اپنے ملک وقوم کو بچانے کا راستہ صرف قومی مکالمہ ہے۔قومی مکالمہ کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے یونیورسٹی کا آڈیٹوریم سامعین سے بھرا ہواتھا پانچ ہزار کا مجمع تھاغیر ملکی مہمان نے سیاسی طرز فکر اورمفاہمت پرخطاب کیا اور آخر میں سوالات پوچھنے کی دعوت دی ایک پاکستانی صحافی نے مہمان مقرر سے پوچھا کیا آپ کے نقطہ نظر سے پاکستان میں بھی ان اصولوں پر سیاسی طرز فکراپنا کر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟مقررنے صحافی سے پوچھا آپ کو پاکستانیوں کی قابلیت پرکیوں شک ہورہا ہے؟صحافی نے کہا ہمارے ملک میں سیاست کی بنیاد نظریات پرنہیں،دولت اور طاقت پرہے،حکومت میں آنے کے لئے نظریات کا پرچار نہیں ہوتا دولت اور طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔مہمان نے پوچھا کیا اس ملک میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات والے سیاست اور حکومت میں نہیں ہوتے؟

 

صحافی نے کہا بائیں بازو کاکوئی تصور نہیں صرف دایاں بازو ہے جو جاگیرداری،سرمایہ داری اور اجارہ داری پریقین رکھتا ہے،مہمان نے سرد آہ بھرتے ہوئے پانی مانگا،پانی کا گھونٹ لینے کے بعد اُس نے تین باتیں کہہ کراپنی تقریر ختم کی ان کی پہلی بات یہ تھی کہ حکومت اور سیاست کے حصہ داروں کوملک اور قوم کے ساتھ وفادار ہونا چاہیئے اگرملک اورقوم کے ساتھ وفاداری ہوگی تو سیاسی مفاہمت کے لئے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا مشکل نہیں ہوگا دوسری بات یہ تھی کہ حزب اقتدار اورحزب اختلاف کے ہرلیڈر کاماضی کرپشن سے پاک ہونا چاہیئے جب ماضی کرپشن سے پاک ہوگا توحکومت ہاتھ سے جانے کا خوف ختم ہوجائے گا۔ناروے،سویڈن،برطانیہ اورجرمنی کی طرح قوم کا ہرلیڈر ہروقت حکومت کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگا اُس کے مالی مفادات سرکاری خزانے سے وابستہ نہیں ہونگے اُس کاماضی جرائم پیشہ لوگوں میں نہیں گذرا ہوگا،اس تین نکاتی مفاہمتی ایجنڈے کے آئینے میں ہرلیڈر کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیئے جس کا ریکارڈ جرائم سے پاک ہوگا اُس کومفاہمت سے خوف نہیں ہوگا ہمارے پاک وطن کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوریت کاتجربہ ابھی تک نہیں کیا،ہم نے سول آمریت اور سرکاری بادشاہت کے دونظاموں کاباربار تجربہ کیا ہے دونوں نظاموں سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے اس مایوسی کے نتیجے میں عدالتوں سے اعتماداُٹھ گیاہے الیکشن کمیشن سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔قومی مکالمہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سیاست اور حکومت کے حصہ داروں کا آپس میں اعتماد کا رشتہ دوبارہ بحال ہوگا،قومی اداروں پرقوم کا اعتماد پھر سے بحال ہوگا اور قوموں کی برادری میں ہم ایک بار پھر فخر کے ساتھ اپنا سر بلند کرکے آگے بڑھ سکینگے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
93053

شنـــــــــدور اور طاقتور نمبــــــردار – تحریر۔ شمس الحق نوازش غذری

Posted on

شنـــــــــدور اور طاقتور نمبــــــردار – تحریر۔ شمس الحق نوازش غذری

بیلوں کی لڑائی سے آنکھ کھلی تو گاؤں کی مشہور خبرنگار خاتون طلوعِ سحر کے فوراً بعد گھر آکر بیٹھی تھی۔ وجہ آمد معلوم کیا تو مصنوعی انداز میں گہری سانس لی اور چہرے میں سنجیدگی کی چادر چڑھا کر گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا بالکل عجیب شے ہے عجیب ہی نہیں بلکہ عجوبہ ھے دیکھیے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتی ہوئی انکھیں جھکائی اور بالکل خاموش ہوگئ۔ جب ان کی خاموشی غیر معمولی طوالت اختیار کر گئی تو مخاطب سے بھی رہا نہ گیا۔ انہوں نے کہا جی ہاں! یہ دنیا بالکل عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مخاطب کے زبان سے سکوت ٹوٹنے پر انھوں نے سر اٹھائی تو ان کے آنکھوں سے آنسوؤں کے گولے ٹپک رہے تھے مخاطب حیرت سے انھیں تکتا رہا اور پریشانی کی وجہ دریافت کرنے کی غرض سے جونہی لبوں کو حرکت دی۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ دیکھتے ہی انہوں نے مخاطب کو کچھ بولنے کے لیے زحمت دئے بغیر دوبارہ گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کی بے رغبتی کو، اور اسکی بیحسی اور اس کی زندگی کو اج لنگرخان کو بھی جینے نہیں دیا۔۔۔۔ یہ سنتے ہی مخاطب نے افسوس بھی کرلیا اور ان کی تشریف آوری کا مدعا بھی سمجھ لیا۔ اصل میں یہی خبر اج ان کی خاص بولٹن کا حصہ تھی کہ لنگرخان کی موت واقع ہوئی ھے گاؤں میں کسی کی موت کی خبر کو لاؤڈ اسپیکر میں اعلان کرنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ شہر کی طرح گاؤں میں گنجان آبادی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ خبر اچھی ہو یا بری سیکیڈوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ھے۔ اس خبر کو خبرنگار خاتون نے پھلائی یا خود پھیلی۔ اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں البتہ گاؤں میں جس نے جس وقت اور جس کام کے دوران یہ خبر سنی ۔ اس نے اسی وقت وہ کام وہی چھوڑ دی۔ مستری نے ہتھوڑا نیچے رکھا، مالی نے کھرپہ، کسان نے درانتی پھینک دیا اور مزدور نے گھنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کی خبر سن کر گاؤں میں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ مرنے والا امیر تھا یا غریب،حاکم تھا یا محکوم۔۔۔۔۔۔

 

اگرچہ لنگرخان بھی بذات خود کوئی بڑے امیر، حاکم یا مخدوم نہیں تھے لیکن اج گاؤں میں ان کی اہمیت کی کوئی وجہ تھی تو وہ صرف یہ کہ موت ان کی زندگی سے روح چھین لی تھی اور ہمارے معاشرے میں روح سے محروم بدن کی اہمیّت بھی ہوتی ھے اور عزت بھی۔۔۔۔۔۔ چاہے مرنے والا لنگرخان ہو ہلاکوخان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں آج لنگرخان کے گھر کی طرف مردوں اور عورتوں،جوانوں اور بوڑھوں کی لائنیں لگی تھی۔ گاؤں کی روایت یہ ہے کہ کسی گھر میں موت واقع ہونے پر خواتین ورثاءِ میت کیساتھ ہمدردی کے لئے گریہ وزاری کرتی ہیں اور مرحوم کی جسد خاکی کو اخری آرام گاہ کی طرف رخصت کرنے سے قبل گھروں کی طرف واپس لوٹنے کو معیوب سمجھتی ہیں اور اس دن سوگوار خاندان کے خواتین اپنی سوگ میں شامل شرکاء کی آنسوؤں سے ان کی ہمدردی اور خلوص کے پیمانے کا لیول طے کرتی ہیں۔۔۔۔۔ جبکہ مرد حضرات مختصر تعزیت کے بعد قبر کشائی کے لۓ قبرستان کا رُخ کرتے ہیں۔ گاؤں والے صرف ایسے مواقع میں اپنے حصّے سے بڑھ کر کام کرنے کو باعث ثواب بھی سمجھتے ہیں اور باعث فخر بھی۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے اجتماعی کاموں میں اس دن نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی نمبرداران کی۔۔۔ کوئی کسی کے حکم کا منتظر ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو حکم دینے کی نوبت آتی ہے میرے گاؤں میں جنوری کی یخ بستہ اور ہڈیوں کا گودہ منجمد کرنے والی طوفانی ہواؤں میں بھی چند گھنٹوں میں قبر تیار کرنے کا ریکارڈ موجود ہے۔

 

گاؤں کے لوگ روایتی انداز میں لنگرخان کی قبر کشائی میں مصروف تھے کسی کو کسی پر توجہ دینے کیلئے وقت ہی میسر نہیں تھا ہر شخص پوری دیانت داری اور یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں محو تھا اتنے میں چلی خان بابا کی قیادت میں چند نوجوانوں کا ٹولہ لنگرخان کی جسد خاکی کیلئے ان کے گھر کی طرف چل پڑا۔ ان کی اس حرکت سے مجمع میں موجود ایک پولیٹیکل ورکر آگاہ ہوا یہ دیکھتے ہی وہ اگے بڑھا اور انتہائی سختی سے انہیں منع کیا۔ چلی خان اور اس کے ٹولے کو ہدایت کی جب تک ارام گاہ تیار نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی یہاں سے ہلنے کی حماقت نہ کرے۔ یہ کہتے ہی نوجوان اپنے کام میں میں محو رہا اور دوبارہ چلی خان بابا کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کا انہیں خیال تک نہیں ایا۔ چلی خان بابا اور ان کا ٹولہ نوجوان پولیٹیکل ورکر کے نظروں سے خود کو بچاکر وہاں سے رفو چکر ہونے میں کامیاب ہوگۓ اور قبر تیار ہونے سے قبل ہی لنگرخان کا جسدخاکی قبرستان پہنچا دیا یہ دیکھتے ہی پولیٹیکل ورکر غصے سے کانپ اٹھا لیکن موقع غصے کو پینے اور جذبات کو ضبط کرنیکا تھا۔ یوں وہ اور اس طرح کے دیگر رضاکار خاموشی سے غصہ پیتے رہے اور دل ہی دل میں چلی خان بابا کو کوستے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سب کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ قبر تیار ہونے سے پہلے میت قبرستان پہنچانے کا کیامطلب۔۔۔۔۔۔؟ یہ سوال ہر کسی کے دل ودماغ میں کانٹے کی طرح چھب رہا تھا۔ قصہ مختصر۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی رسوائی اور بے حرمتی کے بعد بالآخر لنگر خان کی جسد خاکی زمین کی گود میں اتارا گیا۔۔۔۔ واپسی پر گاؤں والے ایک دوسرے کو اس قسم کی غلطی نہ دہرانے کا درس دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے ان سیدھے سادے اور بھولے بھالے انسانوں میں سے کسی کی بھی دل و دماغ میں یہ سوال دستک ہی نہیں دی کہ گاؤں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کی میت کا تقدس پامال کیوں ہوا۔۔۔۔۔؟ گاؤں والے مجموعی طور پر ایک انجانی سی کیفیت میں خود کو اس کا مورد الزام ٹھہرارہے تھے۔ یہ تو ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔۔کہ اس مکروہ دھندہ کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی راز پوشیدہ ہے۔ اس قبیح عمل کے انجام دہی میں کچھ سرغنوں کا کردار ہے اس کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی سازش پنہاں ہے۔

 

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی ماضی کا قصہ اور حصہ بن گیا۔ دنیا کے دیگر اہم واقعات اور حالات کی طرح گاؤں کے لوگوں نے بھی اس واقعے کو فراموش کردیا بلکہ یہ واقعہ تو لنگرخان کے جسدِ خاکی کی طرح منوں مٹی تلے دفن ہوکر گل گیا۔۔۔۔۔۔

 

کئی برس بعد نمبردار کی اہلیہ کا نمبردار کے قریبی عزیزہ کیساتھ جگھڑا ہوا۔۔۔ نمبردار کی اہلیہ نے انہیں سرعام نہ صرف برا بھلا کہا بلکہ ہاتھ اٹھانے میں بھی دیر نہیں کی۔ اس تضحیک کے رد عمل میں مخالف خاتون صرف اتنا کہہ گئ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی خواہشات کی تسکین کیلئے مردوں کو رسوا کرنے سے دریغ نہ کی ہوں انکے نزدیک زندوں کی اہمیت چہ معنی۔۔۔۔۔۔؟ نمبردار کی اہلیہ اور ان کی عزیزہ کے مابین چھڑی جنگ سرد پڑھتے ہی پاس کھڑی خاتون نے نمبردار کی عزیزہ سے مردوں کی رسوائی کی وضاحت چاہی تو نمبردار کی اہلیہ کی نئ نویلی دشمن گویا ہوئی۔۔

 

آج سے کئ برس قبل اسی گاؤں میں لنگر خان نامی شخص کا انتقال ہوا اس وقت ان کا آخری آرام گاہ تیار ہونے سے کئی گھنٹے قبل ان کی میت قبرستان پہنچادی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ افسوسناک حرکت نمبردار نے اپنی اہلیہ کی ایماء پر انجام دیا تھا جس کے بارے میں آج تک گاؤں کے فرشتے بھی لاعلم ہیں
سامنے کھڑی خاتون تعجب اور حیرت کی گہرائیوں میں ڈوب کر پوچھنے لگی۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ نمبردار کی عزیزہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوۓ گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی روز یہی ملکہ محترمہ بن سنور کے یہاں سے کئ دور کسی اور گاؤں میں اہم تقریب میں شرکت کرنے جارہی تھی۔ علاقے کی روایات اور رسم دنیا کے مطابق پہلے لنگر خان کے ماتم سراۓ میں تعزیت ضروری تھی۔ اس وقت گاؤں کی خاتون اول کے پاس صرف دو ہی آپشنز تھے۔ یا تو ہمسائیگی میں واقعہ فوتگی کے گھر ماتم پرسی چھوڑ کر تقریب میں شرکت کے لیے چلی جاتی یا ہنگامی طور پر لنگرخان کی میت کو کسی نہ کسی طرح گھر سے رخصت کروادیتی پہلی صورت پر عمل درآمد کرنے سے نمبردار کی نمبرداری کو خطرہ لاحق تھاپس انہوں نے دوسری آپشن پر عمل درآمد شروع کی اور کامیاب رہی جس کے بارے میں گاؤں والوں کو اج تک کوئی علم ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جب بھی شندور ایشو کا پتنگ سادہ لوح عوام کو آوارہ ہواؤں کی منشاء کے مطابق اڑتا ہوا نظر آتا ہے تو مُجھے ان کی ڈوری کسی نہ کسی طاقتور نمبــــــردار اور ان کے اہلیہ کے ہاتھ میں نظر آتی ہے لیکن میرے گاؤں کے بھولے بھالے عوام صرف اور صرف پتنگ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈورے ڈالنے والوں کی ڈوری کی طرف کسی کا خیال ہی نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ خیال اس وقت تک نہیں جاۓگا جب تک نمبرداران کی بیگمات کسی روز آپس میں دست و گریباں ہو کر ایک دوسرے کی راز فاش نہیں کریں گی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس وقت تک لنگر خان کی ہڈیاں راکھ کا ڈھیر بن چکی ہوں گی اور ورثاء قبر کا راستہ ہی بھول چکے ہوں گے

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92996

داد بیداد۔دہشت گردی کیوں؟۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد۔ دہشت گردی کیوں؟۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

سوشل میڈیا پریہ خبر گرم ہے کہ ستمبر2024کے پہلے ہفتے کودہشت گردوں نے امن سے گذرنے نہیں دیا یہ واقعہ خیبرپختونخواہ کے پُرامن ضلع اپرچترال کے سیاحتی مقام اور گرمائی چراگاہ شندور میں پیش آیا،جہاں دہشت گردوں نے مقامی آبادی کے گھروں کومسمار کیا،دیواریں مسمارکرنے کی ویڈیوبنائی اور رفوچکر ہوگئے۔دہشت گردوں کا دعویٰ ہے کہ ان کوگلگت بلتستان کی انتظامیہ کاتعاون حاصل ہے وہ جوکچھ کررہے ہیں مجسٹریٹ اورپولیس حکام کے حکم سے کررہے ہیں گویا دہشت گردوں کا یہ گروہ بلوچستان،وزیرستان اور کچے کے تخریب کاروں سے زیادہ طاقتور اور بارسوخ ہے جن کوانتظامیہ کابھرپور تعاون حاصل ہے۔شندور میں مقامی آبادی کوکسی طرح کا کوئی مسئلہ نہیں سینکڑوں سالوں سے دستور چلاآرہا ہے،شندور اپرچترال کے عوام کی گرمائی چراگاہ ہے شندور کے مشرق میں لنگر اور کوکوش کاجنگلاتی علاقہ ہے جو گلگت کے ضلع غذراوراپر چترال کی مشترک گرمائی چراگاہ ہے۔

 

 

ماضی میں لنگر کوکوش کے جنگلات پرتنازعات ہوئے ان تنازعات پردوجرگے ہوئے 1914ء کاجرگہ اس لحاظ سے بنیاد فراہم کرتا ہے کہ اس کا مثل انگریز افسروں کے دستخطوں سے جنگلات کی کٹائی کے اصول طے کرتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد1959میں ایک بارپھر جرگہ ہوا جس کے مثل میں جنگلات کی حفاظت کے لئے قواعد وضوابط مرتب کئے گئے اور دونوں طرف سے ایک ایک فارسٹ گارڈ مقرر کرکے خلاف ورزی کرنے والوں پرجرمانہ عائد کیا گیا لنگر کے مقام پردونوں اضلاع کی حدود پہلے سے متعین ہیں ان حدود پرکبھی تنازعہ نہیں ہوا حالیہ دہشت گردی کی تین وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابات قریب آرہے ہیں اس لئے ہرالیکشن کی طرح اس الیکشن میں مختلف امیدوار شندور کو مسئلہ بناکر اپنے آپ کو ہیرو کے روپ میں پیش کرنا چاہتے ہیں پچھلے الیکشن میں بھی شندور پردنگل ہواتھا لیکن نذیرایڈوکیٹ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ان کی کامیابی کے بعد امن ہوا دوسری وجہ یہ ہے کہ ہرسال شندور پولو فیسٹول کے لئے حکومت8کروڑ روپے سے لیکر 12کروڑ تک فنڈ ریلیز کرتی ہے

 

گلگت بلتستان کی انتظامیہ اس فنڈ کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ اول الذکر دونوں وجوہات سے پڑوسی ملک کے کارندے اور گماشتے فائدہ اُٹھاکر جلتی پر تیل چھڑکنے کاکام کرتے ہیں اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں اخبارات کی شہ سرخیوں میں پاکستان کے کئی آرمی چیفس نے یہ بات کہی ہے نیز بھارت کے سابق وزیراعظم واجپائی اور موجودہ وزیراعظم مودی کااعتراف بھی شہ سرخیوں میں شائع ہوا ہے دونوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ہمارے دوست رہتے ہیں وہ ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔آئیندہ کے لئے اس قسم کی دہشت گردی کو روکنے کے لئے دوقابل عمل تجاویز ہیں،پہلی تجویز یہ ہے کہ لنگر کے مقام پرقدیم باونڈری پرفارسٹ اور پولیس چیک پوسٹ قائم کرنے کے لئے خیبرپختونخواہ کی حکومت کو سفارشات پیش کی جائیں چیک پوسٹ کے قیام سے دراندازی روکنے میں مدد ملے گی دوسری تجویز یہ ہے کہ پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ1997(PEPA97) کے تحت شندور کو محفوظ علاقے کا درجہ دے کرسالانہ پولو فیسٹول کومستوج،پھنڈر،بونی،چترال یا گلگت میں منعقد کیا جائے۔ان تجاویز پرصدق دل سے عمل کیا گیا تودہشت گردی پھیلانے والے دشمن کے ناپاک منصوبے خاک میں مل جائینگے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92992

ترقی کا راستہ آئین کی پاسداری میں – میری بات:روہیل اکبر

ترقی کا راستہ آئین کی پاسداری میں – میری بات:روہیل اکبر

گذشتہ روز تنظیم الاخوان کی دعوت پر دوسری باردارالعرفان منارہ جانے کا اتفاق ہوا جب اس تنظیم کے بانی مولانا امیر محمد اکرم اعوان صاحب زندہ تھے ایک بارتب گیا تھا اور دوسری بار اب تنظیم کے شعبہ اطلاعات سے منسلک اکرم صاحب اور منصوری صاحب دونوں کمال کی شخصیات ہیں جنکی سربراہی میں ہم 21صحافی حضرات منارہ پہنچے جہاں امیر عبدالقدیر اعوان نے سالانہ اجتماع سے خطاب کرنا تھا ہزاروں کی تعداد میں لوگ پرسکون انداز میں موجود تھے سڑک کے ایک طرف پنڈال تھا تو دوسری طرف مسجد،مدرسہ اور سکول تھا جسکے احاطہ میں ہی مولانا امیر محمد اکرم اعوان صاحب کا مزار بھی موجود ہے بلاشبہ انکا لگایا ہوا یہ پودا اب تناور درخت بن چکا ہے جسکی مثال اسٹیج پر بیٹھے ہوئے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر،سابقہ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی،چوہدری شیر علی خان،ملک فلک شیر اعوان،عبداللہ حمید گل،کرنل سرخرو،ملک مظہر،ملک شاکر بشیر اعوان،رحیم الدین نعیم،چیف ایگزیکٹو رڈن انکلیو،سعد نزید چیئر مین بلیو ورلڈ سٹی،ندیم اعجاز بلیوورلڈ،سردار ٹمن عباس ایم این اے،ملک آصف بھا،ملک منصور حیات ٹمن،طارق حسن اورملک مصطفے جیسے افراد کی شکل میں دکھائی دے رہے تھے

 

امیر عبدالقدیر اعوان نے اپنی اس تقریر میں بڑی خوبصورت باتیں کی انکا کہنا تھا کہ ختم نبوت کا بل پاس ہوئے آج 50 سال مکمل ہوچکے ہیں تمام مذہبی جماعتیں اورا ن کے ذمہ داران بشمول پاکستان کے باسیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وطن عزیز یا دنیا کی کسی جگہ بھی گستاخی کا پہلو سامنے آیا تو یہ قوم بغیر کسی چیز کو خاطر میں لائے اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے کیونکہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور پچھلے دنوں ملک کی اعلی عدلیہ نے اپنے فیصلے کو دوبارہ تحریر فرمایا جو کہ بہت زیادہ قابل تحسین ہے اور اس نازک موقف پر اللہ کریم نے اتحاد اور اتفاق کے ساتھ کھڑاہونے کا ثمر عطا فرمایا جبکہ یہ ماہ مبارک ربیع الاول وہ مبارک مہینہ ہے جس میں نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ آپ کو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا آپ تماممخلوقات کی طرف مجسم رحمت ہیں تمام مخلوقات سے کٹ کر بندہ مومن کو جو رشتہ نصیب ہوتا ہے وہ اْمتی کا ہے اور اس رشتے کا تعلق آپ کی بعثت عالی سے ہے امیر محمد اکرم اعوان اس ماہ مبارک کو بعثت کے حوالے سے منانے پر زور دیتے ہیں یہ محبت ماہ سال میں قید نہیں کی جا سکتی اسے ہر سانس میں بسایا جائے اور گزشتہ ماہِ ربیع الاول سے آج تک کے سفر میں اپنا محاسبہ کرو کہ کیا میں نے سال بھر میں جو کھایا کیا وہ حلال تھا نگاہ جو اْٹھی کیا وہ حیا والی تھی کیا جو میں نے سنا وہ شریعت مطہرہ کے اندر ہے اگر تو اپنی زندگی کے اس سال میں کوشش کی ہے تو پھر ہم نے اس ماہ ربیع الاول کو منانے کی تیاری کی ہے اور قرآن مجید اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کافی ہے اس سے بڑی شہادت کون سی ہو سکتی ہے آپ سے اظہار محبت کرتے ہوئے ان اصو ل وضوابط کو اختیار کرنا ہو گا جن کی تعلیم اللہ کریم نے دی ہے اور اس در کی شان میں غیر دانستہ بھی گستاخی ہو جائے تو اعمال ضائع ہونے کا خطرہ ہے

 

یہ ان ہستیوں کو فرمایا جا رہا تھا جو خلیفہ الرسول اور امیر المومنین بنے جبکہ اسلام کے نام پر بننے والے وطن عزیز جسے ریاست پاکستان کہتے ہیں یہ اللہ کے نا م پر معرض وجود میں آیا ہم جانتے ہیں ہمارے اجداد جو کہ اس زمین پر عزت و احترام کی زندگیاں بسر کرتے تھے ان کی عزتیں برسر بزم تار تار ہوئیں اور یہ سب قربانیاں انہوں نے قیام پاکستا ن کے لیے دیں اللہ کریم ان کی قربانیوں کو قبول فرمائیں آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم دین اسلام پر اور اسوہ رسول پر زندگی گزاریں گے تو یہ پیغام غیر مسلم کو بھی جائے گا کہ یہ سلامتی اور امن کا دین ہے اور ماہ مبارک کو رواجات کی نذر نہ کیا جائے بلکہ یہ وہ موضوع ہے جو ہمیں اتفاق اور اتحاد عطا فرماتا ہے جہاں پر ہم سب کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں معیشت پر بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھاکہ نظام معیشت کو غیر سودی کرنے سے ہی خوشحالی ممکن ہے اور اس ملک کو وہ نظام عدل دینے کی ضرورت ہے جو امیر و غریب کے لیے یکساں ہو اگر ملک میں 1973 کا آئیں من وعن نافذ کر دیا جائے تو اس ملک میں بہت بہتری آسکتی ہے۔امیر عبدالقدیر اعوان نے اپنی تقریر میں آئین پاکستان کا حوالہ بھی دیا کہ اس پر سبھی جماعتیں متفق ہیں اس لیے اسی پر ہی عمل کرلیا جائے تو پاکستان ناقابل تسخیر بن سکتا ہے

 

غربت ختم ہو سکتی ہے اور خوشحالی آسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے آج تک آئین پر عمل نہیں کیابلکہ قانون کو بھی موم کی ناک بنارکھا ہے یہاں پر ہر آنے والا حکمران بادشاہی کے خواب دیکھنا شروع کردیتا ہے اپنے بعد اپنے بچوں کو تخت و تاج کا وارث دیکھنا چاہتا ہے کسی اور کی مداخلت برداشت نہیں ہوتی مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگانا سب نے اپناوطیرہ بنا رکھا ہے جسکی وجہ سے آج ملک میں معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ لاقانونیت اور غنڈہ گردی بھی عروج پر ہے مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ پریشانیوں میں خودکشیاں کررہے ہیں تعلیم عام لوگوں کے بچوں سے دور ہے دنیا کے 180ممالک کی شرع خواندگی کے حوالہ سے ہم ہمارا 152واں نمبر ہے اسی طرح لاقانونیت،چوری،ڈکیتی اور نوسر بازی میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں ہیں مجھے تو اکثر اوقات یہ محسوس ہوتا ہے ہم اچھائی کے تمام کاموں میں دنیا سے پیچھے جارہے ہیں اور برائی کے ہر کام میں دنیا سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ہمیں تو آج تک اپنے نمائندے منتخب کرنے کا ہنر نہیں آیا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی کمی اور جہالت میں اضافے کا ہے اسی لیے تو ہم اپنے بنیادی حقوق سے بھی غافل ہیں اور نہ ہی ہمیں انکی کوئی سمجھ بوجھ ہے اور نہ ہی ہم سیکھنا چاہتے ہیں شائد اسی لیے وزیراعظم نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگادی ہے اسی لیے تو صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی کہا کہ قوموں کا مقدر بدلنے میں تعلیم اور خواندگی کا اہم کردار ہے تعلیم اور خواندگی ہماری قوم کے مستقبل کی بنیاد ہے اور آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے آج ہم ہر شہری کو تعلیم فراہم کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس عہد پر حکومت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92960

  بزمِ درویش ۔ پیر مہرعلی شاہ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

  بزمِ درویش ۔ پیر مہرعلی شاہ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

 

چشمِ فلک فلک حیرت سے یہ منظر پہلی اورآخری بار دیکھ رہی تھی کہ نوجوان شاگرد گھوڑے پر سوارہے اور اس کا استاد اپنے شاگرد کے احترام اور محبت میں گھوڑے کے آگے آگے پیادہ پا دوڑ رہا ہے نوجوان شاگرد بار بار درخواست کر رہا تھا کہ استادِ محترم یہ سب بڑی گستاخی ہے خدارا مجھے گھوڑے سے اترنے دیں لیکن یہ استاد محترم کا حکم تھا کہ تم گھوڑے پر ہی سوار رہو اگر تم گھوڑے سے نیچے اترے تو میں تم کو شاگردی سے خارج کر دوں گا نوجوان درویش بعد میں جب بھی اِس واقعہ کا ذِکر کرتا تو کہتا کہ میں سخت شرمندہ تھا مگر قہرِ درویش بر جانِ درویش تعمیل حکم کی آخر اِسی طرح کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد استاد محترم بھی گھوڑے پر سوار ہو گئے اور فرمانے لگے ایک دفعہ اثنائے سفر سیال شریف اِسی مقام پر آپ میرے گھوڑے کے آگے دوڑے تھے۔جس کا میرے دل پر سخت بوجھ تھا۔ جیسے میں بے ادبی محسوس کرتا رہا الحمدللہ کہ آج اِس کی تلافی ہو گئی۔اِس واقعہ سے چند سال پہلے دوران تدریس نوجوان طالب علم نے ایک رات قوالی سنی تو اس کی شکایت استادِ محترم کو کی گئی

 

جب استاد محترم نے طالب علم سے پوچھا تو مسجد کے قریب ہی ایک عابدہ مائی رہتی تھی جو سلطان باہو کی حضوری سے مشرف تھیں انہوں نے استادِ محترم سے کہا آج جس سید زادے کو تم ٹوک رہے ہو۔ کل جب اِ س کے مقام اور مرتبے سے تم واقف ہو گے تو اِس کے تم پاؤں تک چومو گے۔ یہ سید زادہ بہت کمال کا بچہ ہے اور اللہ کے نزدیک بلند مقام والا ہے۔ خدا کی شان اس عابدہ مائی کی پشین گوئی کا ظہور اِس طرح ہوا کہ جب ہندوستان سے تعلیم مکمل ہو نے کے بعد خواجہ شمس الدین سیالوی سے مجاز ہوئے تو ایک مرتبہ عرس سیال شریف کے موقع پر یہ واقعہ پیش آیا۔اِس نوجوان سید زادے کی ولادت با سعادت کے متعلق آپ کے خاندان میں پہلے سے ہی بشارتیں چلی آرہی تھیں آپ کے خاندان کے بڑے بزرگ سید فضل دین صاحب جو آپ کے والد ماجد کے ماموں اور شیخِ طریقت بھی تھے اور اس وقت خاندان شریف قادریہ کی سندِ ارشاد پر بھی جلوہ فِگن تھے وہ اِس بات سے آگاہ تھے کہ اِس گھر میں چشمہ معرفت جلوہ افروز ہونے والا ہے نیز اِس پیدائشی ولی کی پیدائش سے چند روز پیشتر ایک اہل حق مجذوب آپ کی خاندانی خانقاہ میں آکر ٹہر گیا وہ روزانہ عنقریب پیدا ہونے والے مقبول خدا کی زیارت کا ذکر کرتا وہ شدید انتظار میں تھا۔

 

جیسے ہی یہ اللہ کا ولی دنیا میں ظاہر ہو ا تو مجذوب حرم سرائے کی ڈیوڈھی میں پہنچا اور آپ کو منگوا کر زیارت کی ہا تھ پاؤں چومے اور رخصت ہو گیا۔یہی بچہ جوان ہو کر پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوا۔آپ یکم رمضان المبارک ھ مطابق 14اپریل 1859 میں راولپنڈی سے گیارہ میل کے فاصلہ پر قلعہ گولڑہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید نذر دین شاہ ایک صاحب کمال مجذوب بزرگ تھے آپ کا پیدائشی نام مہر منیر تھا مگر آپ نے مہر علی کے نام سے پوری دنیا میں شہرت پائی۔سید مہر علی شاہ صاحب چار سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم شروع کی۔ آپ نے عربی فارسی اور صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی بچپن سے ہی ذہانت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو پارہ ایک روز پڑھتے وہ اگلے روز ازبر ہوتا اِس طرح آپ نے قرآن حکیم بہت جلد حفظ کر لیا۔ دوران تدریس ایک بار قصیدہ غوثیہ کا عامل آپ کے مدرسے میں آیا تو تمام طلبا اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے مگر آپ ہنوز بیٹھے رہے یہ دیکھ کر عامل قصیدہ غوثیہ کو بہت غصہ آیا اور وہ مہر علی شاہ صاحب سے مخاطب ہو کر بولا پڑھوں قصیدہ غوثیہ کہ تم تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ تو جوابا مہر علی شاہ صاحب بولے تم قصیدہ پڑھو اور میں قصیدے والے کو بلاتا ہوں۔

