Chitral Times

دنیا ہماری انگلیوں پر – میری بات/روہیل اکبر

Posted on

دنیا ہماری انگلیوں پر – میری بات/روہیل اکبر

دنیا میں ترقی اتنی تیزی سے ہو رہی جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہے اس وقت آرٹیفیشل انٹیلیجنس اپنے عروج پر ہے دنیا کی ترقی تو ایک طرف ہمیں تو اپنے موبائل کیمرے کا بھی فنکشن نہیں آتالیکن ہمیں یہ ضرور بتا دیا گیا ہے کہ یہ بھی غدار ہے وہ بھی غدار ہے اگر ان غداروں کی لسٹ پر ایک نظر ماریں تو ہمارے آج تک کے سبھی حکمران اسی لسٹ میں نظر آتے ہیں یہاں تک کہ پاکستان بنانے والے قائد اعظم اور انکی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا گیا اور تو اور اس وقت جو صدر پاکستان اور وزیراعظم ہیں یہ بھی ایک وقت میں انہی القابات سے یاد کیے جاتے تھے اسکے علاوہ جو جو انہیں کہا گیا وہ ناقابل بیان ہے اور تو اور جنہوں نے پاکستان کو دنیابھر کے اسلامی ممالک میں پہلا ایٹمی ملک بنایاان پر بھی غداری کے الزامات لگائے یہ الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا جعلی اور بے بنیاد باتوں کی طرف لگائی جائے یہ لوگ ایسا کرتے ہیں؟وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ عوام کی توجہ انکی لوٹ مار سے ہٹی رہے وہ آپس میں اپنی اپنی پسند کے لیڈروں کے حق میں اور مخالفوں کے خلاف سارا دن فضول قسم کی بحث کرتے رہیں اور وہ ملکی دولت سمیٹتے رہیں

 

اس سے ہٹ کر کہ کہیں عوام کو عقل وشعور نہ آجائے تو اس کے لیے وہ عوام کو نان نفقہ کا محتاج رکھا جاتا ہے جس میں فی الحال وہ ابھی تک تو کامیاب ہیں اور یہ غلامی کی ایک شکل بھی ہے بلکہ ایک طرح سے ہم سب قید میں ہیں آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہمارے ہاں تو جمہوری حکومت ہے جو عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور دن رات خدمت کرتے ہیں کیا کبھی کسی نے سوچا کہ عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا؟عوام کی زندگی کیوں نہیں بدلتی؟کیونکہ غلام کے اتنے ہی حقوق ہوتے ہیں جتنے ہمیں مل رہے ہیں اس سے زیادہ سہولتیں آزاد قوموں کیلئے ہوتی ہیں آپ محنت کرکے اپنا رہن سہن بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر آپ کو پچھلی پوزیشن پر پہنچا دیتے ہیں آپ مزید محنت کرتے ہیں وہ مزید ٹیکس لگاتے ہیں آپ کو وہ مصیبتوں سے نکلنے نہیں دیتے بلکہ آئے روز مزید پریشانیاں آپ کی منتظر ہوتی ہیں ان سب نکات کو آپ کسی سیاسی جماعت کا سپورٹر بن کر نہیں بلکہ ایک پاکستانی بن کرسوچیں!آپ کو سب کچھ واضع نظر آئے گایہاں تک کہ غلامی کا وہ طوق بھی جوہمارے گلے میں ہے مگر آپ کو نظر نہیں آتا بلکل ایسے ہی جیسے ہمیں ریموٹ کنٹرول کی لائٹ نظر نہیں آتی لیکن اگر آپ اپنے موبائل کا کیمرہ آن کرکے اسکے سامنے ریموٹ کنٹرول کا کوئی بھی بٹن دبائیں تو پھر آپ کو اسکی لائٹ جلتی ہوئی نظر آئے گی بلکل اسی طرح ہمیں اگر اپنے گلے میں ڈالا گیا طوق دیکھنا ہے تو پھر ہمیں اسی حساب سے علم بھی حاصل کرنا پڑے گا جس سے ہم ابھی میلوں دور ہیں اسکے لیے ہمیں باشعور ہونا پڑے گا میں نے ابھی کیمرے اور ریموٹ کا ذکر کیا ہے

 

ہم سے بہت سے لوگ کیمرے کی سسٹم کو صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ تصویر بنا لی یا ویڈیو اس سے ہٹ کر ہمیں کچھ معلوم نہیں اسکے صرف 5موٹے موٹے فنکشن میں بتا دیتا ہوں جو ہماری زندگیوں میں بہت نہیں تو کم از کم تھوڑی سے تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں آپ انہیں پلے سٹور سے اپنے سمارٹ فون پر انسٹال کرسکتے ہیں گوگل ٹراسلیٹ آپ اسے انسٹال کریں زبان کی سیٹنگ کریں اسکے اندر کیمرہ کے نشان کو کلک کریں پھر اس کیمرہ کو گھر میں کہیں بھی لکھی ہوئی انگریزی یا اردو پر لے جائیں وہ آپکوایک سیکنڈ میں ہی اردو یا انگلش میں ترجمہ کرکے دکھا دے گا۔فوٹو میتھ اسے انسٹال کریں کاغذ پر پن سے ریاضی کا کوئی بھی مشکل یا آسان سوال لکھیں کیمرہ اس لائین کے اوپر لے جائیں یہ اسے فوکس اور سکین کرکے آپ کو سیکنڈوں میں جواب دکھا دے گا۔ IP Webcam اس ایپ کی مدد سے آپ اپنے موبائل کو خفیہ یا سیکورٹی کیمرہ میں تبدیل کرسکتے ہیں اس ایپ کو اوپن کریں اسکے اندر سے ایپ کا آئی پی ایڈریس نوٹ کریں اس آئی پی ایڈریس کو اپنے کمپیوٹر یا دوسرے موبائل کے براؤزرز میں ڈالیں اب جو مناظر آپ کا پہلا کیمرہ دکھائے گا وہی آپ کا ڈسک ٹاپ یا دوسرا موبائل دکھائے گا۔ CrookCatcher – Anti Theft یہ سب سے زبردست ایپ ہے اگر آپ کا موبائل کہیں گم یا چوری ہوجائے اور چور جب اسے یوز کرنے کے لیئے موبائل کا سیکورٹی پن یا پیٹرن غلط لگائے گا تو یہ سافٹ وئیر اپنا کام شروع کردے گا

 

یہ موبائل کے فرنٹ کیمرے سے اس چور کی تصویر بنالے گا پھر اس تصویر اور لوکیشن کو آپ کے دیئے گئے ای میل ایڈریس پر بھیج دے گا۔ CamScanner – Phone PDF Creator اس ایپ کی مدد سے آپ اپنی لائیبریری میں موجود کسی بھی چھوٹی یا بڑی کتاب کو منٹوں میں پی ڈی ایف فارمٹ میں تبدیل کرسکتے ہو اس ایپ کی مدد سے کیمرہ آن کریں جس صفحہ کو تبدیل کرنا ہے اسے فوکس کرکے تصویر لیں اور پی ڈٰ ایف میں بدل لیں ان پانچ فنکشنزکی ہمیں ہر وقت ضرورت رہتی ہے لیکن ہمیں علم ہی نہیں اور بعض اوقات انہی چیزوں کے لیے ہمیں کسی آئی ٹی ماہر کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس مفت کے کام کے پیسے دینے پڑتے ہیں اور آگے سے وہ بندہ بھی ہمیں نہیں سمجھاتا کہ بھائی یہ کام آپ خود بھی کرسکتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی علم بانٹنے کے معاملہ میں کنجوس ہے اگر ہم نے ترقی کرنی ہے اور غلامی سے باہر آنا ہے تو پھر ہمیں جدید تعلیم کی طرف آنا ہوگا ابتدائی کلاسوں سے ہی آئی ٹی کا کام شروع ہوجانا چاہیے

 

اس کے لیے ہمیں الگ سے آ ئی ٹی پارک بنانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی بلکہ آنے والے دور میں ہر گھر ہی آئی ٹی پارک ہوگا اگر ہم نے اس نئی ٹیکنالوجی کو رائج کردیا لیکن یہاں تو کوئی سننے کو تیار ہی نہیں اور نہ ہی کوئی اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور تو اور ہم اپنے جمہوری حکمرانوں سے پوچھ بھی نہیں سکتے کہ صبح سے لیکر شام تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور غدار ثابت کرنے کی بجائے ہمیں ترقی اور خوشحالی کے راستہ پر گامزن کیوں نہیں کیا جاتا اسکی مثال کچھ یوں بنتی ہے جو عربی کی مشہور ضرب المثل ہے جوہا لوگوں کے لیے مبلغ بننا چاہتا تھا اس لیے وہ روزانہ منبر پر جاتا تھااور کہتا کہ اے لوگو ں کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہیں کیا بتانے والا ہوں انہوں نے کہا نہیں؟

 

جوہا نے کہا چونکہ تم نہیں جانتے اس لیے جاہلوں کو تبلیغ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور منبر سے نیچے اترگیاپھر وہ دوسرے دن منبر پر گیا اور کہا اے لوگوں کیا تم جانتے ہو؟ میں آپ کو کیا بتاؤں گا تو سامنے سے جواب آیا ہاں جس پرجوہا نے کہا چونکہ آپ جانتے ہیں اس لیے دوبارہ دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں اور منبر سے نیچے اترآیا جسکے بعد لوگوں نے اتفاق کیا کہ اب ان میں سے ایک گروہ ہاں کہے گااورایک گروہ نہیں کہے گاجب جوہا دوبارہ منبر پر بیٹھا اور کہا اے لوگوں کیا تم جانتے ہو؟میں تمہیں کیا بتاؤں گا؟ان میں سے بعض نے کہا ہاں اور بعض نے کہا نہیں جس پرجوہا نے کہا پھر جو جانتے ہیں وہ ان کو سکھائیں و نہیں جانتے اور منبر سے نیچے اترگیا بلکل اسی طرح ہمیں ہمارے حکمران بھی کچھ سکھانے کی بجائے چکر دینے میں ہی مصروف ہیں ورنہ تو موبائل فون میں ہی اتنے فنکشن ہیں کہ دنیا ہماری انگلیوں پر ناچ سکتی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96207

معذور لیکن کارگرافراد- ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معذور لیکن کارگرافراد

International Day of Disabled Persons

(3دسمبر خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

اللہ تعالی نے کوئی چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔اس کائنات میں ایک ذرے سے لے کر،پودے پتے،جھاڑ جھنکار اور ریت کے ذروں سے لے کر ہاڑ،چٹانیں،غاریں اور دریا اور سمندر تک بے شمار مخلوقات ہیں اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جو ان دریاؤں اور سمندروں کے اندر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں،اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جوپہاڑوں کے درمیان وادیوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں اور پتھروں کے اندر اور درختوں کی جڑوں سے چمٹے ہوئے اس دنیا میں موجود ہیں اور نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اور کس کس طرح کی مخلوقات جو ہنوزانسانی مشاہدے میں نہیں آسکیں اللہ تعالی کی خلاقی کا پتہ دیتی ہیں۔لیکن یہ سب قطعاََ بھی بے مقصد نہیں،اتفاقََانہیں اور نہ ہی الل ٹپ ہیں بلکہ اللہ تعالی نے یہ سب ایک نظام کے تحت،ایک منصوبے کے مطابق اور ایک منزل کے تعین کے ساتھ اوربامقصد تخلیق فرمایا ہے۔قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں واضع کیاہے کہ ”الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۳:۱۹۱)“ترجمہ:”جواٹھتے بیٹھتے اورلیٹے ہرحال میں اللہ تعالی کو یادکرتے ہیں اورزمین وآسمان کی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں (وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں)پروردگار!یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصد نہیں بنایا،توپاک ہے اس سے کہ کوئی عبث کام کرے،پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے“۔اسی طرح کی اور آیت میں یوں واردہوا کہ”وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ(۱۲:۶۱)“ترجمہ:”اورہم نے اس آسمان اورزمین کو اورجوکچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طورپر(بے مقصد)نہیں بنایاہے“۔ان ساری مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق حضرت انسان ہے جسے اللہ تعالی نے خود اشرف المخلوقات کہا ہے،اور اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے اور اپنی مقرب ترین مخلوق ”ملائکہ“سے اس انسان کو سجدہ کروایا ہے اور اس سجدے سے انکار کرنے والے کو راندہ درگاہ کیا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰہُمْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(۷۱:۰۷)“ترجمہ:”یہ توہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کوعزت اوربزرگی دی اورانہیں خشکی و تری میں سواریاں عطاکیں اوران کوپاکیزہ چیزوں سے رزق دیااوراپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی“۔گویا اب جو بھی حضرت آدم علیہ السلام کے قبیلے میں اورانکی نسل میں پیدا ہو گا وہ اللہ تعالی کے ہاں سے پیدائشی طور پر عزت والا بن کر آئے گا۔یہ انسان کے لیے بہت بڑا اعزازہے کہ اسے خالق کائنات نے اپنے ہاں سے عزت والا بنا کر بھیجا ہے۔

 

اسی انسان کے ہاں ایسے بچے بھی جنم لیتے ہیں جو بعض اوقات جسمانی یا ذہنی طور پر معذورہوتے ہیں،لیکن حضرت آدم کی نسل سے ہونے کے باعث وہ اللہ تعالی کے ہاں سے حق عزت واحترام ساتھ لے کر آئے ہیں اور انسانی معاشرے میں معزز و محترم ہیں کہ اس معاشرے کے خالق نے انہیں یہ حق عطاکیا ہے اور کوئی قانون،کوئی تہذیب،کوئی معاشرت،یا رویہ ان سے ان کا یہ حق چھین نہیں سکتا۔عربی زبان میں ”نفس“اسکو بھی کہتے ہیں جو سانس لے، چنانچہ قانون اسلام کے ماہرین،فقہائے کرام انسان کو اس وقت سے ”نفس“سمجھتے ہیں جب سے وہ ماں کے پیٹ میں سانس لینا شروع کر دیتاہے اور قرآن نے ”نفس“کے قتل کوناجائز قرار دیا ہے۔گویا اگر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی معذوری کی اطلاع ہو جائے تو بھی اسکا قتل ناجائز ہے معذوربچے قدرت نے بے مقصد پیدا نہیں کیے ہیں،انکی پیدائش کا کیا مقصد ہے؟یہ انسانی دماغ کا امتحان ہے کہ وہ ان بچوں کا بغور مشاہدہ کرے اور ان میں وہ جوہر قابل تلاش کرے جو قدرت نے ان میں چھپا رکھا ہے۔قدرت کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے کہ”مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلَ لَدَیَّ وَ مَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(۰۵:۹۲)“ترجمہ:”میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں“۔قدرت اگر کسی کوایک چیز سے محروم کرتی ہے تو اسکا بہترین نعم البدل بھی عطا کرتی ہے،چنانچہ عام مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ معذورافراد بعض اوقات بہت بلا والے حافظے کے مالک ہوتے ہیں،خاص طور پرنابینا افراد میں سے بعض کا حافظہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ دس سال بعد بھی صرف ہاتھ ملانے سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں کب ملے تھے وغیرہ۔اسی طرح ہاتھوں سے معذور افراد بعض اوقات پاؤں سے اسطرح کے کام کر لیتے ہیں اچھابھلاآدمی بھی ایسا نہ کر سکے۔

اس سب کے باوجود معذور افراد کو:

1۔حتی الامکان اعتماد نفسی دینا چاہیے اور ان میں سے اس احساس کو کم سے کم کرنا چاہیے کہ وہ معذور ہیں۔

2۔ان سے اس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے کہ جیسے وہ صحیح الاعضا والحواس ہیں۔

3۔ان کے کسی بھی کام میں معاونت سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ ان میں کسی قسم کا احساس کمتری پیدا نہ ہو،سوائے مجبوری کے۔

4۔ان کی معاشرتی تربیت معاشرتی ومذہبی اقدار کے بالکل عین مطابق ہو تاکہ ان میں ذہنی بالیدگی وقوع پزیر ہو سکے اور مسلسل ارتقا پزیر رہے۔

5۔معذور افراد کی اپنی مخصوص نفسیات ہوتی ہے،انکے قریبی رشتہ داروں کو اس نفسیات سے آگاہ رہنا چاہیے اور اس کے مطابق ان سے برتاؤ کرنا چاہیے۔

6۔معذور افراد جس بات سے خوش ہوتے ہوں،جس کھانے کو پسند کرتے ہوں،جس ماحول میں آسودگی محسوس کرتے ہوں اورجن افراد سے مطمئن رہتے ہوں،غیرمحسوس طور پر انہیں ان کے مزاج کے موافق ماحول فراہم کیاجاناچاہیے۔

7۔ناپسندیدگی اور چڑ جانے کارویہ اور بہت جلد غصہ اور بعض اوقات قابو سے باہر ہوجانا مخصوص افراد کی نفسیات ایک کمزور پہلو ہوتا ہے،اکثر لوگ مزے لینے کے لیے معذور افرادکو تنگ کرتے ہیں جس سے یہ افراداپنے ان منفی رویوں میں مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخریہ رویے اان معذورافراد کی پہچان بن جاتے ہیں۔اس طرح مخصوص افراد کو گویا انکی محرومیوں میں اندر تک مزیددھکیل دیا جاتا ہے،جس سے اصلاح احوال کی منزل کی بجائے بگاڑکا گڑھاقریب آلگتاہے۔

 

8۔علم نفسیات نے معذورافراد کو بہتر بنانے کے لیے کئی طریقے دریافت کیے ہیں،یہ طریقے سالہا سال کی طویل مشق کے بعد اور کئی کئی مخصوص افراد پر تجربوں کے بعد دریافت کیے گئے ہیں،ان طریقوں کا استعمال بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔

9۔فن طب میں بہت ساری دوائیاں بھی ان مقاصد کے لیے تیار کر رکھی ہیں،جو معذورافراد کو عام حالات میں یا کسی خاص حالات میں دینے سے انکوافاقہ ہوتا ہے۔

10۔بعض مخصوص افرادبس گوشت کا ایک لوتھ ہی ہوتے ہیں جو بہت بڑے ہو جانے کے باوجود بھی اپنی ضروریات تک سے آگاہ نہیں ہوپاتے،یہ اگرچہ معاشرے پر ایک مستقل بوجھ ہیں اور والدین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتے ہیں لیکن نہ جانے جس گھر میں یہ موجود ہوتے ہیں وہاں سے کون کون سی آفتیں محض انہی کی وجہ سے ٹل جاتی ہیں اور نہ جانے کن کن ان جانے اسباب سے محض انہی کی خاطرگھر والوں کے لیے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اللہ تعالی کے ہاں مایوسی کو کفر سے ملایا گیا ہے پس کبھی اور کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے،اور پھر کیا سب معاملات اسی دنیا میں ختم ہوجانے ہیں؟؟نہ معلوم ایک معذور بچے کی پرورش کے عوض اللہ تعالی کے ہاں کتنا ہی ڈھیرسارااجر لکھاجائے۔

 

یہ کام اگرچہ محنت طلب اور طویل دورانیے پر مبنی ہے،اور یقیناََ کامیابی کے امکانات بھی بعض اوقات بہت روشن نہیں ہوتے لیکن اس کے علاوہ اسکا حل ہی کیا ہے؟وہ بچہ جیسا کیسا بھی ہے بہرحال انسان کا بچہ ہے،ایک جانور بھی اپنے بچے کا کس قدر خیال کرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ اس طرح کے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی ایسے اسباق پڑھائیں جو زبانی یاد رکھے جانے کے قابل ہوں،انہیں ایسا کام سکھلا دیں کہ وہ کم از کم معاشی طور پر کسی کے کے محتاج نہ ہوں اورسب سے بڑی بات یہ کہ انکے ذہن میں مسلمان ہونے کا تصور ضرور ڈالیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے مخصوص افراد کے مشاہیر مقرر کرے جو انکی نگہداشت کرنے والوں کو ادا کیے جائیں تاکہ سرپرست افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔حکومت ایسے ادارے بھی بنائے جہاں ان بچوں کو کچھ دیر کے لیے یا زیادہ دیر کے لیے رکھاجاسکے تاکہ انکے ذمہ داران اپنی دیگر ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کر سکیں اور جن بچوں میں سمجھنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے حکومت ان کے لیے تعلیمی وتربیتی ادارے بھی قائم کرے تاکہ انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکے۔اور سرکاری سرپرستی میں تحقیق کے دروازے کھولے جائیں جس کے نتیجے میں معذور بچوں کی پیدائش کو کم سے کم کیاجاسکے اور عوام میں ان تحقیقی نتائج کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا جائے۔ اللہ تعالی نے جس طرح سلامت الاعضا والحواس انسانوں کو اپنی کتاب میں احکامات کے ذریعے براہ راست مخاطب کیاہے اسی اسلوب میں معذورافرادکو بھی قرآن مجیدنے براہ راست مخاطب کیاہے۔حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مدنی زندگی میں مسلمان جب بھی جہادکے لیے جاتے تواپنے گھروں کی چابیاں معذورافرادکو دے جاتے تاکہ وہ جب چاہیں دروازے کھول کر جوچاہیں کھا پی لیاکریں۔لیکن معذورافرادکو ہچکچاہٹ تھی یاشاید وہ اسے مناسب نہ سمجھتے ہوں،تب اللہ تعالی نے یہ

آیات نازل کیں:” لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ

بُیُوْتِکُمْ(۴۲:۱۶)“ترجمہ:”کوئی حرج نہیں اگرکوئی نابینایالنگڑایامریض تمہارے (یاکسی کے) گھرسے کھالے“۔سیرت النبی ﷺمیں معذورافراد کے لیے خصوصی رعایات کا تفصیلی ذکرملتاہے۔ایک غریب اور نابیناصحابی حضرت ابن ام مکتوم تھے،یہ آپﷺ کو بہت محبوب تھے۔پہلے یہ اصحاب صفہ کے درمیان رہتے تھے پھرانہیں ”دارالغذا“میں ٹہرادیاگیا۔جب حضرت بلال نہیں ہوتے تھے تویہ مسجدنبوی میں آذان دیاکرتے تھے خاص طورپر رمضان کے مہینے میں جب حضرت بلال سحری شروع کرنے کی پہلی آذان دے کرلوگوں کو بیدارکرنے کے لیے گلیوں کاچکرلگاتے تھے تب فجر کی آذان یہی نابیناصحابی ہی دیاکرتے تھے اورلوگ ان کی آذان سن کر کھانا پینا بندکردیتے تھے۔کئی مواقع پر جب آپﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تویہی نابیناصحابی مصلی نبوی پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی نمازمیں امامت کرتے تھے کیونکہ آپﷺ نے انہیں کام پر مامور کررکھاتھا۔ایک بارآپﷺمسلمانوں کے مجمعے سے مخاطب تھے کہ ایک نیم پاگل بوڑھی عورت نے باہرسے آپﷺ کو آواز دی،لوگوں نے عرض بھی کیاکہ یہ ذہنی معذوربڑھیاہے لیکن آپ ﷺکمال شفقت و مہربانی سے اس کے ساتھ چل دیے،وہ آپﷺ کو گلیوں میں گھماتی رہی اورآپ ﷺ گھومتے رہے،وہ کہتی یہاں بیٹھ جائیں آپﷺ وہیں تشریف رکھتے،وہ اپنی لمبی لمبی کہانیاں آپﷺ کو سناتی رہی اورآپﷺ پورے انہماک اوردلجمعی سے سنتے رہے۔حضرت عیسی علیہ لسلام کے معجزات تو معذورافرادسے ہی متعلق ہیں،نابیناکوبیناکردینا،کوڑھ کے مریض کو شفایاب کردیناوغیرہ۔دورخلافت راشدہ میں حضرت عمرنے معذوراوربزرگ افرادکے لیے وظائف کااعلان کررکھاتھااور جو معذوریابزرگ غیرمسلم ہوتے انہیں جزیہ بھی معاف کردیاجاتاتھا۔

 

ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی طرف حکومت،مخیرحضرات اور غیرسرکاری تنظیموں کی توجہ کی اشدضرورت ہے کہ وطن عزیزمیں بعض مقامات پر پورے کے پورے قبائل ہیں جو کئی نسلوں سے کسی خاص معذوری کا شکار چلے آ رہے ہیں لیکن غربت اور جہالت کے باعث وہ اسکے اسباب اوربچنے کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ان کا کھوج لگانا،ان پر طبی تحقیق کرنا،مستندنتائج حاصل کرنا اور پھر ان میں جو حکومت اور معاشرے کے کرنے کے کام ہیں وہ انکے ذمے لگانا اور جو متاثرہ خاندانوں کے کرنے کے کام ہیں اس سے انکو آگاہ کرنا ایک قابل قدر انسانی خدمت ہوگی اورآنے والی نسلوں کی حفاظت کی ضامن ہو گی۔والدین اور معاشرہ ایسے افراد کی پرورش اور نگہداشت کے ذمہ دار ہیں اور جہاں کہیں ضرورت پڑے وہاں ریاست بھی اپنے فرائض سرانجام دے گی لیکن ریاست اس معاملے صرف مالی و تکنیکی معاونت ہی فراہم کرسکتی ہے جبکہ اول و آخر ان افراد کی نگہداشت معاشرے اور والدین کو ہی سرانجام دینی ہے۔

 

سیکولرازم اورلبرل ازم نے گزشتہ کم و بیش تین سوسالوں سے قبیلہ بنی نوع آدم کی گردنوں پر اپنے خونین پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور اس تمام عرصے میں بے پناہ جنگیں،انقلابات،ریاستی کھنچاؤ اور غربت و جہالت نے جس طرح ننگاناچ ناچا ہے اس سے معذورافرادکی ایک نئی قسم نے جنم لیاہے جو کہ ”نام نہاداعلی تعلیم یافتہ ذہنی مفلوج“طبقہ ہے۔اب یہ طبقہ پوری دنیامیں پایاجاتاہے جنہیں اپناوطن،اپنی زبان،اپنی تہذیب و ثقافت اورمذہب کی بجائے دورکے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔خاص طورپر دوسری جنگ عظیم کے بعد سردجنگ کے زمانے نے اس معذوری میں مزیداضافہ کردیاہے۔یاسیت زدہ اس ذہنی معذورطبقہ کوان کے مغربی آقاؤں نے روشن خیال،ترقی پسند، جدت پسند اورآزادخیال جیسے نام دیے ہیں۔ لیکن ان کی فکر،ان کی سوچ،ان کی ذہنی بالیدگی اور ان کی خیال آرائیاں سب کچھ مغربی سیکولرتہذیب کے سامنے ہتھیارڈال کراب محتاج محض ہوکر معذورومفلوج ہو چکے ہیں۔انہیں اپنی قوم میں دنیاجہان کی برائیاں،خامیاں،کمزوریاں اورناہمواریاں نظرآتی ہیں اور چڑھتے سورج کے ان پجاریوں کو مغرب میں دودھ اورشہد کی نہریں بہتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔یہ ذہنی معذورطبقہ اب غلامی کی آخری باقایات کے طورپر موجودہے۔جیسے جیسےتعلیمات وحی قلوب انسانی میں جگہ پیداکر کے شعورومعرفت کی منزلیں سرکرتی چلی جارہی ہیں ویسے ہی یہ طبقہ اپنی موت آپ مرتاچلاجارہاہے اور بہت جلد ان ذہنی معذوروں سے نجات کے بعد آزادی کے دن قریب آ لگے ہیں،ان شااللہ تعالی۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96201

ڈرپوک پری ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

ڈرپوک پری ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کروشیا کے ایک پرانے، سنسان قلعے میں ایک عورت رہتی تھی جس کا نام “میریانا” تھا۔ میریانا نہایت حسین اور نرم دل تھی، لیکن ایک مسئلہ تھا—وہ ڈرپوک بھی اتنی تھی کہ اگر ہوا سے دروازہ بند ہو جاتا تو وہ اسے بھوت سمجھ کر چیخنے لگتی۔

ایک دن میریانا نے فیصلہ کیا کہ اب ڈرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا، “میں ایک آزاد عورت ہوں، اور میں کسی بھوت، سایہ یا کبوتر سے نہیں ڈروں گی۔” ہاں، کبوتروں سے بھی وہ اتنی ہی ڈرتی تھی جتنا کسی خوفناک چیز سے۔

 

nandini pari

اسی رات، قلعے میں عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ ہلکی ہوا چل رہی تھی، اور روشنی کی چند کرنیں دروازوں اور کھڑکیوں کے درمیان جھانک رہی تھیں۔ میریانا نے اپنے اندر کی بہادر عورت کو جگایا اور کہا، “بس بہت ہو گیا! آج میں دیکھوں گی کہ یہ شور کس کا ہے!”

وہ آہستہ آہستہ پرانی سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ ہر قدم کے ساتھ سیڑھیاں ایسے چرچراتیں جیسے وہ میریانا کا مذاق اڑا رہی ہوں۔ لیکن وہ ہمت کے ساتھ آگے بڑھی۔ جیسے ہی وہ نیچے پہنچی، ایک کبوتری اس کے سامنے سے پھڑپھڑاتی ہوئی اڑ گئی۔ میریانا نے ایک چیخ ماری اور پیچھے کی طرف چھلانگ لگا دی، لیکن خوش قسمتی سے زمین پر گرنے کے بجائے وہ ہوا میں تیرنے لگی!