 

یہ سن کر عامل آپ کے جلال معرفت کی تاب نہ لا تے ہوئے بے ہوش ہو گیا۔بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سے سعادت و انوار کے آثار نظر آتے تھے۔ یہ آپ کی ذہانت اور درویشی کا روشن ثبوت تھا کہ اِس قدر نو عمری میں ہی وہ مشکل مراحل طے کر لیے جن سے اکثر انسان جوانی میں بھی نہیں گزر پاتے زمانہ طالب علمی میں ہی آپ معرفت کے اس مقام پر تھے جہاں پہنچ کر نظر کے سامنے بہت سارے حجاب اٹھ جاتے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ جگہ جگہ گئے اکثر مالی مسائل بھی تنگ کرتے۔لیکن آپ اِس قدر غیرت مند تھے کہ کسی آنکھ نے آپ کے دستِ طلب کو دراز ہوتے نہیں دیکھا آپ کسی دولت مند کے در پر آواز دینے سے بہتر یہ سمجھتے تھے کہ اتنی دیر اپنے خدا کو پکار وں اس سے مزید صبر و استقامت طلب کروں کیونکہ وہ یقینابے نیا ز ہے اور اپنی اِس صفت عالیہ کے صدقے عنقریب وہ مجھے امیروں کے کرم سے بے نیاز کر دیگا دنیا سے بے نیازی کی یہ روش ساری عمر آپ کا خاصہ رہی۔مسجد میں لوگوں سے ملاقاتیں ہوتیں تو زائرین کی طرف سے نذرانہ اور ہدایا کا سلسلہ بارش کی طرح جاری رہتا لیکن آپ گھر جانے سے پہلے سارے کا سارا غریبوں میں بانٹ دیتے۔1911 میں دہلی میں منعقد ہونے والے بر طانوی شاہی دربار میں شمولیت کی جب آپ کو دعوت دی گئی تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔ حکومت نے بے ادبی سمجھتے ہوئے شروع میں آپ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔

 

لیکن جب انگریز سرکار کی ایذا رسانی آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکی تو بعد ازاں حکومت نے آپ کو سینکڑوں مربع اراضی بطور جاگیر دینا چاہی تو قلندرِ وقت نے انکار کر دیا۔پیر مہر علی شاہ صاحب کی زندگی کرامات سے بھری پڑی ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی اِ سکی اجازت نہیں دیتی۔مرزا غلام احمد قادیانی کذاب و دجال فتنہ جب پورے عروج پر تھا جس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کر رکھا تھا۔ وہ اپنی ذہانت چرب زبانی اور دلائل بازی سے بے شمار لوگوں کو زچ کر چکا تھا ہندوستان کے مسلما ن بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ اشارہ غیبی کے تحت شاہ گولڑہ میدان میں آئے اور غلام احمدقادیانی کو مناظرے کو چیلنج کیا 25ور 26 اگست 1900کو لاہور شاہی مسجد میں مناظرہ طے پایا پیر مہر علی شاہ صاحب لاہور آگئے لیکن مرزا غلام احمد قادیانی آپ کے جلال معرفت سے ڈر گیا مختلف بہانے بناتا رہا وہ نہ آیا۔ قادیانی با ربار مرزا غلام قادیانی کو بلاتے رہے لیکن وہ نہ آیا۔شاہ گولڑہ نے کہا اگر تم سچے ہو تو ہم دونوں جلتے ہوئے تندور میں چھلانگ لگاتے ہیں جو سچا ہوگا وہ بچ جائے گا اور جو جھوٹا ہو گا وہ جل جائے گا۔

 

لیکن مرزا غلام احمد فرار ہو گیا اور کبھی آپ کے سامنے مناظرے کے لیے نہیں آیا اِسی لیے آپ کو فاتح مرزایت بھی کہا جاتا ہے۔ روحانیت شناس ابنِ عربی کی فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکیم سے بخوبی واقف ہیں ہر دور میں لاکھوں میں کوئی ایک ایسا صاحب علم ہوتا ہے جو مندرجہ بالا کتب کو سمجھ سکے پیر مہر علی شاہ صاحب مذکورہ دونوں کتب کو اپنے دور میں سب سے زیادہ جانتے اور سمجھتے تھے۔آپ اپنے حج کے احوال میں بیان فرماتے ہیں کہ وادی حمرا میں ڈاکوؤں کے خوف سے میں نے عشا کی سنتیں وجہ مجبوری موقوف کر دیں تو رات کو مسجد نبوی میں خود کو پایا اور دیکھا کہ نبی کریم ﷺ تشریف لاتے ہیں اور مجھ کو نہیں بلاتے تو میں درخواست کرتا ہوں کہ حضور ؓ میں تو آپ کے دیدار کے لیے اتنی دور سے آیا ہوں لیکن آپ مجھے اپنے لطف و کرم سے محروم رکھ رہے ہیں تو آپ ؓ نے فرمایا تم نے میری سنتیں ترک کر دیں تو پھر لطف کا مطالبہ کیسا۔اسی وقت آنکھ کھل گئی فورا دوبارہ نماز ادا کی اور حضور پاک ؓ سے عشق و محبت کی والہانہ لہر اور جذبات پیدا ہو گئے کامل استغراق طاری ہو گیا جذب اور مستی جب حد سے بڑھ گئی تو اپنی مشہور نعت اسی شکر و جذب کی خاص حالت میں کہی کہ قیامت تک آپ امر ہو گئے۔محترم قارئین جب بھی کوئی تلاش حق کا مسافر اللہ کی توفیق سے عبادت و ریاضت،ذکر اذکار مجاہدے اور روحانی اشتعال کے بعد بہت ساری منزلیں طے کر لیتا ہے تو خالقِ کائنات اپنے اِس بندے کو قیامت تک کے لیے امر کر دیتا ہے دیدارِ مصطفی ﷺ کے بعد حالتِ جذب جو نعت آپ نے کہی ا سکے چند اشعار:

اج سک مِتراں دی ودھیری اے

کیوں دِلڑی اداس گھنیری اے

لوں لوں وچ شوق چنگیری اے

اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

کِتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

گستاخ اکھیاں کِتھے جا اڑیاں

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92958

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! (65ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ)  – از قلم :عصمت اسامہ 

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! (65ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ)  – از قلم :عصمت اسامہ

 

وطن عزیز پاکستان ستائیس رمضان المبارک 1947ء میں معرض وجود میں آیا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر کلمہء طیبہ کے نام پر یہ وطن حاصل کیا۔ اول روز سے ہی یہ پاک وطن ،دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ بھارت نے نہ صرف اس تقسیم کو قبول نہیں کیا بلکہ پاکستان کو ضروری اثاثوں اور کئی ریاستوں جن کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا ،سے جان بوجھ کر محروم رکھا ہے۔ پاکستان کو ایسے دشمن کا سامنا رہا ہے جو دن کی روشنی میں بھی اس کے خلاف کاروائیاں کرتا ہے اور رات کے اندھیروں میں بھی سازشیں کرتا ہے۔ بھارت جس ملک کے نام کا مطلب ہی ” خون بہانا ” ہے ، پورے خطے کے امن کے لئے خطرات پیدا کرتا رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اکتوبر 1947 ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

“اگر ہم جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوق البشر محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی ۔یہ ذاتی ترقی ،عہدے اور مرتبے حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ وقت ہے تعمیری کوشش کا ، بے لوث جدوجہد کا اور مستقل مزاجی سے فرض شناسی کا !”.

تاریخ گواہ ہے پاک افواج نے قائد کے فرمان کو سینے سے لگا کے رکھا ہے۔ پاکستان پر اوپر تلے چار جنگیں مسلط کی گئیں ، 1948 ء کی جنگ کشمیر ، 1965ء کا رات کے اندھیرے میں حملہ ،1971ء کی جنگ اور پھر کارگل کا معرکہ ۔1965ء کی جنگ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے جس کا تذکرہ آج بھی لہو گرما دیتا ہے ۔ چونڈہ کے مقام پر ،دوسری جنگ عظیم ( بیٹل آف کرسک ) کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔ بھارت نے 600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ ،باجرہ گڑھی اور نحتال کے مقام پر حملہ کیا ،اس سے پہلے وہ لاہور پر حملہ آور ہوچکا تھا ۔ دشمن کا خیال تھا کہ پاکستان اپنی کمزور طاقت اور اسلحہ کی کمی کے سبب اپنا دفاع نہیں کر پاۓ گا اور تر نوالہ بن جاۓ گا لیکن پاک افواج نے دشمن کے عزائم کو اپنی بروقت جنگی حکمت عملی ،دلیری اور بے مثال جاں بازی کے سبب خاک میں ملادیا۔ میجر جنرل یعقوب خان جو جنگ عظیم دوم میں ٹینکوں کی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے انھیں کور1 میں آرمر ایڈوائزر لگایا گیا ۔ پاک فوج کے جوانوں نے کم نفری اور ہتھیاروں کی قلت کے باوجود اپنی جان پر کھیل کے نہ صرف دشمن کو روکا بلکہ رجمنٹ 25 کیولری جس کے کمانڈنگ آفیسر کرنل نثار تھے ،اپنی بے مثال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوۓ دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ بھارتی فوج نے بارہ سے اٹھارہ ستمبر کے درمیان چونڈہ کے اردگرد لگاتار حملے کئے تاکہ پاک فوج کو اطراف میں مصروف رکھا جاۓ مگر پاک فوج نے چونڈہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک دفاعی مورچے کے طور پر استعمال کیا ۔ چونڈہ مواصلات کا مرکز تھا جس سے کئی راستے نکلتے تھے۔دشمن چونڈہ کے بعد آگے بڑھ کر پسرور اور گوجرانوالہ پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا ۔ ہندوستانی 6 ماؤنٹین ڈویژن جو امریکی سازو سامان سے لیس تھا ،اس نے 35 بریگیڈ ،58 بریگیڈ اور 48 بریگیڈ کے ساتھ حملے کا پلان بنایا۔پاکستانی 24 بریگیڈ کے ساتھ کمانڈر برگیڈیئر عبدالعلی ملک کی کمانڈ میں چونڈہ کا دفاع کر رہا تھا ،اس نے اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے ۔( بحوالہ ہلال میگزین ستمبر 2020ء).

 

جنرل ٹکا خان کی قیادت میں پاک فوج ،قوم کے آگے ناقابل تسخیر دفاعی حصار بن گئی۔ لاہور میں میجر عزیز بھٹی نے اپنی جان قربان کرکے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ،سیالکوٹ سیکٹر میں ہمارے بہادر جوانوں نے دشمن کی چال جو ہماری لائف لائن جی ٹی روڈ کو کاٹنے پر مبنی تھی ،اس چال کو ناکام کردیا۔امریکی ریڈیو سروس کے صحافی ” رے میلان ” نے اس جنگ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا کہ ” میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ بھارت فتح کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن زمین پر اس دعوے کے حق میں کوئی گواہی نہیں ملتی ۔میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ صرف تباہ شدہ بھارتی ٹینک ہیں اور بڑی تعداد میں ان کی نقل و حمل کی گاڑیاں ہیں جو اگلے مورچوں کی طرف دوڑتی پھرتی ہیں ( زخمیوں کو لے جانے اور رسد پہنچانے کے لئے).میں نے اپنی دو دہائی کی صحافیانہ زندگی میں کبھی اتنے پر اعتماد سپاہی نہیں دیکھے جتنے پاکستانی سپاہی ہیں جو بھارتیوں سے برسر پیکار ہیں “.( بحوالہ ریاض احمد چودھری کا کالم ،چونڈہ ،بھارتی ٹینکوں کا قبرستان: روزنامہ پاکستان).

بھارت نے چونڈہ پر پہلا حملہ کیا اور گاؤں” بتر ڈوگراں دی ” تک پیش قدمی کرتے ہوۓ اندر آگیا، اس کی بکتر بند فوج ،وزیر والی الہڑ ریلوے اسٹیشن پر قابض ہوگئی۔ یہاں بھارت نے جنگ عظیم دوم کے سورما جنرل کورلا کو چونڈہ پر قبضہ کرنے پر مامور کیا تھا جس نے دو اطراف سے بھارتی فوج کے حملے کا پلان تیار کیا۔بھارت کے 35 انفنٹری بریگیڈ نے غربی جہت سے حملہ آور ہونا تھا اور 58 انفنٹری بریگیڈ نے شمال غربی جہت سے نقب لگانا تھی ۔ان علاقوں کا دفاع پاکستان کی تین ایف ایف رجمنٹ اور 14 بلوچ رجمنٹ کر رہی تھیں۔بھارتی فوجیوں کی تعداد پندرہ ہزار جبکہ پاکستانی فوجیوں کی تعداد صرف ایک ہزار تھی۔ اسلحہ اور تعداد میں کوئی مناسبت نہ ہونے کے باوجود پاک فوج کے جوان بے جگری سے لڑے ، تین سو شہادتوں سے زمین کو سرخرو کردیا اور دشمن کے ہے درپے حملوں کو ناکام بنادیا۔

 

~ جو حق کی خاطر لڑتے ہیں ،مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر
جب وقتِ شہادت آتا ہے ،دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں !
اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے دست بدستی لڑائی ( CQB) میں بھارتی مرہٹے بہت سی لاشیں چھوڑ کے بھاگ نکلے اور اس کے 46 فوجی قیدی بنالئے گئے۔ اس جنگ نے بھارتی فوجیوں کے حوصلے پست کردئیے بلکہ وہ پاک فوج کی پیش قدمی کا خوف محسوس کرنے لگے ۔(بحوالہ میجر جنرل شفیق اعوان کا کالم ، فیصلہ کن معرکہ چونڈہ ستمبر 2018).

 

دشمن نے چونڈہ کی طرف سے حملہ اس لئے بھی کیا تھا کہ یہاں کوئی جنگل ، پہاڑ ،دریا نہ ہونے کے سبب کوئی زمینی رکاوٹ یا آڑ موجود نہ تھی اور ٹینکوں کی پیش قدمی کے لئے زمین صاف تھی۔ سات اور آٹھ ستمبر کی درمیانی شب ،بھارتی توپیں پاکستان کی شہری آبادی پر گولے داغنے لگیں جس سے کئی معصوم شہری شہید ہوگئے۔ اس موقع پر پاک ائر فورس کے شاہین دشمن کی یلغار کو روکنے کے لئے آۓ اور کئی گھنٹوں تک دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔مساجد سے جنگ کے بارے میں اعلانات ہونے لگے ،بھارتی ٹینک کالے ہاتھیوں کی مانند پاکستان میں قطار در قطار داخل ہورہے تھے اور دھوکہ دینے کے لئے ٹینکوں پر پاکستانی پرچم لگا رکھے تھے۔یہ سترہ ستمبر کی صبح تھی ،دوپہر تک بھارتی ٹینک کافی علاقہ عبور کر چکے تھے ۔ پاک فوج نے دشمن کے دھوکے کو بھانپ لیا اور ” لاسٹ مین ،لاسٹ بلٹ” کے ماٹو کے ساتھ دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ خاک اور خون کی دھول میں بہت سے جوان اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے ۔افواج پاکستان کے ساتھ چونڈہ کے جوان بھی مادر وطن کے دفاع کے لئے سرگرم عمل تھے ۔ عینی شاہدین نے اپنی آنکھوں سے ناقابل یقین منظر دیکھا کہ پاک جوان بھارتی ٹینکوں کے اوپر چڑھ کر ٹینکوں کے اندر بم پھینک رہے تھے ۔
~ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا ،سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی !

 

آنا” فانا” بھارت کے کالے ہاتھیوں یعنی ٹینکوں کے پرخچے اڑنے لگے ،یہ انسانی جسموں اور ٹینکوں کے مابین ایسی لڑائی تھی جس نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردیا۔چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا ۔ بھارت کے تین سو فوجی ہلاک ہوۓ جن کی لاشوں کو بعد میں گدھ اور کوے نوچتے رہے ۔پھر پاک فوج نے اجتماعی گڑھا کھود کے ان کو دفن کردیا۔ جنگ بندی کے بعد یہ لاشیں دشمن کو واپس کی گئیں۔ ( بحوالہ تحقیق : وثیق شیخ ۔چونڈہ کی لڑائی ،کالم ایکسپریس نیوز 6 ستمبر 2021ء).

 

پاک افواج کی بہترین حکمت عملی ، فقید المثال دلیری اور بہترین کارکردگی نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دئیے ،بھارتی افواج کو اسلحہ اور ہتھیاروں کی کثرت اور نفری کے باوجود شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پاک فوج اس پوزیشن میں آگئی تھی کہ وہ پیش قدمی کرکے بھارتی زمینوں پر قبضہ کرسکتی تھی مگر اقوام متحدہ کی مداخلت کے سبب بائیس ستمبر کو جنگ بندی کرنا پڑی۔ ایک اہم عنصر یہ بھی تھا کہ پاکستانی ہتھیار امریکی ساختہ تھے جنھیں اپ ڈیٹ کرنے پر امریکہ نے پابندی لگادی تھی۔ان کی کمک کے بغیر جنگ کو طول نہیں دیا جاسکتا تھا۔ 1965ء کی جنگ وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی قوم اور پاک فوج یک جان دو قالب تھے۔ یہ یکجہتی دشمن کی آنکھ کا شہتیر بن گئی اور اس نے ففتھ جنریشن وار کے ذریعے عوام کو فوج سے بد ظن کرنا شروع کردیا تاکہ قوم کو اپنے محافظوں اور اپنے دفاعی حصار سے کاٹ کر لقمہء تر بنایا جاسکے۔ فیک نیوز ،میڈیا پروپیگنڈہ اس دور میں یہود و ہنود کا ہمارے خلاف اہم ترین ہتھیار ہے جس کے حملوں سے قوم کو باخبر رہنا ہوگا۔ اپنی صفوں میں موجود غداروں کو پہچاننا ہوگا اور دفاع وطن کی خاطر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا ہوگا۔ اب پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور ہے جس سے سارے عالم اسلام کی امیدیں وابستہ ہیں ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک وطن کو اسلام کا قلعہ بنادے ،آمین۔

~ ٹیس بھی ٹیس نہ تھی زخم جگر ہونے تک
پھول بھی پھول نہ تھا ،خون میں تر ہونے تک
وہی حق دار ہے سورج کی کرن کا جس نے
رات کی زلف سنواری ہے سحر ہونے تک !

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92953

دابیداد ۔ نصف صدی کا قصہ ہے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on

دابیداد ۔ نصف صدی کا قصہ ہے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ابوالاثرحفیظ جالندھری نے اپنے ادبی سفر کے پچاس سالوں کومکمل کرنے کے بعد فخر ومسرت کے ساتھ غزل کا ایک شعر کہا جسے شاعرانہ تعلی بھی کہاجاسکتا ہے انہوں نے کہا تشکیل وتکمیل فن میں جوبھی حفیظ کا حصہ ہے،نصف صدی کا قصہ ہے دو چاربرس کی بات نہیں۔

پشاور کے قدیم باسی پشوری کہلاتے تھے وہ جہاں بھی گئے جہاں بسے پشاور کو نہیں بھولے ان سے جب بھی جہاں بھی بات ہوتی ہے باتوں سے پشاور کی خوشبو آتی ہے،ہرپشوری صدیوں کی نہیں تو نصف صدی کی کہانی ضرور سناتا ہے اور سننے والے میں بھی نصف صدی سے زیادہ کی تاب وتواں یا طلب نہیں ہوتی ہم سماجیات کو سننے کے عادی ہیں آثاریات کو سننے کی تاب نہیں رکھتے پرسوں ہم آسامائی دروازے سے ہوکر اندرشہر میں آئے توچوک یادگار کی طرف سے ایک پُرانا شناسا آتا ہوادکھائی دیا بائیں طرف پختہ چائے فروش کی دکان کا سماوار نظر آرہا تھا دکان میں فرشی نشست تھی ہمارے ہاتھوں میں تہہ کئے ہوئے اخبارات تھے ہم نے اخبارات کو ایک طرف رکھا اور چائے آنے سے پہلے اُس دور میں پہنچ گئے جب پشاور میں تفریح کا ذریعہ صرف سنیما گھر ہوا کرتے تھے سب سے زیادہ رش فلم کے ٹکٹ کی کھڑکی پرہوتی تھی بلیک مارکیٹ کی ترکیب کا دوسرا کوئی مطلب نہیں تھا فلم کا ٹکٹ بلیک میں ملتا تھا سب سے بااختیار آدمی سنیما کاگیٹ کیپر ہوتا تھا لوگ تفریح کے لئے جوق درجوق سنیما کارخ کرتے تھے

 

سنیما ہالوں پرسنسرشپ لگی توشہر کے فلم بینوں نے جمرود کا راستہ اختیار کیا گروپوں اور ٹولوں کی شکل میں جمرود جاکر تفریح سے لطف اندوز ہونے لگے،اس کے بعد وی سی آر کو شہر لایا گیا تو”جم تہ زو“میں کمی آئی،وی سی آر کانام مشہور ہوا پھر خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ سمارٹ فون کازمانہ آیا اورپشاور کاچہرہ ہی بدل گیا،تفریح ہرایک کے ہاتھ میں آگئی ہم نے کالج میں پڑھا تھا”رواج عام کاراجا جب ہولی کھیلتا ہے شرفاء سرخ پانی کے چھینٹے سفید کپڑوں پرلینا عین سعادت سمجھتے ہیں“سمارٹ فون بھی راجا کے ہاتھ میں ہولی کا رنگین پانی ہے،ہواجب اُڑتی ہے تو اس کے چھینٹے شرفاء کے کپڑوں پرڈالتی ہے اب جوہوا چلی ہے کسی کی سفید پوشی محفوظ نہیں رہی،چنانچہ سنیماگھر ویراں ہوگئے ”جم تہ زو“ کازمانہ بیت گیا۔ہم نے کڑک چائے کا لطف اُٹھاتے ہوئے پشاور کی سماجی روایات میں شہرکی پُرانی مساجد کا ذکر چھیڑا نمک منڈی میں تالاب والی مسجد،جی ٹی روڈ پرنوشوبابا کی مسجد اور کابلی دروازے کی چڑھائی پر طورہ قل بانے کی مسجد کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔

 

مسجد مہابت خان اور قاسم علی خان کااپنا مقام ہے تبلیغی جماعت کا پہلا مرکز گنج کی پرانی مسجد میں ہوا کرتا تھا۔وہاں سے سخی چشمہ کی مسجد میں آیا پھر حسن گڑھی میں نیامرکز تعمیر ہوا۔جماعت اسلامی کادفتر پشاور صدر میں ہمدرد دواخانہ والی گلی میں تھا،جی ٹی روڈ پرنیا مرکز تعمیر ہونے کے بعد وہاں منتقل ہوا،جمعیتہ العلمائے اسلام کامرکز دارالقراء نمک منڈی میں تھا وہاں سے رنگ روڈ منتقل ہوا،اُس دور کے علمائے کرام کے ہاں سادگی ملتی تھی بڑے بڑے علماء سائیکل پر گھومتے تھے1972میں مولانا مفتی محمود صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے توانہوں نے ویگن اور فلائینگ کوچ میں سفر کرنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا مگر چند دنوں میں عملی طورپر یہ بات سامنے آئی کہ سرکاری مصروفیات کے لئے وقت نکالنا پڑتا ہے اس لئے سرکاری موٹر کی سہولت حاصل کرنا بہترہوگا۔

 

پنیالہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑے بڑے افیسر اور اخبار نویس مولانا سے ملنے جاتے تو ان کی سادہ زندگی دیکھ کرمتاثر ہوتے تھے کئی ان کے حلقہ بگوش ہوگئے ہم نے جیدعلمائے کرام کوسائیکل پرشہر میں گھومتے ہوئے دیکھا سادگی بھی تھی دشمن کا خوف بھی نہیں تھاجب سادگی نہ رہی تودشمن کا خوف مسلط ہوا،سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت پڑگئی یہ ایسا زمانہ تھا جب مقتدیوں پرامام صاحب کا رعب طاری ہوتا تھا لوگ ایک دوسرے کو تھانہ،تحصیل،کچہری اور فوجیوں سے نہیں ڈراتے تھے بہت تنگ آگئے توکہتے تھے میں استاد جی سے تمہاری شکایت کروں گااور”استاد جی سے شکایت“ پشوریوں کی کارگردھمکی ہواکرتی تھی وقت کی کروٹ نے نصف صدی کے اندر پشاور کی کایا پلٹ کررکھ دی وقت کے ساتھ وہ لوگ بھی گئے ”اب ڈھونڈ انہیں چراخ رخ زیبا لے کر“

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92943

دھڑکنوں کی زبان ۔ “ڈر لگتا ہے ” ۔ محمد جاوید حیات

دھڑکنوں کی زبان ۔ “ڈر لگتا ہے ” ۔ محمد جاوید حیات

خوف ،مایوسی اور ڈر ۔۔یہ کچھ کیفیات ہیں ۔۔۔یہ انسان پر بہت اثرانداز ہوتی ہیں ۔۔یہ انسانوں کی بستی میں ہوتاآیا ہے ۔۔خوف انسان کو ہلکا کے رکھ دیتا ہے ۔۔۔اس کے مقابلے میں امن کو قران نے انعام قرار دیا قریش پر اپنے ایک دو احسانات کو مہربان اللہ نے گنوایا حالانکہ مہربان اللہ احسانات جتایا نہیں کرتے بس یاد دلاتے ہیں۔کہا اے قریش ہم نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے نجات امن کی صورت میں دی ۔۔۔ڈر نہیں لگناچاہیے ۔جب انسان کے پاس گھر آنگن اپنا ہو ۔دکھ سکھ اپنے ہوں۔۔ہوا فضا اپنی ہوں ۔۔آسمان کی بلندیاں،سمندرکی گہرایاں ،پہاڑوں کی مضبوطی ،میدانوں کی سرسبزی اپنی ہو تو ڈر کیوں لگے ۔۔بلوچستان کے ژوب جاکر اپنا تعارف کرانا نہ پڑے ،چولستان کی صحراوں میں اپنا نام بتانا نہ پڑے، پنجاپ کی کسی چودھری سے کہنا نہ پڑے کہ یہ میرا بھی ملک ہے ۔مری کے جنگلات میں کہیں کھونا نہ پڑے ۔ایبٹ آباد میں جاکر عقیدت سے اس کی مٹی میں قدم رکھنا پڑے کہ یہاں پر محافظوں کو سرفروشی کا درس دیا جاتا ہے ۔پشاور آکر اس کی گلی کوچوں کی یاترا کرنا پڑے تو ڈر کیوں لگے ۔۔

 

خوف کی کونسی تک بنتی ہے ۔۔خوف تب ہوتا اگر انڈیا میں ہوتے کسی کی تعریف کرنے سے اس تعریف کی کوٸی اہمیت نہ ہوتی ۔کسی کو کچھ برا کہنے کی جرات نہ ہوتی ۔عذاب لکھیں ثواب لکھیں قلم باغی ہوجاتا الفاظ اجنبی ہوجاتے۔یہاں پہ ایسا نہیں ۔۔برے کو برا کہہ سکتے ہو بھلے کو بھلا سمجھ سکتے ہو ۔گلہ شکوہ کر سکتے ہو ۔۔دعا بد دعا دے سکتے ہو ۔۔پانی یہ نہیں کہتا مجھے استعمال نہ کرو ۔۔ہوا انکاری نہیں کہ مجھ پر تجھے حق نہیں ۔پھول اپنی خوشبو کی قیمت نہیں لگاتا ۔کانٹے اتنے ظالم نہیں ۔رات کی تاریکی دن کے اجالے کی نوید ہے ۔جہان امیدیں ٹوٹتی ہیں وہاں پر أرزویں جنم لیتی ہیں ۔۔ایک اگر بے وفا دو چار وفا دار ۔۔نیند آۓ گی تو زمین اووڑ کے سو جاٸیں ۔۔چلو بنگلے اپنے نہیں جھونپڑیاں اپنی ہیں ۔۔شاہراہیں اپنی نہیں فوٹھ پات اپنے ہیں ۔درخت کے سائے اپنے نہیں تو جھلستی دھوپ اپنی ہے ۔پھر خوف کیوں ؟۔۔یہ سرزمین سوغات ہے انعام ہے ۔۔

 

اگر اس کی قدر کرنی ہے تو یہ دوسروں کو نصیحت کرنے والی کوٸی کیفیت نہیں اس کی محبت اپنے اوپر نچھاور کرو ۔اگر اس سے عقیدت رکھنا ہے تو اس کو چوم چوم لو ۔۔۔ایک دوسرے کو الزام دینے والو ۔۔۔۔پہلے خود بدعنوانی سے توبہ کرو پھر کہیں دوسروں کی طرف انگشت نماٸی کرو ۔تم کتنے صادق امین ہو ۔یہ ثابت کرو ۔۔خوف اس لیے جنم لیتا ہے کہ اپنوں کا ایک دوسرے پہ اعتبار اٹھ گیا ہے ۔۔اگر کسی کو اپنے محافظ پہ نظرپڑے اس کا دل محبت میں جھوم جھوم اٹھے ایسا لازمی ہونا چاہیے تو اس کو خوف محسوس کیوں ہو ۔۔عدالت کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوۓ اس کو بے انصافی کا اندیشہ نہ ہو تو وہ خوفزادہ کیوں ہو ۔اگر پاسبان کے دامن میں پھول بھرے ہوۓ ہوں تو خوف کی کیا بات ہے ۔اگر دکاندار پر یقین ہو کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا تو ڈرنا کس بات کا ۔۔آزادی نعمت ہے اور نعمت کا کوٸ متبادل نہیں۔مگر کسی کو اپنی آزادی پہ یقین ہو تو خوف کیوں ؟ یہ سب احساسات جب لڑ کھڑاتی ہیں تو ڈر لگتا ہے ۔۔ڈر اپنی موت کا نہیں ، اپنی ناداری غریبی کا نہیں ، اپنی زندگی کا نہیں ۔اپنی ناکامی اور کامیابی کا نہیں اپنی غیرت اور ایمان کے معیار سے ڈر لگتا ہے ۔یہ خوف روگ ہے اللہ اس سے نجات دے ۔۔سب یہ محسوس کریں اور اکھٹے اس کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92935

6 ستمبر۔ ابو کی ڈائری سے – تحریر: اکبر حسین کوشٹ

Posted on

6 ستمبر۔ ابو کی ڈائری سے – تحریر: اکبر حسین کوشٹ

اج مجھے پانچ چھ دہائیوں پرانی ایک نحیف سی ڈائری جو کہ بظاہر ایک عام سی نوٹ بک ہے لیکن سلیقے کے ساتھ ایک قدرے موٹی سی خاکی کاغذ میں لپٹی ہوئی ہے پڑھنے کا اہتمام تھا۔ یہ میرے والد محترم کی تحریر ہے جو 1965 کی جنگ کے کچھ سال بعد آپ کی دست مبارک سے زیب قرطاس ہوئی تھی۔ املا اور قواعد میں کچھ کوتاہیاں ہونے کے باوجود تحریر کی خوبصورتی دل موہ لیتی ہے۔
ڈائری دو حصوں میں منقسم ہے ایک حصہ 1965 اور ایک حصہ 1971 کی جنگ کے لیے مختص ہے۔
ابتدائی صفحے پر ابو جان کچھ یوں رقمطراز ہیں:

 

“5 ستمبر 1965ء کو ہمارا یونٹ 5FF کو یہ آرڈر ملا کہ آج چار بجے یونٹ قصور سے کشمیر کی طرف جائے گا۔ تیاری مکمل ہوئی تو چار بجے کے بعد ہم روانہ ہوئے۔ رات بارہ بجے وزیر آباد کے قریب ہماری ایک گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تو ڈرائیور ایوب فوت ہوگیا اور تین سپاہی زخمی ہو گئے۔ اسکے بعد ہم کھاریاں پہنچے تو وہاں چھاونی بالکل خالی تھی۔ ہم نے اپنی وردی وغیرہ دھونا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد آرڈر ملا کہ جلدی کرو ہم نے واپس قصور جانا ہے جہاں پر دشمن کی جہازوں نے حملہ کیا ہے۔ ہم نے جلدی جلدی سامان باندھ کر گاڑیوں میں ڈال دیا تو دوبارہ آرڈر ملا کہ شام چار بجے تک آرام کر لو کیونکہ کنوائی کی لمبائی زیادہ ہے اور دن کے وقت اگر دشمن ہوائی جہازوں سے حملہ کیا تو پروٹیکشن مشکل ہو جائے گا۔چار بجے ہم واپس روانہ ہوئے۔ لالہ موسی پہنچے تو لوگ شہر میں سڑک کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر “پاک فوج زندہ باد” کے نعرے لگائے اور ہم پر فروٹس، میٹھائیاں اور سگریٹ پھینکتے رہے۔ یہی حال گجرانوالہ اور گجرات کا بھی تھا۔ صبح ہم اپنی پوزیشن پر پہنچ گئے اور پورا دن گزارنے کے بعد شام چھ بجے دشمن کی طرف ایڈوانس کیا۔ رات بارہ بجے اس کی سر زمین پر قدم رکھا۔ ایک آدھ میل پر پہنچتے ہی ان کے ساتھ ہمارا آمنا سامنا ہوا لیکن وہ پسپا ہوگئے اور یوں ہم پانچ میل تک ان کے علاقے میں پیش رفت کی تو ہمیں پھر پوزیشن لینے کا آرڈر ملا۔ صبح دشمن کی لاشوں کو شمار کیا جن کی تعداد 246 تھی۔8 ستمبر کے دن 10 بجے تک ہم وہاں پر رہے پھر کھیم کھرن کو قبضہ کرنے کا ہمیں حکم ملا جو ہماری پوزیشن سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ساری سیویلین آبادی سکھ تھی۔