“یہ کیا؟ میں اُڑ رہی ہوں؟” میریانا حیران رہ گئی۔ اصل میں قلعے کی روشنی کچھ اس طرح پڑ رہی تھی کہ وہ خود کو کسی جادوئی پری کی طرح محسوس کرنے لگی۔ لیکن پریشانی یہ تھی کہ اس کے پیر زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ وہ ہوا میں جھول رہی تھی، اور دور ایک اور کبوتر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے “گٹر گوں” کر رہا تھا۔

میریانا نے خود سے کہا، “اب بہت ہو گیا! میں جادوئی ہوں یا نہیں، میں اس کبوتر کو دکھا دوں گی کہ میں کتنی بہادر ہوں!” اس نے کبوتروں کی طرف دوڑنے کی کوشش کی، لیکن ہوا میں تیرتے ہوئے اس کی حرکت کچھ ایسی مزاحیہ تھی کہ وہ خود ہی ہنسنے لگی۔

تبھی، قلعے کا پرانا دروازہ زور سے کھلا اور ایک جھونکا اندر آیا۔ اس جھونکے نے میریانا کے سفید لباس کو ہوا میں لہرا دیا، اور وہ بالکل بھوت کی طرح لگنے لگی۔ کبوتر یہ منظر دیکھ کر اتنا ڈر گیا کہ وہ فوراً اڑ کر قلعے سے باہر نکل گیا۔

میریانا نے خوش ہو کر کہا، “واہ، میں نے کبوتر کو ڈرا دیا! آخر کار میں بہادر بن گئی!” لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس کا سفید لباس اور ہوا میں جھولنے کا منظر ہی اتنا عجیب تھا کہ کبوتر نے اپنی عزت بچانے میں عافیت جانی۔

قلعے کے لوگ اگلے دن یہی کہانیاں کرتے رہے کہ کس طرح ایک “جادوئی بھوت” نے کبوتروں کو قلعے سے بھگا دیا۔ اور میریانا؟ وہ اپنے اندر کی بہادری پر فخر محسوس کر رہی تھی، حالانکہ اسے ابھی بھی دروازے کے بند ہونے کی آواز سے تھوڑا سا ڈر لگتا تھا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96203

سیکولریورپی تہذیب کا ایک اور بیمار تحفہ – ایڈز(AIDS)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیکولریورپی تہذیب کا ایک اور بیمار تحفہ – ایڈز(AIDS)
World AIDS Day
(یکم دسمبر ایڈزکے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

 

ایڈز ایک متعدی مرض ہے جوانسان کے مدافعاتی نظام کو بری طرح پامال کردیتا ہے اورانسانی جسم میں بیماریوں کے جنگ لڑنے کی صلاحیت جس کے باعث انسان اس دنیامیں زندہ رہتاہے،ایڈزاس صلاحیت کو رفتہ رفتہ بالکل ختم کردیتی ہے۔ایڈزکی بہت بڑی وجہ کثرت زناہے۔ایک حدیث نبوی ﷺ کے مفہوم کے مطابق ”جب زناعام ہوجائے گا تو ایسی بیماریاں جنم لیں گی جن کاعلاج نہیں ہوگا“۔ایک اور حدیث مبارکہ میں آپﷺ نے ارشادفرمایاجس کامفہوم ہے ”جب کسی قوم میں عریانی اورفحاشی کارواج بڑھتاہے یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے لگتے ہیں توایسے لوگوں کے درمیان طاعون اوراس جیسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جوان کے اسلاف کے زمانے میں نہیں تھیں“۔پس سیکولرمغربی تہذیب کے غلبے کے بعدسے ایک سے ایک نت نئی بیماریوں نے قبیلہ بنی نوع انسان کے گھرکو تاک لیاہے اور سرتوڑ کوششوں کے بعد ایک بیماری کاعلاج ابھی دریافت ہونے پاتاہے تو دوسری جان لیوابیماریاں سر اٹھالیتی ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کم وبیش سواچارکروڑ افراداس موذی مرض کے جراثیموں کاشکارہیں جن کی بہت بڑی تعدادامریکہ اور یورپ کے علاقوں سےتعلق رکھتی ہے جودنیامیں ”ترقی یافتہ“ممالک کہلاتے ہیں یاپھردوسرے نمبر پر ان ممالک میں یہ مرض زیادہ پایاجاتاہےجہاں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ”سیروتفریح“کے لیے جاتے ہیں،

 

وجہ صاف ظاہر ہے۔1981میں سب سے پہلے یہ مرض دریافت ہوااوراس مرض کے حامل امریکہ اور کیلیفورنیاکے ہم جنس پرست لوگ تھے،خاص طور پر مرد ہم جنس پرست افراد بری طرح سے اس مرض میں گرفتار ہیں اور اس کے پھیلنے کا سبب بھی بن رہے ہیں جب کہ ہم جنس پرست عورتوںمیں یہ شرح نسبتاََ کم ہے۔دنیاکے دوسرے حصوں میں جنس مخالف کے ساتھ ناجائزتعلقات بھی اس مرض کا سبب ہیں۔ایڈزکےمریض یامریضہ کے ساتھ جوبھی لطف اندوز ہوتاہے وہ اس مرض کا لازمی شکار ہوجاتاہے۔محسن انسانیت ﷺ کا قول کس قدر درست اور سچاہے کہ طبی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایڈززدہ افراد کے ساتھ صرف جنسی تعامل سے ہی یہ مرض پھیلتاہے،محض ہاتھ ملانے سے،گلے ملنے سے،ایک ہی برتن یاتولیہ استعمال کرنے سے یاایک ہی بیت الخلا کےاستعمال سے یہ مرض کسی دوسرے کو لاحق نہیں ہوتایالاحق ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

 

ایڈز کے جرثوموں (HIV)کی آمدکہاں سے ہوئی؟؟یہ ایک بہت بڑاسوال تھا جوطبی ماہرین کے لیے ایک ناقابل حل معمہ بن چکاتھا۔بہت تحقیق و جستجو کے بعد اور بہت زیادہ انسانی و مالی وسائل کے صرف ہونے کے بعد پتہ چلا کہ اس مرض کے جراثیم دراصل افریقہ میں بن مانس کی ایک نسل کے اندر پائے جاتے ہیں اور اس نسل کے جانوروں کے ساتھ کسی انسان نے اس حد تک جنسی قربت اختیار کی کہ اس جانور سے یہ جراثیم انسان کے اندر اور پھر دیگر انسانوں میں نفوذ کرتے چلے گئے اورسالوں کے بعد1999میں اس حقیقت تک رسائی حاصل ہوئی اوران تحقیقاتی اداروں کے مطابق1940اور1950کے عرصے دوران یہ مرض اس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا۔قرآن مجید نے سورۃ فرقان کے اندرانسان کی اس گری ہوئی خباثت پر بہت خوبصورت تبصرہ کیاہے”اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ‘ ہَوٰہُ اَ فَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا(۵۲:۳۴) اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلاَّ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(۵۲:۴۴)“ترجمہ: ”کیا تم نے اس شخص کے حال پر غورکیاجس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدابنالیاہو؟؟کیاتم ایسے شخص کوراہ راست پر لانے کا ذمہ لےسکتے ہو؟؟کیاتم سمجھتے ہو کہ ان میں اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟؟یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے“۔

 

جس کو ایڈز کا مرض لاحق ہو جائے توپہلے مرحلے میں ابتدائی ایک سے تین ہفتوں کے دوران اسے عام سی بیماریاں لاحق ہونے کی شکایت رہتی ہے جیسے گلے کی خراش،نزلہ زکام،جلد میں خارش،بخار،سردرد،تھکاوٹ اور مسلسل بے آرامی و بے چینی وغیرہ،یہ ابتدائی شکایات بعض اوقات چار ہفتوں تک بھی جاری رہ سکتی ہیں۔اس دوران انسانی جسم ان ایڈز کے جرثوموں (HIV)کے ساتھ جنگ تو کرتاہے اور انہیں کبھی کبھی کمزور بھی کرپاتا ہے لیکن ختم نہیں کرسکتا۔ایڈزکے مریض کادوسرامرحلہ کافی طویل ہوتاہے اور بعض اوقات دس سالوں تک بھی محیط ہوجاتاہے۔اس دوسرےمرحلے میں مریض کی صحت اگرچہ بہت اچھی رہتی ہے اوردیکھنے میں وہ تندرست و توانا نظر آتاہے اور بظاہر اسےکوئی عارضہ بھی لاحق نہیں ہوتا لیکن ایڈز گھن کی طرح اسے چاٹتی رہتی ہے اور اندر ہی اندر بیماریوں سے بچاؤ کامدافعاتی نظام تباہ و برباد ہوتارہتاہے۔اس دوسرے مرحلے کی سب سے خطرناک بات یہ ہے مریض کو اپنے مرض کا پتہ ہی نہیں چلنے پاتاکہ وہ علاج کراسکے۔ایڈز کے تیسرے مرحلے کے مریض کا وزن گھٹنا شروع ہوجاہے،اسے وقفے وقفے سے
بخارآتے ہیں،پیچش لاحق رہتی ہے،گلا مسلسل شکایت کرتارہتاہے،زبان اور منہ بھی بدذائقہ رہنے لگتے ہیں اور خواتین بھی اپنی مخصوص بیماریوں میں مبتلا رہنے لگتی ہیں۔یہ تیسرامرحلہ اگرچہ جان لیوا نہیں ہوتا لیکن مریض کے لیے بہت صبرآزما ضرور ہوتاہے۔آخری مرحلے میں بعض لوگ ایڈز کے باعث کینسر جیسے موذی مرض میں بھی گرفتار ہوجاتےہیں۔ہوشربابات یہ ہے کہ بچے بھی اس مرض کا شکار ہیں کیونکہ سیکولرازم کی جنسی آزادی نے انسانوں کی اس قیمتی متاع کو بھی معاف نہیں کیااور بچوں میں یہ مرض بڑوں کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلتاہے کیونکہ ان کا مدافعاتی نظام ویسے ہی ابھی کمزور ہوتاہے اور ان جرثوموں کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔خاص طور پر ایڈزکاشکانومولود بچے دوسال سے زیادہ سانس نہیں لے سکتے اور بلآخر موت کاخونخوار آسیب انہیں ہڑپ کرجاتاہے۔

 

عالمی ادارہ صحت کے حوالے سے اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائی کے وسط تک کے اعدادوشمار کے مطابق آغاز میں ساڑھے تین کروڑمرد،تین کروڑ سے زائد عورتیں اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے اس مرض کا شکار تھے،اس سال کے دوران ڈھائی کروڑ بالغ اور دوکروڑ سے کچھ زائد بچے اس مرض کا شکار ہوئے جن میں سے چارلاکھ بیس ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے اور باقیوں میں سے اکثریت زندگی سے مایوس ہو کر اپنے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ اس بیماری کے علاج پر روزانہ خرچ کرتے ہیں۔بھارت میں اس وقت کم و بیش چالیس لاکھ لوگ اس بھیانک مرض کے جرثوموں کا شکار ہیں جبکہ چین کے اندر ایڈز کا پھیلاؤ سب سے کم ہے کیونکہ ان کی قیادت نے کثرت زناکاسبب بننےوالے انٹر نیٹ کلبوں کو بہت پہلے ریاستی قوت سے بزوربند کرادیاتھااوریوں انکی نوجوان نسل ایک بہت بڑی تباہی سے بچ گئی۔ ان حقائق سے آنکھیں کھل جانی چاہییں کہ انسانوں کی کتنی بڑی تعداد ”سیکولرازم“کی بے راہ روی سے مستعارآزادیوں کی بھینٹ چڑھتی چلی جارہی ہے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کاعمل ہنوزجاری ہے اور ایڈز کی بین الاقوامی کانفرنوں کے انعقاد کے باوجود بھی ابھی تک واپسی کا سفر شروع نہیں ہوسکا۔اقوام متحدہ کے ایڈز سے روک تھام کےادارے نے خبر دار کیاہے کہ اگر اس رفتار سے بڑھتے ہوئے اس مرض کو باگیں نہ ڈالی گئیں تو بہت جلد یہ کل انسانیت کواپنے جبڑوں میں کس لے گا۔ابھی بھی وقت ہے اختلاط مردوزن ختم کردیاجائے،مخلوط تعلیم پر پابندی لگادی جائے اورلڑکوں اورلڑکیوں کو علیحدہ علیحدہ نصاب میں تعلیم دی جائے،دفتروں،بازاروں،تفریح گاہوں،ذرائع مسافرت اورتقریبات اورمیلوں ٹھیلوں وغیرہ میں حضرات و خواتین کے آزادانہ میل جول کی بتدریج بیخ کنی کی جائے تاکہ نسل آدم اس جیسے موذی مرض سے بچ سکے۔وحی الہی پر مبنی اس تعلیم سے روگردانی کرتے ہوئے کسی بھی اور طرق تدارک سے اس مرض پر قابوپانا خام خیالی محض ہوگی اور اس سے نتیجہ معکوس ہی برآمدہوگا۔
یورپ کے ”دانشوروں“نے ایڈز سے بچاؤکے متعددطریقے تجویز کیے ہیں مثلاََ جنسی تعامل کے دوران غبارےاستعمال کیے جائیں تاکہ ایڈزکے جراثیم جہاں سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتے ہیں وہاں کے راستے بندہوں،بعض”سیکولرعقلمندوں“نے تجویز کیاکہ خواتین یامرداپنی شرمگاہوں میں وہ خاص کریم استعمال کریں جسے مخصوص اصطلاح میں ”جیلی“کہاجاتاہے جس سے جنسی اعضاء کی جلد یں ایک دوسرے کو مس نہیں کرتیں اوریوں بدکارایک دوسرے سےمحفوظ رہتے ہیں لیکن اس جیلی کے استعمال کے لیے مناسب ہے کہ وہ دوسرے کے علم میں نہ ہوکیونکہ اس سے شائدلذتوں کی تکمیل نہیں ہوپاتی یہ اور اس طرح کے کئی اخلاق باختہ طریقے جو متعددذرائع ومتراجعات ومصادرپر اس مضمون کی تیاری کے دوران پڑھے گئے اس قابل نہیں ہیں اس تحریر کا حصہ بناکرسنجیدہ طبقے کے سامنے لائے جاسکیں۔اس بیماری کی تحقیق و علاج پر خرچ ہونے والے اخراجات کا تو تخمینہ ہی آسمان سے باتیں کررہاہےبلینزاورٹریلینزکی رقومات ہیں جو دنیاکی بہترین کرنسیوں میں اداکی جاتی ہیں تاکہ اس بیماری سے بچاؤ کی کوئی
موثرتدابیروادویات تیار کی جا سکیں لیکن تادم تحریر کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

 

مغربی سیکولردنیاکی مصنوعی چکاچوندکے کچھ ذہنی غلام مشرقی دنیاؤں میں بھی پائے جاتے ہیں،ایسے لوگوں نے بھی اپنے اپنے ممالک میں کچھ غیرسرکاری ونجی تنظیمیں بنارکھی ہیں اوراس بیماری سے آگاہی کی بابت وقتاََ فوقتاََ ان کی سرگرمیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔یہ ایک خاص طبقہ ہے جو عریانی و فحاشی پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔اس بیماری جومحدودومحیود تفصیلات ان صفحات میں درج کی گئی ہیں وہ صرف بڑی عمرکے افراد کے لیے ہی عبرت کاسامان بن سکتی ہیں،بچوں میں یا اوائل عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی تفصیلات ان کی اخلاق باختگی کابالواسطہ سبب بن جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ایسے میں عوام کے اندرمخلوط مجالس میں براہ راست اس طرح کے حساس موضوعات پر گفتگوکرنااور پھراسے نصاب کاحصہ بنانے کامطالبہ کرنااور اس سے متعلق شرمناک مواددیکھنے اور پڑھنےکے لیے مفت تقسیم کرنا یہ ایسے عوامل ہیں جنہیں کوئی باحیامعاشرہ برداشت نہیں کرسکتا۔ایسے لوگوں پر قرآن مجید نےبلالحاظ یوں تبصرہ کیاہے کہ ”اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۲:۹۱)“ترجمہ:”جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیاورآخرت میں دردناک سزاکے مستحق ہیں،اللہ تعالی جانتاہے تم نہیں جانتے“۔اگریہ لوگ معاشرے کے اتنے ہی خیرخواہ ہیں تو اس مرض سے کہیں زیادہ کرب ناک واندوہناک معاملات ہیں جوہماری امت کو تباہی کے دہانے کی طرف ہانک رہے ہیں توکیاان کی طرف سے چشم پوشی کرنا مجرمانہ غفلت نہیں ہے۔ تف ہے ان یوررپ کے ”اہل دانش“پرکہ درخت کو اکھاڑنے کے لیے اسکی جڑ پر وار نہیں کرتے اور صرف پتےاور شاخیں ہی کاٹ کر سمجھتے ہیں کہ یہ بیماری ختم ہوجائے گی جبکہ وہ درخت پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلنے لگتاہے۔قرآن مجید نے واضع طورپر انسانیت کو ”حکم“دیاہے کہ”وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہ‘ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۷۱:۲۳(ترجمہ:”اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکووہ بہت برافعل ہے اوربڑاہی براراستہ“اور پھر یہ بھی کہ دیا کہ زمانے کی قسم کل انسان نقصان میں ہیں اور اس نقصان سے صرف وہی بچ سکتے ہیں جوایمان لائے ہوں نیک عمل کرتے ہوں اور حق و صبرکی تاکید و تلقین کرتے ہوں۔جب تک آزادی نسواں کے نام پر آزادی زناکا خاتمہ نہیں کیا جاتا،جب تک کمرشل ازم کے نام پراشتہارات میں خواتین کی نمائش پر پابندی نہیں لگائی جاتی،جب تک سیکولرازم کے نام پر ذہنی و فکری آوارگی کو پابندوحی الہی نہیں کیاجاتااور جب تک انبیاء علیھم السلام کے عطاکردہ خطوط پر خاندانی نظام دوبارہ استوار نہیں کیا جاتا اس وقت تک کسی طرح کا بھی اخلاق و قانون انسانوں کو اس جنجال اور اس بھنور سے باہر نہیں نکال سکتا۔عقل و خرد کے اس تجربے میں یورپ بہت تیزی سے مانی ازم کی طرف بڑھ رہاہے لیکن انسانیت کی فوزوفلاح و کامیابی و کامرانی اسی میں ہے کہ وہ خطبہ حجۃ الواداع کی ٹھنڈی چھاؤں میں آجائے کہ اس کے علاوہ سب راستے دنیاوآخرت کی آگ کی طرف دھکیلنے والے ہیں۔

[email protected]

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96173

حکایتِ عالمِ گمشدہ ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

حکایتِ عالمِ گمشدہ ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

تصویر کے ایک ایک گوشے سے گمشدگی اور ویرانی کی مہک آتی ہے۔ ایک سنسان کمرہ، جس کی دیواریں زخم خوردہ اور چھت وقت کی مار سے جھلسی ہوئی، ایک ایسی دنیا کی کہانی بیان کرتی ہے جو کبھی آباد تھی، لیکن اب فنا کی گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے۔ یہ منظر ایک طرف انسانی بے بسی کو عیاں کرتا ہے تو دوسری جانب وقت اور فطرت کی بے رحمی کو نمایاں کرتا ہے۔ کھڑکی کے باہر نظر آتی سبزہ زار زمین کے برعکس یہ کمرہ موت اور زندگی کے درمیان ایک تضاد کی تصویر پیش کرتا ہے، جو دیکھنے والے کو حیرت اور تفکر میں ڈال دیتا ہے۔

 

 

nandiniyuu

 

تصویر کے مرکزی حصے میں ایک شخص خاموشی سے بیٹھا ہوا ہے، جو چہرے پر ماسک پہنے کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے۔ یہ منظر خود میں ایک کہانی چھپائے ہوئے ہے، جس کا ہر پہلو انسانی جذبات، علم کی جستجو اور تنہائی کو اجاگر کرتا ہے۔ ماسک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ جگہ کسی خطرناک ماحول کا حصہ ہو سکتی ہے، یا پھر یہ کسی بیماری، آلودگی، یا تباہی کے بعد کا منظر ہے۔ لیکن کتاب کا وجود اس خاموشی میں زندگی کی ایک امید کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔ علم اور شعور کے ذریعے شاید یہ شخص اس ویران ماحول میں بقا کی تلاش میں ہے یا پھر ماضی کے نشانات اور انسانی غلطیوں کا مطالعہ کر رہا ہے۔

 

یہ کمرہ اپنی حالت سے وقت کی بے مروتی کا گواہ ہے۔ دیواروں پر رنگ اُکھڑ چکا ہے، اور جگہ جگہ داغ دھبے اور نمی کی نشانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ جگہ مدتوں سے کسی نے آباد نہیں کی۔ لکڑی کی پرانی درازیں اور خستہ الماریاں اس بات کی علامت ہیں کہ یہ جگہ کسی زمانے میں کسی کے لیے نہایت اہم رہی ہو گی، لیکن اب یہاں صرف تنہائی کا راج ہے۔ اس کمرے کی خاموشی چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ جو چیز آج اہم ہے، وہ کل غیر ضروری ہو سکتی ہے۔

 

یہ منظر ایک گہری داستان کو بیان کرتا ہے: ویرانی اور زندگی کے درمیان کی کہانی۔ ماسک پہنے شخص کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کسی نہ کسی صورت آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں۔ وہ کتاب جو اس کے ہاتھ میں ہے، انسان کی علم کی طلب اور تجسس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو بقا کی جانب لے جا سکتا ہے، اور شاید یہی وہ امید ہے جو اس ویرانی میں بھی نظر آ رہی ہے۔

لیکن تصویر کا ایک اور پہلو ماحولیاتی تباہی کا پیغام ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ اگر انسان اپنی دنیا اور ماحول کا خیال نہ رکھے، تو وہ دن دور نہیں جب ہم سب کو ایسی ویرانی کا سامنا کرنا پڑے۔ کمرے کے اندر کی تباہی اور کھڑکی سے جھانکتی ہریالی کے درمیان جو فرق ہے، وہ ہماری لاپرواہی اور فطرت کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ یہ تصویر ایک خاموش انتباہ ہے کہ زمین کے وسائل محدود ہیں، اور ان کا بے دریغ استعمال ہمیں ایسے انجام کی طرف لے جا سکتا ہے جہاں ہمارے پاس صرف تباہی کے آثار رہ جائیں گے۔

 

اس تصویر میں انسانی تنہائی کو بھی خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ شخص جو تنہا بیٹھا ہے، اس کے آس پاس کے ماحول سے بے خبر لگتا ہے۔ یہ تنہائی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ یہ تنہائی نہ صرف جسمانی ہے بلکہ روحانی بھی۔ شاید وہ کتاب میں ماضی کی کہانیاں پڑھ رہا ہے، یا شاید وہ مستقبل کی تلاش میں ہے۔ لیکن یہ منظر واضح کرتا ہے کہ علم اور تجسس ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو آگے بڑھنے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

 

تصویر کا ہر عنصر ایک داستان بیان کرتا ہے۔ خستہ حال دیواریں، جھلسی ہوئی چھت، اور بوسیدہ فرنیچر، سب انسان کی عارضی حیثیت اور فطرت کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ کھڑکی کے باہر موجود سبزہ اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ زندگی کہیں نہ کہیں جاری رہتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود، یہ تصویر انسانیت کے زوال، امید، اور علم کی اہمیت کا ایک جامع مظہر ہے۔

 

آخر میں، یہ تصویر ہمیں خود سے ایک سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے: ہم اپنی دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی زمین کو بچا سکتے ہیں، یا ہم بھی ایسے ہی کسی ویران کمرے میں اپنے ماضی کی کہانیاں پڑھتے رہ جائیں گے؟ ماسک پہنے اس شخص کی مانند، ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ علم، عمل اور شعور کے ذریعے ہم اپنی دنیا کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ تصویر ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہماری ہی حقیقت دکھاتی ہے، اور ایک تنبیہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو یہ ویرانی ہمارا مستقبل بن سکتی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96170

کتابوں کی اشاعت، ایک فنی عمل ۔ خاطرات : امیرجان حقانی 

Posted on

کتابوں کی اشاعت، ایک فنی عمل ۔ خاطرات : امیرجان حقانی

کتابوں کی اشاعت ایک ایسا بہترین عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کے خیالات کو دوام بخشتا ہے بلکہ اس کی محنت اور علم کو محفوظ کر کے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ تاہم، یہ ایک سادہ عمل نہیں بلکہ ایک فن اور بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر لکھاری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فوراً اپنی تحریروں کو کتابی شکل دے۔ تحریروں کو کتابی شکل دینا  ایک سنجیدہ اور منظم منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے، جو وقت، محنت، اور وسائل کے ساتھ ساتھ درست موقع اور ترتیب کا بھی محتاج ہے۔

 

میری ذاتی زندگی میں کئی ایسے لمحات آئے ہیں جب قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے اپنی مخلصانہ آراء پیش کیں اور مشورہ دیا کہ میں اپنی تمام تحریروں کو کتابی صورت میں شائع کروں۔ کمپوزنگ کی شکل میں موجود مواد کا جائزہ لوں تو کم از کم پانچ چھ کتابیں آج ہی پبلش ہونگی۔ آج ہی میرے ایم فل کے کلاس فیلو اور پاکستان آرمی کے خطیب، برادم محترم مولانا حسین احمد تشریف لائے تھے۔ وہ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ انہوں نے میرا ایم فل کا مقالہ نہایت توجہ سے دیکھا اور فوراً مشورہ دیا کہ اسے کتابی شکل میں شائع کر کے گلگت بلتستان اسمبلی سمیت تمام اہم اداروں تک پہنچایا جائے تاکہ یہ علمی تحقیق معاشرے کے وسیع تر حلقوں تک رسائی حاصل کرے۔ اور گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے اسمبلی سمیت دیگر اداروں کے کام آئے۔

 

اسی طرح، مختلف اہل قلم، پروفیسرز اور علمی دوستوں نے بھی مجھے اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ترغیب دی ہے۔ یہ مشورے میرے لیے نہ صرف حوصلہ افزا ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ میری تحریروں میں کچھ ایسا ہے جو قارئین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ قارئین کی آراء اور ان کے مشوروں سے مجھے مزید تقویت ملتی ہے اور میں از سرنو اپنے کام اور تحریروں میں اور فکر و خیال میں بہتری لانے اور مزید امپرو کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے مسلسل لکھنے کا ایک سبب میرے قارئین بھی ہیں، جو کسی نہ کسی شکل میں مجھے لکھنے پر اکساتے ہیں۔

 

میری مستقبل کی منصوبہ بندی میں ایک خواب یہ بھی شامل ہے کہ میں ایک تحقیقی اکیڈمی قائم کروں، جو تحقیق و تالیف کے لیے مخصوص ہو۔ یہ ادارہ نہ صرف علمی کام کرے گا بلکہ تحقیقی مواد کو فوری طور پر شائع کرنے کا بندوبست بھی کرے گا۔ اس اکیڈمی کا مقصد علم کے ان ذخائر کو محفوظ کرنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ضائع ہو جاتے ہیں۔اس کے لئے اپنی حد تک شاندار پلاننگ کی ہے۔ مشکل کے دو تین سال گزر جائیں گے تو اکیڈمی کا کام باقاعدہ شروع کیا جائے گا۔ اگر اللہ نے زندگی دی، تو یہ خواب ضرور پورا ہوگا، اور یہ اکیڈمی علمی دنیا میں ایک مثبت اضافہ ثابت ہوگی۔ اور میرے جیسے ان قلم کاروں کے لیے امید کی کرن بنے گی جو اپنی تحقیقات کو، اب تک کتابی شکل دینے سے قاصر ہیں۔

 

میرے لیے یہ بھی باعثِ اطمینان ہے کہ میری اکثر تحریریں مختلف اخبارات، ڈائجسٹوں، میگزین، ویب سائٹس، اور سوشل میڈیا پر شائع ہو چکی ہیں۔ یہ تحریریں کسی نہ کسی صورت میں محفوظ ہیں اور مستقبل میں اصحابِ تحقیق کے لیے ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ان تحریروں کو جمع کرنا اور ان میں تسلسل پیدا کر کے جامع کتابی صورت دینا ایک اہم علمی خدمت ہوگی۔

 

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب کی اشاعت صرف لکھاری کی محنت کا اعتراف نہیں بلکہ معاشرے کی فکری اور علمی ترقی میں ایک اہم کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ قارئین کو نئے خیالات، نظریات، اور شعور کے دروازے کھولتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ کتابیں صرف کاغذ کے اوراق نہیں بلکہ علم و فکر کے چراغ ہیں، جو معاشرے کی راہوں کو روشن کرتے ہیں۔اور دلوں کو منور کرتے ہیں ۔

 

تحریروں کو شائع کرنا لکھاری کی عظمت اور قارئین کی ضرورت کا مشترکہ اظہار ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کو فخر دیتا ہے بلکہ اس کے الفاظ کو صدیوں تک زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم لکھنے، پڑھنے، اور اشاعت کے اس عمل کو فروغ دیں تاکہ علم و ادب کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96168