 

کچھ گھنٹے بعد کمانڈنگ نے جاسوس کی خبر پر ودڈرال کا حکم دیا تو ہم ایک دو میل پیچھے ہٹے۔ ایک گھنٹے بعد دوبارہ آرڈر ملا کہ جلدی واپس کھیم کھرن پہنچو۔ ہم دوباہ آگے بڑھے اور وہاں پہنچ گئے تو حیرت ہوئی کہ زیادہ تر لوگ بھاگے ہوئے تھے۔ ہم نے وہاں پھر پوزیشن سھنبال لی۔ رات کو دشمن نے حملہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوا۔ اگلی صبح پھر حملہ کیا پھر ناکام ہوگیا۔ دن بارہ بجے دشمن نے پھر سے وار کیا اور اس میں ہمارے چار جوانوں نے شہادت پائی لیکن دشمن کے بہت سے سپاہی مارے گئے۔ ان کے چار ٹینک بھی تباہ کیے لیکن ہمارا کوئی مالی نقصان نہیں ہوا۔

 

10 ستمبر کی رات کو ہمارے کمانڈنگ کی طرف سے حکم ملا کہ”مچھی” نام کا جو قصبہ ہے اس پر حملہ کرو۔ ہم نے رات 3 بجے وہاں پر حملہ کیا اور ان کے بے شمار فوجیوں کو ہلاک کیا۔ 234 آدمی زندہ پکڑ لیے۔ ہمارے 82 جوان شہید اور سات زخمی ہوگئے۔
ہم نے پوزیشن لیا۔ دشمن کاونٹر اٹیک کی تیاری کر رہا تھا تو ہمارے ہوا بازوں نے صبح سات بجے آکر دشمن کا منصوبہ ناکام بنا دیا اور انہیں جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے تین ٹینک تباہ کر دیے گئے اور پانچ ٹینکوں کو ہم نے قبضے میں لے لیا۔

 

اسی دن دس بجے پھر دشمن کی طرف سے حملہ ہوا لیکن اس دوران ہماری دوسری کمپنی کھیم کھرن سے پہنچی اور ہم نے دفاع مضبوط کی۔

دشمن نے بھی پوزیشن لیا اور “جے ہند” کے نعرے لگاتا رہا۔ اس کے توپخانے کی طرف سے بھی فائیرنگ شروع ہوئی اور پیچھے مشین گنوں سے بھی گولی برساتے رہے۔دونوں طرف سے یہ لڑائی چار بجے تک جاری رہی اور آخر کار بے تحاشہ جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد دشمن کو پھر پسپا ہونا پڑا۔ بہت سے ایمنوشین ہمارے ہاتھ آگئے۔

13 اور 14 ستمبر کو ہمیں آرڈر ملا کہ دشمن کا ایک بڑا گاوں جس کا نام مسگاڑ (یا مسگڑھ) ہے پر حملہ کرنا ہے۔ منصوبے کے مطابق ہم نے تاریکی میں اچانک دشمن پر حملہ کیا اور ایک کرنل کے ساتھ ان کے 417 نفری پکڑ لیے۔ بہت سارے ہتھیار 92 رائفل، 6پسٹل، چار مشین گن، چار راکٹ لانچر،9 دور بین اور 10وائرلیس سیٹ ہاتھ آگئے۔

14 تاریخ آٹھ بجے دشمن نے کاونٹر اٹیک کیا۔ توپخانوں سے فائر ہوئی اور پیدل فوج نے حملہ کیا۔ ہمارے 23 جوان شہید اور 9 شدید زخمی ہوگئے۔

شام چار بجے دشمن کی طرف سے سکھوں کا ایک پورا یونٹ ہماری طرف پیش قدمی کی۔ہم نے دائیں طرف رخ کیا اور ان کو روکنے اور گھیرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہمارا میجر شمشاد انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا جن پر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔

 

15 ستمبر کی رات بغیر کسی پریشانی کے خیریت سے گزر گئی۔ 15 ستمبر کی صبح آرڈر ملا کہ امبرسر(امرتسر) سے سات میل کے فاصلے پر دشمن کی پوزیشن ہے اور ہماری پوزیشن سے دو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ طے پایا کہ 9 بجے تک اچانک ان پر حملہ کریں گے۔ ہم نے ان کی پوزیشن پر فائرنگ شروع کی۔ دشمن بھی تیار بیٹھا تھا۔ جوابی فائرنگ ہوئی اور وہ ہم پر ٹوٹ پڑے۔ اس بار ہماری زیادہ کیژولٹی ہوگئی۔ ہمارے کل 37 ساتھی شہید ہوگئے۔ جن میں سے کوئی 30 لاشوں کو لیکر ہم نے ودڈرا کیا جبکہ بریگڈئیر شامی، میجر شیخ ظہور دین، نائب صوبیدار ہمایون شاہ، حوالدار جمعہ گل، حوالدار انارگل، سپاہی میر دل خان اور سپاہی محمد ابراہیم کی لاشیں اور ہتھیار دشمن کے قبضے میں رہ گئے۔ رات کو ہم 15 آدمی اپنی شہید ساتھیوں کی لاشوں کو چپکے سے ڈھونڈنے کے لیے دشمن کے پوزیشن کے نزدیک پہنچے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ اور ایجنٹ سے معلوم ہوا کہ ان لاشوں کو دشمن نے امرتسر پہنچا دیا تھا۔
16 ستمبر کی صبح سات بجے دشمن دشمن نے توپ خانے سے فائرنگ شروع کی اور ساتھ ہی ہوائی جہازوں سے بھی حملہ کیا لیکن ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ رات بارہ بجے پھر سے دشمن نے حملہ کیا تو ہم نے ناکام بنا کر ان کے 53 آدمیوں کو جہنم واصل کردیا اور 38کو زندہ پکڑ لیا”-

 

ابو کے اس ڈائری میں 21 ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ کے محاذ کی شب و روز کے واقعات قلمبند ہیں جن کا احاطہ میرے لیے ممکن نہیں۔ البتہ اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ دشمن سے لڑنے کے لیے جذبہ ایمانی و حب الوطنی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
مجھے اپنے والد محترم کی اس کارہائے نمایاں پر فخر ہے۔ آپ کے سینے پر دو “ستارہ حرب” اور دو “تمغہ جنگ” سجے ہوئے تھے۔ آپ نے بھی وطن عزیز کی دفاع میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔ آپ نے بھی اس ارض پاک کی خاطر اپنے خون کے چند قطریبہایا ہے۔
دشمن کے گھر میں گھس کر مارنا ایک محاورہ ہے لیکن 1965 میں پاک فوج نے یہ عملی طور پر ثابت کردی ہے۔
ان باتوں کو ہم آج تک مطالعہ پاکستان کے گائیڈ تک محدود کرکے سطحی نوعیت کے سمجھتے رہے لیکن میرے ابو کی طرح سینکڑوں ایسے غازیوں نے ان واقعات کو قلمبند کی ہوں گی۔

 

ابو آخری سطور میں لکھتے ہیں کہ ” 1965 کی جنگ میں جوانوں کے ساتھ افسروں نے بھی فرنٹ لائین میں جذبہ ایمانی اور دیانتداری سے لڑا۔ اور اسی وجہ سے ہی کامیابی ملی”
ابو نے ڈائیری کے دوسرے حصے میں 1971 کی جنگ کی روداد بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ اس وقت حاجرہ سیکٹر آزاد کشمیر میں اس کی پوسٹنگ تھی۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ دشمن نے کشمیر پر بھی ہمارے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔

 

یہ غازی میرا یہ ہیرو اس سال 3 مئی کو مجھے تا قیامت اکیلا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلا گیا۔ جب زندہ تھے تو اپنی سروس اور ان جنگوں کے واقعات کو زبانی ہی ہمیں سنا دیتے تھے۔ لیکن 6 ستمبر کو ایک عجیب احساس نے ابو کی ڈائیری دیکھنے پر مجبور کر دیا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92893

آج کی دنیا – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

Posted on

آج کی دنیا – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

 

اللہ رب العزت  کی اس کائنات کے رنگ وبو بدل گئے ۔شب وروزگھٹ گئیں زندگی میں برکت ختم ہوئی۔ اس میں بسنے والوں کی زندگی کے اسلوب اور اطوار میں فطری آثار غائب ہوئے ۔ پرندوں کے چہچہانے کی لذت مقصود ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے انسانوں سے انیست خوف وہراس میں بدل گئیں ۔ انسانی لباس مین تضع کا رنگ چھاجانے کے ساتھ ساتھ شکل وصورت میں قدرتی نکھار مصنوعیت کے رنگ میں ڈھل گئے ۔ ہر کوئی قدرتی حسن  رنگ میں ڈھل گئے ۔ ہر کوئی قدرتی حسن کو رنگ وپالش کرنے کے مرض کا شکار ہے ۔ نہ بچپن کاحسن اور نہ جوانی کی مستانی میں حلاوت ہے۔ خوراک خوشبو،دل آویزی اور قدرتی لذت  سے عاری ہوگئے ۔ رکھ رکھاو  کی کیفیت میں متانت او سنجیدگی کا فقدان ،کردار اور گفتار حقیقی خوشبو سے خالی ۔قناعت پسندی ہوس پرستی کے رنگ میں ڈھل جانے کی وجہ سے مطمئن اور پرسکون زندگی تصنع  اور بناوٹ کے دلدل میں پھنس گئی ۔ رواداری اور وضع  داری مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔ ایک دوسرے کا سہار ا بننے والے انسان ایک دوسرے سے خوف محسوس کرنے لگے۔ خاندانوں رشتوں اور ناطوں کی لذت باہمی منافرت ،چپقلش اور سردمہری کا شکار ہوئے ۔

 

حکمت اور دلفریب الفاظ سے مذہبی پرچار جارہانہ اور تشدد آمیز انداز مین بدل گئے ۔ آزان کی روح بلاوے کی جگہ دکھاوے کی صورت اختیار کی۔ حکمرانوں کی جزبہ خدمت کو مفادات کی ہوس نے دبوچ لی۔ علم کے چراغ تلے جہالت کی تاریکی رقصان ہے۔ والدین سے محبت کے جذبات آلات جدیدہ سے وابستگی میں منتقل ہوئے۔ مادہ پرسی نے ازھان کو دبوچ کر رکھدی۔ ہر کوئی خود غرضی کا شکا ر ۔ایک دوسرے کے لئے دھڑکنے والے دل باہمی منافرت اور بیگانگی کی کیفیت سے دوچاروالدین جیسے عزیز رشتوں کی موت پر بھی محبت اور عقیدت کے آنسووں سے نہ اولاد کی آنکھیں نم ہوتی ہیں اور نہ خویش واقارب کے چہروں پر صدمے کے آثار نظر آتے ہیں۔ نہ معصوم بچے کی حرصی وہوس  اور لالچ  سے ناآشنائی او ر بیگانگی کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے  اور نہ جوانی میں متانت اور سنجیدگی کے آثآر ملتے ہیں ۔ اولاد اور والدیں کی ایک دوسرے کی طرف اٹھنے والی نظروں میں  بھی مطلب  اور غرض کا عنصر غالب رہتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے اور حق مارنے والوں کے ہاتھ میں کوڑا دیکھ کر دم بخود ہونے کے سبب انسانیت دم توڑنے اور حیوانیت نشونماپانے کی کیفیت سے دوچار ہے ۔

 

سفلی پنی کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ یہ احساس نہیں ہوتاکہ خالق نے ہمیں احسن تقویم پر پیدا کیا تھا۔ جہاں شریعت دبتے  اور غنڈے دندناتے ہیں خوشامد، چابلوسی،ضمیر فروشی، چغل خوری ، ابن الوقتی،بے ایمانی ،خیانت ،حرام خوری کے اوصاف رزیلہ سے دنیامتعفن ہے ۔پوری قوم بکاو مال کی منڈی بن گئی ہے۔ زندگی کا ماحول اس قدر سفلہ پرور ہوا ہے ۔کہ خریدنے والا کسی شرم کے بغیر آدم ذاد کو خریدتا ہے اور بکنے والا کسی حیا کے بغیر بکنے لگتا ہے۔ خدمت سے وابستہ لوگ علم وشعور کے باوجود ضمیر نام سےنا آشنا ہیں ۔انصاف اشرافیہ کی لونڈی بن گئی ہے۔ خاتوں خانہ زینت بازار بن گئی۔ایسے ماحول اور حالات کے اندر کسی قسم ک بھلائی اور اچھائی کی امید اور توقع رکھنا  دیوانے کے خواب کے مماثل ہے۔ اور دلوں کے اندر مچلنے ہوئے خواہشات کا اظہار سر د آہوں کی صورت میں حلق سے نیچے ہی جمود کا شکار ہونا یقینی امر ہے جس کا حقیقی رنگ روزگار کے طلبگار قوم کی نوجوان تعلیم یافتہ نسل کے چہرون پر وقتاً فوقتاً برائے نام ٹیسٹ اور انٹرویو کے مراحل سے گزرنے کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان حالات وکیفیات کے عالم میں ایک ہی ارزو اور خواہش دل میں مچلتی ہے کہ     ” کوئی لوٹا دے مجھے میرے بیتے ہوئے دن ” کیونکہ اُن دنوں پیٹ خالی مگر دل ایمان کے سرور سے لبریز ہوتے تھے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92891

کسان خوشحال پاکستان خوشحال – میری بات:روہیل اکبر

Posted on

کسان خوشحال پاکستان خوشحال – میری بات:روہیل اکبر

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہورہی ہے عام کاروباری لوگ تو اپنی انڈسٹری بند کرہی رہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کے زرعی شعبے کو بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث شدید چیلنجز کا سامنا ہے بجلی کے نرخوں نے نہ صرف کسانوں کے لیے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا ہے بلکہ دیہی صنعتوں کی ترقی میں بھی رکاوٹ ڈالی ہے جبکہ عام آدمی بجلی کے زائد بلوں کی وجہ سے خود کشیاں کررہاہے ہر طرف مہنگائی کا ایک شور برپا ہے اور ایسے میں حکومتی شاہانہ اخراجات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے حکمران ہیں جنہیں عوام کا احساس ہی نہیں ہے حکمرانوں کو اگر عوام سے اپنی محبت ثابت کرنی ہے تو پھر پاکستان کو ایک طویل المدتی مربوط، اسٹریٹجک اقتصادی منصوبوں کی ضرورت ہے جس میں مالیاتی خسارے اور قرضوں کی واپسی کا انتظام شامل ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت آج تک اپنے بجٹ خساروں سے ہی باہر نہیں نکل سکی خاص کر ملک میں بجٹ کی حالت گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ابتر ہوئی ہے اور اس بگاڑ کا ایک عنصر قومی بچت اور سرمایہ کاری کی کم سطح، بڑھتا ہوا سرکاری قرضہ، کرنسی کی شرح میں اتار چڑھاؤ، طویل تجارتی خسارہ اور افراط زر ہے اس وقت تجربہ کار سیاستدان ملک میں حکمران ہیں

 

جنہوں نے اپنی ہر مشکل آسانی سے ختم کراتے ہوئے اقتدار حاصل کیے رکھااب انکے اسی تجربے کی ضرورت ہے تاکہ قوم بھی خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھ سکے اس جان لیوا مہنگائی کے دور میں ایڈہاک اقدامات کے ساتھ تجربہ کرنے کا وقت اب ختم ہو چکا ہے اور ملک معاشی انتظام کے لیے ‘آزمائشی اور غلطی’ کے نقطہ نظر کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا پاکستان کی مالی گنجائش انتہائی محدود ہے اس دلدل سے خود کو نکالنے کے لیے سیاستدانوں کو کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا چاہیے بنیادی ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں کو ترجیح دینا جن کا مقصد غیر ملکی قرضوں پر ملک کا انحصار کم کرنا ہوگاترقی پسند ٹیکس کے ذریعے محصولات کی پیداوار کو بڑھا کر، ٹیکس چوری کو روک کر اورسازگار کاروباری ماحول کو فروغ دے کر پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں پر اپنا انحصار بتدریج کم کر سکتا ہے توجہ ان ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر ہونی چاہیے جو سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں پیداواری صلاحیت کو بہتر بنائیں اور ملازمتیں پیدا کریں اسکے ساتھ ساتھ ضروری عوامی سرمایہ کاری، جیسے کہ سافٹ ویئر انڈسٹری، تھنک ٹینکس، انسانی وسائل، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر حکومتی اخراجات کو ترجیح دینابھی بہت ضروری ہے ان حالات میں اگر اہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہ کی گئیں اور معاشی چیلنجز کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اگلا بحران بہت بڑا اور بدتر ہو سکتا ہے

 

پاکستان اکنامک سروے 2023-24 کے مطابق جولائی تا مارچ مالی سال 2024 کے دوران مالیاتی خسارہ 26.8 فیصد بڑھ گیا جو جی ڈی پی کا 3.7 فیصد رہا حکومت نے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملکی ذرائع سے 3408.6 ارب روپے اور بیرونی ذرائع سے 493.8 ارب روپے حاصل کیے ہیں جولائی تا مارچ مالی سال 2024 میں کل اخراجات 36.6 فیصد بڑھ کر 13,682.8 بلین روپے ہو گئے جن کی وجہ سے آئے روز ہماری مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے خاص کر ہمارے کسان بھائی جو کئی کئی سال نیا سوٹ اور نئی جوتی نہ لے سکیں جنہوں نے آج تک برگر اور پیزے کا ذائقہ نہ چکھا ہوجو اپنی غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں اعلی تعلیم نہ دلواسکیں انکے کے لیے ہزاروں روپے بجلی کے بل بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں پاکستان میں زراعت کا بہت زیادہ انحصار بجلی پر ہے خاص طور پر آبپاشی اور زرعی پروسیسنگ یونٹس کے کام کے لیے مگر اس وقت تو ملک بھر میں کسان بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جس نے گندم، چاول اور گنے جیسی ضروری فصلوں کی پیداوار ی لاگت میں زبردست اضافہ کیا ہواہے اور ساتھ میں خطرناک بات یہ ہے کہ بجلی کی اونچی قیمت نے دیہی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے ترقی کرنا مشکل بنا دیا ہے

 

یہ کاروبار زرعی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں اس صورتحال کا پوری دیہی معیشت پر اثر پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ان خطوں میں روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں اور معاشی ترقی رک جاتی ہے پاکستان میں دیہی ترقی کا تعلق زرعی شعبے کی کارکردگی سے ہے جب کسانوں اور دیہی کاروباروں کو بجلی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دیہی ترقی کے وسیع اہداف جیسے کہ غربت کا خاتمہ، معیار زندگی میں بہتری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں شدید رکاوٹیں پڑتی ہیں اس وقت بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت زرعی آلات کی قیمتوں میں اضافے کابھی باعث بنی ہوئی ہیں جسکی وجہ سے کسانوں کے لیے منافع کمانا مشکل ترین معاملہ بنا ہوا ہے جسکے بعد بہت سے چھوٹے کاشتکاروں کو کاشتکاری ترک کرنا پڑ رہی ہے جسکا اثر لامحالہ دہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی کی صورت میں نکلے گا جسکے بعد پہلے سے زیادہ بوجھ کے شکار شہری انفراسٹرکچر کو مزید دباؤ برداشت کرنا پڑے گا ان تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات اورپاکستان کی معیشت میں زراعت کے اہم کردار اور دیہی آبادی کی جاری جدوجہد کے پیش نظر حکومت کو صرف بجلی کے نرخوں میں کم سے کم قیمت پر لانا ہوگا بجلی کی قیمت کو کم کر کے حکومت کسانوں اور دیہی کاروباروں پر مالی دبا وکو کم کر سکتی ہے جو معیشت میں زیادہ حصہ ڈال کر پاکستان کی دیہی آبادی کے لیے مزید خوشحال اور پائیدار مستقبل کی طرف اہم سنگ میل ثابت ہوگا کیونکہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی اورایک مضبوط ستون ہے جب تک یہ طاقتور اور مضبوط نہ ہو تب تک ہماری کمر سیدھی نہیں ہوسکتی اس سے پہلے کہ ہم زمین پہ لگ جائیں ہمیں اپنی زراعت کو ترقی اور کسان کو خوشحال کرناپڑیا گا کیونکہ کسان خوشحال پاکستان خوشحال

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92856

بزمِ درویش ۔ سید علی ہجویری ؒکی محبت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بزمِ درویش ۔ سید علی ہجویری ؒکی محبت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شہر لاہور کی آن شان نگری داتا دی‘ تاریخ تصوف کے سب سے بڑے بزرگ سید علی ہجویری ؒ کے عرس مبارک پر میں بھی دیوانوں پر وانوں کی قطاروں سے گزرتا ہوا آخر کار شہنشاہ لاہور سید علی ہجویری ؒکے مزار اقدس کے بلکل سامنے پہنچ گیا تھا مزار سے ملحقہ وسیع و عریض پر شکوہ مسجد کا صحن زائرین دیوانوں کے ہجوم سے لبالب بلکہ ابل رہا تھا دنیا جہاں اور پاکستان کے چپے چپے سے دیوانے ایک غیر مرئی ریشمی زنجیر میں بندھے غلاموں کی طرح مزار اقدس کے اطراف میں لہروں کی طرح حرکت میں تھے جو قریب تھے وہ اپنی قسمت پر رشک کر رہے تھے جوفاصلے پر تھے وہ اپنی نظروں سے باطن کے نہاں خانوں کے بعید ترین گوشوں کو روحانی سرشاری سے ہمکنار کر رہے تھے جو اور بھی دور تھے وہ اِسے نشاط انگیز سرور میں غرق تھے کہ اُس دیوانوں کے سمندر کا حصہ ہیں جو اپنے مرشد کو سلام عقیدت پیش کر نے آئے تھے لوگ ہاتھوں میں پھولوں موتیے کے گجروں کے ساتھ سر پر گلاب کے ٹوکرے اٹھائے اپنے لجپال کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے آئے تھے جو مسجد اور مزار کے احاطے میں داخل ہو جاتے

 

وہ فاتح عالم کے جزبے سے سر شار ہو جاتے جب کے ہم مزار اقدس کے اطراف بڑھ رہے تھے تو میلوں دور مختلف شہروں دیہاتوں قصبوں محلوں گلیوں سے دیوانوں کے جلوس مختلف ٹولیوں قطاروں میں زری ریشمی چادروں پھولوں مٹھائی کے ٹوکروں کے ساتھ دھمال ڈالتے ہوئے شہنشاہ کے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے میں خوشگوار حیرت سے اِن دیوانوں کو دیکھ رہا تھا جو میلوں دور پیدل اپنے مسیحا کی طرف سر جھکائے غلاموں کی طرح بڑھ رہے تھے سید علی ہجویری ؒ جو اِس شہر کا بھی نہیں تھا یہاں سے سینکڑوں میل دور محلہ ہجویر سے مرشد کے حکم پر تقریبا ً ہزار سال ہونے کو آیا پید ل اِس شہر لاہو رکا مقدر سنوارنے آکر جلوہ گر ہو جاتا ہے مسجد بنائی لنگر لگایا اور بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا شروع کر دی نہ اولاد نہ بیوی نہ رشتہ دار اکیلا درویش خدمت خلق کے عظیم مشن پر مگن ہو جاتا ہے جب اِس دنیا فانی سے گیا تو نہ وراثت نہ اولاد نہ رشتہ دار لیکن ہزارو ں عقیدت مند وں کو چھوڑ گیا پھر قافلہ شب و روز کا بے راس گھوڑا چلتا رہا صدیوں پر صدیاں کروٹ لیتی چلی گئیں بادشاہ گورنر جاگیر دار دولت مند آئے گئے مٹی کی چادر پہنتے چلے گئے گمنامی کی غار میں بے نام ہو چلے گئے لیکن عشق الٰہی میں رنگا یہ لجپال ایسا کہ صدیوں کا غبار جس کی شہرت کو دھندلا تو دور کی بات یہ گزرتے دن کے ساتھ نکھارتا چلا گیا وقت کی بے نیازی اِس درویش باکمال کا کچھ نہ بگاڑ سکی بلکہ شہرت دیوی ہر گزرتے

 

دن کے ساتھ اور بھی مہربان ہو تی چلی گئی اہل دنیا شہرت اور امر رہنے کے لیے اشتہار بازی کرتے ہیں سخاوت کے ڈرامے رچاتے ہیں لیکن یہ بے نیاز درویش نہ اولاد نہ اشتہار بازی نہ ڈرامے بازیاں لیکن سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود دیوانوں کی دیوانگی میں اور بھی شدت آتی جارہی ہے دیوانوں کا جنون عشق بڑھتا چلا جا رہا ہے ہر سال جب بھی شہنشاہ کا عرش مبارک آتا ہے تو اشتہار بازی نہیں ہوتی لیکن دیوانے سارا سال عرس مبارک کا انتظار کر تے ہیں اور پھر عرس والے دن اپنے اپنے انداز سے اپنی محبت کا ظہار کر تے ہیں روحانیت کے منکرین کو میرے الفاظ بلکل بھی اچھے نہیں لگے گیں کہ یہ کیا بات ہوئی ایک شخص دنیا سے چلا گیا صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی کروڑوں دلوں پر حکمرانی کر رہا ہے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے ساری زندگی الٰہی رنگ عبادت عقیدت میں گزاری ہر سانس خدا کی مرضی کے مطابق گزار ی ساری زندگی وہی کیا جو حق تعالیٰ کا فرمان تھا اِس طویل ریاضت کا پھر رب تعالیٰ انعام دیتے ہیں کہ صدیوں کو اِن کا غلام بنا دیتے ہیں

 

آنے والے انسانوں کے دلوں کو اِن کی محبت سے بھر دیتے ہیں ہر آنے والا دن اِن کی محبت شہرت میں اضافہ کر تا چلا جاتا ہے جب یہ باکمال لوگ اِس دنیا میں عشق الٰہی میں بقا کا جام پی کر عرفانی ہو جاتے ہیں اِن کے وجود کثافت سے لطافت میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر اِن کے منہ سے بلھے شاہؒ کے عشق کے جام وارث شاہؒ سے ہیر رانجھے کی پر سوز صدائیں میاں محمد بخشؒ سے رشتوں محبتوں کے موتی بکھرتے ہیں شاہ حسینؒ سے راتوں کے ویرانے جگمگاتے ہیں بابا فریدؒ روحوں کو سرشار کر تے ہیں مولانا روم حکمت کے سمندر بہاتے نظر آتے ہیں غزالی ؒ دانش و حکمت کے چراغ روشن کرتے ہیں جو لوگ اِن باکمال درویشوں کو جاہل قرار دیتے ہیں وہ درج بالا بزرگوں کے افکار سے آشناہوں تو انہیں پتہ چلے کہ یہ کیسے باکمال لوگ تھے جو الٰہی رنگ میں رنگنے کے بعد عرفانی ہو کر دانش و حکمت کے چشمے چلا کر چلے گئے ایسے معرفت کے چشمے جن سے کروڑوں لوگوں نے فیض پایا اور قیامت تک یہ عمل جاری رہے گا میرے سامنے بھی سید علی ہجویری ؒ کا چشمہ معرفت اہل رہا تھا میں بت بنا شہنشاہ کے مزار کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کسی نے آکر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں نے دیکھا باجی ہاجرہ عقیدت بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی بولی سر آپ بھی عرس پر آئے ہوئے ہیں

 

میری بوڑھی ماں بھی آئی ہیں ا آپ کو ان سے ملاتی ہوں میں رش کی بھیڑ سے اُس کے ساتھ اُس کی ماں تک آگیا وہ دیوانے کے ساتھ وہیل چئیر پر مزار کی طرف ٹکٹکی باندھے عقیدت کا بت بنی ہوئی تھیں میں جاکر سلام کیا تو ہاجرہ بولی سر اِن کو فالج ہوا ہے بول نہیں سکتیں یہ پچھلے ساٹھ سال سے لگاتار عرس مبارک پر آرہی ہیں ہر جمعرات کو ننگے پاؤں گھر سے نیاز کا دیگچہ بنا کر لاتی تھیں کچھ عرصہ سے فالج کی وجہ آدھا جسم اور زبان پتھر کے ہو گئے ہیں لیکن اِن کی خواہش اور عقیدت کو دیکھتے ہوئے میں اِن کو وہیل چئیر پرلائی ہو ں میں ماں جی کے قدموں بیٹھ گیا اِن کے بے جان ہاتھ کو پکڑا اور کہاماں جی آپ داتا جی کو سلام کر نے آئی ہیں آپ سرکار سے بہت عشق کرتی ہیں وہ بھی آپ سے پیار کرتے ہیں میں سید علی ہجویری ؒ کی باتیں کر رہا تھا ماں کی دھندلی آنکھیں روشن ہو رہی تھیں پھر اِن کی آنکھیں سے عقیدت کے موتی جھڑنے لگے وہ ایسے لجپال کو عقیدت کے موتی پیش کر رہی تھیں میں دیوانوں کے سیلاب کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح ہر دیوانہ اپنی محبت کا اظہار اپنے ہی انداز سے پیش کر رہا تھا اور یہ محبت کا اظہار اپنے ہی انداز سے پیش کر رہا تھا اور یہ محبت کا یہ اظہا رکا سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92858

حجاب ایک تہذیب – از :کلثوم رضا

حجاب ایک تہذیب – از :کلثوم رضا

 

Hijab day 4th september

سر پر رکھے جانے والے ڈیڑھ گز کا کپڑا جسے ہم حجاب کا نام دیتے ہیں، محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ایک نظریہ ہے ایک تہذیب ہے ۔۔جس کے لغوی معنی دو چیزوں کے درمیان کسی ایسی حائل ہونے والی چیز کے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے اوجھل ہو جائیں۔اسلامی دنیا میں یہ لفظ تب سے معروف ہے جب سے رب کائنات نے اپنے نیک بندوں کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پردے کا حکم سنایا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

ترجمہ؛ نبی کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 53 )
اس حجاب کے بارے میں پہلے حکم کو آیت حجاب کہتے ہیں ۔سب سے پہلے پردے کا حکم مردوں کو دیا گیا تھا۔یہ اختلاط سے بچنے کا حکم بھی ہے اور عورت کی توقیر و تحفظ کے معنی بھی رکھتا ہے ۔دوسری طرف خواتین کو حکم دیا گیا :

ترجمہ؛اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔(سورہ الاحزاب آیت نمبر 59)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی نیک بندیوں کو گھر سے باہر جانے کے آداب بتا رہے ہیں کہ جب گھر سے باہر یعنی معاشرے میں جاؤ تو چادر اس طرح اوڑھو کہ اوپر سے لٹک جائے ،جس سے چہرہ ڈھک جائے۔اور یہ بھی بتایا کہ ایسا کیوں کریں؟ تاکہ پہچان لی جائیں کہ یہ شریف عورتیں ہیں اور ستائی نہ جائیں ۔۔
یہ چادر ،یہ گاؤن ،یہ حجاب جسے ہم ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ،ایک دقیانوسی سوچ کی پہچان،ایک فیشن یا اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کا آسان طریقہ کا نام دیتے ہیں دراصل اسلام کے نظام عفت و عصمت کا نام ہے جو معاشرے کو پاکیزگی بخشتا ہے ۔یہ کسی مولوی یا فقیہ کا وضع کردہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے اللہ کا حکم ہے ۔جس کا مقصد عورت کو وقار و عظمت عطا کرنا ہے ۔یہ عورت کی شخصیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس میں پاکیزگی اور خیر ہے۔

حجاب کی تہذیب مسلمانوں کے عقائد کی آئینہ دار ہے۔ یہ مسلمان مرد کی شعار ہے اور مسلمان عورت کی پہچان۔ ایک مومنہ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے پاکیزہ جسم کو شر پسند نگاہوں سے بچائے۔ شرم و حیا کے قلعے میں اس کی حفاظت کرے ۔اسے معلوم ہونا چاہیے کہ پردہ قید نہیں تقوی اور اسلام کا شعار ہے ۔یہ ایک صدف کی مانند ہے جو پاکیزہ عورت کو موتی کی طرح اپنے اندر چھپا کر اس کی قدرو قیمت میں اضافہ کر دیتا ہے۔اور پردے کے اہتمام میں مردوں کو اپنی عورتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں خاندانی زندگی پاکیزہ اور مستحکم ہوتی ہے۔