داد بیداد ۔ مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

گھر سے نکلتے وقت فاروق نے پو چھا پار ک جا نا بہتر ہو گا یا پرانا قلعہ؟ میں نے کہا ایسی جگہ بتاؤ جہاں پارک بھی ہو قلعہ بھی ہو فاروق نے کہا ایسی جگہ ٹیو ولی (Tivoli) ہے، ڈیڑھ گھنٹے کا یک طرفہ سفر ہو گا میں نے حا می بھری فاروق اپنے والدین کو لیکر ٹیوو لی کے سفر پر روا نہ ہوا جب گاڑی روم سے نیپلز جا نے والی بڑی شاہراہ پر فراٹے بھر رہی تھی فاروق نے دائیں طرف پہا ڑی پر گنجا ن اباد بستی کی طرف اشارہ کر کے کہا کیسی بستی ہے! ہم نے کہا یہاں سے تو ریحا ن کوٹ جیسی بستی لگتی ہے اور بہت دور بھی ہے یہاں سے بڑا قلعہ اور گر جا گر دکھا ئی دیتا ہے فاروق نے کہا یہی ٹیو ولی ہے روم آنے والے سیاحوں کی پسندیدہ بستی ہے گاڑی قلعے کی پا رکنگ میں پہنچی تو لطف آیا بڑا قلعہ مشہوباد شاہ ہنڈ ریان (Handrian) نے تعمیر کروایا اس نے 117سے 138عیسوی تک حکومت کی قلعے کا نا م ویلہ ہنڈریا نو (Villa Handriano) ہے، یہ 200ایکڑ رقبے پر محیط ہے دائیں طرف زیتون کا باغ ہے باغ کے اندر پا نی کے دو خوبصورت تالاب ہیں ایک عجا ئب گھر ہے، یہاں سے قلعہ کی عما رتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، حمام اور محا فظوں کے مکا نا ت ہیں، آگے جا کر محل کا اندرونی حصہ ہے ایک بڑا تھیٹر یعنی تما شا گاہ ہے دیو تا کے نا م کا معبد ہے، لیکن کوئی عما رت بھی سلا مت نہیں ہے، بعض عما رتوں کی دیواریں ہیں بعض کی صرف بنیا دیں ہیں آتش نے کیا بات کہی ہے ؎
نہ گور سکندر ہے نہ قبر دارا
مٹے نا میوں کے نشان کیسے کیسے

 

 

chitraltimes faizi visit 2 scaled

 

1999ء میں اس جگہ کو یونیسکو (UNESCO) نے بین الاقوامی ورثہ قرار دیا اب یہ جگہ اٹلی کی وزارت ثقا فت و سیا حت کی نگرانی میں ہے یو نیسکو کے ما ہرین گر تی ہوئی دیواروں کو سہا را دینے اور قلعے کی با قیات کو محفوظ کرنے کا کام کر رہے ہیں علا مہ اقبال نے شاہین سے کہا تھا قصر سلطانی کے گنبد کو چھوڑ دو پہا ڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کر لو، یہاں آکر اقبال کا شاہین شش و پنج میں پڑ گیا ہو گا کہ سلطان نے اپنا قصر پہاڑوں کی چٹا نوں میں بنا لیا اب میں شا عر کو کیا جواب دو ں چند روز پہلے ہم نے جس آبشار کا دورہ کیا وہ اس قلعے سے یکسر مختلف تھا، وہ جدی د اٹلی اور نئے روم کا ایک شہکار تھا اس دورے میں میر پور آزاد کشمیر کے راجہ نثار اپنی فیملی کے ہمراہ ہمارے ہم سفر تھے عمر، مصطفیٰ اور ارحاء فاروق نے حیدر اور مر ضیہ نثار کی ہم رکا بی کا بھرپور لطف اٹھا یا وہ جگہ اومبریہ (Umbria) میں مار مورے (Marmore) کے مشہور آبشار کی جگہ تھی جسے دیکھنے کے لئے دور دور سے اٹلی اور بیرونی مما لک کے سیا ح آتے ہیں اور آبشار کے دلکش و دلروبا منا ظر سے لطف اندوز ہو تے ہیں یہ قدرت کے حسن اور انسا نی خلقت و محنت کا شاہکار ہے سب سے اوپر پہاڑی چوٹی ہے نیچے ہموار پٹی ہے، پھر پہاڑی چوٹی اور زمین کی ہموار پٹی آتی ہے آبشار سب سے بلند چوٹی سے شروع ہو تاہے، پھر درمیانی چوٹی پر دوسرا آبشار بنتا ہے اس کے بعد تیسری چوٹی سے آخری آبشار سڑک کی دوسری طرف سے آکر گہرے نا لے میں اس زور سے گر تا ہے کہ اس کی چھینٹیں سڑک پر بارش کی صورت میں برستی ہیں آبشار کا حسن یہ بھی ہے کہ اس کو بے مہار نہیں چھوڑا گیا بلکہ اوپر والی چوٹی میں اس کو نکیل ڈال کر مہار میونسپلٹی کے ہا تھوں میں دی گئی ہے

 

chitraltimes faizi visit 1

ہر روز دو گھنٹوں کے لئے آبشار میں پا نی آتا ہے لو گ ٹکٹ لیکر تما شا دیکھتے ہیں وقت ختم ہو تے ہی سپل ویز (Spill ways) کھو ل دیے جا تے ہیں اور پا نی پہاڑی کی دوسری طرف دریا میں جا گر تا ہے علا مہ اقبال نے خالق کا ئنا ت کے ساتھ آدم کے مکا لمے کے اندر ایسے ہی قابل انجینروں کے کارنا موں کا ذکر کر تے ہوئے کہا ہے کہ اے خدا تو نے بیابان پیدا کیا میں نے اس کو باغ میں تبدیل کیا، تونے مٹی بنائی میں اس کا پیا لہ تیار کیا، یہاں خالق کائنات کے پہاڑی چٹانوں کو آدم کی اولاد نے آبشار کاروپ دیدیا ہے دیکھنے والے بہت محظوظ ہو تے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96164

شاہی عظمت اور فنا کے اسرار ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

شاہی عظمت اور فنا کے اسرار ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

زندگی اور اقتدار کی عارضی نوعیت اس تصویر کا مرکزی موضوع ہے۔ ملکہ کی عظمت، چیتے کی طاقت، اور ستونوں کی تاریخ سب مل کر ایک ابدی سچائی کی عکاسی کرتے ہیں—ہر چیز فنا پذیر ہے۔ تصویر ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد پر غور کریں اور ان چیزوں کی طرف رجوع کریں جو وقت کی قید سے آزاد ہیں، جیسے اخلاقی اقدار اور انسانیت کی خدمت۔ عظمت کی اصل طاقت اس کے زوال کو سمجھنے میں ہے۔

؎

زندگی کی عارضی نوعیت اور اقتدار کے زوال نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے دانشوروں کو متوجہ کیا ہے۔ مصر کی تہذیب، اپنی شان و شوکت کے باوجود، فنا کی حقیقت سے بچ نہ سکی۔ تصویر میں دکھائی جانے والی ملکہ اور اس کے اطراف کی تزئین ہمیں اس ابدی حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے۔ عظمت کا یہ مظاہرہ محض وقتی ہے، جو آنے والے وقت کی گرد میں کھو جاتا ہے۔ یہاں ہم اس تصویر کے فلسفیانہ اور عبرت آموز پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔

 

nandini091

 

یہ تصویر شاہی عظمت کا بے مثال منظر پیش کرتی ہے، جہاں ایک ملکہ تخت پر براجمان ہے، اور اس کے ارد گرد طاقت و جاہ و جلال کے علامتی نشانات، جیسے چیتے اور سنہری آرائشیں، موجود ہیں۔ ملکہ کا وقار، اس کے زیورات کی چمک اور تخت کی تزئین یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کا مقام زمین پر سب سے بلند ہے۔ تاہم، اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ تصویر ہمیں کچھ اور بھی بتاتی ہے—ایک ایسی کہانی جو عروج اور زوال کے دائرے کے گرد گھومتی ہے۔

شاہی ستون، جن پر قدیم دیومالائی مناظر اور نقاشی کندہ ہیں، ماضی کی کہانیوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان ستونوں کا انجام بھی وہی ہے جو انسان کے جسم کا ہوتا ہے—خاک اور بوسیدگی۔ تخت پر بیٹھنے والی ملکہ کا وجود بھی عارضی ہے، کیونکہ وقت کی قوت اس کے اقتدار کو نگل لے گی۔ یہ تصویر ہمیں ایک اٹل سبق دیتی ہے کہ عظمت کا یہ سفر ہمیشہ ایک انجام پر پہنچتا ہے۔

چیتے، جو طاقت کی علامت ہیں، ملکہ کے گرد موجود ہیں، لیکن وہ بھی فطرت کے قوانین کے پابند ہیں۔ وقت کے ساتھ، ان کا جسم بھی خاک میں مل جائے گا۔ ملکہ کے زیورات اور شان و شوکت وقت کے دھارے میں محض ایک یادگار کے طور پر رہ جائیں گے۔ یہ یادگار ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی اصل طاقت اس کی عاجزی میں ہے، نہ کہ اس کے تخت و تاج میں۔

یہ تصویر مصر کی قدیم تاریخ کا ایک عکس بھی پیش کرتی ہے، جو اپنے عروج کے دنوں میں دنیا کی سب سے طاقتور تہذیب تھی۔ لیکن آج اس کے عظیم محلات اور یادگاریں، جو کبھی عظمت کی نشانیاں تھیں، کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ انسان کی یہی کہانی ہمیں ایک سوال پر لے آتی ہے: کیا ہم اپنی زندگی کو محض اقتدار اور شان و شوکت کے لیے وقف کریں، یا ایسی اقدار اپنائیں جو وقت کے امتحان میں قائم رہ سکیں؟

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96146

ایک نئی پوسٹ، ایک نیا لائیک – پیامبر : قادر خان یوسف زئی

ایک نئی پوسٹ، ایک نیا لائیک – پیامبر : قادر خان یوسف زئی

 

انٹرنیٹ کی بندش ہونے پر یہ خبر یوں پھیل جاتی ہے جیسے کسی نے پورے ملک میں آکسیجن کی فراہمی بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہو۔ لوگ اپنی ہنستی کھیلتی زندگیوں کو یوں دیکھنے لگتے ہیں جیسے وہ کسی گہرے کنویں میں گر گئے ہوں جہاں نہ کوئی روشنی تھی، نہ آواز، نہ امید۔ انٹرنیٹ کی غیر موجودگی میں ملک کا ہر شہری ایسے ہڑبڑاتا ہے جیسے وہ کسی ویرانے میں بھٹک رہا ہو۔ جنہیں صبح کی پہلی خبر اپنی نیوز ایپ سے ملتی تھی، وہ اچانک پڑوسیوں سے خبریں پوچھنے پر مجبور ہو گئے اور خبر کا اعتبار یوں کرتے جیسے یہ کسی قدیم صحیفے سے نکلا ہو۔ سب سے زیادہ اثر ان نوجوانوں پر ہوتا ہے جو انسٹاگرام کے ریلز اور ٹک ٹاک کے بغیر ایک پل بھی نہیں گزار سکتے۔ وہ اب گھروں کے در و دیوار کو یوں گھور تے ہیں جیسے وہ ان سے باتیں کرنے والے ہوں۔ جنہیں اپنا ہر کھانے کا لقمہ اپ لوڈ کرنا ہوتا تھا، وہ اچانک سوچنے لگے کہ کھانے کا ذائقہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہر وہ لڑکی اور لڑکا جو ”ایک نئی پوسٹ، ایک نیا لائیک“ کی دوڑ میں تھا، اچانک آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھتا ہے، اور حیرانی سے پوچھتا ہے کہ ”کیا میں واقعی اتنا برا ہوں؟“۔

 

انٹرنیٹ کی بندش سے احتجاجی مظاہرے روکنے کا خیال ایسا ہی ہے جیسے آگ بجھانے کے لیے بارش کا انتظار کرنا یا بھوکے کو یہ مشورہ دینا کہ کھانا چھوڑ دو تاکہ پیٹ خود سکون میں آجائے، یہ سوچ ہی غلط ہے کہ اگر انٹرنیٹ بند کر دیا جائے تو مظاہرین الجھن میں پڑ جائیں گے، اپنے احتجاج کا مقام بھول جائیں گے، اور اچانک اپنے موبائل میں ”نیٹ ورک ناٹ ایویلیبل“ دیکھ کر گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔ تصور کریں کہ مظاہرین کا ایک گروہ چوک پر جمع ہوتا ہے۔ کسی نے اپنے موبائل پر لائیو سٹریمنگ شروع کرنی چاہی، لیکن انٹرنیٹ غائب۔ وہ دل برداشتہ ہو کر نعرے لگانے لگے کہ ”وائی فائی دو، راستہ دو!“۔ حکومت کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ بندش سے معلومات کی ترسیل رک جائے گی اور مظاہرین ایک دوسرے سے رابطہ نہ کر پائیں گے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ مظاہرین کے پاس اب بھی کبوتر، ڈھول، اور ہمسائیوں کی مدد کا آپشن موجود ہے۔ بلکہ ایک بار تو مظاہرین نے انٹرنیٹ بندش پر احتجاج کرتے ہوئے ڈھول کے ذریعے نعرے بازی کی کہ ”حکومت جاگے گی، انٹرنیٹ لائے گی!“ ڈھول کی آواز اس قدر بلند تھی کہ حکومت کو مجبوراً انٹرنیٹ بحال کرنا پڑا تاکہ عوام شور بند کریں۔

 

دوسری جانب، مظاہرین انٹرنیٹ کے بغیر زیادہ تخلیقی بن گئے ہیں۔ کچھ نے تو موبائل کے سگنل ڈھونڈنے کے لیے سڑک پر احتجاج کیا، اور ان کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا جس پر لکھا تھا” ہم یہاں انٹرنیٹ کے لیے کھڑے ہیں، نہ کہ تمہاری پالیسی کے لیے!“۔مزید یہ کہ، انٹرنیٹ بندش کے دوران لوگوں نے پرانے طریقے اختیار کر سکتے ہیں۔ جس میں پیغام دینے کے لیے کالے دھویں کا استعمال، اور سڑکوں پر آگ جلا کر نشانیاں بنانا تاکہ دوسرے مظاہرین راستہ بھولنے کی بجائے سیدھا احتجاجی مقام پر پہنچ سکیں۔

 

 

حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ انٹرنیٹ بند کر کے عوام کو بے خبر رکھا جائے، لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ بے خبری کبھی مسائل کا حل نہیں۔ مظاہرین، جنہیں پہلے صرف حکومت کے فیصلوں پر اعتراض تھا، اب انٹرنیٹ بندش کو ایک ذاتی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اب یہ احتجاج نہ صرف سیاسی ہے بلکہ ذاتی اور معاشرتی بھی ہو گیا ہے۔ احتجاج کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش کے بجائے، عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید حکومت اور عوام دونوں کا وقت اور توانائی بچ سکے۔ ورنہ احتجاجی نعروں میں ”نیٹ بحال کرو” کا اضافہ ہوتا رہے گا اور حکومت کو یہ نعرے سننے کے لیے کان بند کرنے کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ کاروباری طبقہ، جو آن لائن ای میلز اور زوم میٹنگز کے ذریعے اپنے معاملات چلاتا تھا، اچانک دفاتر میں بیٹھا خالی کاغذوں پر پلان بناتا دکھائی دے گا۔ باسز کو احساس ہوگا کہ ماتحتوں کو دھمکیاں دینے کے لیے ای میل نہیں بلکہ براہ راست سامنا کرنا پڑے گا، اور ملازمین بھی اپنے باسز کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کی ہمت کی ”سر، کوئی اور کام دے دیں، نیٹ تو ہے نہیں“۔ آن لائن شاپنگ کے شوقین، جو ایک کلک پر سامان خریدتے تھے، بازار میں لائنیں لگا کر انہیں بھی بغیر کسی ڈسکاؤنٹ کے سودا خریدنا ہوگا۔

 

سیاستدان جب انٹرنیٹ بندش کے فیصلے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں کہ انٹرنیٹ بند کر کے دہشت گردی کو روکا جا رہا ہے تو، لوگ حیران تھے کہ کیا دہشت گرد واقعی فیس بک لائیو پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں؟ کیا ان کے بموں میں وائی فائی کنکشن لگتا ہے؟ یا شاید دہشت گردوں کو پیغام رسانی کے لیے گوگل میٹ استعمال کرنا ہوتا ہے؟ اگر یہی حقیقت ہے، تو پھر انٹرنیٹ بند کرنے کی بجائے، انہیں سست انٹرنیٹ فراہم کر دینا چاہیے، تاکہ وہ ہمیشہ ”لوڈنگ“ کی کیفیت میں رہیں اور حملہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ سب سے زیادہ نقصان انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرنے والے فری لانسرز کا ہوا، جن کا روزگار بند ہو گیا۔ وہ انٹرنیٹ کی بحالی کے منتظر ایسے بیٹھے تھے جیسے کسان بارش کے لیے دعا کرتا ہے۔ کسی نے یہ کہہ دیا کہ انٹرنیٹ ایک دن بعد بحال ہوگا، تو لوگ ایسے خوش ہوئے جیسے کسی قیدی کو رہائی کی خبر مل گئی ہو۔ مگر جب بحالی میں تاخیر ہوئی، تو فری لانسرز نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ شاید انہیں اب کسی اور ہنر، مثلاً کپڑے سلائی یا بکریاں پالنے، کا کام سیکھنا ہوگا۔

 

دوسری طرف، حکومتی مشینری اس فیصلے کی کامیابی کے گن گانے میں مصروف تھی۔ مختلف وزراء نے انٹرنیٹ کی بندش کو قومی سلامتی کا اہم قدم قرار دیا اور عندیہ دیا کہ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو مستقبل میں دیگر مسائل کو بھی ایسے ہی حل کیا جائے گا۔ مثلاً، اگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنی ہو تو ٹی وی بند کر دیں، پانی کی قلت ہو تو باتھ روم بند کر دیں، اور اگر معیشت کا مسئلہ ہو تو بینک بند کر دیں۔ اس پر کسی نے سوشل میڈیا پر طنز کیا،”اگر مسئلے ایسے ہی حل ہوتے ہیں تو کیوں نہ سانس لینا بھی بند کر دیا جائے تاکہ آلودگی کا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے!“۔عوام اب سوچ رہی تھی کہ انٹرنیٹ کی بندش کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ کیا حکومت ہر مہینے ایک ”ڈیجیٹل بلیک آؤٹ ڈے” کا اعلان کرے گی؟ یا شاید ہر سال ایک پورا ہفتہ ”آف لائن نیشنل ڈے“ کے طور پر منایا جائے گا، جہاں لوگ موبائل اور انٹرنیٹ سے دور، دیہاتی زندگی کی مشق کریں گے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96133

  دوغلے – شہذاد احمد خان

Posted on

  دوغلے – شہذاد احمد خان

 

 

چند روز قبل ایک نہایت ہی پڑھے لکھے اور معاملہ فہم دوست نے فرمائش کی کہ کچھ دور تک اُن کے ساتھ چہل قدمی ہو جائے۔تو میں نے بلا جھجک اس صحبتِ گراں قدر کے واسطے ہامی بھرلی ۔واپسی پر اُن کے ساتھ اِن فارمل سی گفگتو ہو رہ تھی کہ بات چل پڑی ہمارے معاشرے کے جنسی مسائل اور موجودہ دور کے زن و فرزندانِ اسلام کے جذباتی پن اور بے رہروی کی طرف۔ انھوں نے اپنے سر گزشتہ اور کچھ چشم دیدہ واقعات بتاۓ اور نشاندہی کی کہ ان واقعات کے پسِ منظر میں یہ یہ وجوہات اور خامیاں کار فرما ہیں۔ جن سے میں نے اتفاق کیا اور کہیں اختلاف۔ میں نے بھی کچھ اہم نکتوں کی پھیکی سی وکالت کی، جن میں معاشر ے کے بے تکے رسم و رواج، روایات اور اسلامی تعلیمات و احکامات سے لا علمی، جس کی وجہ سے نکاح مشکل اور زنا کا آسان ہونا، نوجوان اور دوشیزہ کی پسند نا پسند یا مرضی کے بر عکس بعض اوقات، والی کی ناجائز دخل اندازی شامل تھیں۔ العرض، جو باتیں اس حوالے سے میری کھوپڑیا میں یکجا ہوئیں ہیں، میں نے سوچا کہ اُنھیں چند سطور کی شکل میں لیکر آپ قارئین کرام کے سامنے رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔حالانکہ اِن پیچیدگیوں کا ادراک کم و بیش سب کو ہوتا ہے لیکن کھل کر بحث نہیں ہوتی۔

 

 

ایک فلسفی کہتا ہے ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘ آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، یا ہمارے مقامی اکثر شعراء کو سن لیں تو اِنکا کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔ آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ دورانِ گُفتگو، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں بَکیں گے۔

 

آپ مذہبی مُبلغین و عُلما کے بیانات بھی سُن لیں، اِن میں بہتر72 حُوروں کے نشیب و فراز کے سائز پر سیر حاصِل روشنی ڈالی گئی ہوگی۔ آپ پاکستان کے ڈرامے، ناول، ڈائجسٹ، فلمیں بھی دیکھ لیں، یہ عِشق معشوقی، اور لو افئیرز کے اِرد گِرد گھوم رہے ہوں گے۔ آپ ہر روز اخبار بھی پڑھ کر دیکھ لیں، کِسی ن نے م بی بی کے ساتھ یا کِسی ف نے کِسی ش بی بی کے ساتھ زیادتی بھی کی ہوئی ہوگی، ننھے بچے حتیٰ کہ قبر میں زن کی عزت بھی محفوظ نہیں مِلے گی۔ آپ کو کہیں سائینسی ڈاکومنٹری، مریخ پر زندگی، یا روبوٹس کا تذکرہ نہیں مِلے گا، کوئی سیرت النبی(ص)، مجاہد کی آزاں، مسلم سائنسدان، آئینسٹائین، یا فلسفہ پر گفتگو کرتا نہیں مِلے گا۔۔۔۔یہ کیا ہے؟ یعنی انگریزی میں (زور دیکر اور کندھے اچکا کر)?WHAT. IS. THIS کیونکہ ہم “اُن”سے متاثر پاۓ جاتے ہیں لہذا اِس میں اثر بہت ہے۔

 

 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ «میرا دین تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے ہے»۔ لہذٰا خالص مسلم امت کو اقوام عالم کی امارت کرنا تھی۔ جس کی بنا پر درج زیل بیرونی پیدا کردہ اصول آج ہمیں فالو نہ کرنا پڑتا۔

ایک ایسا دور اور معاشرہ جہاں شادی کرنے کیلیے ایک مرد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے تعلیمی ڈگریوں کے انبار، نوکری، گھر، گاڑی، بینک بیلنس بنائے، تاکہ جب جوانی اختتام پذیر ہو، تب شادی کا سوچے، یعنی اپنی آدھی سے زیادہ عُمر کنوارا گھومتا رہے۔ لڑکیوں پر جہیز کا بوجھ الگ۔ اگر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنسی تسکین ایک بُنیادی اِنسانی ضروت ہے، اور جب تک انسان کی یہ بنیادی ضروت پوری نہ ہو، انسان دیگر تخلیقی کاموں پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتا، ذہنی خلفشار کا شکار رہتا ہے، تو ہم یہ حقیقت ماننے سے انکاری کیوں ہیں؟ ہم کب تک نیوٹن، آئینسٹائین، بِل گیٹس کے بجائے شاعر، مجنوں، رانجھا، اور غمزدہ نسلیں پیدا کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک زندگی کے چار میں سے دو دن آرزو اور باقی کے دو دن انتظار میں گزارنے پر نوجوانوں کو مجبور کرتے رہیں گے؟

 

 

ہم کِس سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ کیسا نظامِ زندگی ہے جہاں بُنیادی اِنسانی ضروریات کے اظہار، اور تکمیل پر پابندی ہے، گھُٹن ہی گھُٹن ہے؟ جب سچائی اور حقیقتوں کے اظہار کے تمام دروازے بند کر دئے جائیں، تو ہوتا تو تب بھی سب کُچھ ہے، مگر مُنافقت کے پردہ میں، ہر شخص فرشتہ صفت ہونے کا دعویدار بن جاتا ہے، اور ڈھونڈنے سے بھی کہیں کوئی اِنسان دِکھائی نہیں دیتا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96088

طوفان کے بیچ سفرِ شجاعت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

طوفان کے بیچ سفرِ شجاعت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

یہ کہانی ایک لڑکی کے سمندری سفر کی ہے جو ایک طوفانی رات میں خوفناک حالات کا سامنا کرتی ہے۔ کشتی الٹنے کے بعد وہ سمندر میں تنہا رہ جاتی ہے اور خطرناک شارک اور طوفانی لہروں کے درمیان اپنی ہمت اور حوصلے سے زندگی کی جنگ لڑتی ہے۔ کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد، وہ بچاؤ کشتی کی مدد سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ تجربہ اسے سکھاتا ہے کہ زندگی کے مشکل لمحات بھی ہماری شخصیت کو مضبوط بناتے ہیں۔

رات کے گہرے سناٹے میں، جب سمندر کی لہریں اپنے عروج پر تھیں، وہ خود کو اس کے رحم و کرم پر محسوس کر رہی تھی۔ آسمان پر بجلی کی چمک، گہرے بادلوں کی گرج، اور پانی کی لہروں کی دہاڑ ایک خوفناک منظر تخلیق کر رہے تھے۔ مگر وہ لڑکی، جس کے دل میں نہ ختم ہونے والا تجسس تھا، اس طوفانی رات کو اپنی زندگی کے سب سے بڑے ایڈونچر کے طور پر دیکھ رہی تھی۔

 

nandini girl in river under water ocian

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب وہ ایک کشتی پر اپنے دوستوں کے ساتھ سمندر کے وسط میں ایک معمولی سفر پر نکلی تھی۔ سب کچھ پرسکون تھا، ہوا نرم تھی، اور لہریں ہموار تھیں۔ لیکن وقت کا پہیہ اچانک بدل گیا۔ دور سے آتے بادلوں نے پورے آسمان کو ڈھانپ لیا، اور ان کے بیچ چھپی بجلی نے پانی کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔

کشتی، جو کبھی ان کے تحفظ کا ذریعہ تھی، اب بے قابو ہو چکی تھی۔ اچانک ایک بڑی لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور وہ پانی میں جا گری۔ اس کے دوست بکھر گئے، اور وہ خود سمندر کے بیچ اکیلی رہ گئی۔ پانی کا سرد لمس اور دل دہلا دینے والی گہرائی اس کے خوف کو اور بڑھا رہی تھی۔

اسی لمحے، اس نے اپنے قریب ایک شارک کی پشت دیکھ لی۔ یہ لمحہ کسی خواب سے کم نہ تھا۔ اس کی دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، مگر خوف پر قابو پا کر اس نے اپنی سانسوں کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ سمندر کے بیچ تنہا، وہ جانتی تھی کہ ہار ماننے کا مطلب موت کو گلے لگانا ہے۔

اس نے خود کو سنبھالا اور فیصلہ کیا کہ اگر یہ رات اس کی آخری ہو، تو وہ اسے بہادری سے گزارے گی۔ طوفانی لہروں کے بیچ تیرتے ہوئے، اس نے نہ صرف اپنی جان بچانے کی کوشش کی بلکہ اس خوبصورتی کو بھی محسوس کیا جو طوفان کے ساتھ تھی۔ بجلی کی روشنی میں پانی کا چمکتا ہوا منظر اور لہروں کا شور جیسے ایک عجیب قسم کی موسیقی تخلیق کر رہے تھے۔

کئی گھنٹوں کی جدو جہد کے بعد، اسے دور سے ایک روشنی دکھائی دی۔ وہ روشنی کسی کشتی کی تھی جو اس کی طرف آ رہی تھی۔ اس نے پوری طاقت سے چیخنا شروع کیا اور اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ کشتی کے عملے نے اسے پانی سے نکالا اور اسے تحفظ دیا۔

اس رات نے اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ نہ صرف اپنے خوف پر قابو پا چکی تھی بلکہ اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو۔ یہ سمندری سفر اس کی یادوں کا حصہ بن گیا، جو اسے ہمیشہ زندگی کی خوبصورتی اور ہمت کی اہمیت یاد دلاتا رہے گا۔

ایڈونچر ہمیں نہ صرف نئے تجربات سکھاتا ہے بلکہ ہماری شخصیت کو نکھارتا بھی ہے۔ زندگی کے سمندری طوفانوں سے نہ گھبرائیں، بلکہ ان کا سامنا کریں کیونکہ یہی لمحات آپ کی زندگی کو خاص بناتے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96084

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

پرتگال کی یخ بستہ شام میں گرم کافی کے ساتھ ایک میل موصول ہوئی، جس میں چترال ٹائمز کے ایک محترم ایڈیٹر نے ایک حساس مسئلے پر توجہ دلائی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں 15 سے 30 سال کی لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ڈاکٹر شاکرہ نندنی یعنی مجھے، اس موضوع پر تحقیق کے لیے مجبور کر دیا۔

 

چترال اور شمالی پاکستان کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کی خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان نہایت تشویشناک ہے۔ میں، ڈاکٹر شاکرہ نندنی، اس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں تاکہ اس کے پیچھے چھپی وجوہات کو سمجھا جا سکے اور ان کے حل تلاش کیے جا سکیں۔

 

وجوہات – میری تحقیق کی روشنی میں

ARY NEWS URDUNEWS TNN URDU گھریلو تشدد اور خاندانی تنازعات
میری تحقیق کے مطابق، گھریلو جھگڑے اور تشدد خواتین کے لیے سب سے بڑی پریشانیوں میں شامل ہیں۔ خاص طور پر کم عمری کی شادی اور حقوق کی پامالی جیسے مسائل ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

 

URDU NEWS URDU NEWS تعلیمی ناکامیاں

وہ نوجوان لڑکیاں جو تعلیمی میدان میں ناکامی کا سامنا کرتی ہیں، خاص طور پر جہاں والدین یا معاشرے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، خود کو تنہائی اور مایوسی کا شکار پاتی ہیں​۔

 