حقیقت میں تقدیسِ نسواں کا اصل محافظ مرد ہی ہے۔ مرد اگر باحیا ہو جائیں اور اپنی زمہ داریوں سے آگاہ ہو جائیں تو معاشرے سے بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اپنی عورتوں کو تہذیب ،اخلاق، دین، دنیا اور آخرت کی باتیں سکھانا مردوں ہی کی زمہ داری ہے۔۔۔ یوں مرد و عورت کے تعاون سے اگر حیا اور حجاب معاشرے کا عمومی کلچر بن جائیں تو اسلامی تہذیب کے اثرات نمایاں نظر آئیں گے۔ پاکیزہ گودوں میں پروان چڑھنے والی نسلیں بھی یقینا پاکیزہ ہوا کرتی ہیں۔ جس معاشرے کی بنیادیں حیا اور تقوی پر استوار ہوتی ہیں وہ معاشرہ بہترین اقدار کا مظہر بن جاتا یے ۔جس معاشرے میں مردوں کی نگاہیں نیچی ریتی ہیں وہاں عورت کا احترام اور وقار بڑھ جاتا یے۔ اور ایک باوقار عورت باوقار نسلیں جنتی ہے اور پالتی ہے۔ جس سے ایک باحیا اور تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔

میرے مہربان رب کریم نے گھر کے اندر بھی سترو حیا اور لباس کے لیے تقوی کو معیار بنا کر ارشاد فرماتے ہیں۔۔
“اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو ۔(سورہ الاعراف ایت ننبر 36)

اللہ تعالیٰ نے “تقوی” کے لباس کو بہترین لباس قرار دیا یے۔۔۔ تقوی اللہ سے ڈر کر اللہ کی مرضی کا لباس پہننے کا نام ہے۔عزت نہ مال میں ہے نہ لباس کے اعلیٰ اور قیمتی ہونے میں بلکہ ایمان اور تقویٰ میں ہے ۔۔۔۔ لیکن ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ آج ہم نے اپنے لباس کا معیار کچھ اس طرح رکھا ہے کہ نیم برہنہ ہو گئے ہیں۔ دور جاہلیت کی عورتوں کا ذکر قرآن و حدیث میں ملتا ہے ۔کہ اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی تھیں ۔اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کو نمایاں کرتی تھیں۔ان کا لباس ایسے ہوتا جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں۔وہی صورت حال اب دیکھنے کو ملتی ہے ۔لباس جتنا زیادہ مہنگا اتنا عریاں بھی ہوتا جاتا ہے۔ جو دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہا یوتا ہے ۔۔

لباس میں ہونے والے تیز تر غیر شرعی تغیرات شیطان کے فتنوں میں سے بڑا فتنہ ہے۔ یہ فتنہ ہر دور میں اسی طرح جاری رہا ہے ۔۔۔البتہ موجودہ دور میں یہ فتنہ عروج پر ہے۔ سابقہ ادوار میں میڈیا اور برقی لہریں شیطان کو میسر نہیں تھیں ۔۔۔اب اسے یہ بھی میسر ہیں۔میڈیا حسن و زینت کو اتنا بڑھا دیتا ہے کہ لباس کم سے کم یوتا جاتا ہے ۔ اور حسن و زینت نمایاں ہوتی جاتی ہے۔۔۔اسی کو “تبرج جاہلیہ”کہا گیا ہے۔۔۔ اس نے ہر دور میں اپنے باطل قوانین کو جدیدیت اور روشن خیالی قرار دیا ہے اور اللہ کے دین اور انبیا کی باتوں کو پرانے زمانے کی کہانیاں قرار دے کر انسان کو خواہشات نفس کی پیروی میں لگا دیا ہے۔جس سے معاشرتی مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی دراصل معاشرے کے تقویٰ سے دور ہونے کی علامات ہیں ۔۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے نظام عفت و عصمت کی طرف پلٹیں۔یہ اسلامی تہذیب ہی ہے جس میں اس بات کی ضمانت یے کہ ایک عورت تن تنہا “صنعا سے حضر موت تک “سفر کرے گی اور اسے کسی کا خوف نہ ہوگا ۔۔۔

مومن جانتا ہے کہ اس کے رب کے احکامات میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ۔۔وہ عمل نہ کرنے کے لیے بہانے نہیں تلاشتا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے دنیا کی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بنائی ہیں جیسے چاہیں استعمال کریں بس خیال رکھیں کہ مالک نے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں ان کے پابند رہیں۔جو حرام ہیں اس سے بچ کر رہیں۔

بے شرمی حرام ہے یعنی ایسا طرز عمل جو فحش پر مبنی ہو۔ ایسا فیشن جو حیا کے تقاضے پورے نہ کرتا ہو۔ جو لباس ستر کو نہ ڈھکے وہ حرام ہے۔ باقی اللہ کے بنائے ہوئے ضابطہ اخلاق کے اندر ہر فیشن کی آزادی ہے۔ ہمارا رب رؤف الرحیم ہے۔ اس نے جو حدود ہمارے لیے مقرر کی ہیں ان کے اندر ہمارے لیے خیر ہے۔ رحمت ہے برکتیں اور آسانیاں ہیں۔ ان حدود سے باہر بدامنی ہے انتشار یے، بے سکونی ہے، جھگڑے ہیں، طلاقیں اور فساد ہے۔

دین اسلام وہ دین نہیں جو زبردستی کسی کو مسلمان بناتا ہو۔۔ کسی نبی کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی پر جبر کرکے مسلمان کرے۔ اس معاملے میں بھی کسی پر زبردستی نہیں ہے کہ وہ ضرور حجاب لے۔۔۔ اور ساتر لباس پہنے ۔۔البتہ واضح رہے دین اسلام فرد کی آزادی کو مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ اجتماعیت اور معاشرے کے حقوق کا بھی ضامن ہے۔لہذا ایسے تمام معاملات جن میں انسان کے انفرادی افعال کا اثر اجتماعیت پر پڑتا ہو ،اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود طے کر دی ہیں،جس کے اندر انسان مکمل آزاد ہے۔

اسلام انسان کو اس وقت تک شخصی ازادی دیتا ہے جب تک اس کی آزادی سے معاشرے کے دوسرے افراد کو نقصان نہ پہنچے ۔جہاں اس کی آزادی سے دوسرے انسان کی مالی، جانی حقوق یا عزت متاثر ہونے کا خطرہ ہو وہاں پر اجتماعی اصول و ضوابط لاگو ہو جاتے ہیں۔
نبی کریم کا فرمان ہے کہ “مسلمان کی جان،مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔(مسلم)

جب ایک مرد اللہ کے قوانین سے روگردانی کرکے فحشی میں مبتلا ہو کر محرم رشتوں کو پامال کرتا ہے، نکاح کے بے غیر تعلقات اور دوستیاں بڑھاتا ہے گویا وہ اس قانون کو ٹوڑ کر ظلم اور فساد کا موجب بنتا ہے۔ اور اسی طرح عورت بھی جب نامکمل لباس میں حجاب کے بے غیر باہر نکلتی ہے تو گویا وہ اپنا حفاظتی حصار خود ہی توڑ دیتی یے جس سے ممکن ہے کہ کوئی بد باطن شخص اس کی عزت کو نقصان پہنچائے اور دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی شریف عورت کا گھر اپنی بے حیائی کی وجہ سے اجاڑ دے۔

آئیے اس عالمی یوم حجاب کے موقع پر یہ عہد کریں کہ اپنے رب کے بتائے یوئے احکامات پر عمل کر کے ایک باحیا اور باحجاب زندگی بسر کریں گے۔ مرد بھی تقوی اور حیا کے سارے تقاضے پورے کریں گے اور عورتیں بھی اپنی نسوانیت اور حسن کی حفاظت اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں گی۔ اپنی اولادوں کے اندر حیا کا جذبہ اس طرح پروان چڑھائیں گے کہ وہ معاشرے کی پاکیزگی اور استحکام کا ذریعہ بنیں۔ اور اس کام کے لیے اللہ سے مدد اور استقامت مانگیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92823

پاک چائینہ بارڈر اور ڈوبتی معیشت – میری بات;روہیل اکبر

پاک چائینہ بارڈر اور ڈوبتی معیشت – میری بات;روہیل اکبر

ایک طرف ہم دنیا کے بلند ترین مقام پرہیں تو دوسری طرف پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں درمیان میں صرف ایک انچ کی لکیرکو جیسے ہی ہم وہ پار کرتے ہیں تو دوسری طرف ترقی،خوشحالی اور سہولتوں کا عروج ہے جو انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے دنیا کی خوبصورت ندی،نالوں،دریاؤں اور وادیوں سے گذرتا ہوا جیسے ہی میں پاک چائینہ بارڈ خنجراب پر پہنچا تو خوبصورتی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اسی جگہ ہماری 2اے ٹی ایم مشینیں (نیشنل بینک اور حبیب بنک)بھی لگی ہوئی ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ یہ دنیا کی بلند ترین مقام پر ہیں اسی بلندی پر ہمارے جوان جو ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں وہ بھی ناقابل یقین ہیں اس ٹھنڈے ترین مقام پر کسی بھی ملازم کو حکومت نے سردی سے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں دیا ہوا ہماری حالت پر ترس کھاتے ہوئے چائینہ نے ہی ایک کیبن دے رکھا ہے کہ اگر بارش ہو جائے تو اس چھوٹے سے کیبن میں پناہ مل سکے

 

اس بارڈر تک آنے کے لیے جو سڑک استعمال ہوتی ہے وہ بھی چائینہ کا ہی تحفہ ہے ہمارے بارڈ پر کسی بھی گاڑی کو چیک کرنے کے لیے کوئی آلات نہیں ہیں اور نہ ہی چیک ہوتی ہے جبکہ چائینہ نے چیکنگ کا جدید نظام بنانے کے ساتھ ہی بارڈر لکیر سے موٹر وے طرز کی سڑک بنائی ہوئی ہے انکے سیکیورٹی اداروں کے پاس موسم کے مطابق جدید اور بہترین وردی ہے جو شدید برف باری میں بھی جسم کو گرم رکھتی ہے انکے مقابلہ میں ہماری قراقرم بارڈر فورس کے لیے چائے بنانے کی بھی سہولت نہیں میں سلام پیش کرتا ہوں اپنے جوانوں کو جو اتنی سختی میں بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں پاک چین بارڈ گلگت بلتستان میں دنیا کے بلند ترین مقام پر ہے اور یہاں تک جاتے جاتے ایسے ایسے خوبصورت اور دلفریب نظاروں سے گذرنا پڑتا ہے کہ ہر وادی میں زندگی گذارنے کو دل کرتا ہے ہماری یہ سرحد 596 کلومیٹر (370 میل) قراقرم پہاڑوں کے درمیان سطح سمندر سے 4,693 میٹر (15,397 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے جو دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ K2 بھی اسی سرحد پر واقع ہے ہنزہ اور نگراس سرحد کے قریب ترین اضلاع ہیں دونوں طرف سے آنے والا سامان سوست میں آتا ہے جہاں ڈرائی پورٹ ہے اس ڈرائی پورٹ کے عملہ سے تاجر حضرات بھی اتنے ہی تنگ ہیں جتنے کہ کسی اور ڈرائی پورٹ سے متعدد بار سوست میں تاجروں نے ٹیکسوں کی بھر مار اور کسٹم حکام کی بدمعاشیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن یہاں پر تاجروں کی یونین نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں سوست میں اس وقت جو دوکانیں بنی ہوئی ہیں

 

ان پر بھی شاہ عالم مارکیٹ لاہور کا ہی مال نظر آتا ہے اس علاقے میں کوئی ڈیوٹی فری شاپ ہے اور نہ ہی سیاحوں کی سہولیات کے لیے کوئی مرکز ہے بلکہ جو بھی پاکستان بارڈر تک جانے کا خواہش مند ہوتا ہے ان سے 5سو روپے فی آدمی کے حساب سے پیسے لیے جاتے ہیں غیرملکیوں سے تقریبا 12ڈالر لیے جارہے ہیں چین کی بنائی ہوئی اس سڑک پر حکومت پیسہ اکھٹا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی سوست سے خنجراب پاس کو جائیں تو راستے میں بائیں جانب ایک سڑک اوپر کی طرف مسگر وادی کو جاتی ہے جو انتہائی بلندی پر ہے اس وادی کے لوگ خوبصورت،جفاکش اور ملنسار ہیں یہاں ہر شخص پڑھا لکھا ہے اوربہت سے نوجوان فوج میں اعلی عہدوں پر تعینات ہیں اس گاؤں میں دو اساتذہ کرام جاوید اختر اور فریاد علی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جنکا کہنا تھا کہ جو اصل شاہراہ ریشم ہے وہ اسی گاؤں سے گذرتی تھی جو آگے جاکر تین ممالک کے بارڈرز سے مل جاتی ہے ان تین ممالک میں چین،افغانستان اور روس شامل تھا لیکن حکومت نے 1966میں شاہراہ ریشم کو تبدیل کردیا جس پر سڑک1982میں مکمل ہوئی یکم جون 2006 سے، گلگت سے کاشغر، سنکیانگ تک بس سروس بھی چل رہی ہے اور اب تو لاہور سے بھی چائینہ تک بس چل پڑی ہے ان علاقوں میں بجلی اور موبائل نیٹ ورک کا بڑا بحران ہے پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے لوگ جیسے ہی گلگت بلتستان پہنچتے ہیں تو وہ اپنے گھر والوں،رشتہ داروں اور دوستوں سے کٹ جاتے ہیں ان علاقوں میں صرف ایس کام ہی کام کرتا ہے جسکے انٹرنیٹ کی سپیڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ناقابل بیان ہے اکثر اوقات تو پوری رات بجلی غائب رہتی ہے

 

کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوام کو ایک فائدہ تو ہے کہ انہیں بجلی انتہائی کم قیمت پر ملتی ہے جبکہ پاکستان بھر میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا رکھی ہیں جن گھروں میں ایک پنکھا،پانی والی موٹر اور استری چلتی ہے انہیں 30ہزار سے زائد بل آنے کی وجہ سے انکے میٹر اتر چکے ہیں کچھ لوگوں نے گھروں کا سامان بیچ کر اپنے بل جمع کروائے ہیں اسکے ساتھ ساتھ بجلی کے مہنگے نرخوں نے پاکستان میں بہت سی صنعتوں کو بند کرنے یا آف گرڈ جانے پر مجبور کر دیا ہے۔مینوفیکچرنگ سیکٹر، جو معیشت کے استحکام اور توسیع کے لیے ناگزیر ہے، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت سے بری طرح متاثر ہوا ہے مہنگی بجلی یہ مسئلہ بہت سے کاروباروں کی بقا کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ روزگار اور معاشی ترقی کے لیے نقصان دہ بن چکا ہے سٹیل، سیمنٹ، ٹیکسٹائل اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری شدید متاثر ہوچکی ہے کاروباری اداروں کو زیادہ بلوں کے علاوہ بجلی کی بندش سے بھی نمٹنا پڑرہا ہے ان مسائل کی وجہ سے، کاروبار توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے یا مہنگے بیک اپ جنریٹرز خریدنے پر مجبور ہیں

 

بیک اپ بجلی کی سرمایہ کاری اچانک رکاوٹوں کو کم کر سکتی ہے، لیکن ان کے نتیجے میں اکثر آپریشنل اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، جو منافع کے مارجن کو کم کرتے ہیں اور مسابقت کو کمزور کرتے ہیں اگرچہ پاور سیکٹر کی کارکردگی کو بڑھانے اور توانائی کے متبادل ذرائع پر غور کرنے کے لیے کئی ناکام کوششیں کی گئی ہیں توانائی کے شعبے کی تشکیل نو کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے حکومت کو چاہیے کہ پائیدار سطحوں پر محصولات کو برقرار رکھنے کے لیے طویل مدتی نقطہ نظر کو توانائی کی پیداوار کو بڑھانے، بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے، اور زیادہ مسابقتی توانائی کی مارکیٹ بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اس وقت بہت سی فرمیں توانائی کے زیادہ ٹیرف کی وجہ سے شمسی اور ہوا کی توانائی جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کر کے گرڈ سے باہر جانے کا انتخاب کر رہی ہیں یہ ایک ایسا مالی بوجھ ہے جسے بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری برداشت نہیں کر سکتے نتیجے کے طور پر یہ کمپنیاں مکمل طور پر کام بند کر دیتی ہیں اگر صنعتیں کام جاری نہیں رکھتی تو معاشرتی بدامنی اور معاشی تنا ؤپیدا ہو سکتا ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور ساتھ ہی جرائم بھی بڑھ جائیں گے جن سے بچنے کے لیے حکومت کو سخت اور فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

pak china border khunjarab

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92786

بھارت اور پاکستان میں سیکولرازم کا تصور اور غلط فہمیوں کا ازالہ – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

بھارت اور پاکستان میں سیکولرازم کا تصور اور غلط فہمیوں کا ازالہ – خاطرات :امیرجان حقانی

 

بھارت اور پاکستان دو ایسے پڑوسی ممالک ہیں جن کے نظریاتی اور آئینی ڈھانچے میں بنیادی فرق ہے۔ بھارت خود کو ایک سیکولر ملک قرار دیتا ہے، جہاں مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھا گیا ہے، جبکہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی گئی ہے، اور یہاں آئینی طور پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

 

بھارت میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 20 کروڑ ہے، جو اسے دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتوں میں سے ایک بناتی ہے۔ اس اقلیت کو اپنے مذہبی حقوق کی حفاظت کے لیے سیکولرازم ایک حفاظتی دیوار فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان آزادانہ طور پر اپنی عبادات کر سکتے ہیں، اپنے رسم و رواج اور تہوار منانے کے حق دار ہیں، اور ان کے مذہبی تعلیمی ادارے بھی ریاست کی نگرانی سے آزاد ہیں۔ بھارت کے آئین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ریاست کسی بھی مذہب کی حمایت یا مخالفت نہیں کرے گی، اور تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب، مساوی حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ خدانخواستہ اگر بھارت قانونی اور آئینی طور پر ہندو مذہب پسند ملک بن گیا تو کروڑوں مسلمانوں اور دیگر چھوٹی اقلیتوں کی مال وجان اور عزت و ابرو اور دیگر ادارے برباد ہوکر رہ جائیں گے اور ان کی زندگی مزید اجیرن بن جائے گی۔

 

یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء ہند جیسی سکہ بند علماء کی سیاسی جماعت اور ان کے ہم خیال جید علماء بھی بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت جیسے ملک میں مسلمانوں کی بقا اور ترقی کا واحد راستہ سیکولرازم ہے، کیونکہ یہ نظام انہیں مذہبی آزادی اور مساوات فراہم کرتا ہے۔

 

اس کے برعکس، پاکستان کا آئینی ڈھانچہ اسلامی نظریات پر مبنی ہے، جہاں اللہ کی حاکمیت کو ریاست کے تمام معاملات پر حاوی قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں، پاکستان میں سیکولرازم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ اسلامی نظریے کے خلاف ہے۔ پاکستان کے علماء اور دینی طبقے، بالخصوص جمیعت علماء اسلام اور دیگر بڑی سیاسی جماعتیں اور اہل علم و قلم، سیکولرازم کو ایک ایسے نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور اس کی مخالفت اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں مذہبی بنیادوں پر ایک عادلانہ معاشرہ قائم ہو سکے۔

 

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ، جو اپنے آپ کو اسلامی نظریات کے علمبردار سمجھتے ہیں، اور خود مولانا مودودی رحمۃاللہ علیہ کے پیروکار یا مقلد بھی کہتے ہیں، سیکولرازم کے متعلق، بھارت اور پاکستان کے علماء کے خیالات و تصورات کو بطور طنز استعمال کرتے ہیں اور ان صاحب فکر و نظر علماء پر طنز کرتے ہوئے عجیب و غریب پوسٹیں شئیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ شاید اس بات کا شعور نہیں رکھتے کہ بھارت میں سیکولرازم مسلمانوں کی بقا اور حقوق کی حفاظت کا ضامن ہے، جبکہ پاکستان میں اس کی مخالفت عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔

 

ان افراد کو سمجھنا چاہیے کہ ہر ملک کا آئینی اور نظریاتی ڈھانچہ مختلف ہوتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے لیے سیکولرازم ایک نعمت ہے، جبکہ پاکستان میں اسلامی نظام ہی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ ان دونوں ممالک کے حالات اور تقاضے مختلف ہیں، اور اس کو سمجھنے کے بجائے طنز و مزاح کے ذریعے نظریات کا مذاق اڑانا خود نادانی اور کم فہمی ہے۔

 

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نظریات اور عقائد کو درست تناظر میں سمجھیں اور ان پر فخر کریں۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بڑے علماء کے نظریات کو سمجھے بغیر ان کے نام کو استعمال کرنا اور ان دو ممالک میں سیکولرازم کے حوالے سے طنزیہ رویہ اختیار کرنا نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مولانا کی جدوجہد اور ان کے نظریات کی توہین بھی ہے۔ایسے لوگ معدودے چند ہی ہیں۔

 

آخر میں، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت میں سیکولرازم مسلمانوں کے لیے حفاظتی حصار ہے، جبکہ پاکستان میں اسلامی حاکمیت ہماری شناخت اور بقا کی ضامن ہے۔ ہمیں اپنے نظریات اور عقائد پر فخر کرنا چاہیے اور ان کی حفاظت کرنی چاہیے، نہ کہ انہیں طنز و مزاح کا نشانہ بنانا چاہیے اور تفریق کا باعث بن کر علمی حلقوں میں اپنا مقام گرانا چاہیے۔یہاں تک یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے بھی سیکولرازم بہتر ہے تو اس کا مناسب جواب یہی ہے کہ آئین پاکستان، پاکستان میں بسنے والی تمام غیر مسلم کمیونٹیز کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے اور ساتھ ہی چند امتیازی حقوق، مسلمانوں سے زیادہ بھی مہیا کرتا ہے اور قومی اسمبلی میں پاکستانی اقلیتی برادری کے لیے سیٹیں بھی مخصوص ہیں۔ اور ویسے بھی پاکستان کے غیر مسلم شہری قانونی اور آئینی طور پر مساوی حقوق انجوائے کرتے ہیں چند ایک چیزوں کے سوا۔ باقی چند شرپسند عناصر کی ہمارے غیر مسلم شہری بھائیوں کے خلاف مجرمانہ حرکتوں اور دہشتگردی پر مبنی اقدامات کو پاکستان کے آئین، قانون اور اکثریتی مسلمانوں کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ ہر ذی شعور ان کا ظالموں کا مخالف ہے۔اور ہاں جو لوگ آئین اور پاکستان کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور اعلانیہ برات کا اظہار کرتے ہیں، وہ پاکستان کے مسلم یا غیر مسلم شہری کہلانے کے مستحق بھی نہیں۔

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92784

داد بیداد ۔ داخلوں کا مو سم ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ داخلوں کا مو سم ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داخلوں کا مو سم ہر سال آتا ہے اور گذر جا تا ہے، طلبہ، طا لبات اور والدین کے لئے اس مو سم میں کئی واہمے ہو تے ہیں بے شمار پریشا نیاں ہو تی ہیں سکولوں اور کا لجوں کی سطح پر طبلہ اور والدین کی منا سب رہنما ئی یعنی معروف معنی میں کیرئیر کونسلنگ کا رواج اور دستور نہ ہونے کی وجہ سے منا سب جگہ پر مو زوں اور منا سب مضا مین کا انتخا ب کر کے طا لب علم کو داخل کروانا ایک مشکل مسلہ ہوتا ہے اور اس مشکل مر حلے میں غلط جگہ یا غلط مضمون کا اتنخا ب آگے جا کر علمی تر قی اور کا میاب زند گی کی راہ میں رکا وٹ بن جا تا ہے، اگر چہ پرائیویٹ سکولوں اور کا لجوں نے کیرئیر کونسلنگ کا شعبہ کھولا ہوا ہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے بر ابر ہے اور یہ سہو لت صر ف امیر طبقے کو حا صل ہے اس لئے ذرائع ابلا غ کی وساطت سے ما ہرین تعلیم کے ذریعے داخلوں کے مو سم میں طلبہ اور والدین کی رہنما ئی بہت ضروری سمجھی جا تی ہے جب تک تعلیمی اداروں میں ایسی رہنما ئی کا مر بوط اور منظم طریقہ کار اختیار نہیں کیا جا تا تب تک اس کمی کو ذرائع ابلا غ، ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخبارات کے ذریعے پورا کیا جائے گا،

 

عموماً یہ سمجھا جا تا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے وقت مضمون کا انتخاب والدین یا سر پرستوں کی ذمہ داری ہے حا لانکہ یہ حقائق کے منا فی ہے 16یا 18سال کی عمر میں امتحا ن پا س کر نے والا چاہے میٹرک کا طالب علم ہو یا انٹر میڈیٹ کا ہو دونوں صورتوں میں و ہ اپنے لئے مو زوں شعبے کا انتخا ب کر سکتا ہے نتیجہ وہی بہتر آئیگا جو طالب علم کا انتخا ب ہوگا ماں باپ اور سر پرست اپنی مر ضی اُس پر تھوپنا چاہینگے تو نتیجہ بہتر نہیں ہو گا، کیرئیر کونسلنگ کے ما ہرین نے اس مو ضو ع پر لٹریچر کا بڑا ذخیرہ تخلیق کیا ہے ما ہرین کی نظر میں طالب علم کے ذہنی میلان اور رجحا ن کا پتہ پرائمیری جما عتوں میں ہی لگ جا تا ہے چین اور جا پان میں پرائمیری سطح کی تعلیم ساتویں جماعت تک ہو تی ہے ساتویں جما عت کے بعد والدین اور طلبہ سکول کے اساتذہ کی رہنما ئی میں طے کر تے ہیں کہ آگے کیا کرنا چاہئیے جن طلبہ کا ذہنی میلا ن حیوا نات و نبا تات کی طرف ہو تا ہے ان کو میڈیکل کا شعبہ دیا جا تا ہے جن کا رجحا ن چاند،تاروں اور پہاڑوں کی طرف ہو تا ہے

 

ان کو انجینئر نگ کا شعبہ دیا جا تا ہے اس کے بعد دوسرے شعبوں کے لئے طلبہ کا انتخا ب کیا جاتا ہے 80فیصد طلبہ رہ جا تے ہیں ان کے لئے کھیل، جمنا سٹک، ووکیشنل ٹریننگ، فنی مہا رتیں، ٹیکنکل سکلز کا انتخا ب کیا جا تا ہے اس طرح طلبہ کی تین چوتھا ئی تعداد یعنی بھاری اکثریت پرائمیری تعلیم کے دو سال بعد کا م میں لگ جا تی ہے زراعت کے جدید فارموں اور کارخا نوں کا رخ کر تی ہے یا سپورٹس کلبوں میں مصروف ہوتی ہے صرف 20فیصد کو ان کی دلچسپی کے 16 یا 18سال کی اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں بھیجا جا تا ہے اس کے دو فائدے ہیں پہلا فائدہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تر بیت کے اعلیٰ اداروں میں طلبہ کا غیر ضروری رش اور جمگھٹا نہیں ہوتا دوسرا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ افراد ی قوت ضا ئع نہیں ہوتی، کا م میں لگ جا تی ہے ہر نو جوان کما نے والا اور پیدا وار دینے والا ہوتا ہے جو ملک کی مجمو عی قومی پیداوار اور فی کس آمدنی میں وافر حصہ ڈالتا ہے

 

اس کے مقا بلے میں اگر ایک طالب علم کا رجحا ن کھیل کی طرف ہے ماں باپ اس کو اپنی تمنا اور آرزو کی تکمیل کے لئے میڈیکل یا انجینئرنگ کی طرف دھکیلتے ہیں تو نو جوان ضا ئع ہوتا ہے یا کسی طالب علم کا رجحا ن فنون لطیفہ، آرٹ، مو سیقی، شاعری،اداکاری وغیرہ کی طرف ہے مگر والدین اس کوISSB،سی ایس ایس اور پی ایم ایس کی طرف ہانک کر لے جا تے ہیں تو اس کا مثبت نتیجہ نہیں آتا، اسی پر دیگر شعبوں کو قیا س کیا جا سکتا ہے، داخلوں کے مو سم میں سب سے مقدم طالب علم کی رائے ہے اس کی دلچسپی کس مضمون اور کس شعبے میں ہے اس کو اولیت ملنی چاہئیے اس کے بعد طالب علم کے نتیجے میں جس مضمون کے نمبر زیا دہ ہونگے وہی مضمون بہتر رہے گا، تیسرے درجے میں قا بل غور بات یہ ہے کہ سو لہ سال کی اعلی تعلیم کے مقا بلے میں دو سال یا چار سال کی فنی تعلیم، ٹیکنیکل ایجو کیشن طالب علم کے لئے بہتر ہے یہ داخلوں کا مو سم ہے اس لئے طلبہ کو بھی اور والدین گو بھی درست تر جیحا ت کا تعین کرنا ہوگا۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92782

بزمِ درویش ۔ جب وہ دن آئیگا ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بزمِ درویش ۔ جب وہ دن آئیگا ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

 

دونوں بچیوں کے چہروں پر عقیدت کے پھو ل کھلے تھے وہ محبت احترام عقیدت اور خوشی کا اظہار کر رہی تھیں میرے سامنے پشاور یو نیورسٹی کی دو نوجوان طالبات بیٹھی تھیں ان کے گھروں میں بچپن سے بزرگوں کی عقیدت اور احترام کا ما حول تھا والدین کی بزرگوں سے عقیدت و احترام دیکھ کر اِن کی فطرت اور مزاج میں بزر گوں اور اہل تصوف کی محبت عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی اِنہوں نے میری تصوف پر کتابیں پڑھیں تو مجھے بھی اللہ کا کو ئی نیک بندہ سمجھ کر آگئیں اور پھر جب دونوں بچیوں نے کہا کہ سر ہمارے سروں پر ہا تھ رکھ کر ہمیں دعا دیں سر یہ ہما ری زندگی کے خوش قسمت ترین لمحات ہیں جب ہمیں آپ جیسے بزرگ اور نیک بندے کا دیدار اور صحبت نصیب ہو ئی عقیدت و احترام اور اندرونی خوشی سے دونوں کے چہرے روشن تھے وہ اور بھی باتیں کر رہی تھیں لیکن مجھے بار بار اپنی حماقتیں کو تا ہیاں گناہ بے وقوفیاں، جھوٹ، سستیاں لوگوں سے سخت روئیے اپنی ذات کو ترجیح دینا،مذہبی عبادات میں سستی اور بہت سارے فرائض سے کو تا ہیاں یا د آرہی تھیں

 

اپنی ذات کے کمزور پہلو پانی اور درد کی صورت میری آنکھوں میں نمی بن کر تیرنے لگے صبح سے شام تک اپنی حما قتوں کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ یا د آنے لگا کہ میں مشت غبار جو حما قتوں گنا ہوں کا پلندہ ہوں اس سوہنے رب کا کمال دیکھیں کہ نا فرمانیوں کی لمبی داستان کے با وجود وہ مجھے پیا ر دئیے جا رہا ہے لوگوں کے دلوں کو مسخر کئے جا رہا ہے۔ اِن بچیوں کو تو میں نے ٹو ٹی پھوٹی دعائیں دے کر رخصت کر دیا لیکن اِس کے ساتھ ہی مجھے وطن عزیز کے کروڑوں عقیدت مند اور پیروکار یا د آئے جو دن رات ہما رے جیسے پیروں فقیروں، سیاستدانوں اداکاروں قلم کاروں دانشوروں مذہبی راہنماں خطیبوں شاعروں مفکروں کو کردار کے ہما لیہ سمجھ کر ان کی عقیدت کر تے ہیں مو جودہ دور بلا شبہ ما دیت پرستی اور خود پرستی کے سمندر میں غرق ہو چکا ہے انسان اس مشینی دور میں اندھا دھند اس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ یا پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ انسان خدا کی عنایت کے بجا ئے ساری ترقی اور کامیا بی کو اپنی ذاتی خو بی سمجھ کرانجوائے کر تا ہے۔

 