ARY NEWS ذہنی صحت کی سہولیات کا فقدان

چترال میں ماہر نفسیات کی غیر موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میری تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ذہنی صحت پر گفتگو کو معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو مدد نہیں مل پاتی۔

 

ARY NEWS TNN URDU سماجی دباؤ اور ثقافتی روایات

 

روایتی رسوم و رواج، جیسے کم عمری میں شادی یا خواتین کو “بوجھ” سمجھنا، ان کی خودمختاری کو محدود کر دیتا ہے اور مایوسی بڑھتی ہے۔

 

ARY NEWS URDUNEWS موجودہ صورتحال اور اعداد و شمار

میری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے پانچ سالوں میں چترال میں خودکشی کے 63 کیسز میں سے 54 فیصد خواتین کی تھیں۔ زیادہ تر واقعات میں خواتین نے دریا میں چھلانگ لگائی یا خود کو پھانسی دی​۔

 

حل کے لیے میری تجاویز

ذہنی صحت کی سہولیات میں اضافہ

چترال جیسے علاقوں میں ماہر نفسیات کی تعیناتی اور کونسلنگ مراکز قائم کیے جائیں۔

تعلیمی اور روزگار کے مواقع

لڑکیوں کے لیے ہنر سکھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔

سماجی رویوں میں تبدیلی
والدین اور کمیونٹی کے درمیان آگاہی مہم چلائی جائیں تاکہ خواتین کو درپیش دباؤ کم ہو اور وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکیں​۔

قانونی تحفظ اور خواتین کے لیے خصوصی پناہ گاہیں
دارالامان جیسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ گھریلو جھگڑوں سے متاثرہ خواتین کو محفوظ پناہ فراہم کی جا سکے​۔

آخرش میری تحقیق کے مطابق اس میں غیرت کے نام پر قتل کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے جسے خودکشی کا رنگ دیا جا سکتا ہے اس پر میرا پورا ایک آرٹیکل بھی ہے، یہ ایک پیچیدہ اور حساس اور تحقیقاتی مسئلہ ہے، جس کا حل حکومت، معاشرتی تنظیموں اور کمیونٹی کے تعاون سے ممکن ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق اور مداخلتیں اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

اعلامیہ
یہ مضمون مکمل طور پر میری ذاتی تحقیق اور خیالات پر مبنی ہے، جسے مختلف میڈیا رپورٹس، تحقیقی مضامین، اور معتبر خبروں کے ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر اپنی فہم و دانش کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس کے سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

 

 

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس مضمون کا کسی بھی نیوز چینل، میڈیا ادارے، یا خاص طور پر چترال ٹائمز سے کوئی تعلق یا وابستگی نہیں ہے۔ میں نے اس موضوع پر جو بھی لکھا ہے، وہ میری ذاتی رائے ہے اور اس کا مقصد صرف آگاہی اور مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96061

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

بیچارہ مرد – خاطرات :امیرجان حقانی

 

یہ دنیا کے رنگ عجیب ہیں۔ ایک طرف عورت کو مظلومیت کا تاج پہنایا جاتا ہے، دوسری طرف مرد کو ظالم اور بے حس بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت شاید ان کہانیوں سے کہیں مختلف ہے۔ اگر کسی نے کبھی غور کیا ہو، تو معلوم ہوگا کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، ایک محبت بھرا ہیرو، جو اپنی محبت، خاندان اور خوابوں کی تکمیل کے لیے ہر روز ایک نئی جنگ لڑتا ہے۔

 

یہ دور واقعی “خواتین کا میڈیائی دور” ہے۔ پوری دنیا کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا خواتین کے حقوق کا علمبردار نظر آرہا ہے۔ ہر طرف یہی شور ہے کہ عورت مظلوم ہے، اور اسے اس کے حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ عورت کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن کیا کبھی کسی نے مرد کے دکھوں اور قربانیوں کی طرف بھی توجہ دی؟ شاید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مرد کی بیچارگی ایک خاموش حقیقت بن چکی ہے، جسے سننے والا کوئی نہیں۔ خود مرد بھی نہیں!

 

مسلم معاشروں میں جہاں عورت کو بہت سے حقوق دیے گئے ہیں، وہاں یہ کہنا کہ وہ “مظلوم” ہے، ایک پوسٹ ٹرتھ بیانیہ بن گیا ہے۔ یہ وہ تصور ہے جس میں حقائق کی جگہ جذبات نے لے لی ہے۔ اگر ہم مرد کی قربانیوں پر غور کریں، تو عورت مظلوم کم اور مرد بیچارہ زیادہ محسوس ہوگا۔

 

ذرا سوچیے، ایک مرد جب نکاح کے بندھن میں بندھتا ہے، تو اس کے لیے یہ صرف محبت کا ایک عہد نہیں ہوتا، بلکہ قربانیوں کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ نکاح اور شادی کی رسومات پر خرچ ہونے والے لاکھوں روپے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ایک غریب مرد کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس آگ سے گزرے۔

 

شادی کے بعد ایک مرد پر صرف اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی ذمہ داری نہیں ہوتی، بلکہ اس کے بچوں، خاندان اور ایک بہتر زندگی کے خوابوں کا بوجھ بھی آ جاتا ہے۔ وہ دن رات محنت کرتا ہے، اپنی خواہشات کو دباتا ہے، اور اپنے آرام کو قربان کر دیتا ہے، تاکہ اس کا خاندان خوش رہے۔

 

کبھی وہ پتھر توڑتا ہے، اور درجنوں، جسمانی و ذہنی مشقت پر مبنی کام کرتا ہے۔کبھی دفاتر کی ذلت سہتا ہے، اور کبھی اپنے دل کے ارمانوں کو دفن کر دیتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی بیوی اور بچے کسی چیز کی کمی محسوس نہ کریں۔ اور پھر بھی معاشرہ کہتا ہے کہ مرد ظالم ہے، عورت مظلوم ہے۔

 

اگر مرد کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی، یا وہ صرف اپنی جنسی خواہشات پوری کرنا چاہتا، تو شاید وہ شادی جیسے مشکل عمل سے کبھی نہ گزرتا۔ وہ بہت آسان اور سستے راستے بھی اختیار کر سکتا تھا۔ مگر نہیں، مرد یہ سب کچھ محبت، خاندان بسانے، اور اولاد کی خوشیوں کے لیے کرتا ہے۔

 

یہ سچ ہے کہ مرد کے جذبات اتنے واضح نہیں ہوتے، لیکن اس کے عمل میں محبت جھلکتی ہے۔ وہ اپنی خوشیوں کو پس پشت ڈال کر اپنے خاندان کے لیے ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑا رہتا ہے۔ ایسی دیوار جو دیوار چین سے بھی مضبوط ہے۔

 

کیا ہم نہیں جانتے کہ بیچارہ مرد ایک پورے خاندان کے خوابوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، ان کی خوشیاں، گھر کی ضروریات، اور ایک بہتر زندگی کی جستجو… یہ سب وہ دن رات محنت کر کے پورا کرتا ہے۔

 

ہر بار وہ اپنی خواہشات، اپنی خوشیاں، اور اپنی راحتیں قربان کر دیتا ہے، مگر اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی ہے۔ اس کے دل میں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا خاندان خوش اور سکھی رہے۔

 

یہ کہنا کہ عورت ہمیشہ مظلوم ہے اور مرد ہمیشہ ظالم، شاید انصاف نہیں۔ ہر رشتہ ذمہ داریوں، قربانیوں اور محبت کے توازن پر قائم ہوتا ہے۔ جہاں عورت کی قربانیوں کو سراہا جانا ضروری ہے، وہیں مرد کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا زیادتی ہے۔

 

مرد کی یہ محبت شاید الفاظ میں کم اور عمل میں زیادہ جھلکتی ہے۔ وہ محبت، عزت اور خاندان کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ہر قدم پر اپنی محبت کے لیے جیتا ہے، اپنی عزت کے لیے لڑتا ہے، اور اپنی اولاد کے لیے خواب دیکھتا ہے۔

 

کیا یہ انصاف ہے کہ مرد کی ان قربانیوں کو نظرانداز کر دیا جائے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ عورت کو ہمیشہ مظلوم اور مرد کو ہمیشہ ظالم دکھایا جائے؟ شاید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد ایک خاموش عاشق ہے، جو اپنے پیار کو خوش رکھنے کے لیے اپنی ہر خوشی قربان کر دیتا ہے۔

 

یہ وقت ہے کہ ہم اس خاموش محبت کو تسلیم کریں۔ مرد کا دل بھی محبت کرتا ہے، اور اس کی محبت بھی اتنی ہی گہری، سچی اور خالص ہے جتنی کسی عورت کی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے ایک خاموش ہیرو ہے، جس کی قربانیاں شاید نظر نہ آئیں، مگر ان کی تاثیر ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔

 

یہ چند الفاظ، محبت کے اس ہیرو کو سلام پیش کرنے کے لیے لکھا ہے، جو ہر روز اپنی زندگی کی جنگ لڑتا ہے، اور پھر بھی مسکراتا رہتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی محبت کا جہان خوش رہے۔

 

یہ تحریر ان تمام خواتین کے نام بھی ہے جن کے مرد اپنی زندگی، محبت، خاندان اور رشتوں کے لیے وقف کر دیتے ہیں، اور پھر بھی “ظالم” کہلاتے ہیں۔ حقیقت میں، وہ اس دنیا کے سب سے بڑے مظلوم ہیں، مگر خاموش! کیا آپ اس ہیرو کو سیلوٹ کریں گی؟

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96056

داد بیداد ۔ روم اور شاعر ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ روم اور شاعر ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

شاعر، ڈرامہ نگار، اداکار اور فلسفی شیکسپئیرنے اپنی 52سال کی زند گی میں ایک دن کے لئے بھی اٹلی کا سفر نہیں کیا اس کے باوجود وہ روم اور وینس کے عشق میں مبتلا تھا اُس نے چھ المیہ ڈرامے روم کے پس منظر میں لکھے ایک طربیہ ڈرامہ لکھا وہ بھی قدیم روم سے تعلق رکھتا ہے المیہ ڈراموں میں رومیو اینڈ جو لیٹ، ٹیٹو س، جو لیس سیزر، قلو پطرہ، کوریولو نس کا پس منظر روم کی تاریخ سے ما خوذ ہے ایک ڈرامہ اوتھیلو کا پس منظر وینس کے شہر سے تعلق رکھتا ہے اس با ت کا ادراک کر کے حیرت ہوتی ہے کہ 800سال پہلے لندن میں بیٹھا ہوا فنکار، شاعر اور ڈرامہ نگار لندن سے 1800کلو میٹر کی دوری پر واقع روم کے ثقافتی پس منظر کو کس طرح اپنی تخلیقی صلا حیت سے کہا نی کا لباس پہنا تا ہے اور ان کہا نیوں میں اپنی شاعرانہ تخیل کے ذریعے جان ڈالتا ہے اور ایسے مکا لمے لکھتا ہے جو آنے والے زما نے میں لو گوں کے لئے ضر ب المثل بن جا تے ہیں

 

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اٹلی اور انگلینڈ اُس زما نے میں ایک دوسرے کے حریف تھے آج بھی حریف ہی ہیں انگریزی ایسی زبان ہے جس کو اٹلی میں پسند نہیں کیا جا تا مگر انگریزی کے سب سے بڑے ادیب کے یا د گار شہہ پا رے روم کے پس منظر میں لکھے گئے ان شہہ پا روں میں روم کی ثقافت، تہذیب اور تاریخ کے ساتھ پورا انصاف کیا گیا شیکسپئیرکا دور 1564ء سے 1616ء تک کا زما نہ ہے، وہ اپنے گاوں سٹریٹ فورڈ Stratford upon Avonسے روز گار کی تلا ش میں لند ن چلا گیا جہاں اس کو تھیٹر میں روز گار ملا، پہلے اس نے ادا کاروں کی خد مت کی پھر اس نے ادا کاری کی اور ادا کاری کے دوران اس نے خود ڈرامہ نگا ری پر توجہ دی اور اُس زمانے کے انگلینڈ کے گھسے پٹے مو ضو عات کو چھوڑ کر اٹلی کی ثقا فتی تاریخ سے نئے مو ضو عات کو چُن لیا رومی بادشاہ جو لنیس سیزر کی مشہور کہا نی کو لے لیا،

 

انتھو نی اور قلو پطرہ کی محبت کو ڈرامے کا مو ضوع بنا یا، روم کی تاریخ سے بروٹس کے کر دار کو چن لیا اور اس کو ایک المیا تی منظر پر چسپان کیا اور دکھا یا کہ ایک نمک حرام جب طاقت پا تا ہے تو اپنے محسن پر کس طرح وار کر تا ہے اور اس کو دشمنوں کی صف میں دیکھ کر محسن کو کس طرح حیرت ہو تی ہے؟ رومیوں اور جو لیٹ کاتعلق دو متحا رب خا ندانوں سے ہے دونوں خا ندانوں میں پرانی دشمنی چل رہی ہے کہا نی کا لطف یہ ہے کہ دو متحا رب خاندانوں میں سے ایک خاندان سے رومیوں دوسرے خاندان کے جو لیٹ آپس میں محبت کے رشتے میں بندھ جا تے ہیں، رومیو18سال کا بانکا نو جوان ہے جبکہ جو لیٹ کی عمر بمشکل 13سال ہے، بظا ہر یہ عشق و محبت کی عام سی کہا نی ہے تا ہم اس کہا نی کو شیکسپئیر کے شاعرانہ تخلیل نے فن کی بلندیوں تک پہنچا کر رومانوی ادب کا شاہکار بنا یا ہے

 

اس طرح ان کا طربیہ ڈرامہ وینس کا سوداگر (The marchant of venice) ان کے 17طر بیہ ڈراموں میں سے ایک ہے جس کا پس منظر قدیم رومن شہر وینس سے لیا گیا معمولی لین دین میں قرض اور سود کی ادائیگی میں نا کام ہونے والے شخص کی اس کہا نی کو شیکسپئیر نے اپنے جا ندار مکا لموں کے ذریعے ادبی شہکار کا درجہ دیدیا (Hath not a Jew eyes) بہت مشہور ہوا مساوات کے علمبرداروں نے اس ڈائیلا گکو بہت اچھا لا چنا نچہ حالت یہ ہے کہ روم کے تاریخی منا ظر کو دیکھ کر قدم قدم پر انگلینڈ کا با سی اور انگریز ی ادب کا نا مور ادیب، شاعر اور فلسفی ولیم شیکسپئیر یا دا ٓ تا ہے اور یہ
اُس کے قلم کا اعجا ز ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96054

بزمِ درویش ۔ اویس قرنی کا مقام ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ اویس قرنی کا مقام ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

 