یہی انسان خو د کو کامیاب اور شہرت کی مسند پر بیٹھا نے کے لیے اپنے الفاظ اور دلا ئل کے زور پر بڑے بڑوں کو اپنا ذہنی غلام بنا لیتا ہے۔ اپنے علم اور لفاظی کے زور پر تمام لوگوں کو اپنا پیروکار بنا لیتا ہے نکتہ آرائیوں اور سخن سنجیوں سے ایک زمانے کا دل مو ہ لیتا ہے۔ اِسی طرح آج کے نام نہاد صوفی ہا تھ میں زمرد یا سچے مو تیوں کی تسبیح لے کرگلے میں ما لا پہن کر سر پر تا ج رکھ کر تصوف کی کو ئی مسند سجا کر کمزور عقیدہ لو گوں کی عقیدتوں کا مرکز بن جا تا ہے۔ اور پھر لوگوں کے جذبات کشید کر تا ہے۔ ریشمی عبا اور قبا میں دلہا یا پیرزادہ بن کر اپنے زر خرید غلام مریدوں کے بل بوتے پر اپنا روحانی سکہ جما تا ہے۔ گفتگو اور الفاظ کی چاشنی سے سادہ لوگوں کا دل لبھا تا ہے دنیا سے مصنوعی بے نیازی کا راگ الاپ کر خا موشی سے لوگوں کی دولت کو ہڑپ کر تا ہے یہی ظلم ہما رے سیا سی لیڈر کر تے ہیں ایک تیز چالاک آدمی اِس عوام کش نظام میں پسے ہو ئے غریب عوام کی معا شی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا تے ہوئے سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے دن رات اپنا گلا پھا ڑ پھاڑ کر اپنی پا کیزگی سچائی اور انسان دوستی کا یقین دلا تا ہے

 

لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنا سب کچھ اپنے مشن اور عوام کی فلاح کے لیے لٹا دینے کا اعلان کر تا ہے اپنی ذات کو پرموٹ اور اسمبلی میں جا کر لو ٹ ما ر کا لا ئسینس لینے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے چھلاوہ بن کر پو رے علا قے میں گھو متا ہے عوام کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ مو جودہ دور کا مسیحا اور خدمت خلق کا کو ئی عملی نمونہ ہے تو یہ ہے سیاست اور اقتدار سے نفرت اور عوام سے حقیقی محبت کے دعوے اور قسمیں کھا تا ہے اِیسے سیاسی لیڈر کے ڈراموں اور لفاظی سے متا ثر ہو کر ہزاروں لو گ جوشِ عقیدت میں اس کو اپنی آنکھوں پر بٹھا تے ہیں اس کے ہا تھ پا ں پیروں کی طرح چومتے ہیں کہ یہی مسیحا ان کے پرانے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے اِس کے جھوٹے نعروں اور الفاظ کی مذہبی کلمات کی طرح یہ عوام تشہیر کر تے ہیں۔ سیاستدانوں کو اپنی امیدوں اور خوابوں کا مر کز ٹھہراتے ہیں اس کی جھوٹی قسموں اور کھوکھلے نعروں کا اعتبار کر تے ہیں اِس منا فق سیاستدا ن جو اپنی فیملی اور ذات کی پرموشن اور لو ٹ مار کے لیے کو شش کر رہا ہو تا ہے اِس کی مو رتی دل کے مندر میں سجا لیتے ہیں اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کا ٹ کر پا رٹی فنڈ میں پیسے جمع کرا تے ہیں بینر جھنڈے خو دبنوا کر لگا تے ہیں اس کے جھوٹے نعروں اور قسموں کو ہر جگہ پھیلا تے ہیں

 

اِس کی خا طر گلی محلوں میں لڑائی جھگڑے مو ل لیتے ہیں اپنی رشتہ داریاں اور دوستیاں خراب کر لیتے ہیں بعض اوقات قتل وغارت میں بھی ملوث ہو کر ساری عمر جیل یا پھا نسی کے پھندے تک پہنچ جا تے ہیں اور اِسی طرح جب اپنی ذات کے لیے کو ئی عالم دین الفاظ اور اپنی خطابت سے لو گوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے اور لو گ اس کو عقیدت و احترام کے ہما لیہ پر بٹھالیتے ہیں اس کی تقریر سننے کے لیے مو سموں کی پروا کیے بغیر دور دراز کے سفر کر تے ہیں۔ عقیدت مندوں کے گروہ کے گروہ پو رے اخلاص کے ساتھ عالم سیاستدان اور پیر گدی نشین کا ہر ممکن ساتھ دیتے ہیں اور کا ش یہ کالم نگار پیراورسیاستدان اِن معصوموں کی عقیدت دیکھ کر کبھی اکیلے بیٹھ کر اپنے گریبان میں جھا نک کر اپنے قول و فعل کے تضا د کو دیکھیں خو دپر نظر ڈالیں کہ کیا واقعی وہی ہوں جو میں کہتا ہوں یا نظر آتا ہوں اور اگر میں وہ نہیں جیسا نظر آتا ہوں تو یہ ڈرامہ با زیاں دنیا میں تو کامیابی کا زینہ بن سکتی ہیں لیکن آخرت کے پھندے سے مجھے کو ن چھڑائے گا ظا ہری عبا دت سے دنیا کو تو متا ثر کیا جا سکتا ہے لیکن اس رب کو کیسے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے

 

کسی بزرگ نے کسی طوائف زادی سے کہا تجھے ذرا بھی خدا کاخوف نہیں ہے تو بن ٹھن کر اپنی اداں سے لوگوں کو اپنے حسن کے جا ل میں پھا نستی ہے اور روپیہ کما تی ہے تو اس طوائف زادی نے مڑ کر اس بزرگ کو دیکھا اور یہ کہہ کر عرق ندامت میں غرق کر دیا کہ میں جو کچھ ہوں وہی نظر آتی ہو ں میرا ظاہر با طن ایک ہے اندر سے بھی ایسے ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہ ساری عزتیں اور شہرتیں اس بے نیاز رب کریم کے تحفے ہیں ورنہ تصور کریں کہ جب وہ دن آئے گا جب عالم سیاستدان اور پیروں کے اپنے ہا تھ پا ں زبان اور آنکھیں اس کے کر توں کا بھا نڈا پھوڑ دیں گے گوا ہی دیں گے۔ یا د کر لیں ہو لناک منظر ہو گا جب اِس کا ئنات کا اکلوتا ما لک سب کے سامنے سیاستدانوں پیراور عالم کالم نگار دانش ور اور لفاظی جا دوگروں کے منصوبے اور راز ان کے چاہنے والوں کے سامنے کھول دے گا۔ یہ سوچ کر روح کانپ جا تی ہے کلیجہ پھٹ جا تا ہے اور محشرمیں جب خدا چاہنے والوں کے سامنے اِن کے نقاب سر کا ئے گا اور بتا ئے گا یہ اِن کے اصل چہرے ہیں یہ ہیں جھوٹے پیر، جھوٹے قائد عوام اور مذہب کے وارث اس دن ساری دنیا کی سخن وری دھری کی دھری رہ جا ئے گی۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92768

تم کو ایک شخص یاد آئے گا – تحریر: ظہیر الدین 

تم کو ایک شخص یاد آئے گا – تحریر: ظہیر الدین

جی ہاں۔ جب بھی کوئی دلاویز اور دلربا شخص سامنے آئے گا تو ایک شخص یاد آئے گا، جب کوئی دل کی تاروں کی چھیڑنے والا گرجدار قہقہہ لگائے گا توایک شخص یاد آئے گا، جب علم ودانش کی بات آئے گی اور دلیل وبرہان سے کوئی بات کرے گا تو ایک شخص یاد آئے گا، جب کوئی اعلیٰ انسانی اوصاف سے متصف شخص کسی حاجت مند کی بات غور سے سنے گا تو ایک شخص یادآئے گا۔ یہ شخص اپنے پیچھے حسین اور خوشگوار یادیں چھوڑے اور بھرپور زندگی گزارکر اپنے رب کے سامنے حاضر ی کے لئے جاچکے ہیں اور منفرد نام کے حامل یہ نازنین شخص عصمت عیسیٰ خان ہے جس کے دوست احباب اور رشتہ دار وں پراب بھی وہی کیفیت طاری ہے جب چالیس دن پہلے ان کی جسد خاکی کو مٹی کے حوالے کیا جارہا تھا۔اس شخص کی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام ان کے دیرینہ دوست اور کلاس فیلو عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ اور ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر ایاز زرین نے مقامی گیسٹ ہاؤس میں کیا تھا جبکہ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ریفرنس گزشتہ چالیس دنوں سے ہر دفتر میں ہردکان میں اور ہر نجی محفل میں منعقد ہوتی ہے جب لوگ ان کی خوبیاں بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور ہر کسی کے پاس ان سے متعلق اپنی کہانی ہوتی ہے جس میں ان کی خوبی ہی خوبی کا ذکر ہوتا ہے۔ عبدالولی خان عابد تومرحوم کے قریب تریں دوستوں میں شمار ہوتے تھے جبکہ ایاز زرین ان کا جونیر ہم پیشہ اور رفیق کار رہا ہے اور دونوں کی خاندانی رشتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔
محفل کی مہمان خصوصی کے طور پر ایک ایسے شخص کو منتخب کیا گیا تھا جوکہ سینئر پولیس افیسر ہونے کے باوجود اپنے پہلو میں پولیس مین کا نہیں بلکہ ایک شاعر اور ادیب کا نازک دل رکھتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس افیسر لویر چترال افتخار شاہ کی ملاقات کبھی عصمت عیسیٰ بھائی سے نہیں ہوئی تھی لیکن جب وہ ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگ گیا تو یوں محسوس ہواکہ یہ برسوں کے شناسے ہیں۔ مہمان اعزاز کے طور پر چترال کے سینئر وکیل صاحب نادر خان ایڈوکیٹ تشریف فرما تھے جبکہ مرحوم کے بڑے بھائی اور جگری دوست سید احمد خان (سابق ایم پی اے اور مشیر برائے وزیر اعلیٰ) کی موجودگی نے محفل کو رونق بخشی۔
پروفیسر ظہور الحق دانش نظامت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مرحوم کی شخصیت کے بارے میں خوب صورت انداز میں مگر مختصر جامع گفتگوکرتے ہوئے اسے ہمہ جہت قرار دیا اور مقرریں کو دعوت خطاب دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ڈی ایس پی شفیع شفا ء صاحب کا خالد بن ولی کی لکھی ہوئی نعت سے محفل کو بابرکت بنانے کے بعد ایاز زرین کو دعوت دی گئی جس نے عصمت عیسیٰ خان کے بارے میں تعزیتی ریفرنس کے سلسلے میں عبدالولی خان عابد صاحب کی تعاون اور مہمان نوازی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ مرحوم کے ساتھ خاندانی مراسم موجود تھے مگر ملازمت میں آنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔انہوں نے کہاکہ  وہ پراسیکیوشن کے اپنی وابستگی پر فخرکرتے تھے اور اس ذمہ داری کو نہایت انہماک، دلچسپی اور دیانت دار ی کے ساتھ نبھاتے رہے۔ انہوں نے اپنی سروس کے پہلے سال مرحوم کی لکھی ہوئی اے سی آر کو اپنے لئے ایک سرمایہ حیات سمجھتے ہیں جن میں انہوں نے شاندار الفاظ کا انتخاب کیا تھا۔
یونیورسٹی آف چترال کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر مسعود انور نے مرحوم کی شخصیت کو تین حصوں یعنی  پروفیشنل (لیگل)، علمی اورادبی طور پر تقسیم کرتے ہوئے ہر ایک پر مختصر مگر جامع اورجچے تلے الفاظ میں بیان کیا اور کہاکہ وہ ان تینوں شعبوں میں نمایان کام اپنی کریڈٹ میں لے لیا۔ انہوں نے کہاکہ وہ کئی کتابوں پر کام کررہے تھے کہ ان کو زندگی نے مہلت نہیں دی۔ انہوں نے مرحوم کی ایک اور خوبی کا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی خداداد صلاحیت اور شخصیت کے بل بوتے پر اپنی قبیلے کا بھی father figureکی حیثیت رکھتے تھے۔
گورنمنٹ کالج چترال کے شعبہ اردو کے پروفیسر شفیق احمد نے مرحوم کی شخصیت پر  فرزند تورکھو کی زوائیے سے گفتگوکرتے ہوئے سرزمین تورکھو کی جعرافیائی خدوخال اور اس کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس علاقے میں عصمت عیسیٰ جیسے قدآور شخصیت پیدا ہونا فطری امر ہے جس کے خاندان نے سیاست سمیت زندگی کی مختلف شعبوں میں نام کمائے۔
مرحوم کے جگری دوست اور کلاس فیلو عبدالولی خان عابد نے قرآن عظیم الشان کی سورہ ملک سے ایک آیت کی تلاوت کرتے ہوئے زندگی کی ناپائیدار ی کا ذکر کرنے کے بعد مرحوم کے ساتھ اپنی تعلق اور نشست وبرخاست کی ابتداء کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ 1970ء کی ابتدائی سالوں کی بات ہے جب اسلامیہ کالج پشاور میں ان سے ملاقات ہوئی جس کے بعد وہ لاء کالج میں ایک ساتھ پڑھنے کے بعد چترال میں کام بھی ایک ساتھ شروع کیا۔ انہوں نے مرحوم کی خوبیاں بیاں کرتے ہوئے کہاکہ وہ تلخ سے تلخ بات کو کبھی دل پر نہیں لیتے اور درگزر کرتے اور جونیئر کی مددکو اپنا فرض سمجھتے۔ عابد صاحب نہایت دل گرفتہ ہوتے ہوئے کہاکہ مرحوم کی رحلت کے بعد وہ ایک مشفق دوست سے محروم ہوگئے ہیں۔
ڈی ایس پی شفیع شفا ء نے مرحوم کو ملازمت کے دوران ماتحت پرور قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے ماتحت افسروں اور اہلکاروں کو اپنے بچوں کا درجہ دیتے اور ان کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے جوکہ ایک اعلیٰ انسانی وصف ہے۔ انہوں نے کہاکہ پولیس ملازمت کے دوران انہیں مرحوم کی پروفیشنلزم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جوکہ ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ نیازاے نیازی ایڈوکیٹ نے گزشتہ رات مرحوم کے بارے میں ایک خواب کی روداد بیان کی اور اس کی تعبیر پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ پرسکون اور خوش حالت میں پائے گئے  جس میں ان کا رب ان سے راضی ہے۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے کہاکہ مرحوم کی بے وقت رحلت سے وکلاء برادری ایک استاذ، دوست اور آئیڈیل رفیق کار سے محروم ہوگئے ہیں جن سے ڈسٹرکٹ بار کے اکثر ممبران پیشہ ورانہ طور پر استفادہ کرتے۔ انہوں نے کہاکہ جب بھی جونئیر وکلاء ان سے مشورہ لینے ان کے ہاں حاضر ہوتے تو وہ پہلے انہیں چائے پیش کر کے اپنا ئیت کا ماحول پیدا کرتے تاکہ وہ بلا جھجک اپنے مدعا بیان کرسکیں۔ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ عصمت عیسیٰ صاحب کی رحلت سے وکلاء برادری ایک مہربان اور شفیق استاذ سے محروم ہوگئے۔ اس موقع پرموجود مرحوم کا ایک گمنام شناسا نے عصمت عیسیٰ کا اپنے رشتہ داروں سے مثالی حسن سلوک اور اپنے بڑے بھائی سید احمد خان کے ساتھ دوستانہ تعلق اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی تمغہ امتیاز نے مرحوم کے بارے میں اپنے خیالات کی بہتر اظہار کے لئے مہدی حسن کی آواز میں ایک مقبول عام سنگیت کے بول  “جب کوئی پیار سے بلائے گا   تم کو ایک شخص یاد آئے گا”سے کیا جس پر حاضرین نے دادوتحسین پیش کی۔ انہوں نے عصمت عیسیٰ بھائی کی شخصیت کو ان کے پیشہ (وکالت)اور علمی و ادبی حوالے سے پرکھنے کے بعد مرحوم کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات اور تعارف اور پھران کے ساتھ تعلق کو دلچسپ پیرائیے میں پیش کرکے حاضرین کی بھر پور توجہ کو اپنی طرف مبذول رکھا۔ انہوں نے اپنی بھولی بسری یادوں کی گھٹڑی کو کھولتے ہوئے بتایاکہ 1972ء میں پشاور میں شاہی باغ میں منعقدہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اجلاس میں وہ سینئر لیول کے رہنما کی حیثیت سے شرکاء کی توجہ کا مرکز بن گئے اور فلک شگاف نعروں  ‘سبیلنا، سبیلنا    الجہاد  الجہاد ‘ اور اس طرح کی دوسری انقلابی نعرے اپنی فلک شگاف آواز میں بلند کرتے رہتے  اور وہاں پر موجود چترالی ان پربجا طور پر ناز کرتے کہ ہزاروں کی مجمع کو انہوں نے کس طرح اپنی مٹھی میں کرلیا ہے۔ انہوں نے یادوں کے دریچوں میں جھانک کریہ بھی بتایاکہ وہ ایک صاحب طرز شاعر بھی تھے اور معیاری غزلیں جمہور اسلام کھوار میں شائع کیا اور پشاور یونیورسٹی میں تریچ میر میگزین کے کھوار سیکشن میں بھی شائع ہوئے جس میں انہوں نے بے قرار تخلص استعمال کیا تھا۔ ڈاکٹر فیضی سر نے بتایاکہ مرحوم بلند پائے کا تحقیقی کام کرنے کا عزم رکھتے تھے کہ داعی اجل ان کے پاس آگئے ورنہ وہ مولانا مودودی اور اما م تیمیہ کا تقابلی جائزہ اور دوسرے ایسے موضوعات پر کتاب لکھنے بیٹھ گئے تھے۔
مجلس کے مہمان اعزاز اور چترال کے سینئر ترین وکیل صاحب نادر ایڈوکیٹ نے مرحوم کے بارے میں اپنی یادیں حاضریں محفل کے ساتھ شئیر کیا۔ انہوں نے مرحوم کی خوش اخلاقی اور پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق پر سختی سے کاربند رہنے کے حوالے سے کہاکہ پانچ دہائیوں پر محیط اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں انہوں نے کسی میں یہ اوصاف عصمت عیسیٰ مرحوم کے برابر نہیں دیکھا۔ مرحوم کے بڑے بھائی اور ان کا جگری یار سید احمد خان روسٹرم پر آئے تو فرط غم کی وجہ سے ان پر رقت طاری تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے جذبات کا بھی اظہار نہیں کرپارہے تھے۔ انہیں دیکھ کر حاضریں بھی آبدیدہ ہوگئے کیونکہ انہوں نے کبھی ایسی محفل میں سید احمد خان کو عصمت عیسیٰ کے بغیر اور عصمت عیسیٰ کو سید احمد خان کے بغیر نہیں دیکھا تھا جوکہ آج صبح کا تارہ بن کر اکیلا ٹمٹما رہا تھا اور یہ کیفیت پتھر دل والے انسان کو بھی رلانے کے لئے کافی تھا۔انہوں نے آنسوؤں کی زبانی اپنی ساری جذبات و احساسات اور اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اپنی وابستگی کو حاضریں پر صاف صاف ظاہر کردی تھی۔ ان کاکہنا تھاکہ ان کے بھائی عصمت عیسیٰ نے اپنے دادا محمد عیسیٰ کا نام روشن کردیا اور یہ بات حقیقت ہے کہ اچھے اولاد ہی انسان کے نام کو زندہ رکھتے ہیں۔
مہمان خصوصی ڈی پی او لویر چترال افتخار شاہ نے کہاکہ وہ مرحوم سے کبھی نہیں ملے کیونکہ جب ان کی پوسٹنگ چند ماہ قبل چترال ہوگئی تو عصمت عیسیٰ صاحب علاج کے لئے پشاور میں تھالیکن وہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں جان کر ان کی شخصیت سے متاثر ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چترال میں پولیس فورس اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں تورکھو کے باشندوں کی اپنی پیشے سے لگن، محنت اورقابلیت کو دیکھ کر جب اس کی خاص وجہ جاننے کی کوشش کی تو ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ تورکھو میں واخان اور دوسرے وسط ایشیائی علاقوں سے یلغار کو روکنے کے لئے ایسے جری اور بہادر لوگ ا س علاقے میں بسانا ناگزیر تھا اور عصمت عیسیٰ کا تعلق بھی اس علاقے سے ہے۔ انہوں نے بتایاکہ جب انہیں اس محفل کیلئے دعوت دی گئی تو وہ بصد خوشی اسے قبول کرلی کیونکہ وہ عصمت عیسیٰ سے ملے بغیر ہی ان کے لئے اپنے دل میں مقام دیا تھا کیونکہ پھول جب کھلتا ہے تو اس کی خوشبو ہر سو پھیل جاتی ہے۔ ایک شاعر اور ادیب ہونے کے ناطے انہوں نے مرحوم کے بارے میں اپنی جذبات ومعلومات کو دل موہ لینے والی پیرائیے میں بیان کیا۔
مرحوم کے خاندان کی طرف سے ان کے خاندان کا جاوید احمد نے ریفرنس کے منتظمین اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ چترال کے معروف عالم دین مولانا اسرا ر الدین الہلال نے معاون قاضی کی حیثیت سے مرحوم کے ساتھ عدالت میں کام کے حوالے سے اپنی یادیں نچھاور کی اور دعائیہ کلمات کے ساتھ محفل کا احتتام کیا۔
اس تقریب میں مرحوم کے چہیتے اور چھوٹے بھائی محمود عیسیٰ اور ڈی ایس پی احمد عیسیٰ اور خاندان کے دوسرے افراد صلاح الدین، ارسلان، جاوید احمدکے علاوہ معززین شہر ریٹائرڈ ایس پی میرکلان، پرنسپل چترال ماڈل کالج یار محمد خان، سول جج قاضی محبوب، روز تنظیم کے چیرمین ہدایت اللہ اور دوسرے موجود تھے۔
chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 19 dpo
chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 2 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 4 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 5 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 6 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 7 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 8 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 9 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 10 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 11 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 15 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 16 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 17 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 18 sahib nadir
chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 14 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 20 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 21 chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 22
\
chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 3
chitraltimes taziati refrence asmat issa dpp late 24
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, مضامینTagged
92713

تلخ و شیریں ۔ نثار احمد ۔ ہدایت اللہ ایک علم دوست شخصیت 

تلخ و شیریں ۔ نثار احمد ۔ ہدایت اللہ ایک علم دوست شخصیت

روز (Rose ) انگریزی کا لفظ کا ہے اس کا معنی گلاب ہے میرے دائیں طرف جو صاحب بیٹھے ہیں یہ بھی ایک عدد غیر سرکاری ادارہ چلاتے ہیں اس کا نام بھی “روز” ہی ہے۔ اول الذکر روز اور ثانی الذکر “روز” میں مماثلت و مشابہت یہی ہے کہ دونوں اپنے رنگ و بو کے زریعے ماحول کو محظوظ و معطر کرتے ہیں۔ جس طرح فطرت کا تخلیق کردہ روز اپنے ناظرین و شامئین کو فایدہ کے علاوہ کچھ نہیں پہنچاتا اسی طرح جناب ہدایت اللہ کا قائم کردہ “روز” بھی خلقِ خدا کو فایدہ ہی پہنچا رہا ہے۔ میرے پاس روز کے مستفیدگان کی آفیشل فہرست ہے اور نہ ہی ایسی فہرست کا اجرا “روز” کی پالیسی ہے ورنہ میں ضرور ریکارڈ آپ کے سامنے رکھ کر بتاتا کہ “روز” سے استفادہ کرنے والے طلبا و طالبات لواری تا بروغل کس بڑی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہدایت صاحب “روز” کی سرگرمیوں سے علم دوست احباب کو آگاہ کرنے پھر ڈونرز کو “روز” کی طرف متوجہ کرنے کا ایجنڈا لے کر ایون تشریف لائے تھے۔ حاجی خیر الاعظم صاحب کے ہوٹل (ریور اِن) پر جب ان سے ملاقات ہوئی تو ہدایت صاحب ہم اہل ِ ایون کے بارے میں شکوہ کناں نظر آئے ۔ دراصل ہدایت اللہ سر نے اس سیشن کے لیے چنیدہ دو درجن کے قریب احباب کو مدعو کیا تھا جن میں سے چند (تین چار ہی سمجھیے بس) ہی حاضر ہوئے۔ خود میں بھی “رسمی سیشن” میں شرکت سے قاصر رہنے والوں میں سے رہا بہرحال تاخیر پر معذرت اور قابلِ معافی عذر پیش کرنے کے بعد غیر رسمی مجلس کا حصہ بن گیا۔

hidayat rose

حاجی خیر الاعظم نے ہدایت صاحب کی بے لوث خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ان کا موبائل نمبر بھی ان کے اصل نام کی بجائے “ایدھی” نام پر محفوظ ہے۔ میں انہیں چترال کا ایدھی سمجھتا ہوں۔ کراچی کے ایدھی کو شاید”وسائل” کی کمیابی کی شکایت نہیں ہوگی لیکن ہمارا ایدھی، باوجود یہ کہ وسائل کی قلت سے دوچار ہیں، خدمت سے ہاتھ نہیں کھینچ رہا۔

 

حاجی صاحب کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے میں نے عرض کیا آپ انہیں ایدھی سمجھیں یا جو بھی نام دیں آپ کی مرضی، بہرحال میرے سامنے جب بھی ان کی سیدھی سادی صورت آتی ہے تو چشم تصور میں سر سید احمد خان کا خوبصورت چہرہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔

rose chairman hidayatullah with dignities 2

اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سرسیداحمد خان کی جدوجہد کا ایک بڑا حصہ جدید تعلیم کی آبیاری پر صرف ہوا ہدایت صاحب بھی اپنی محنت کا میدان تعلیم کو بنایا ہوا ہے۔ سر سید احمد خان بھی تعلیم کے زریعے حالات میں بہتری لانے اور مسلم معاشرے کو اٹھانے کے خواہاں تھے اور ہدایت صاحب کی کوشش بھی تعلیم کے زریعے چترال کے طول و عرض میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔

 

سرسید احمد خان کی نظر بھی، امیر و غریب اپنے ہر دو قسم کے دوستوں کی جیبوں پر ہوتی تھی ہدایت صاحب بھی ہمہ وقت ہرممکن طریقے سے احباب سے کچھ نہ کچھ “وصولنے” اور “نکالنے” کے چکر میں ہوتے ہیں۔ سر سید بھی اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگتے تھے۔ ہدایت صاحب بھی فقط روز کے ڈونیشن کی بات کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سر سید احمد خان کو دیالو دوست ملے تھے جب کہ ہدایت صاحب کے ساتھ مجھ جیسے لوگ بھی متعلق ہیں جو فقط حوصلہ افزائی پر کام چلاتے ہیں۔

rose chairman hidayatullah with dignities 3

اس میں دوسری رائے نہیں کہ تعلیم کے میدان میں ہدایت اللہ صاحب اعلی کام کر رہے ہیں۔ موصوف کے کام کا منہج یہ ہے کہ پہلے تلاش و تتبع کرکے ان طلبا و طالبات کو دریافت کرتے ہیں جن کے پاس پڑھائی کا عزم تو ہے لیکن وسائل نہیں ہیں۔ جو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے زرائع نہیں پاتے۔ جو معیاری تعلیمی ادارے سے منسلک ہو کر علمی سفر جاری رکھنا تو چاہتے ہیں لیکن تعلیمی ادارے میں داخلے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔

ہدایت صاحب ایسے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، انہیں اسکالر شپ دیتے ہیں اور انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ہمیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے جو ضرورت مند متلاشیانِ علم و فن کو حصولِ علم و فن کی راہ میں ڈالتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی یہی ہے کہ ہم ان کے ساتھ مالی تعاون کریں ۔ ان کا خیال اسی طرح رکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے اہلِ خیر اپنے مال و دولت میں سے ان کے لیے حصہ مختص کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں کا دست بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

chitraltimes digital peace builders seminar on social media hidayat sajad ahmad farida sultana faree

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92700

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق: عملی تجاویز – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق: عملی تجاویز – خاطرات :امیرجان حقانی

 

 

پاکستان کے تعلیمی نظم میں دینی مکاتب و مدارس اور بڑی جامعات نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جہاں لاکھوں طلبہ و طالبات کو دینی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ مدارس و جامعات تمام مسالک کی ہیں جہاں لاکھوں اساتذہ کرام ، معلمین و معلمات اور قراء حضرات کروڑوں طلبہ و طالبات کو تعلیم و تربیت سے منور کررہے ہیں۔

 

مدارس کی افادیت ضرورت و اہمیت اور شاندار خدمات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، مگر وقتاً فوقتاً ان اداروں کے نظم و نسق میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ خاص طور پر اساتذہ کرام اور دیگر ملازمین کے حقوق اور مراعات کے حوالے سے اصلاحات ناگزیر ہیں، تاکہ وہ عزت و وقار کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے سکیں۔

 

 

موجودہ سنگین صورتحال

بدقسمتی سے، دینی مدارس و جامعات میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کے حوالے سے کوئی واضح اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں، مدارس و جامعات کے مہتممین اور منتظمین ہی کا عقل و خیال اور پسند و ناپسند ہی حرف آخر ہوتا ہے ۔ دینی مدارس کے امتحانی بورڈ جیسے کہ وفاق المدارس العربیہ وغیرہ کے منشور و دستور میں بھی اس حوالے سے کوئی خاص قوانین نہیں ملتے، بلکہ اساتذہ کے حوالے سے سرے سے کوئی رہنمائی ہی موجود نہیں۔صاف الفاظ میں کہا جائے تو مہتممین و منتظمین کے حقوق اور پراپرٹی کے دفاع پر مبنی اصول و ضوابط ہیں۔

 

اکثر مدارس و جامعات میں مہتمم حضرات اپنی مرضی سے اساتذہ و ملازمین کی بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے تقرری عمل میں لاتے ہیں۔ استاد یا ملازم مقرر کرنے کا واحد طریقہ مہتمم صاحب کی رضامندی اور پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی مہتممین کی ناراضگی پر اساتذہ و ملازمین کو فارغ کردیا جاتا ہے ، اور ملازمین کو اپنی شکایت درج کرنے کے لئے کوئی فورم دستیاب نہیں ہوتا۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو ایک جھٹکے میں برطرف کردیا گیا، اور ان کے پاس کہیں اپیل کا حق بھی موجود نہیں تھا۔

 

اسلامی نقطہ نظر

اسلام میں ملازمین کے حقوق کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ اور آپ کے خلفاء نے ہمیشہ انصاف پر مبنی طرزِ عمل اپنایا اور ملازمین کے حقوق کی پاسداری کی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنی چاہئے، اور کسی بھی ملازم کے ساتھ ناحق یا ظلم کا برتاؤ ممنوع ہے۔

 

فقہ اسلامی کے اصول بہت واضح ہیں۔تو مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق عزت اور وقار کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ جبکہ مدارس میں اساتذہ کا استحصال و استیصال برابر جاری رہتا ہے جس کا ادراک طلبہ و اساتذہ کو بخوبی ہے۔ اور مہتممین و منتظمین اور ان کی اولاد، اساتذہ کرام کو “اجیرخاص” کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔ کیا چالیس پچاس سال، تفسیر قرآن، حدیث رسول، فقہ اسلامی اور دیگر مشکل فنون و علوم پڑھانے اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے والے مخلص لوگوں کو یہ طعنہ دینا جانا چاہیے؟۔

 

آئینی اور قانونی تحفظ

پاکستان کا آئین اور ملکی قوانین ملازمین کے حقوق کی حفاظت کے لئے واضح اصول فراہم کرتے ہیں۔ دینی مدارس میں بھی ان قوانین کو نافذ کیا جانا چاہئے تاکہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح ہی مدارس قومی دھارے میں شامل ہوسکتی ہیں۔
اس ضمن میں قومی اسمبلی سے ایک جامع ایکٹ پاس کیا جانا چاہئے جو مدارس کے ملازمین کے تقرری، برخاستگی، تنخواہوں، مراعات اور دیگر حقوق و فرائض کے حوالے سے قانونی تحفظ فراہم کرے۔ اور اس قانون سے کوئی مدرسہ یا مہتمم ماورا نہ ہو۔ سب مدارس پر برابر لاگو ہو۔ دینی مدارس و جامعات قطعا ملکی قوانین سے مبرا نہیں۔

 

اصلاحات کی تجاویز

مدارس و جامعات میں انتظامی اور نصابی حوالے سے بڑے پیمانے پر بہترین اصلاحات کی ضرورت ہے، تاہم آج ہم صرف اساتذہ و ملازمین کے حوالے سے چند اصلاحاتی تجاویز پیش کرتے ہیں، تاکہ بہتری کے سفر میں فکری و عملی اقدامات کا آغاز ہوسکے۔

 

1. ملازمت کا معاہدہ

تمام ملازمین، بشمول اساتذہ، کو ایک تحریری معاہدہ فراہم کیا جائے جس میں ان کے حقوق، فرائض، تنخواہ اور ملازمت کی شرائط وضاحت سے بیان کی جائیں۔ اس معاہدے میں تقرری کے عمل، برخاستگی کے طریقہ کار، اور مراعات کا ذکر ہونا چاہئے۔ اور اس معاہدہ کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ فریقین معاہدہ کا پابند ہوں۔

 

2. تنخواہ کا نظام

اساتذہ کی تنخواہوں کے حوالے سے ایک معیاری اور منصفانہ نظام وضع کیا جائے، جو ان کی تعلیم، تجربہ، اور ذمہ داریوں کے مطابق ہو۔ اس نظام میں اضافی مراعات اور سہولیات بھی شامل ہوں تاکہ اساتذہ مالی طور پر مستحکم رہ سکیں۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا غیر قانونی ہونے کیساتھ غیر اخلاقی و اسلامی بھی ہے۔

 

3. وفاق المدارس کے دستور میں تبدیلی

مدارس و جامعات جن وفاق المدارس بورڈز سے ملحق ہیں، ان کے دستور میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو واضح طور پر شامل کیا جائے۔ اور دستور میں تبدیلی کرکے ان بورڈز کے بڑے علماء کی سطح پر ایک فورم قائم کیا جائے جہاں اساتذہ اپنے مسائل اور شکایات درج کرسکیں اور ان کا منصفانہ حل نکالا جاسکے۔ بدقسمتی سے مدارس کے بورڈز کا دستور و منشور اساتذہ و ملازمین کے حقوق کے حوالے سے خاموش ہے۔ یہ مجرمانہ خاموشی بھی اسلام اور قانون کے خلاف ورزی ہے۔

 

4. قانونی اپیل کا حق

اساتذہ اور ملازمین کو برطرف کیے جانے کی صورت میں ایک مضبوط اپیل کا حق دیا جائے۔ دستوری طور پر اپیل کا یہ فورم وفاق المدارس کے بڑے علماء پر مشتمل ہونا چاہئے تاکہ اساتذہ کو انصاف مل سکے۔اعلی سطح فورم کے ذریعے مدارس و جامعات کے اساتذہ کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جاسکے اور ان کی اپیل سن کر قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ صادر کیا جائے ۔اس پر عمل نہ کرنے والے مدارس کا فوری رجسٹریشن منسوخ کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ، انہیں پاکستانی عدالتوں سے رجوع کرنے کا بھی حق دیا جائے تاکہ ان کے حقوق کا قانونی تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔

 

5.اساتذہ کی یونین کا قیام

ملک بھر کی مدارس و جماعت کے اساتذہ کی ایک طاقتور یونین کا قیام نہایت ضروری ہے۔ یونین کا قیام اساتذہ کا آئینی حق ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔
یہ یونین اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھائے اور کسی بھی زیادتی کی صورت میں ان کا دفاع کرے۔ یونین کا قیام اساتذہ کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ اور اسی طرح اس کے ذریعے مدارس کے مہتممین و منتظمین اور منسلک بورڈ کو بھی شفافیت کیساتھ اصول و ضوابط اور قوانین پر عمل پیرا کروانے کے لیے کوشش کیا جائے۔

 

خلاصہ کلام

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کا تحفظ نہ صرف ان کی عزت و وقار کا مسئلہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور ملکی آئین کی روح کے عین مطابق ہے۔ یہ حقوق وہ بنیادی ستون ہیں جن پر ایک منصفانہ اور متوازن تعلیمی نظام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے مدارس کے نظام میں ایسی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان معزز اساتذہ اور کارکنان کو تحفظ فراہم کریں بلکہ ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہو۔

 

قومی اسمبلی کو اس اہم مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک جامع قانون سازی کرنی چاہئے جو اساتذہ کے تقرری، برخاستگی، تنخواہوں، اور مراعات کے حوالے سے واضح اصول وضع کرے۔ یہ قانون سازی اس بات کی ضامن ہونی چاہئے کہ مدارس کے اساتذہ کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور ان کے حقوق ہر حال میں محفوظ رہیں۔ اسی طرح، مدارس کے وفاقی بورڈز کو اپنے منشور میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو شامل کرنا چاہئے، اور ایک ایسا اعلیٰ سطحی فورم تشکیل دینا چاہئے جہاں اساتذہ اپنی شکایات اور مسائل پیش کرسکیں اور ان کا منصفانہ حل نکالا جا سکے۔

 

مزید برآں، اساتذہ کی ایک طاقتور اور منظم یونین کا قیام بھی ضروری ہے، جو ان کے حقوق کے لئے مضبوط آواز اٹھائے اور کسی بھی قسم کی ناانصافی کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو۔ یہ یونین نہ صرف اساتذہ کے مسائل کے حل میں مددگار ہوگی بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کا بھی ضامن ہوگی۔

 

ان اقدامات سے نہ صرف دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو تحفظ ملے گا بلکہ مدارس کے نظام میں شفافیت اور انصاف کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ اصلاحات اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوں گی اور ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف کی فضاء کو مضبوط کریں گی۔ اس طرح، دینی تعلیم کے معیار میں بھی بہتری آئے گی، اور ہمارے اساتذہ اپنے فرائض کو مزید لگن اور اعتماد کے ساتھ ادا کر سکیں گے۔ اس سفر میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مضبوط، منصفانہ، اور قابلِ احترام نظام ہی ایک مضبوط قوم کی بنیاد بن سکتا ہے، اور مدارس کے اساتذہ اس بنیاد کے معمار ہیں۔

 

 

 

 

Posted in گلگت بلتستان, مضامینTagged
92682

نامردوں کا معاشرہ – میری بات: روہیل اکبر

Posted on

نامردوں کا معاشرہ – میری بات: روہیل اکبر

جب سے گلگت بلتستان سے آیا ہوں تب سے وہاں کے حالات کے بارے میں لکھنے کا سوچ رہاہوں خاص کر قراقرم بارڈر سیکورٹی فورس کے بارے میں جو سخت سردی میں معمولی لباس پہنے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں جبکہ انکے مقابلہ میں چین کی سیکیورٹی فورس کے پاس ہیٹر والے کپڑوں سمیت دنیا بھر کی نعمتیں موجود ہیں خنجراب پاس پر بارڈر کی لکیر پار کرتے ہی ایک الگ دنیا محسوس ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں اس پر تفصیل پھر لکھوں گا پہلے ایک ایسی خوبصورت تحریرجس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا آپکی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے اور گھر گھر کی کہانی محسوس ہوتی ہے ایک وکیل دوست کا قصہ ہے آپ بھی پڑھیں اور پھر اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا ہم واقعی نامرد ہیں۔

 

میرا شوہر نامرد ہے اور مجھے خلع چاہیے وہ نکاح ختم کروانے کا عام سا کیس تھا اچھی پڑھی لکھی فیملی تھی دو پیارے سے بچے تھے کیوٹ اور معصوم سے لیکن خاتون بضد تھی کہ اسکو ہر حال میں خلع چاہیے جبکہ میرا موکل یعنی کہ (شوہر) شدید صدمے کی کیفیت میں تھا جج صاحب بھی پورا کیس سنتے وقت کبھی حیرانی سے شوہر کو دیکھتے اور کبھی اس کی بیوی کو تو کبھی ان کے ساتھ کھڑے دو بچوں کو جج صاحب اچھے آدمی تھے انہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لے جا کر صلح کی کوشش کرلیں شاید بات بن جائے (شوہر) کا وکیل ہونے کے ناطے مجھے تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں بحثیت وکیل یہ کیس ہار رہا تھا میں نے فوری حامی بھر لی جبکہ مدعیہ (بیوی) کے وکیل نے اس پر اچھا خاصہ ہنگامہ بھی کیا لیکن خاتون بات چیت کے لئیے راضی ہوگئی چیمبر میں دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے ہاں خاتون! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے؟ وکیل صاحب یہ شخص مردانہ طور پر کمزور ہیں اور نامرد ہیں میں اسکی بے باکی پر حیران رہ گیا میرے منہ سے ایک موٹی سی گندی سی گالی نکلتے نکلتے رہ گئی البتہ منہ میں تو دے ہی ڈالی ویسے تو کچہری میں زیادہ تر بے باک خواتین سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اس خاتون کی کچھ بات ہی الگ تھی

 

اسکے شوہر نے ایک نظر اس پر ڈالی اور میری طرف امداد طلب نظروں سے گھورنے لگا میں تھوڑا سا جھلا گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے دو بچوں کی ماں ہو کر بھی اپنے شوہر کو نامرد کہہ رہی ہے بہرحال میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا ایک طرف رکھا اور تیز تیز سوال کرنا شروع کر دیے کیا تمہارا اپنے شوہر سے گزارہ نہیں ہوتا؟تو وہ بیوی کہنے لگی ماشاء اللہ دو بچے ہیں ہمارے یہ جسمانی طور پہ تو بالکل ٹھیک ہیں مگر پھر بھی نامرد ہیں مجھے اس کی بات سے حیرت کا جھٹکا لگا کہ بچے بھی ہیں اور نامرد بھی یہ کیسے ہو سکتا ہے عجیب عورت ہے تو بی بی پھر مردانہ طور پر کمزور کیسے ہوئے؟وکیل صاحب! صرف ازدواجی زندگی سے اولاد ہو جائے یہ ہی مردانگی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی ایسی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں میاں بیوی کے درمیان جس پر بیوی مرد سے مطمئن نہیں ہو پاتی اور مرد نا مرد ہی رہتا ہے مجھے اس عورت کی منطق کسی بھی طرح سمجھ نہیں آئی تھی حیرت تھی کہ وہ فقط مطمئن نہ ہونے پر کس طرح سے اپنے مرد کی عزت یوں کورٹ کچہری میں اچھال رہی ہے یہ معاملہ تو ان دونوں کے مابین بھی حل ہو سکتا تھامیں نے اک نظر اٹھا کر اس کے شوہر کو دیکھاجس کے چہرے پر اپنا سچ کھل جانے کا خوف لاحق تھا

 

آپ کو اگر خدا نے اولاد سے نواز رکھا ہے بی بی اور اگر یہ جسمانی طور پر بھی ٹھیک ہیں تو اگر آپ کو ان سب کے باوجود کسی دشواری کا سامنا ہے تو آپ ڈاکٹر سے رابطہ کر سکتی تھی یوں کورٹ کچہری آنا اس معاملے کا حل نہ تھا میں نے غصے پر قابو کرتے جواب دیا۔ان کی کمزوری کسی بھی ڈاکٹر سے دور نہ ہو سکتی تھی وکیل صاحب تبھی مجھے یہ راہ چننی پڑی عجب عورت تھی اک تو انتہا کی بے باکی اوپر سے کمال کا اعتماد اور وجہ ایسی کہ کوئی اور ہوتا تو شرم سے ڈوب مرتا جانے یہ کیسی عورت تھی اس کا حلیہ اس کی باتوں سے زرا نہ ملتا تھا مگر ہر کسی کے ماتھے پر تھوڑا ہی لکھا ہوتا ہے کہ باطن بھی ظاہر جیسا ہے بی بی ہر مسلے کا حل ہوتا ہے مجھے اب اس عورت پر غصہ آنے لگا تھا اور اس کے شوہر پر ترس میں آپ کو ایک اچھے ڈاکٹر کا پتہ دیتا ہوں آپ وہاں جائیں سب بہتر ہو گا جہالت کی ضد میں آ کر گھر نہ توڑیں میں نے اپنے غصے کو پس پشت ڈالتے اپنے فیملی ڈاکٹر کا ایڈریس دینے کا کہا جو کہ مردانہ کمزوری کا ماہر مانا جاتا تھا اور اپنی طرف سے ہر حد کوشش کر کے اس جاہل عورت کو اس اقدام سے روکنا چاہا۔نہیں وکیل صاحب کبھی نہیں میں ان کا علاج کراناتو دور ایسے مرد کے ساتھ اک منٹ نہیں رہوں گی جانے وہ عورت کیوں اتنی ضد کر رہی تھی جب آپ کی اولاد ہے تو پھر یہ بیماری اتنی بھی بڑی بیماری نہیں جانے آپ نے اس بیماری کو کیوں وجہ بنا رکھا ہے

 

اب کی بار میرا ضبط جواب دینے لگا تھا بیماری ہے وکیل صاحب بیماری ہے اب کی بار وہ بھی دبا دبا چلائی تھی اگر ہے تو وضاحت کر دیں پھر اگر وہ بے باک تھی اتنی تو اصل مدعے تک پہنچنے میں پھر میں نے بھی اپنی شرم اک طرف رکھی دی مگر جب وہ بولی تو مجھے حیرت اور شرمندگی کے غوطے آنا شروع ہوگئے صرف بچے پیدا کرنا ہی مردانگی نہیں ہوتی وکیل صاحب میرے بابا دیہات میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں پورا گاؤں کہتا ہے کہ ان جیسا مرد کبھی نہیں دیکھا ماشاء اللہ گبھرو، بااخلاق اور انتہائی مدد کرنے والے انسان ہیں ہمیشہ دوسروں کی بہو بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھا ہم دو بہنیں ہیں اور میرے والد نے ہمیں کبھی” دھی رانی” سے کم بلایا ہی نہیں جبکہ میرے شوہر مجھے” کتی ” کہہ کے بلاتے ہیں یہ کونسی مردانہ صفت ہے وکیل صاحب؟ اب بتائیں مرد میرے باپ جیسا شخص ہوا یا یہ کتی کہنے والا؟مجھ سے کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہوجائے تو یہ میرے پورے میکے کو ننگی ننگی گالیاں دیتے ہیں؟ آپ ہی بتائیں کہ اس میں میرے مائیکے کا کیا قصور ہے یہ مردانہ صفت تو نہیں نا کہ دوسروں کے گھر والوں کو گالی دی جائے وکیل صاحب! میرے بابا مجھے شہزادی کہتے ہیں اور یہ غصے میں مجھے ” کنجری” کہتے ہیں

 

وکیل صاحب! مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اتنی عزت دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی کنجری کہہ کر پکارتے ہیں یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نہ؟وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں؟میرا تو سر شرم سے جھک گیا تھا اس کا شوہر بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکی طرف دیکھ رہا تھامیری اس سوچ کو وہ عورت واقع ہی سچ ثابت کر گئی تھی کہ ضروری نہیں جیسا باطن ہو ویسا ہی ظاہر بھی ہو اگر یہی مسئلہ تھا تو تم مجھے بتا سکتی تھیں نا مجھ پر اس قدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟شوہر منمنایا آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کو گالیاں اور بازاری عرتوں کے ساتھ ناجائز رشتے جوڑتے ہیں تو میں خوش ہوتی ہوں؟ اتنے سالوں سے آپکا کیا گیا یہ ذہنی تشدد برداشت کر رہی ہوں اس کا کون حساب دے گا؟جب آپ میری بہن اور ماں کو اتنی گندی گندی گالیاں اور باتیں کرتے ہیں آپ کیا جانیں میرے دل پر کیا گزرتی ہے لیکن ہر چیز کی حد ہوتی اب مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتابیوی کا پارہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھاخیر جیسے تیسے منت سماجت کر کے سمجھا بجھا کے انکی صلح کروائی میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اب کبھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا اور پھر وہ دونوں چلے گئے اب ان کے گھر میں سکون ہے چھوٹے موٹے مسائل تو گھروں میں آتے رہتے ہیں لیکن اب ان کے گھر پہلے والے حالات نہیں ہیں جب یہ واقعہ ہوا تو میں کافی دیر تک وہیں چیمبر میں سوچ بچار کرتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اس خاتون کو اس کے پہلے جواب پر دل ہی دل میں بہت دی تھیں تو شاید میں بھی نامرد ہوں اور ہمارا معاشرہ نامردوں سے بھرا پڑا ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92679

چترال کی ثقافت میں شازیہ کی منگنی اور دوپٹے کا کردار۔ تحریر: احتشام الرحمن 

Posted on

چترال کی ثقافت میں شازیہ کی منگنی اور دوپٹے کا کردار۔ تحریر: احتشام الرحمن

 

چترال کی ثقافت ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ اس حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی طوفان کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ کوئی اس کی حمایت میں، تو کوئی اس کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ میں اس موضوع پر نہ لکھتا اگر یہ دو واقعات نہ ہوتے۔ پہلا واقعہ ہمارے قابل احترام دوست آصف علی اور شازیہ اسحاق صاحبہ کی منگنی کے رسم کے حوالے سے خبر ہے۔ اس منگنی کو چترالی ثقافت کا نمائندہ عمل کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ دوسری خبر چترال کی ایک بیٹی کا چترالی ثقافت میں دوپٹہ کی اہمیت کی نفی کے حوالے سے تھی۔

 

آصف اور شازیہ کی منگنی کو ایک خاص علاقے اور قومیت سے جوڑ کر اس طرح پیش کیا گیا گویا کہ چترال کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہوا ہو۔ اس پر مضامین لکھے گئے۔ منگنی کی رسم کو چترالی ثقافت اور روایات کا امین کر کے پیش کیا گیا۔ ایسا لگا کہ اس منگنی سے پہلے جو منگنی کی رسمیں ہوتی آئی ہیں وہ بیکار تھیں اور یہ اپنی نوعیت کی ایک اہم ترین رسم تھی۔ ایک صاحب یہاں تک لکھ گئے کہ اس خاندان کے ساتھ ہمارے کئی سالوں کا تعلق ہے۔ دونوں کے خاندانوں کو چترالی رسم و رواج کا امین بنا کر پیش کیا گیا۔

 

آصف علی کے ساتھ میرا سات سال پرانا تعلق ہے۔ اگر میں اس کو دقیانوسی روایت کا بت شکن نہ کہوں تو زیادتی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی منگنی کے حوالے سے ان مضامین کو پڑھ کر خود انہیں بھی عجیب لگا ہو گا۔

 

اب کچھ کام کی باتیں کرتے ہیں۔ کیا منگنی کی رسم واقعی میں چترالی ثقافت کا اہم جز ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ چترال میں ڈش اینٹینا کی آمد سے پہلے اس رسم کا تصور بھی نہیں تھا۔ ہماری روایات اور تھیں۔ میں اس کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ شاہ کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کی خوش امدانہ باتیں کی جا رہی ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا شازیہ کی منگنی کو وہ پذیرائی ملتی اگر وہ تورکھو کے سکول میں ٹیچر ہوتیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ تو گویا یہ مدح سرائی منگنی کی رسم کی نہیں بلکہ شازیہ صاحبہ کے عہدے کی ہو رہی ہے۔

 

دوسری خبر چترالی ثقافت میں دوپٹے کی اہمیت کے حوالے سے چترال کی ایک بیٹی کی رائے تھی۔ اس پر ہمارے محترم جناب ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب نے ایک کمنٹ کیا۔ اس پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بات درست تھی یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس پر بات کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن فی الحال اس بیٹی کی رائے کو جانچنے کی ضرورت ہے۔

 

چترالی کی یہ بیٹی ایک پڑھی لکھی اور خود مختار خاتون ہے۔ انہیں ان کے خاندان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ وہ جو پڑھنا چاہتی ہے, جہاں جانا چاہتی ہے، جیسے جینا چاہتی ہے اور جیسا پہننا چاہتی ہے، اس کے گھر والوں کی طرف سے اسے اجازت ہے۔ میں بھی اس کی اس لبرٹی کا احترام کرتا ہوں۔ شٹل کاک برقعہ پہننے والی ایک لڑکی بھی اتنی ہی قابل، آزاد اور خودمختار ہو سکتی ہے جتنی کہ ایک شٹل کاک برقع پہننے والی آزاد ہوتی ہے۔ میں نے کئی پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کو برقعہ پہنتے دیکھا ہے۔ اگرچہ میں خود شٹل کاک برقعہ کا مخالف ہوں لیکن میری نظر میں اس عورت کی چوائس کا احترام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

 

ایک پرسنل چوائس ہوتی ہے اور ایک اجتماعی عمل۔ اپنے پرسنل چوائس کو اجتماعی عمل پر حاوی اور مسلط کرنا کسی لحاظ سے بھی اظہار رائے کی آزادی اور لبرلزم نہیں ہے۔ گلوبلایزیشن کے زیر اثر ہمارے یہاں لبرلزم کی ایک عجیب تعریف کی جاتی ہے۔ لبرل اس شخص کو سمجھ لیا جاتا ہے جو مذہب بیزار ہو۔ لیکن مغربی لبرلزم کا مقصد پوری دنیا میں عیسائیت کا پرچار ہے۔ ہمارے یہاں لبرل اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جو اپنی روایات اور ثقافت کو برا بھلا کہے، لیکن مغربی لبرلزم کا نچوڑ ہی یہی ہے کہ پوری دنیا میں مغربی ثقافت اور روایات کا بول بالا ہو۔ یونیورسٹی جانے کے بعد ہمارے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ سیگریٹ پینا، کلبنگ کرنا, مئے نوشی کرنا اور مذہب بیزار ہونا ہی لبرلزم ہے۔ (نوٹ: ایک مذہب بیزاری ہوتی ہے ایک ملا بیزار ہونا ہوتا ہے۔ دونوں فرق ہے) اسی طرح لڑکیوں کا یہ خیال ہے کہ جینز پہنے بغیر اور دوپٹہ اوڑھ کر کوئی لبرل نہیں بن سکتی ہے۔

 

جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک ذاتی رائے ہوتی ہے اور ایک اجتماعی عمل۔ ذاتی رائے پر اجتماعی رائے کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ ثقافت اسی اجتماعی عمل کا نام ہے۔ مثلا مجھے چترالی ثقافت میں ڈھول اور اشٹوک پسند نہیں۔ کئی لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا ہے۔ لیکن اکثریت اس کو پسند کرتی ہے۔ اس بنیاد پر کہ یہ مجھے پسند نہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چترالی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چترالی ثقافت میں یہ جز مجھے پسند نہیں ہے۔

 

دوپٹہ کو یکسر نظر انداز کرنا اور اس سے جڑے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے خواتین کو کوئی فائدہ تو حاصل نہ ہوگا، نہ ہی ان کو خود مختاری ملے گی۔ ہاں البتہ بہت سے ماں باپ اور بھائی اس بات کو جواز بنائیں گے کہ یونیورسٹی جا کر بچیاں اپنی روایات اور قدار بھول جاتی ہیں، اس لئے ہائیر ایجوکیشن چترال کی لڑکیوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ دوپٹے کی مخالفت کا ان کا موقف نیک نیتی پر ہو سکتا ہے۔ وہ عورتوں کی خود مختاری کے لئے یہ موقف اپنا رہی ہوں گی لیکن اس سے دور دراز کی ایک بیٹی کو فائدہ پہنچنے کی بجائے اس کی آزادی میں مزید رکاوٹیں کھڑی ہوں گی۔ ایک پڑھی لکھی خاتون جو کہ معاشرتی مسائل سے واقف ہو اس کو اس طرح کی سوئیپنگ اسٹیٹمنٹز دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ ان سے ریفارمز آنے کی بجائے ایک سخت ری ایکشن آتا ہے جو کہ حقوق نسواں کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92620

داد بیداد ۔ پشاور کی پبلک لائبریری میں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ پشاور کی پبلک لائبریری میں ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج پشاور کا درجہ حرارت 41سنٹی گریڈ ہے ایک دو بجے تک 44-43ہونے کا امکان ہے دو دن پہلے کی بارش کا معتدل اثر زائل ہو چکا ہے صبح 9بجے کا وقت ہے صدر روڈ پر ارکایوز اینڈ پبلک لائبریری میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے پھر بھی گراونڈ فلو ر اور فرسٹ فلور پر واقع مطالعہ گاہوں میں سینکڑوں نوجوان اور ادھیڑ عمر لو گ میزوں کے گرد کر سیوں پر خا موش بیٹھے ہیں اُن پر ایک سر سری نظر دوڑا نے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان پر کسی نے جا دو کیا ہے یا مصریوں کی طرح ان کو حنوظ کر کے رکھا گیا ہے ہم نے پسینے پونچھتے ہوئے بر آمدے میں کھڑے لو گوں میں سے ایک صاحب سے پو چھ لیا بات کیا ہے اتنی گر می میں یہ لو گ تاریک کمروں میں کیوں بیٹھے ہیں؟

 

اُن صاحب نے کہا آپ شا ید پہلی بار یہاں آئے ہیں یہ روز کا معمول ہے ہم نے کہا ان کا آنا معمول ہے یا بجلی کا جانا معمول ہے؟ اُس نے کہا یوں سمجھ لیجئے، دونوں معمولات میں شامل ہیں، ہم نے اگلا سوال داغ دیا یہ لو گ با ہر کھلی ہوا میں کیوں نہیں آتے؟ انہوں نے کہا یہاں کر سیاں نہیں ملتیں، سویرے 8بجے آکر پہلے کر سی پکڑ تے ہیں پھر اپنی ضرورت کی کتاب لیکر بیٹھتے ہیں، مطالعہ کر تے ہیں، حوالہ جا ت ڈھونڈ تے ہیں، نوٹ لکھتے ہیں اور آج کا کام مکمل کر کے کرسی دوسرے ضرورت مند کے لئے خا لی کر تے ہیں، ہمیں یورپ، امریکہ یا ایشیا کے کسی ترقی یا فتہ ملک میں کتاب سے محبت کا یہ منظر خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں دیکھ کر بہت اچھا لگا بلکہ فخر محسوس ہوا،

 

اندر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی تھی اس لئے کھلے بر آمد ے کی یہ کھلی ڈھلی گپ شپ طول پکڑ گئی دو چار بندے اور بھی اس میں شامل ہو ئے، بات چیت سے معلوم ہوا کہ یونیور سٹیوں سے لیکر کا لجوں تک ہر لائبریری اور ہر ریڈنگ روم (مطا لعہ گاہ)کا کم و بیش یہی حال ہے بی ایس، ایم ایس، پی ایچ ڈی اور دیگر درجوں میں زیر تعلیم نو جوان تحقیقی کا موں کے لئے لائبریری آتے ہیں، مقا بلے کے امتحا نا ت اور دیگر ٹیسٹوں کی تیاری کر نے والے لائبریریوں کا رخ کرتے ہیں صدر اور شہر میں ایک ہی پبلک لائبریری ہے اس لئے اس پر کا فی رش ہوتا ہے ازدھام ہوتا ہے 1971ء میں جب میں چترال سے پہلی بار پشاور آیا تو شہرمیں جی ٹی روڈ پر میونسپل لائبریری تھی ارکائیوز اینڈ پبلک لائبریری کی موجودہ عمارت بننے سے پہلے یہ لائبریری صدر ریلوے سٹیشن سے آگے جا کر بیو ولٹ فنڈ بلڈنگ میں ہوا کر تی تھی، صدر روڈ پر جی پی او کے قریب پا کستان نیشنل سنڑ کی لائبریری تھی فوارہ چوک میں کنٹو نمنٹ بورڈ کی مطا لعہ گاہ تھی، ارباب روڈ پر لندن بک ڈپو کے سامنے امریکن سنٹر کی لا ئبریری تھی،

 

مال روڈ پر سٹینڈرڈ چارٹر ڈ بینک کے پہلو میں برٹش کونسل کی لائبریری تھی، تھوڑا سا آگے سر سید روڈ پر خا نہ فر ہنگ ایران کی لائبریری عوام کے لئے کھلی ہو تی تھی جہاں فارسی بول چال کی کلا سیں بھی لگتی تھیں، اب ایسا کچھ بھی نہین ہے، پشاور کی ارکائیوز اینڈ پبلک لائبریری مطا لعہ کر نے والوں، تحقیقی کام کرنے والوں اور ریسرچ کے لئے حوالہ جا ت یا ریفرنسز ڈھونڈنے والوں کے لئے صو بائی دارالحکومت کی واحد سہو لت ہے، یہاں پبلک لائبریری اور مطالعہ گاہ کے علا وہ اخباری فائلوں کا شعبہ بھی محققین کے لئے حوالہ جا ت کا اچھا ذخیرہ ہے، اس کا آڈیٹوریم یعنی عوامی ہال شہر میں ادبی، ثقا فتی اور سما جی تقریبات کے لئے بہترین سہو لت کی جگہ ہے

 

اس کے ساتھ کھلے چمن اور الگ الگ میٹنگ رومز بھی ہر وقت دستیاب ہیں پبلک ایڈ ریس سسٹم اور ملٹی میڈیا کی سہو لت بھی مو جود ہے لائبریری کا اہم حصہ قدیم دستاویزات (آرکائیوز) کا شعبہ ہے، جہاں صوبے کے طول و عرض سے گندھا را تہذیب،مغل ادوار، سکھوں کے دور، بر طانوی راج اور قیام پا کستان کے بعد پیش آنے والے واقعات کی سرکاری فائلیں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں محفوظ کی گئی ہیں، ان کی مائیکروفلمیں بنا ئی جا رہی ہیں جو صوبے کے دور دراز اضلا ع میں قائم لائبریریوں میں لوگوں کو مہیا کی جائینگی، پھر ہم تیمر گر ہ، مینگورہ اور چترال کی پبلک لائبریریوں میں کتابوں کے ساتھ ساتھ نادر دستا ویزات تک بھی رسائی کر سکینگے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92576

 موسمیاتی تبدیلی اور چترال – تحریر: فیضان عزیز

 موسمیاتی تبدیلی اور چترال – تحریر: فیضان عزیز

 

موسمیاتی تبدیلی جدید دنیا کی ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے۔ بیس ویں صدی کے آخر سے دنیا مختلف خطرناک موسمی حالات جیسے سیلاب، جنگل کی آگ، طوفان، اور سونامی کا سامنا کر رہی ہے۔ پاکستان بھی ان تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوا ہے۔ 2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اس وقت ملک کے شمالی علاقوں میں سردیوں کے دوران خشک سالی اور بڑے شہروں میں گرمی کے موسم میں شدید گرمی کا سامنا ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے شہر 2015 سے مسلسل شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے تقریباً آٹھ ہزار افراد کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سبی، جیکب آباد اور موہنجو داڑو جیسے شہروں میں حالیہ برسوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا ہے۔ دوسری جانب، چترال اور گلگت بلتستان جیسے شمالی علاقے بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔ حالیہ برسوں میں ان علاقوں کو سیلاب، سخت سردیوں، اور اپریل اور مئی میں غیر معمولی بارشوں جیسے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ یہ سب موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہیں۔ چترال کے مقامی باشندے ہونے کے ناطے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس خوبصورت وادی کی رونق کو ماند کر دیا ہے اور مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

 

2010 سے چترال کو فلیش فلڈ، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) اور شدید بارشوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے انفراسٹرکچر، زراعت، جنگلات اور سبزہ زاروں کو تباہ کر دیا ہے۔ موسمی حالات میں بھی غیر متوقع شدت دیکھنے کو ملی ہے۔ چترال کی تاریخ میں پہلی بار 2023 کا موسم سرما بغیر برفباری کے گزرا، جبکہ اپریل اور مئی میں شدید بارشوں اور برفباری نے وادی کو شدید متاثر کیا اور وہاں ہنگامی صورتحال پیدا کردی۔
حکومت موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی کے حوالے سے مؤثر پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ 2010 کے بعد کچھ پالیسیاں بنائی گئیں، لیکن ان پر کبھی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کو سیلاب، ہیٹ ویوز، جنگلات کی کٹائی، شہری سیلاب، مٹی کے کٹاؤ، دھواں، پانی کی کمی اور آلودگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور دیگر صوبائی و مقامی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز قدرتی آفات، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناکام رہی ہیں۔ وسائل کی کمی، مالی مشکلات اور عوامی رہنماؤں کی غیر سنجیدگی اس ناکامی کی بنیادی وجوہات ہیں
تاہم، چترال میں نوجوانوں میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بڑھتی ہوئی آگاہی ایک روشن مستقبل کی امید دیتی ہے۔ مقامی کمیونٹیز جنگلات کے تحفظ، سبز چراگاہوں اور شجرکاری کے منصوبوں کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہیں۔ زیریں چترال کی وادی ایون میں کمیونٹی نے ٹمبر مافیا اور کرپٹ بیوروکریٹس کے خلاف احتجاج کر کے اپنے جنگلات کی کٹائی کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ چترالی عوام میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے آگاہی کے مثبت اثرات کی اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

 

چترال کی کمیونٹی کا حصہ ہونے کے ناطے یہ واضح ہے کہ گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) چترال کا سب سے بڑا اور تشویشناک مسئلہ ہے۔ چترال پاکستان کے ان علاقوں میں شامل ہے جہاں چھوٹے اور بڑے گلیشیئرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تقریباً 52% گلیشیئرز ضلع کے تقریباً 13% رقبے پر محیط ہیں۔ یہ گلیشیئرز میٹھے پانی اور دریائے چترال کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں گلوبل وارمنگ کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ بڑے گلیشیئرز سکڑ رہے ہیں اور سردیوں میں کم برفباری کی وجہ سے زیریں اور بالائی علاقوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔

 

چترال میں اوسط درجہ حرارت میں اضافہ GLOF کی بنیادی وجہ ہے، خاص طور پر گرمیوں میں درجہ حرارت 40°C سے 42°C تک پہنچ جاتا ہے جو کہ معمول کے 35°C سے 38°C سے زیادہ ہے۔ اس درجہ حرارت میں اضافے نے گلیشیئرز کے سکڑنے اور GLOF کا سبب بننے میں کردار ادا کیا ہے۔ گلیشیئرز کے قریب کے علاقے GLOF کی وجہ سے کئی سالوں سے تباہ ہو رہے ہیں۔ خوبصورت وادی سونگھور اس کی ایک مثال ہے، جو GLOF کی زد میں آ کر مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، اور لوگ اور جانور دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔ یہ صورتحال چترال کے دیگر خوبصورت علاقوں جیسے بونی، ایون، گرم چشمہ، بمبوریت، بریپ اور گولین کے ساتھ بھی پیش آئی ہے۔

2023 کے جولائی کے آخری ہفتے میں چترال کے مختلف علاقے GLOF کی زد میں آئے اور دریائے چترال انتہائی خطرناک ہو گیا۔ دریائے چترال میں اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا، جس نے سڑکیں، وادیاں، پل اور عمارتیں بہا دیں۔ چترال بازار بھی خطرے میں تھا، اور چپل بازار کے قریب لوگوں کو مکمل طور پر نکالا گیا۔ ایون جیسے علاقوں میں دریائے چترال ڈیم کی طرح بھر گیا تھا اور اس کے قریب کی عمارتیں، پل، لنک روڈ اور سیراب شدہ زمینیں دریا میں بہہ گئیں۔ یہ صورتحال اس سال بھی دوبارہ پیش آئی ہے۔ چترال دریا نے سیلاب کی وجہ سے کئی علاقوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اور ریشن کی نصف آبادی چترال کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئی ہے۔

چترال میں GLOF سے متعلق مسائل کو کم کرنا بہت مشکل ہے، لیکن کچھ مثبت اقدامات اس نقصان کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ مقامی درجہ حرارت میں اضافہ GLOF کی بنیادی وجہ ہے اور یہ گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ تاہم چترال میں GLOF کی ایک بڑی ماحولیاتی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ 1991 سے 2023 تک چترال میں جنگلات کے رقبے میں 0.44 فیصد کی شرح سے 11.45 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چترال کے محکمہ جنگلات، بدعنوان افسران اور ٹمبر مافیا اس میں ملوث ہیں۔

واضح رہے کہ لکڑی کی اسمگلنگ میں مختلف اداروں کے کرپٹ سرکاری افسران براہ راست ملوث ہیں۔ ہسپتال کی ایمبولینسیں، این جی اوز اور سرکاری گاڑیاں پاکستان کے دیگر علاقوں میں لکڑی کی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ لکڑی مشرق وسطیٰ کے ممالک اور دنیا کے دیگر حصوں میں اسمگل کی جا رہی ہے اور مافیا اب بھی اس کاروبار سے پیسہ کما رہی ہے۔ چترال میں جنگلات کی کٹائی کی ایک وجہ آبادی میں اضافہ، شہری ہم بستگی (urabnization) اور نچلے شہروں کی طرف نقل مکانی بھی ہے۔ یقیناً تعمیرات، کھانا پکانے اور گرم کرنے کے لیے لکڑی کا بے دریغ استعمال بھی جنگلات کی کمی کا باعث بن رہا ہے۔ سڑکوں کی حالیہ تعمیر اور توسیع بھی سڑکوں کے کنارے درختوں کے کاٹنے کا سبب بن رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق چترال میں مختلف سڑکوں کی توسیع کے دوران تقریباً چالیس سے پچاس ہزار درخت کاٹے جائیں گے۔

چترال میں جنگلات کی کٹائی کو روکنے کا ایک اہم حل مقامی حکومت کے نظام اور مقامی کمیونٹی کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بااختیار بنانا ہے۔ پاکستان میں مقامی حکومت کو کبھی بھی سیاسی اشرافیہ نے بااختیار نہیں بنایا۔ حالانکہ صوبائی اور وفاقی حکومت اختیارات اور وسائل کی مقامی سطح پر منتقلی پر توجہ نہیں دیتی۔ چترال میں جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لیے کمیونٹی کی شمولیت بہت ضروری ہے۔ کچھ اطلاعات کے مطابق، چترال کے محکمہ جنگلات نے کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ چترال کے کچھ علاقوں میں کامیابی حاصل کی ہے

دیگر اقدامات جیسے جنگلات، جھاڑیوں اور بلند مقامات پر جوار کی شجرکاری، سبز چراگاہوں کا تحفظ، پھلوں کی شجرکاری اور کھانا پکانے اور گرم کرنے کے لیے مفت بجلی کی فراہمی موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے مسئلے کو روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ یہ اقدامات چترال کو سیلاب سے بچانے کے لیے بھی اہم ہیں۔ چترال میں فلیش فلڈ بھی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ حالیہ برسوں میں چترال کو بادل پھٹنے اور شدید بارشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں چترال کے مختلف علاقوں میں شدید سیلاب آیا۔ جولائی اور اگست کے مہینوں میں بھی یہ اچانک سیلاب دریائے چترال میں سیلاب کی سطح کو بڑھا دیتے ہیں۔ یہ صورتحال گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) اور فلیش فلڈ کے ملاپ کی وجہ سے ہوتی ہے۔

چترال کے سیلاب سے نمٹنے کے لیے چھوٹے ڈیموں اور مصنوعی جھیلوں کی تعمیر جیسے متعدد اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ دریاؤں میں سیلاب کو کنٹرول کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم بہت مفید ہیں لیکن اس میں وقت اور زیادہ وسائل درکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ چھوٹے ڈیم پانی کے قدرتی بہاؤ میں خلل ڈالتے ہیں، لیکن وہ جانوروں، زراعت اور دریا کے قریب رہنے والے لوگوں کے لیے اضافی مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ دریا کے سیلاب کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ مصنوعی جھیلیں بنانا ہے۔ یہ جھیلیں بھاری بارش یا برف پگھلنے کے دوران اضافی پانی کے ذخیرہ کرنے کے کنٹرول والے علاقوں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس اضافی پانی کو روک کر، مصنوعی جھیلیں نیچے کی طرف آنے والے سیلاب کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں۔ پوری دنیا اب اس پر کام کر رہی ہے اور یورپی ممالک بھی سیلاب کے مسئلے کو کم کرنے کے لیے دریا میں ڈیم اور مصنوعی جھیلیں بنا رہے ہیں۔

چترال میں موسمیاتی تبدیلی کا تیسرا بڑا مسئلہ غیر معمولی موسمی پیٹرن ہے۔ 2010 کے بعد سے چترال کا موسم بالکل بدل چکا ہے۔ ضلع چترال میں اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری سیلسیس سے بڑھ کر 6 ڈگری سیلسیس ہو گیا ہے۔ سردیوں میں زیادہ تر برفباری نہیں ہوتی، اور کچھ علاقوں کو کم بارشوں اور برفباری کے باعث گرمیوں میں شدید خشک سالی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چترال کے بیشتر علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہو چکی ہے اور اب ان کی جگہ جھاڑیاں لے چکی ہیں۔ شجرکاری کے منصوبے شروع کرنا نہایت ضروری ہے، اور پہاڑی علاقوں میں جوار کے درخت لگانا بھی موسمیاتی مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ چترال میں پہاڑوں پر جوار کی شجرکاری سے نہ صرف پہاڑی علاقوں کا تحفظ ممکن ہوگا بلکہ فلیش فلڈ کو بھی قابو کیا جا سکے گا۔ چترال کی کمیونٹی ہر سال لاکھوں پودے لگا کر اس علاقے کو سرسبز و شاداب بنا رہی ہے۔

تاہم، حالیہ برسوں میں چترال کے موسم کا ردعمل بالکل مختلف رہا ہے۔ سردیاں بے برف اور گرم گزر رہی ہیں، لیکن مارچ اور اپریل میں چترال کو شدید بارشوں کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی۔ سڑکیں کئی بار بند ہوئیں، کچھ علاقے مٹی کے کٹاؤ کا شکار ہوئے، اور متعدد گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔

بلاشبہ، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقی اور سنگین مسئلہ ہے جس پر اعلیٰ قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام متعلقہ فریقین کی رائے سے ایک مؤثر موسمیاتی پالیسی تیار کی جا سکتی ہے، اور اس پر عمل درآمد پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ صوبائی اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ NDMA، PDMA اور LDMA جیسے اداروں کو مضبوط کرنے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال فطرت اور ماحول میں مثبت تبدیلی لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مختلف اداروں میں سیمینارز، سمپوزیم اور موسمیاتی مباحثے بھی آنے والی نسلوں کو اس مسئلے کے بارے میں آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مختصراً، چترال کو موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کو فطرت اور ماحولیات کے تحفظ کی تعلیم دینا ان کے پائیدار مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جنگلات، سبزہ زاروں اور درختوں کا تحفظ ایک مؤثر اور سادہ حل ثابت ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والی نسلیں اس خوبصورت وادی کی حفاظت کے لیے مضبوط عزم کے ساتھ آگے بڑھیں گی۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92572

حلقہ یاراں – میری بات;روہیل اکبر

Posted on

حلقہ یاراں – میری بات;روہیل اکبر

گلگت بلتستان کے خوبصورت مقام نلتر کے ہل ٹاپ ریسٹورنٹ میں محفل یاراں کے ایک ایسے نوجوان بزرگوں پر مشتمل گروپ سے ملاقات ہوئی جو ہمارے معاشرے میں ایک مثال ہیں صحت تندرستی اور مثالی سیاحت کے حوالہ سے گوجرانولہ سے تعلق رکھنے والا یہ خوبصورت پھولوں کا گلدستہ اس وقت 5ممبران پر مشتمل ہیں جو پہلے11 ممبران پر مشتمل تھا جن میں شیخ عابد صدیق،شیخ ساجد صدیق،شیخ ماجد صدیق،شیخ غلام سرور اور علامہ شیخ امتیاز حسین شامل ہیں ان افراد نے 1977میں سیروتفریح کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے حکومت کو چاہیے انہیں اور ان جیسے افراد کو سیاحت کا سفیر مقرر کیا جائے دنیا بھر کا چکر لگانے والے ان افراد کا کہنا تھا کہ دنیا کا خوبصورت ترین ملک پاکستان ہے سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں تک لوگوں کی رسائی نہیں ہے لیکن اب صورتحال اس حوالہ سے مختلف ہے کہ نئی اور خوبصورت سڑکیں بن چکی ہیں اور لوگوں نے آنا جانا شروع کردیا ہے

 

مگر اسکے باجود یہ مقام جہاں پر ہم موجود ہیں یہاں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ جیسی اہم سہولت موجود نہیں ہے سیاحت کے دلدادہ اس گروپ کے صدر شیخ غلام سرور ہیں جو اپنے گروپ کو متحرک رکھتے ہیں نلتر کی خوبصورتی میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب یہاں کے خوبصورت لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے نلتر میں جو سب سے خوبصورت مقام ہے اسی جگہ پر ایک دل کو موہ لینے والے نظاروں کے درمیان ہل ٹاپ ریسٹورنٹ اپنا ہی ایک مقام رکھتا ہے جہاں سے پوری وادی کانظارہ کیا جاسکتا ہے اس ہوٹل کے روح رواں اجمل حسین بھی خوبصورت اور نفیس انسان ہیں جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا ہے وہ پھر انہی کا ہو رہتا ہے خوش اخلاق اور سیاحوں کی خدمت کرنے والے ایسے ہی افراد کی وجہ سے ان خوبصورت علاقوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگے ہوئے ہیں۔

 

میں سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کی ترقی کے حوالہ سے سابق چیف سیکریٹری جناب محی الدین وانی نے انتہائی خوبصورت کام کیے ایسے ایسے مقامات پر سڑکیں بنوا دیں جہاں جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اس وقت گلگت بلتستان کے سیکریٹری ٹور ازم ضمیر عباس بھی سیاحت کو فرغ دینے میں ایک مثالی کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں میں اس وقت نلتر میں موجود ہوں یہاں پر میرا یہ تیسرا چکر ہے پہلی بار ایم ڈبلیو ایم کے سیکریٹری نشرواشاعت مظاہر شگری کے ساتھ اس علاقوں کو دیکھا تھا دوسری بار اپنے سیاحت کے ہم سفر وں طارق علی جٹھول ایڈوکیٹ اور چوہدری ماجد سندھو کے ساتھ نلتر کا چکر لگا اور اب پھر ہم گذشتہ دو دن سے نلتر میں ہی موجود ہیں ہم جانے کا نام لیتے ہیں تو تجمل حسین پیار سے پھر روک لیتا ہے وادی نلتر جتنی وبصورت ہے اتنے ہی یہاں کے لوگ پیارے اور پیار کرنے والے ہیں.

 

وادی نلتر ایسا خوبصورت سیاحتی مقام ہے جہاں سے حکومت اربوں روپے کما سکتی ہے لیکن اس کے لیے حکمرانوں کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گاصرف ایک نلتر ہی نہیں بلکہ پورا گلگت بلتستان ہی دنیا سے ایک الگ درجہ رکھتا ہے جو اپنی خوبصورتی میں تو مثالی ہے ہی ساتھ میں حسن اخلاق کا بھی نمونہ ہے یہاں چوری ہوتی ہے نہ ڈکیتی اور نہ ہی یہاں کے لوگ فراڈیے اور چکر باز ہیں یہاں کی پولیس بھی مثالی ہے لیکن اس بار میں نے دیکھا ہے کہ گلگت بلتستان کی پولیس میں بھی کچھ حرکات پنجاب اور سند ھ پولیس سے ملنا شروع ہوگئی ہیں خاص کر پنجاب سے آنے والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ دیکھ کر انہیں روکنا اور پھر سامان کی تلاشی لینا یہ وہ کام ہیں جو سیاحت کے شعبہ پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں حالانکہ ان علاقوں کاروزگار ہی پنجاب کے سیاح ہیں اس لیے گلگت بلتستان کی پولیس ا پنی پرانی روایت پرہی عمل کرے تو انکے اخلاق کی مزیدتعریفیں ہونگی

 

خیر میں بات کررہا تھا نلتر کی جو گلگت بلتستان شہر گلگت سے تقریباً 34 کلومیٹر (21 میل) کے فاصلے پر واقع ہے یہ ایک جنگلاتی علاقہ ہے جو اس کی تین جھیلوں، اسٹرانگی جھیل، نیلی جھیل، اور بودلوک جھیل کے ساتھ ساتھ پہاڑی نظاروں کی وجہ سے مشہور ہے وادی میں نلتر بالا (اوپری) اور نلتر پائین (نیچے) بستیاں ہیں نلتر ایکسپریس وے نمل اور فیض آباد کے راستے نلتر کو گلگت سے جوڑتا ہے جبکہ نومل سے ایک سڑک ‘سلک روٹ’ سے ہوتی ہوئی چین کو جاتی ہے بجلی اس علاقے کی اپنی ہے نلتر ہائیڈرو پاور پروجیکٹس (نلتر I، II، اور IV، کل 3.02 میگاواٹ) کے علاوہ، حکومت نے علاقے کی توانائی کو پورا کرنے کے لیے نلتر پائن کے قریب 18 میگاواٹ کا ایک ہائیڈرو پاور پلانٹ بھی بنایاہوا ہے جسے نلتر ہائیڈرو پاور پلانٹ-IV کہا جاتا ہے جوکتوبر 2007 سے کام کر رہا ہے نلتر جنگلی حیات کی پناہ گاہ کا ایک محفوظ علاقہ ہے جو 22 نومبر 1975 کو قائم کیا گیا تھا یہ پناہ گاہ درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے جس میں اونچی بلندی پر مخروطی جنگلات ہیں اس علاقے میں الپائن آئی بیکس، برفانی چیتے، بھورا ریچھ، سرمئی بھیڑیا، سرخ لومڑی، بیچ مارٹن اور برفانی چیتے قابل ذکر ہیں وادی میں پرندوں کی تقریباً 35 اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں یہاں پر جھیلیں بھی بہت خوبصورت ہیں

 

ان جھیلوں میں نلتر، سترنگی، حلیمہ، بوڈو،دھودیا، پاری اور نیلی جھیلیں ہیں جو نلتر بالا سے 13 کلومیٹر (8 میل) کے فاصلے پر واقع ہیں سردیوں میں اس علاقے کی سڑک پر برف (10 سے 15 فٹ اونچی) ہونے کی وجہ سے کسی بھی گاڑی کے ذریعے جھیل تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے یہ وادی مختلف قسم کے نباتات، حیوانات کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر بھی بھر پور ہے یہاں ایک قدرتی سبز باغ ہے جسے ”حلیمہ باغ” کہا جاتا ہے۔ حکومت نے وادی میں ریسٹ ہاؤسزبھی بنا رکھے ہیں جس میں GBPWD ریسٹ ہاؤس وادی کا سب سے پرانا ریسٹ ہاؤس ہے جبکہ ایف سی این اے، جی بی اسکاؤٹس اور پی اے ایف کے اپنے ریسٹ ہاؤس ہیں اس علاقے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے کھیل کے میدان میں میڈل جیت رکھے ہیں

 

ان میں محمد عباس وینکوور اولمپئن،آمنہ ولی جنوبی ایشیائی سرمائی کھیلوں میں چاندی کا تمغہ جیتنے والی اورافرا ولی جنوبی ایشیائی سرمائی کھیلوں میں گولڈ میڈلسٹ شامل ہیں اس علاقے کے نوجوانوں کو حکومت سہولت فراہم کرے تو یہ لوگ ہر میدان میں گولڈ میڈل لے سکتے ہیں یہ صرف ایک نلتر کے جوانوں کا کمال نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو ہمارے حکمرانوں کے وژن میں کمی ہے جو دن بدن ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے لیکر جارہے ہیں کاش کوئی تو سمجھے کہ پاکستان غریب،مجبور اور مفلس لوگوں کا بھی ہے جن سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔

 

chitraltimes naltar gilgit baltistan tour haqqani 2

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92532

داد بیداد۔ کا لمچہ ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ کا لمچہ ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

ادبی، لسا نی اور ثقا فتی تنظیم میر نے مہینوں کے کھوار نا موں پر مبنی کیلنڈر دوسری بار شائع کیا یہ مارچ 2024سے فروری 2025تک ایک سال کا کلینڈر ہے کھوار بہمنی کیلنڈر 1410کا ہے کھوار مہینے شاداغ سے شروع ہو کر ٹھونگ شل،پھیتینگ اور غور غور (اڑیان) پر ختم ہو تے ہیں اس طرح کھوار میں مہینوں کے نا موں کو زندہ رکھنے کی اچھی کا وش کی گئی ہے مختلف وادیوں میں کسی مہینے کے اگر مختلف نا م ہیں تو صفحے کے حا شیے پر وہ نا م بھی درج کئے گئے ہیں مثلاً آخری مہینہ اڑیان آتا ہے اس کے حا شئے پر غورغور اور میر ژون بھی درج کیا گیا ہے گویا کسی وادی میں مروج نا م کو حذف نہیں کیا گیا سب کے لئے قابل قبول بنا یا گیا ہے۔

کلینڈر کی دوسری خو بی یہ ہے کہ بارہ مہینوں کو چار صفحوں میں تقسیم کر کے ہر صفحے پر مشا ہیر چترال میں سے کسی نا مور شخصیت کا مختصر تعارف اردو اور انگریزی میں دستیاب تصویر کے ساتھ دیا گیا ہے اس طرح یہ ایک تاریخی دستاویز بن گئی ہے تحقیق کے کا موں میں اس کا حوالہ دیا جا سکتا ہے مثلا ً محمد عیسیٰ سن پیدا ئش 1840ء سن وفات 1906ء مزار تانگیر ضلع دیا مر گلگت بلتستان، اتالیق محمد شکور غریب سن پیدائش 1690ء سن وفات 1772ء مزار چترال خا ص، مرزا محمد سیر سن پیدائش 1730ء سن وفات 1815ء مزار شو گرام موڑ کھو، دانیار بیگ سن پیدائش 1842ء سن وفات 1919ء مزار شیدی (نزد گہریت پل) بنیا دی معلومات کے علا وہ ان کے کا رنا موں کا مختصر تذکرہ آیا ہے۔ خو شی کا مقام یہ ہے کہ کیلنڈر کو چترال میں بھی چترال سے با ہر بھی بیحد پسند کیا گیا ڈاکٹر میر افضل تاجک اور پرنسپل یار محمد خان نے دوستوں میں کلینڈر تقسیم کیا دانیار بیگ،اتالیق محمد شکور غریب اور مر زا محمد سیر کے مدا حوں نے کیلنڈر چھا پنے والی تنظیم MIERکے دفتر سے رابطہ کر کے فرید احمد رضا، جا وید اقبال جا وید، عطا حسین اطہر اور ظہور الحق دانش کا خصو صی شکر یہ ادا کیا۔ کیلنڈر کو تقسیم کرنے اور پھیلا نے میں دلچسپی لی، تینوں مشا ہیر کے قبیلے اور قرا بت داروں کی طرف سے شکریہ اور حوصلہ افزائی کے پیغا مات مو صو ل ہوئے، اگلے سال کے کیلنڈر پر کا م شروع ہو چکا ہے انشاء اللہ یہ بھی تاریخی دستا ویز ہو گی۔

 

 

khowar calender muhammad issa legend

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92526

جماعتِ اسلامی،تعارف،تاریخ اور وژن – از قلم: عصمت اسامہ  

Posted on

جماعتِ اسلامی،تعارف،تاریخ اور وژن  – از قلم: عصمت اسامہ

 

انیس سو تئیس میں خلافتِ اسلامیہ کے ختم ہونے کے بعد امت_ مسلمہ کے رو بہ زوال ہونے کے ساتھ کفار کے مسلح اور نظریاتی حملوں میں تیزی آگئی تھی۔ اب مسلمانوں کیلئے دنیا میں نہ صرف اپنی اجتماعی قوت کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیا بلکہ انھیں اپنے تاریخی ورثے،تہذیب و تمدن،علم و ادب بلکہء نظریہء حیات پر طاغوتی طاقتوں کی یلغار کا سامنا بھی کرنا پڑا۔مسلمان منتشر اور بغیر کسی مضبوط ریاستی سرپرستی کے زندگی گذارنے پر مجبور کردئیے گئے تھے،اپنی شناخت اور بقا کو لاحق اس خطرے نے کئی تحریکوں کو جنم دیا،برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ان تحریکوں کے تذکرے سے روشن ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسے مفکر اور حکیم الامت نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا،ان حالات میں جماعتِ اسلامی پاکستان کا قیام 26 اگست 1941ء میں وجود میں آیا۔ بانئ جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف پچھتر نفوس اور چوہتر روپے چودہ آنے کے سرماۓ کے ساتھ جماعتِ اسلامی کی داغ بیل ڈالی،اس سے قبل وہ ” رسالہ ترجمان القرآن” اور “ادارہ دارالاسلام” کے ذریعے دین کو تحریک کی صورت دینے کے لئے راۓ سازی کا کام کر رہے تھے۔ اس موقع پر اپنے تاریخی خطاب میں بانیء جماعتِ اسلامی نے اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے مابین فرق واضح کیا: اول یہ کہ ہم اسلام کے کسی جزو یا کسی دنیوی مقصد کو نہیں بلکہ پورے کے پورے اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں۔دوم: ہم جماعت میں کسی کو شامل کرنے سے پہلے اس سے کلمہء طیبہ اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کا اقرار (حلف)لیتے ہیں۔ سوم ہماری دعوت ساری انسانیت کے لئے ہے (کسی خاص قوم یا ملک تک محدود نہیں ہے).ہم نے قرآن وسنت سے سب انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
(ماخوذ: روداد جماعتِ اسلامی،حصہ اول).

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی،جماعت اسلامی کے پہلے امیر منتخب ہوۓ،اس وقت ان کی عمر اڑتیس سال تھی۔اس کے بعد ہیڈ کوارٹر لاہور سے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ جماعتِ اسلامی کے قرآن وسنت کے پیغام پر مشتمل ادب (لٹریچر) کی تیاری کا کام،اولین ترجیح کے طور پر شروع کردیا گیا بلکہ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں میں ان کتب کے تراجم کا بھی آغاز ہوگیا۔1947ء میں قیام_ پاکستان کے بعد جماعتِ اسلامی کا نظام بھی دو حصوں پر مشتمل ہوگیا۔جماعت_ اسلامی کے کارکنان،مہاجرین کی بحالی اور دیکھ بھال کے لئے مصروف عمل تھے،اسی دور میں بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ریڈیو پاکستان پر پہلی تقریر نشر کی گئ (بحوالہ ڈاکٹر اشتیاق احمد،ممتاز قانون دان)۔یہ تقاریر جو قائد اعظم کے ایماء پر عامتہ المسلمین کی فکری راہنمائی کے لئے نشر کی گئیں،کتاب ” اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات” کے آخری باب ” اسلامی نظامِ حیات” میں موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ بانی ء جماعتِ اسلامی اور بانیء پاکستان نظریاتی اور عملی طور پر متحد و یکسو تھے،پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے نصب العین کی خاطر،ان میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ مولانا کی شہرہ آفاق تفسیر “تفہیم القرآن ” کے مطالعہ سے “فکر_ مودودی” کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے. 1948ء میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سیکولر طبقے نے سر اٹھالیا تو جماعتِ اسلامی پاکستان ان کے مشن کو لے کر اٹھی اور نہ صرف” نظام_ اسلامی ” کا مطالبہ پیش کیا بلکہ ” کشمیری مسلمانوں کے حق_ خود ارادیت ” کی بھی حمایت کی۔ اسی دور میں ” قرارداد_ مقاصد” منظور ہوئی جو ملک کا دستور “اسلامی” بنانے کی طرف اہم پیش رفت تھی۔1950ء میں مولانا مودودی نے اسلامی دستور کا خاکہ پیش کیا تو حکومت نے ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگادی اور جماعت کے ہم خیال اخبارات بھی بند کردئیے۔ 1951ء میں جماعتِ اسلامی نے اپنے ویژن ” حکومت_ الٰہیہ کے قیام ” کی خاطر پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اگر چہ ان میں ایک نمائندہ ہی منتخب ہوسکا۔1952ء میں “مسئلہء ختم_ نبوت کے دفاع اور قادیانی سازشوں کے خلاف کتاب لکھنے پر” مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو گرفتار کرلیا گیا اور سزائے موت سنائی گئ۔ مولانا نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔بعدازاں عالمی سطح کے احتجاج اور دباؤ کے سبب سزاۓ موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔کارکنان نے بھرپور احتجاجی مہم چلائی، بالآخر مولانا کو 1955ء میں ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا۔ملک کے دستور کی تیاری کا مرحلہ پیش نظر تھا،اس میں مولانا مودودی نے حکومت _ وقت کے ساتھ کام بھی کیا اور راہنمائی بھی فرمائی۔1958ء میں پہلا مارشل لاء لگا تو تمام سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی لگادی گئی۔

بقول شاعر:
~ کبھی اس مکاں سے گذر گیا،کبھی اس مکاں سے گذر گیا
تیرے آستاں کی تلاش میں،میں ہر آستاں سے گذر گیا
کبھی تیرا در، کبھی دربدر،کبھی عرش پر،کبھی فرش پر
غم_ عاشقی تیرا شکریہ،میں کہاں کہاں سے گذر گیا !

 

ابتدا ہی سے جماعتِ اسلامی کا نصب العین ” عملاً اقامتِ دین” حکومت_ الٰہیہ اور اسلامی نظام زندگی کا قیام اور حقیقتاً رضاۓ الہی اور فلاح_ اخروی” کا حصول قرار پایا تھا۔اس عظیم الشان مشن کو ایسے افراد درکار تھے جو نہ صرف پاکیزہ سوچ،صالح اعمال سے مزین ہوں بلکہ زمانے کی تیز رفتار میں قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی صلاحیتوں سے بھی مالامال ہوں،اس لئے افراد_ کار کی تیاری،تربیت اور ٹریننگ اول روز سے نظم_ جماعت کے پیشِ نظر رہی ہے۔اس مقصد کی خاطر باقاعدہ تربیتی نصاب تیار کیا جاتا ہے، حلقہء دروس اور اجتماعات کے ذریعے قرآن وسنت کا فہم اور حالات حاضرہ کا شعور پیدا کیا جاتا ہے۔یہ خاصیت،کسی اور سیاسی پارٹی میں دکھائی نہیں دیتی۔ جماعت کا تربیتی نظام،کارکنان کے اندر ایمان اور جذبہ کا وہ ایندھن بھر دیتا ہے کہ اس کے بعد انھیں جس شعبہء زندگی اور جس محاذ پر کھڑا کردیا جاۓ وہ اس میں کامیابی کی خاطر تن،من، دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ہمیشہ اپنے حصے کا کام جسم و جان کی پوری قوت اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری سے کرنے پر زور دیا اور انتخابات میں کامیابی کی خاطر کسی بھی خفیہ سرگرمی یا زیر زمین کارروائی سے منع فرمایا۔1960ء میں مولانا مودودی نے قرآن کریم میں مذکور مقامات کے دورے کئے اور ان جگہوں کا مشاہدہ کیا۔1962ء میں سیاسی جماعتوں سے پابندی ہٹا لی گئ تو اسلامی جمعیت طلبہ بھی فعال ہوگئ اور مختلف یونیورسٹیوں کے اندر انتخابات میں حصہ لیا۔

 

اسی دوران مولانا خلیل احمد حامدی ناظم دارالعروبہ مقرر ہوۓ،وہ بیرونی وفود کے دوروں کے موقع پر مولانا مودودی کے مترجم کے فرائض بھی انجام دیتے تھے اور آپ کی کئ کتب کا انھوں نے عربی میں ترجمہ کرکے جماعتِ اسلامی کے لٹریچر کو دور دراز کے ممالک تک پہنچایا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جماعتِ اسلامی نے حکومت کے شانہ بشانہ کام کیا،طبی کیمپ قائم کئے گئے۔مسئلہ کشمیر پر پانچ زبانوں میں لٹریچر شائع کیا گیا۔1968ء میں سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لئے ” ادارہ دائرۃ الفکر” قائم کیا گیا،لٹریچر کے ذریعے سوشلزم اور کمیونزم کو شکست سے دو چار کردیا گیا۔1971ء کی جنگ کا معرکہ، مشرقی پاکستان کے دفاع کی خاطر،جماعت_ اسلامی کی ذیلی تنظیم “البدر” نے پاک فوج کے ہمراہ،بھارتی افواج اور مکتی باہنی کے خلاف لڑا،شہادتیں بھی ہوئیں اور گرفتاریاں بھی مگر سقوط _ ڈھاکہ ہوگیا،پاکستان دو لخت کردیا گیا۔مولانا مودودی نے نوے ہزار قیدیوں کی بھارتی عقوبت خانوں سے رہائی کے لئے 250 سربراہان_ مملکت کو خطوط لکھے اور عالمی راۓ ہموار کی۔ مولانا مودودی اور مولانا خلیل احمد حامدی نے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے دورے بھی کئے۔” بنگلہ نامنظور” مہم چلائی گئی۔1972ء میں میاں طفیل محمد صاحب کو جماعتِ اسلامی کے امیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جماعتِ اسلامی میں امارت کا معیار صرف تقوی’ اور کارکردگی ہے۔ جماعت کے دستور کے مطابق اراکینِ جماعت،خفیہ راۓ دہی کے ذریعے سے اپنے امیر کو منتخب کرتے ہیں۔27 فروری 1979ء کو سعودی عرب میں شاہ فیصل فاؤنڈیشن کی جانب سے مفسر_ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کو ان کی علمی و ادبی خدمات پر ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ سے پہلے دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں،مؤثر شخصیات اور بین الاقوامی اداروں کو ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا کہ جس میں ایسا نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئ تھی جسے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا جاسکے۔

 

ان سوالناموں میں تقریباً نوے فیصد نے جواب میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا نام لکھا تھا (بحوالہ سید حمید مودودی)۔ بانیء جماعتِ اسلامی بوجوہ ناسازیء طبیعت خود نہ جاسکے،انھوں نے اپنے بیٹے حسین فاروق کے ساتھ ڈائریکٹر امور خارجہ مولانا خلیل احمد حامدی کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے بھیجا جنہوں نے وہاں عربی زبان میں تقریر کی اور مولانا مودودی کا خط پڑھ کر سنایا۔خط میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے سعودی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ لکھا تھا کہ انھوں نے جو کام بھی کیا ہے،اسے دینی فریضہ سمجھ کے کیا ہے اور ایوارڈ کی رقم اقامتِ دین کی جدوجہد میں استعمال کی جاۓ گی۔ بعد ازاں مولانا خلیل احمد حامدی کی تجویز پر اس رقم سے حالیہ “مرکز_ جماعت منصورہ” کو آباد کیا گیا.یہاں تعمیرات،اداروں کی تشکیل, انسانی و مادی وسائل کی فراہمی مولانا خلیل احمد حامدی کا ذمہ قرار پائی جنہوں نے اپنی پوری جان لگا کے اس سرسبز و شاداب منصورہ کو بسایا۔(راقمہ کے سامنے، محترمہ زبیدہ بیگم،اہلیہ مولانا خلیل احمد حامدی کی گواہی).

جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو جماعتِ اسلامی نے کفار کے خلاف نقارہء جہاد بلند کیا۔ عالمی طاقتوں کو اسی لئے جماعت ہمیشہ کھٹکتی ہے۔بانیء جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا وژن ” احیاۓ اسلام ” کا عالمگیر وژن تھا جس کی خاطر انھوں نے ان تھک محنت کی اور اس صدی کے مجدد_ دین قرار پاۓ۔آپ کی شخصیت علم و عمل،گفتارو کردار کا متاثر کن مجموعہ تھی،آپ 1979ء میں بوجوہ گردوں کے مرض انتقال فرماگئے۔آپ کی نمازِ جنازہ حرم_ کعبہ کے علاوہ دنیا کے تین براعظموں میں ادا کی گئ۔ آپ اپنے مشن کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔ مولانا طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، مولانا سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں امراۓ جماعتِ اسلامی نے کلمہء طیبہ والے پرچم کو اٹھا رکھا ہے۔مردانہ تنظیم کے ساتھ اب حلقہء خواتین بھی بزم آراء ہے۔ویمن ونگ کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمیرا طارق کی قیادت میں تعلیم یافتہ،دین دار مائیں،بہنیں اور بیٹیاں قوم کی خاطر محو_ جدوجہد ہیں۔اسلاف کی قربانیوں کے پیشِ نظر، شہیدوں کی امانت نظریہء پاکستان اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ہر شعبہء ہاۓ حیات میں کوشاں ہیں،نظام کو بدلنا ہے،ٹرانسجینڈر ایکٹ جیسے انسانیت دشمن قوانین کو چیلنج کرنا ہے،

 

اسلامی تہذیب و تمدن کا دفاع کرنا ہے،اقتدار کو کرپٹ لوگوں کے ہاتھ سے لے کر صالحین کے ہاتھ میں دینا ہے۔ مساجد اور محلوں میں جماعت کے مدرسین اور مدرسات کو سنیں، اقتدار کے ایوانوں میں ڈاکٹر کوثر فردوس،عائشہ سید،ڈاکٹر وسیم اختر،سینیٹر مشتاق احمد خان،سید عبد الرشید جیسے قابل عوامی نمائندوں کی مثالیں دیکھیں، قدرتی آفات،سیلاب،زلزلوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کو اپنے اردگرد پائیں،الیکٹرانک میڈیا پر جناب امیر العظیم اور سوشل میڈیا پر ویمن ونگ سے آمنہ عثمان کے پوڈ کاسٹ سنیں، جماعتِ اسلامی کے فیس بک پیجز اور ٹویٹر ایکس ہینڈلز کو سکرول کریں تاکہ آپ جان سکیں کہ جماعتِ اسلامی دراصل آپ کی دنیا وآخرت کی فلاح کا مکمل پیکج رکھتی ہے۔ یہ حب الوطنی کے جس درجہ پر ہے،کوئی اور پارٹی نہیں ہے۔ جماعتِ اسلامی اتحاد_ امت کی داعی ہے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے مبرہ ہے۔امت مسلمہ کے زخم کبھی کشمیر و فلسطین ریلیوں کی صورت میں،کبھی پارلیمنٹ میں قراردادوں کے ذریعے سے،کبھی بیرون_ ملک کانفرنسوں میں اجاگر کرتی رہتی ہے۔جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرپشن فری پارٹی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور پلڈاٹ نے جماعتِ اسلامی کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو کارکردگی میں نمبر ون قرار دیا۔ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے سینیئر وزیر خزانہ نے قرضہ فری بجٹ بناکے اور اپنے وسائل سے صوبے میں ریکارڈ ترقی یافتہ کام کرواکے ورلڈ بنک کے ماہرین کو بھی حیران کیا ہے۔سود کے خلاف جماعتِ اسلامی نے کئی سال عدالت میں مقدمہ لڑا ہے۔پانامہ لیکس کے مقدمات میں جماعت اسلامی وطن کے محافظوں کی صورت کھڑی رہی ہے،چوروں کا محاسبہ کیا ہے۔جماعت قوم کے مفاد میں خدمتِ خلق کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔ عوام کے مسائل، مہنگائی، بجلی کے زائد بل، بیروزگاری،غربت،سرمایہ دارانہ نظام _ معیشت، سودی قرضوں اور آئی ایم ایف کے ناجائز مطالبات کے خلاف میدان میں ہوتی ہے۔حال ہی میں شروع کیا گیا ” بنو قابل ” پروگرام، نوجوانوں کو آئی ٹی،فری لانسنگ اور دیگر جدید مہارتوں کے ذریعے روشن مستقبل کا مژدہ سنارہا ہے۔ جماعتِ اسلامی میں پی ایچ ڈیز کی ایسی ہائی کلاس موجود ہے جو آنے والے ہر چیلنج کا سامنا کرنے کی حکمت عملی تیار کرسکتی ہے۔۔جماعت کا ویژن،پاکستان کے روشن مستقبل کا ویژن ہے۔جماعت_ اسلامی کا حصہ بنئیے۔اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں آپ سب کی منتظر ہے۔

 

~اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں،ہر سو خوشحالی لائیں گے
جس ارض_ وطن پہ ظلم نہ ہو،وہ پاکستان بنائیں گے!
(ان شائاللہ).

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92523

پیسہ: سب کچھ نہیں، لیکن بہت کچھ ہے۔ خاطرات : امیرجان حقانی

Posted on

پیسہ: سب کچھ نہیں، لیکن بہت کچھ ہے۔ خاطرات : امیرجان حقانی

 

دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر پیسے کے بارے میں سوچتا ہے۔ یہ سوچ بچپن سے شروع ہو کر بڑھاپے تک جاری رہتی ہے۔ پیسہ کمانے کی جدوجہد، اسے سنبھالنے کی فکر، اور اس کے بغیر زندگی کے چیلنجز سبھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پیسہ انسانی زندگی میں ایک اہم عنصر ہے۔

 

 

یہ بات آج سے 16 سال پہلے کراچی کے ایک انگلش لینگویج سینٹر میں ہونے والی ایک دلچسپ ڈیبیٹ میں بھی واضح ہوئی، جس کا موضوع تھا:
“Money is everything or not ? ”
اس بحث میں طلبہ و طالبات نے بھرپور حصہ لیا اور زیادہ تر کا موقف تھا کہ “پیسہ سب کچھ ہے۔” تاہم، میں نے اس کے برعکس دلائل دیے اور کہا کہ
“Money is not everything but something.”
آخر کار، ہماری میڈم نے میرے دلائل کو سراہا اور فیصلہ سنایا کہ “پیسہ سب کچھ نہیں، لیکن بہت کچھ ہے۔”

 

 

آج 14 سال بعد، عملی زندگی کے تجربات سے میری ساچ میں تھوڑی تبدیلی آئی، آج بھی میں یہی سمجھتا ہوں کہ پیسہ سب کچھ نہیں تاہم پیسہ انسان کی زندگی کے ہر مرحلے میں بہت اہم ہے۔زندگی کے ہر معاملے میں پیسہ کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ خوب ہوجاتا ہے، چاہے وہ تعلیم ہو، صحت، معاشرتی زندگی یا مذہبی فرائض۔ یہاں تک کہ خدا کا گھر یعنی مسجد بھی پیسہ کے بغیر ادھوری ہے۔

 

اسلام آفاقی اور انسانی فلاح کا دین ہے، اسلام نے پیسہ کی اہمیت کو کبھی نہیں جھٹلایا بلکہ اسے صحیح طریقے سے کمانے اور خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اللہ تمہیں اپنی بخشش سے زیادہ عطا فرمائے گا اور تمہیں اموال سے نوازے گا۔” (النساء: 32)

 

 

یہ آیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اللہ کی جانب سے دی گئی دولت ایک نعمت ہے، جسے صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے
اسی طرح، ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“وہ شخص خوش نصیب ہے جو اپنا پیسہ جائز طریقے سے کمائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔” (ترمذی)

یہ حدیث ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ پیسہ کمانا اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نیکی اور بھلائی کا ذریعہ ہے۔

 

جب ہم عملی زندگی میں پیسہ کی اہمیت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی شعبہ پیسہ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ تعلیم کے میدان میں بہترین اداروں میں داخلہ لینے کے لیے پیسہ درکار ہے۔ صحت کے شعبے میں بہترین علاج اور ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے پیسہ ہونا ضروری ہے۔

حتیٰ کہ دینی فرائض جیسے حج، زکات، اور صدقہ کے لیے بھی پیسہ درکار ہوتا ہے۔ حج کا فریضہ صرف ان لوگوں پر فرض ہے جو اس سفر کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اسی طرح زکات کا حکم بھی ان پر ہے جن کے پاس نصاب کے مطابق پیسہ ہو۔

 

سماجی زندگی میں پیسہ کا کردار بہت اہم ہے۔ آج کے دور میں، لوگ اکثر دوسرے لوگوں کی عزت اور مقام کا تعین ان کے مال و دولت کے مطابق کرتے ہیں۔ شینا زبان کی ایک معروف کہاوت ہے کہ “غریب مولوی کا فتویٰ بھی ناقابل قبول ہے۔” یہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرتی حیثیت بھی پیسہ کے بغیر کمزور ہو جاتی ہے۔

 

 

پیسہ سب کچھ نہیں ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیسہ زندگی کے بیشتر معاملات میں بہت کچھ ہے۔ بغیر پیسہ کے، زندگی کی گاڑی چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں پیسہ کو ایک نعمت سمجھنا چاہیے اور اسے صحیح مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

 

آج کے دور میں، جب لوگ عام محافل میں پیسہ اور دنیا پر لعن و طعن کرتے ہیں، وہی لوگ خلوتوں میں پیسہ ہی ڈسکس کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیسہ کی قدر ہر کوئی جانتا ہے، اور جب پیسہ نہیں ہوتا، تب اس کی اہمیت اور زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے، ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پیسہ نہ تو سب کچھ ہے اور نہ ہی کچھ بھی نہیں، بلکہ یہ زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے لیے ناگزیر ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92507

غ زہ کا جہاد فرض کفایہ ہے ح ماس فتح یاب ہے – مشرقی اُفق: تحریر۔ میر افسر امان

بسم اللہ الرحمان الرحیم

غ زہ کا جہاد فرض کفایہ ہے ح ماس فتح یاب ہے – مشرقی اُفق: تحریر۔ میر افسر امان

فلس طینی غ زہ میں یہودیوں سے لڑ کر جہاد کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ قرآن کی آیات کا مفہوم ہے کہ جس مسلم بستی پر ظالموں نے ظلم ڈھایا۔ اُس بستی کے لوگ اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے لیے کوئی مدد گار بھیج دے۔ اللہ تعالیٰ نے حماس کو فلسطینیوں کے لیے مدد گار بنا دیا۔ یہود غزہ کی شہری آبادی پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہے۔ پڑوسی عرب ملکوں کا کاکام ہے کہ وہ غزہ کے مظلوموں ں کی مدد کرتے۔ ویسے بھی پڑوسی ملکوں کے کچھ علاقوں پر اسرائیل نے پہلے سے قبضہ کیا ہوا۔ اس وقت ان کے لیے سنہری موقعہ تھا کہ وہ غ زہ میں حماس کی مدد کرتے اس سے ان کے علاقے واپس ملنے کے کوئی سبیل بھی بن جاتی۔ مگر وہ اسرائیل ڈر ے ہوئے ہیں۔ فلس طینیوں کی مدد کیا کرتے الٹا اس رائیل کی مدد کر رہے ہیں۔یمنی انصاراللہ نے فلس طینیوں کے مدد کے لیے اسرائیل پر میزائیل داغے تو، اُردن اور سعودی عرب نے اپنے فضاؤں میں ان میزائلوں کو گہرایا۔ان کو آگے اسرائیل تک نہیں پہنچنے دیا۔ یمنی انصاراللہ نے فلس طینی مسلمان بھائیوں کی مدد کی۔ اپنے سمندری حدود میں درجنوں اس رائیل،امریکی اور برطانوی بحری جہاوزں کو تباہ کیا اور اسرائیل کی طرف جانے نہیں دیا۔ اس پر اسرائیل۔ امریکا اور برطانیہ یمن پر مسلسل بباری کر رہا ہے۔ مگر یمنی انصار اللہ ڈٹے ہوئے ہیں۔عرب اور عجم مسلمان حکمران بلوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ صرف ایران کی پراکسی یمنی انصاراللہ اور لبنانی حزاب اللہ فلس طینیوں کی مدد کے لے میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔

 

اس رائیل فلس طینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔فلس طینی عرب اور مسلمان ملکوں سے مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی ستاون (57) حکومتوں کے حکمرانوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ وہ اتنے بزدل بنے ہوئے ہیں کہ امریکا کے خوف سے نڈھال ہو رہے ہیں۔ کسی بھی مسلمان ملک نے غزہ کے مظلوموں کی فوجی مدد نہیں کی۔ انسانی طور پر بھی غزہ کی مالی مدد نہیں کر رہی ہیں۔ مسلمان ملکوں کی رفاہی امدادی تنظیمیں اپنے اپنے طور پر غزہ کے مظلوموں کی مدد کر رہی ہیں۔ جبکہ فلس طینیوں کی نسل کشی کی اس جنگ میں پوری دنیا کی عیسائی حکومتیں یہودیوں کی فوجی مدد کر رہی ہیں۔ یہودیوں کو جدید اسلحہ فراہم کر رہی ہیں۔ بھارت تیس ہزار(30) کرایہ کے فوجیوں کی افرادی قوت سے اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ اس رائیل میں قادیانی بھی اس رائیل فوج میں شامل ہیں، جو فلس طینی مسلمانوں کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ یورپ کے متعصب یہودی بھی اسرائیل کی فوج میں شامل ہیں۔ یورپ اور امریکہ سے کرایہ کے فوجی اسرائیل میں لڑے رہے ہیں۔ اس تحریر تک اسرائیل نے فلس طینیوں کی خود کشی کرتے ہوئے لاکھوں فلس طینیوں کو شہید و زخمی کر دیا ہے۔ فلس طینیوں کی نسل کشی کرنے پر جنوبی افریقہ نے ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ درج کیا۔ عدالت کے سارے معزز ججوں نے اسرائیل کو قصورار ٹھرایا۔ اس پر پابندی کے لیے اقوام متحدہ کو کہا۔ اسرائیل کے دہشت گرد وزیر اعظم نیتن یاہوکو گرفتار کرنے کا آڈر جاری کیا۔ اس پروسس میں کوئی بھی اسلامی ملک شامل نہیں ہوا۔ یہ اس صدی کے ایک عجیب واقعہ ہے کہ غیر مسلم ملک جنوبی افریقہ فلسطین کی مدد کررہا ہے اور ستاون (57) اسلامی ملک بکری بنے چھپے ہوئے ہیں۔

مغربی ملکوں اور امریکہ کے عوام لاکھوں کی تعداد میں اس رائیل کے مظالم اور نسل کشی خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی اپنی حکومتوں کو اس رائیل کی فوجی اور مالی مدد سے منع کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسلامی ملکوں کے عوام بھی فلس طینیوں کی حمایت میں اپنے اپنے ملکوں میں مظاہرے کرکے اپنے حکمرانوں کی غیرت یاد کر را رہے ہیں۔آزادتجزیہ کار لکھتے ہیں کہ یہودی ح ماس کے مجاہدین سے تو لڑ نہیں سکتے۔ کیونکہ فلس طینی مارنے مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ مرنے کو شہادت سمجھتے ہیں۔ یہودیوں کو اپنی زندگی سے بہت پیار ہے۔ وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور دنیا کی رنگینیوں سے فاہدے اُٹھانا چاہتے ہیں۔یہی بات چند دن پہلے اسرائیل وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی دورے کے درمیان امریکی صدر سے ملاقات کے بعد میڈیا میں کہی تھی۔ اس سے قرآن کی یہ بات کہ یہود اگر اللہ کے پیارے ہیں تو ان سے کہو اللہ سے ملاقات کے لیے موت کو ترجی دیں۔ مگر ان میں ہر کوئی ہزار ہزار سال زندہ رے کی تمنا لیے ہوئے بیٹھا ہے۔

اس رائیل یہودی غ زہ کی نہتی شہری آبادی پر اقوام متحدہ کے طے شدہ جنگ کے اصولوں کے خلاف ۷/
اکتوبر 2023ء سے مسلسل دس ماہ(10)سے بماری کر رہا ہے۔ یہ فساد بھی اللہ کے دھتکارے ہوئے یہودیوں کے حصے میں آیا ہے۔ اسرائیل حکومت نے دہشت گردی میں اپنا نام ”بک آف گینرز“ میں لکھوا لیا ہے۔ اسرائیل عام شہریوں کوشہید اور زخمی کر کے حماس پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے

طور پر استعمال کر رہا ہے۔ تاکہ ح ماس یہودی قیدیوں کو رہا کر دے۔ یہودی غ زہ کی آبادی کو شہید، زخمی اور بھوک میں مبتلا کر کے حماس کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہا ہے۔ مگر حماس اللہ کے بروسے پر اکیلا ہی اس رائیل سے لڑ رہا ہے۔ حماس اللہ بتائے ہوئے جہاد کے طریقے سے یہود سے لڑ رہا ہے۔ لہٰذا اُس کی فتح یقینی ہے۔ ان شاء اللہ۔ افغانوں نے بھی اللہ کے نام پر جہاد کیا تھا اور کامیاب ہوئے تھے،۔اسی طرح اللہ فلسطین کو بھی ضرور کامیاب کریگا۔ دنیا منہ تکتی رہ جائے گی۔

 

اس رائیل غ زہ کے مظلوموں کے لیے باہر سے کوئی امدار نہیں آنے دے رہا۔ پانی بند کر دیا ہے۔ فلس طینی گھاس کھا کر گزرا کر رہے ہیں۔ زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔بیماریوں نے اُنہیں پریشان کر رکھا ہے۔ زخمیوں کے علاج کا کوئی انتظام نہیں۔ سارے ہسپتالوں کو یہود نے بماری کر کے ملیا میٹ کر دیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر پچاس ساٹھ فلس طینی شہید وزخمی ہو رہے ہیں۔ قبرستانوں میں شہیدوں کے لیے جگہیں نہیں مل رہیں۔ ایک ہی جگہ کھود کر اجتماہی طورپر لاشوں کو دفنایا جار رہے ہیں۔یہود ی فوجی لاؤڈ

اسپیکروں پر اعلان کرتے ہیں کہ اس مہاجر کیمپ کو خالی کر دو اور فلاں جگہ چلے جاؤ۔اس کیمپ پر اتنے وقت کے بعدبمباری کی جائے گی۔ جس مہاجر کیمپ سے مہاجرین دوسری جگہ جاتے ہیں۔ ان کے پہنچتے ہی وہاں اُن پربمبار ی کر دی جاتی ہے۔ دنیا کے حکمران یہود کے یہ جنگی کرتوت دیکھ کر خاموش ہیں۔ کیا وہ اللہ کے عزاب کو دعوت نہیں دے رہے؟ لوگ تباہ شدہ عمارتیں کے نیچے دبے ہو ئے ہیں۔ اُ ن کی آوازیں باہر آرہی ہیں کہ ہمیں نکالو۔ مگر اُن پرسے ملبہ ہٹانے کے لیے فلس طینیوں کے پا س مشینری نہیں کہ ان کوملبے سے نکالا جائے۔ اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں پر بھی بمباری کر کے اُنہیں روکا جاتا ہے۔ ہزاروں امدادی ٹرک مصر میں رفح کراسنگ پر کھڑے ہیں۔ اس رائیلی اُنہیں غزہ میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ میڈیا میں وڈیوز آئی ہیں کہ اُردن کے راستے امدادی ٹرکوں کے سامنے متعصب یہودی کھڑے ہو گئے ہیں۔ امدادی ٹرکوں کو آگے نہیں جانے دے رہے۔ساری دنیا میڈیا میں فلس طینیوں پر مظالم کو دیکھ رہی ہے کہ وہ کھانے کے برتن لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔کھانا مانگ رہے ہیں۔ کبھی کھانا مل جاتا ہے۔ کبھی کھانا ختم ہوجاتا ہے، تو وہ خالی برتن لے کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

 

اقوام متحدہ نے رپورٹیں جاری کیں ہیں۔ اس رائیل نے غزہ کی جھوٹی سے بستی پر نوے (90)لاکھ ٹن سے زیادہ بارود گرا چکا ہے۔ غزہ کی اسی (80)فی صد ر عمارتیں، جن میں حکومتی، امداری اداروں کی عمارتیں، اقوام متحدہ کی عمارتیں اور دیگر شامل ہیں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک امدادی ادارے نے رپورٹ جاری کی۔غزہ میں تباہ شدہ ملبے کو اُٹھانے کے لیے بیس(20) سال لگیں گے۔ اس کے لیے سو ٹرک روزانہ کی بنیاد کر کام کرنے کی لیے چاہییں۔اس پر لاکھوں ڈالر خرچ آئیں گے۔

 

1948 سے دنیا سے یہودیوں کو فلس طین آنے کے لیے یورپ، امریکا اور سویٹ یونین نے مدد کی تھی۔یہودیوں فلس طین آکر اس کے اصل باشندوں کو دہشت گردی سے ان کے گھروں سے نکال دیا۔ انہیں در بدر کر دیا۔ ان کے مہاجر کیمپوں، صابرہ اور شیتلہ پر بماری کر کے مہاجروں کو موت کی نید سلا دیا۔ فلسطینی ساری دنیا میں تتر بتر ہو گئے۔کچھ فلس طینی سمٹ کر ویسٹ بنک، جس کے صدر محمود عباس ہیں اور کچھ غ زہ کی پٹی جس کے وزیر اعظم شہید اسماعیل ہ نیہ تھے میں رہ گئے۔ فلس طینیوں کو شیخ احمد یاسین اور عزیزالاقسام نے اسلام کی بنیاد پر جہاد کے لیے تیار کیا۔ غ زہ کو بھی اسرائیل نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ حم اس نے غ زہ میں سرنگوں کے جال بچھا دیے۔ وہیں سے نکل کر اس رائیل پر طوفان اقصیٰ کے نام سے حملہ کر دیا۔ ہزاروں کو قتل اور دوسو پچاس(250) کو قیدی بنا لیا۔ دس ماہ(10) سے اس رائیل غزہ پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ غ زہ میں گوریلا جنگ جاری ہے۔ حماس بھی روزانہ کی بنیاد پر تیس چالیس یہودی حملہ ٓاوروں کو ہلک و زخمی کر رہا ہے۔ اس کے مرکاوا ٹینگ اور فوجی گاڑیاں یاسین نامی میزائیل سے تباہ کر رہے ہیں۔ کئی ڈرون ہپاچی ہیلی کاپٹرز تباہ کیے۔تل ابیب اور غلاف غزہ پر راکٹوں کی بارش کرتا رہتا ہے۔ ہزاروں حملہ آور یہودی فوجیوں کو غزہ میں جہنم واصل کر چکا ہو اور کر رہا ہے۔بڑی فوجی طاقت ہونے امریکا و یورپ کے مدد کے باوجود اس رائیل آج تک اپنے قیدی نہیں چھڑا سکا۔حماس نے اللہ کی مدد سے اسرائیل کے فوجی غرور، ڈوم سیکورٹی کو ناکارا کر کے زمین، سمندر اور فضائی راستے استعمال کر تے ہوئے طوفان اقصیٰ برپاہ کیا۔

 

قارئین! ح ماس نے اپنی جانی قربانیاں دے یہود کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ اسی بنیاد پر اس رائیل کے ایک سابق میجر نے میڈیا میں پیش گوئی کی ہے کہ ایک سال میں اس رائیل دنیا سے ختم ہو جائے گا۔ قرآن کے مطابق یہود کے پہلے دو دفعہ انبیائےِ زمین فلس طین میں فساد پھیلانے پر اللہ نے سزا دی تھی۔یہود نے اب تیسری بار فلس طین میں فساد پرپا کیا ہے۔یہود نے اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے تیسری سزا کا مستحق بنا لیا ہے۔ اللہ کی طرف سے جلداسے سزا ملنی ہے۔ فلس طین نے آزادا ہونا ہے۔ ساری دنیا نے اس رائیل کی فوجی مدد کی ہے۔ مگر اللہ کے حکم اور جہاد کی برکت سے حم اس نے اس رائیل کو شکست فاش دی ہے۔جسے وہ چھپائے ہوئے ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
92504

بزمِ درویش ۔ خاک پنجاب از دم و زندہ گشت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ خاک پنجاب از دم و زندہ گشت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

 

میں نے اپنا موبائل فون کھولا تو بلو چستان کے دور افتادہ علاقے بارڈر کے پاس سے کریم نظامی کا فون مسلسل آرہا تھا میں نے فون آن کیا تو نظامی صاحب کے مٹھاس بھرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سماعت کو صوفیانہ چاشنی کا احساس بخشنے لگے صوفیانہ مٹھاس میں بولے پروفیسر صاحب دو تین دن سے مسلسل آ پ کو کال کر رہا ہوں آج فون لگا تو میں مسکر ا کر بولا نظامی صاحب آپ کے فون سے پتہ چل گیا صفر کا مہینہ اور سید علی ہجویری کا سالانہ عرس مبارک ہے تو نظامی صاحب نے مزید سماعتوں میں رس گھو لا آپ بجا فرما رہے ہیں شہنشاہ ولایت اولیا اللہ کے سردار سید علی ہجویری کا سالانہ عرس مبارک آگیا ہے اس سلسلے میں چند دن تک لاہور آرہا ہوں آپ کے خشک میوہ جات بھی لیتا آؤں گا اور بلوچستان سے کسی چیز کی ضرورت ہے تو ضرور حکم فرمائیں مجھے خوشی ہو گی آپ سے ملاقات بہت ضروری ہے میرا بیٹا آپ کی نئی کتاب کرشمہ نام کا ذکر کر رہا تھا جس کا اس کو اور مجھے بہت انتظار تھا آپ سے کتاب لینے حاضر ہوں گا پھر بہت ساری مٹھاس بھری باتیں کرنے کے بعد کریم نظامی صاحب کا فون بند ہو گیا

 

 

نظامی صاحب سے میری پہلی ملاقات چند سال پہلے ہوئی جب وہ اِسی طرح سید علی ہجویر ی کے سالانہ عرس مبارک پر لاہور تشریف لائے تھے ملاقات میں جب انہوں نے بتایا کہ وہ سید علی ہجویری کے بہت ماننے والے ہیں ان کے والد صاحب اور دادا جان پچھلے کئی سالوں سے سید علی ہجویری اور بابا فرید گنج شکر کے سالانہ عرسوں پر تواتر سے آرہے ہیں کریم صاحب کا خاندان صدیوں سے سلسلہ چشت میں حضرت نظام الدین اولیا کے خلیفہ سے بیعت ہے جب وہ روحانیت اور سلسلہ چشت کے ساتھ اپنی عقیدت اور وابستگی کا اظہار کر رہے تھے تو میں حیرت سے سن رہا تھا کہ پاکستان کے دو ر دراز علاقوں میں جہاں پر آج بھی جہالت کے سائے منڈلاتے ہیں کس طرح لوگ اولیا اللہ سے عقیدت وابستگی رکھتے ہیں میں نے جب اپنی حیرانی کا اظہار پہلی ملاقات میں کریم نظامی صاحب سے کیا تو پر جوش لہجے میں بولے میں ایک اسلامی مدرسے کو چلاتا ہوں ہمارے علاقے میں زیادہ تعداد روحانیت کے منکرین کی ہے لیکن پھر بھی وہاں پر اولیا اللہ اور سید علی ہجویری کے چاہنے والے عقیدت مند موجود ہیں

 

کریم نظامی صاحب جب بھی آتے اپنے چند دوستوں یا مریدوں کے ساتھ آتے اسطرح یہ چھوٹا سا قافلہ شوق ہر سال بعد علی ہجویری کے سالانہ عرس میں ہزاروں میل دور سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آتا ہے جس طرح کریم نظامی بلوچستان کے دور دراز علاقے سے سید علی ہجویری کو سلام کرنے آتے ہیں اسی طرح پاکستان سے بلکہ دنیا بھر سے سید علی ہجویری کے دیوانوں کا سیلاب عرس مبارک کے وقت مزار پر انوار پر غلاموں کی طرح حاضر ہو کر اپنی عقیدت و محبت کا گہرا اظہار کرتا ہے سید علی ہجویری کی پیدائش 400ھ غزنی افغانستان میں ہوئی آپ کا سلسلہ نسب براہ راست حضرت امام حسین سے ملتا ہے سلطان محمود غزنوی کے دور حکومت میں اپنے مرشد ابوالفضل ختلی کے حکم پر 431ھ میں لاہور تشریف لائے تبلیغ اسلام کے لیے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا لوگ عقیدت سے سرشار آپ کو داتا گنج بخش کہا کرتے تھے لیکن آپ عاجزی سے ہمیشہ فرمایا کرتے داتا تو صرف ایک ہی ذات ہے اللہ۔ لاہور شہر میں تشریف لا کر آپ نے تبلیغ اسلام کا کام زور شور سے شروع کر دیا جہالت بت پرستی میں غرق انسانوں کو صراط مستقیم کی دعوت شروع کر دی

 

آپ نے تصوف کے موضوع پر تاریخ تصوف کی عظیم ترین کتاب کشف المحجوب لکھی جس سے لاکھوں متلاشیان حق نور معرفت حاصل کر کے اپنے باطن کو نور کے اجالوں سے روشن کر چکے ہیں حق تعالی نے سید علی ہجویری کو وہ لازوال شہرت عطا کی کہ بعد میں آنے والے ہر دور کے سالکین نے آپ کی کتاب اور مزار پر انوار پر چلہ کشی کی۔آپ کے ڈیڑھ سو سال بعد تاریخ ہندوستان کے عظیم بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری بھی چلہ کشی کی نیت سے آکر چلہ کش ہو ئے پھر اپنا دامن معرفت کے نور سے بھر کر واپس جاتے ہوئے مشہور شعر کہا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما

جس کو نور معرفت کی تلاش ہو مرشد نہ ملتا ہو وہ یہاں آکر اپنا دامن نور معرفت سے بھر لے
آپ اپنے بارے میں اپنی کتاب کشف الاسرار میں فرماتے ہیں اے علی تجھے لوگ داتا کہہ کر پکارتے ہیں اور تو اپنے پاس ایک دانا بھی نہیں رکھتا اِس بات کا اپنے دل میں خیال تک نہ لا کیونکہ خزانے دینے والی ذات تو صرف خدا کی ہے اور تم اس کے عاجز بندے ہو اس کے ساتھ شرک نہ کر بیٹھنا ورنہ دونوں جہاں برباد ہو جائیں گے یہ خیالات ایک عاجز درویش کے تھے جس کو دنیا داتا صاحب کے نام سے پکارتی ہے روحانیت تصوف کے منکرین آجکل اولیا اللہ پر بہت زیادہ تنقید کے گولے بر سارہے ہیں یہ بیچارے نہیں جانتے کہ جو لازوال شہرت عزت آسمان کے مالک نے سید علی ہجویری کو دی ہے یہ بڑے بڑے سلطانوں کو نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ہزار سال ہونے والا ہے سید علی ہجویری کی شہرت کا سورج ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے زیادہ روشن ہو تا جارہا ہے منکرین روحانیت کیڑے مکوڑوں کی طرح گردش ایام میں مسلے جائیں گے کوئی اِن کا نام لینے والا نہیں ہو گا لیکن صدیوں کی الٹ پلٹ وقت کی آندھی سید علی ہجویری کی شہرت کے چراغ کو کبھی نہیں بجھا پائے گی کیونکہ یہ شہرت اللہ تعالی نے سید علی ہجویری کو عطا کی ہے ایک سے بڑھ کر ایک بادشاہ حکمران کرہ ارضی پر اپنے مختصر وقت کے لیے آیا پھر وقت کے اندھے غار میں گم ہو گیا لیکن سید علی ہجویری کی شہرت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے آپ کے دیوانوں کی تعداد ہر گزرتے دن بڑھتی جا رہی ہے دنیا بھر سے آپ کے دیوانے ہر سال آپ کے مزار پر اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتے ہیں شاعر مشرق نے کیا خوب کہا تھا۔

خاک پنجاب از دم و زندہ گشت
پنجاب کی زمین اس کے دم سے زندہ ہو گئی

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92502