روزِ اول سے شمع رسالت ﷺ کے پروانوں میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ اِسی طرح روزِ محشر تک جاری و ساری رہے گا۔عاشقانِ رسول ﷺ کے اِس گلدستے میں ہر پھول کی خوشبو تازگی اور خوبصورتی نرالی ہے اِس گلدستے میں ایک پھول ایسا ہے جس کی معطر خوشبو سے کائنات کا کونہ کونہ مہک رہا ہے۔یہ وہ آفتاب ہے کہ جس کی روشنی سے کرہ ارض اور کائنات کے عمیق ترین اور بعید ترین گوشے روشن چمک رہے ہیں اِس آفتاب کی روشنی کے سامنے ہزاروں سورج اور ان کی روشنی بھی ماند پڑ جاتی ہے از ل سے ابد تک ہر روز عشقِ رسول ﷺ کی ایسی ایسی داستانیں منظر عام پر آتی رہیں گی جن سے اہل ایمان کے ایمان تازہ اور زندہ ہوتے رہیں گے۔

 

ہر دور میں عاشقان رسول ﷺ اپنی والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار اِسی طرح کرتے رہے گے۔لیکن ایک عاشقِ رسول ﷺ ایسا ہے کہ قیامت تک عاشقانِ رسول ﷺ اور اہلِ ایمان اس کے مقام و مرتبہ پر رشک کرتے رہیں گے جو مقام اِ س عاشقِ رسول ﷺ کو علاوہ آج تک اور قیامت تک کسی اور کو نہیں مل پائے گا بلاشبہ عاشقانِ رسول ﷺ کے قافلے کے یہ سردار ہیں۔ اور روزِ محشر تک کوئی بھی آپ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔معراج کی شب جب سرور دو عالم ﷺ فخرِ موجودات فلک افلاک پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کسی کی جسمانی روح کا قابل ربانی فیض و برکات کی چادر اوڑھے ایک شاندار تخت مرصع و نورانی پر بڑے اطمینان و فراغت کے ساتھ بے نیازی کے انداز سے پاں پھیلائے ہوئے آرام فرما رہے ہیں نبی کریم ﷺ نے جبرائیل سے پوچھا یہ کیا ہے تو جبرائیل نے عرض کیا یہ مجال اور جرات شیخ اویس قرنی کے قالب نے کی ہے جس نے آپ ﷺ کے عشق میں دم مارا ہے اور درد و فراق میں قدم اٹھا یا ہے اور ابھی ایک لحظہ دم کے لیے آرام کر رہا ہے۔

 

معراج کی شب ہی حضرت اویس کے خراٹوں کی آواز سن کر فخرِ دو عالم ﷺ نے پوچھا یہ کس کی آواز ہے تو غیب سے جواب ملا کہ یہ اویس قرنی کی آواز ہے اور میں نے چند فرشتوں کو اِس آواز پر متعین کر دیا ہے کیونکہ یہ آواز مجھ کو بہت پسند ہے۔ روزِ محشر ربِ ذولجلال حضرت اویس قرنی کو بہت بڑی شان سے جنت میں داخل فرما یں گے۔ساقی کوثر ﷺفرمایا کرتے تھے کہ اویس احسان و مروت کے اعتبار سے بہترین تابعین میں سے ہیں اور روزِ محشر ستر ہزار ملائکہ کے جلوے میں اویس قرنی جنت میں داخل ہوں گے اور وہ ستر ہزار فرشتے ان کے ہم شکل ہونگے تاکہ مخلوق ان کی شناخت نہ کر سکے سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالی ان کے دیدا ر سے مشرف کرنا چاہے۔یہ اس لیے ہو گا کہ حضرت اویس قرنی نے خلوت نشین ہو کر مخلوق سے رو پوشی کر کے محض اللہ تعالی کی عبادت و ریاضت کی اور دنیا والے آپ کو برگزیدہ تصور نہ کرے اور اِسی مصلحت کے پیشِ نظر روزِ محشر آپ کی پردہ پوشی قائم رکھی جائے گی۔تذکر الاولیا میں شیخ فرید الدین عطار نے حضورِ اکرم ﷺ سے ایک ایمان افروز روایت بیان کی ہے کہ۔میری امت میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس کی شفاعت سے قبیلہ ربیع اور مغر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر گناہ گاروں کو بخش دیا جائے گا اور جب صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ وہ کون ساشخص ہے اور کہاں مقیم ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالی کا ایک بندہ ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم سب بھی اللہ تعالی کے بندے ہیں اِس کا اصل نام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اویس قرنی ہے۔

صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا کبھی وہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا ہے تو آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کبھی نہیں لیکن ظاہری طور کی بجائے باطنی طورپر اس کو میرے دیدار کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور مجھ تک اس کے نہ پہنچنے کی دو وجو ہات ہیں اول غلبہ حال دوم تعظیم شریعت کیونکہ اس کی والدہ محترمہ ضعیف اور نابینا ہیں۔حضرت اویس قرنی شتر بانی کے ذریعہ اپنے لیے معاش حاصل کرتا ہے اور پھر آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم اس سے نہ مل سکو گے لیکن حضرت عمر فاروق اور حضرت علی المرتضی اس سے ملاقات کریں گے اور اس کی شناخت اور تعارف یہ ہے کہ اس کے پورے جسم پر بال ہیں ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درہم کے برابر سفید رنگ کا داغ ہے لیکن وہ برص کا داغ نہیں لہذا جب بھی ان سے ملاقات کرو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری امت کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا پیغام بھی ضرور دینا۔اِس کے بعد صحابہ کرام نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ کے خرقہ کا حق دار کون ہے تو سرور دوعالم ﷺ نے فرمایا اویس قرنی۔سبحان اللہ کیا شان اور مقام ہے حضرت اویس قرنی کا۔ حضرت اویس قرنی ، حضرت اویس قرنی کو سرور کونین ﷺ کی بارگاہ میں مرتبہ محبوبیت بھی حاصل تھا

 

روایت میں آتاہے کہ فخرِ کائنات کبھی کبھی وفورِ شوق میں اپنے پیراہن کے بند کھول کر سینہ مبارک بطرف یمن کرکے فرمایا کرتے یعنی میں نسیم رحمت یمن کی طرف پاتا ہوں۔عدن سے محبوب کی خوشبو آتی ہے یعنی اویس قرنی جان پرور ہے۔کتاب قصص الاولیا میں بیان ہے۔ خواجہ اویس قرنی طلوع اسلام سے پہلے اِس دنیا میں تشریف لا چکے تھے خواجہ صاحب عہد طفولیت میں والد کی شفقت سے محروم ہو گئے اِس لیے ان کو بچپن ہی میں محنت مزدوری کرنا پڑی آپ لوگوں کے اونٹ اجرت پر چرایا کرتے تھے اور اِس اجرت سے اپنا اور اپنی ضعیف اور نابیانا ماں کا پیٹ پالا کرتے تھے اِس کے علاوہ جو تھوڑی سی رقم بچ رہتی اس کو لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے آپ زندگی کے شب و روز اسی طرح گزار رہے تھے کہ یمن تک اسلام کے جان لیوا پیدا ہو گئے جب آپ کو اسلام اور رسول کریم ﷺ کے متعلق خبر ملی تو آپ فورااسلام لے آئے آپ کے اندر نورِ ہدایت کی شمع ہدایت کو جلا بخشی اور آپ رسول کریم ﷺ ساقی کوثر فخرِ دو عالم کے دیوانے اور شیدائی بن گئے آپ کو سرورِ دو عالم ﷺ سے اِس قدر عشق تھا کہ ہمہ وقت اِسی عشق میں مستغرق رہتے تھے جنگِ احد میں نبی کریم ﷺ کے دانت مبارک شہید ہونے کی خبر ملی تو اپنا ایک دانت توڑ ڈالا پھر دل میں خیال آیا کہ شاید آقائے دو جہاں ﷺکا کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو گا۔تو دوسرا دانت بھی توڑ دیا اِس طرح ایک ایک کر کے سارے دانت مبارک توڑ ڈالے تو عاشق کو سکون حاصل ہوااللہ تعالی کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ کیلے کا درخت پیدا کیا تاکہ آپ کو نرم غذا مل سکے اِس سے پہلے زمین پر کیلے کا درخت نہ تھا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96038

داد بیداد ۔ دو حکمران ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ دو حکمران ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اٹلی کے دو حکمران اردو صحافت میں مشہور ہیں ایک نا م نیرو (Nero) ہے دوسرے کا نا م مسو لینی(Mussolini)ہے دونوں کو مختلف موا قع پر یا د کیا جا تا ہے نیرو باد شاہ تھا جو 54عیسوی میں تخت نشین ہوا وہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا وہ 3سال کا تھا تو اس کا باپ مر گیا 11سال کا ہوا تو اس کی ماں نے رومی باد شاہ کلا ڈیو س سے شادی کر کے نیرو کو بادشاہ کا وارث اور ولی عہد مقرر کیا 16سال کا ہوا تو باد شاہ مر گیا، سو تیلے باپ کی جگہ 16سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، رومی سلطنت کا باد شاہ بن کر انہوں نے اپنی ماں اور سو تیلے بھا ئیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اس کانا م ظلم اور جبر کا استغا رہ بن گیا اپنی حکومت کے دسویں سال 64ء میں اس نے روم کو آگ لگا نے کا حکم دیا 6دنوں تک رو م جلتا رہا،

 

کم سن باد شاہ کھلنڈرا تھا بانسری بجا نے کا شو قین تھا وہ با نسری بجا تا رہا آگ کو بجھا یا گیا تو اس نے پھر جلا نے کا حکم دیا 3دن مزید لگے اور روم کے 14انتظا می یو نٹوں میں سے 10اضلا ع جل کر راکھ ہو گئے تب نیرو کی بانسری خا موش ہو گئی حساب لگا یا گیا تو روم کا 71فیصد جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا اس لئے اطالوی زبان سے یہ مثل اردو میں مشہور ہوا ہے کہ روم جل رہا تھا نیرو بانسری بجا رہا تھا، حکمران اپنی قوم اور اپنے ملک، اپنے شہر کے بنیا دی مسا ئل سے خود کو لا تعلق کر کے بیٹھ جا ئے اس ضر ب المثل کا ذکر ہو تا ہے 68عیسوی میں نیرو نے خو د کشی کی تو قوم نے سکھ اور چین کا سانس لیا، خو د کشی سے پہلے اپنی بیویوں کو قتل کر کے روم شہر سے بھا گ گیا شہر پر انقلا بیوں کا قبضہ ہوا غر ض اس کی زند گی پے در پے المیوں سے عبارت تھی پا نچویں قیصر روم کا یہ بھیا نک انجا م ہوا، دوسرا نا م مسو لینی کا ہے،

 

وہ جمہوری اور سیا سی آزادیوں کے دور کا منتخب حکمران تھا 1883ء میں پیدا ہوا، اس کا باپ لوہار تھا، 37سال کی عمر میں اُس نے فاشسٹ پارٹی کے نا م سے اپنی سیا سی جما عت بنائی معاشرے میں پائی جا نے والی برائیوں اور نا انصا فیوں کو ختم کرنے کا اعلا ن کیا اپنی پارٹی کے لئے اس نے کا لے لباس کی وردی بنا ئی، میلان، وینس، فلورینس اور روم جیسے بڑے شہروں میں اس کی پارٹی کی ریلیاں ہوتیں تو یو رپ کے اخبارات ان ریلیوں کو کا لے بادل کا نا م دیتے تھے، ترک اخبارات ان کو سیا ہ پو ش کہتے تھے 1922ء کے پارلیمانی انتخا بات کے بعد مسو لینی نے پا رلیمنٹ کے اندر دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی، خود وزیر اعظم بن گیا، 5ماہ بعد پارلیمنٹ میں دوسری پارٹیوں کے ممبروں کو توڑ کر اپنی پارٹی کو بھا ری اکثریت دلا دی، اکثریت ملنے کے بعد اس نے قانون میں بے تحا شا ترامیم کر کے رومی باد شاہوں کے اختیارات حا صل کئے اور مطلق العنان وزیر اعظم بن گئے،

 

1943ء میں اس کے خلا ف بڑی بغا وت ہوئی پہلے اس کو عہدے سے معزول کیا گیا اس کے بعد 1945ء میں اس کو سزائے مو ت دی گئی مسو لینی کا نا م بیسویں صدی میں آمریت کا بد نا م نمو نہ کے طور پر لیا جا تا ہے اس کا طرز سیا ست تین باتوں کی وجہ سے بد نا م ہو ا، پہلی بات یہ تھی کہ وہ کسی کا مشورہ نہیں مانتا تھا اُس کا پختہ یقین تھا کہ میرے مقا بلے میں کوئی بھی زیا دہ عقلمند نہیں ہے سیا سی تجزیہ کا روں نے اس غلط فہمی کو اس کا سب سے بڑا عیب قرار دیا ہے دوسری بات یہ تھی کہ وہ سیا سی مخا لفین اور افیسروں کو بھاری رشوت کی پیش کش کر کے اپنے ساتھ ملا تاتھا یہ حر بہ نا کا م ہو تا تو قتل کر وا کر اپنی راہ ہموار کر تاتھا،

 

مبصرین کے مطا بق 21سال کی حکمرانی میں اس نے اٹلی کی سیا سی اور انتظا می مشینری میں زہر بھر دیا، تیسرا عیب یہ تھا کہ وہ قانون کو اپنی راہ میں رکا وٹ قرار دیتا تھا اس کی کسی نا جا ئز اور نا روا خوا ہش کے مقا بلے میں قانون کا ذکر کیا جا تا تو مسو لینی کہتا تھا قانون کو تبدیل کر و،میں جو چاہتا ہوں اس کو قانون بنا ؤ چنا نچہ اس کے خلا ف بڑے پیما نے پر بغا وت ہوئی، اُس کو عہدے سے معزول کیا گیا اور قید ہوا تو ہٹلر (Hitler) نے اس کو جیل توڑ کر آزاد کیا اور شما لی اٹلی کے پہا ڑی علا قے میں نا زی فوج کے ذریعے تائیوان جیسی ریا ست بنا کر اس کو پھر حکمران بنا یا مگر ہٹلر کا ستارہ غروب ہو نے کے بعد اٹلی کے باد شاہ نے مسو لینی کو پھر گرفتار کر کے 1945ء میں اس کو سزائے موت دیدی، اس طرح مسو لینی کے ساتھ جمہوریت کے پر دے میں آمریت کا ایک باب ختم ہوا۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
96018

عورت اور لومڑی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

عورت اور لومڑی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

عورت اور لومڑی دونوں فطری طور پر چالاکی اور حکمت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی ہوشیاری مختلف انداز اور مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لومڑی اپنی بقا اور شکار میں چالاک ہے، جبکہ عورت اپنی سماجی زندگی اور تعلقات میں سمجھداری اور حکمت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ مضمون ان دونوں کی چالاکی کا موازنہ کرتا ہے اور ان کی حکمت عملیوں کے پیچھے چھپے فلسفے کو اجاگر کرتا ہے۔

 

awrat and lomli women and fox in the forest

چالاکی ایک ایسا وصف ہے جو انسان اور جانور دونوں میں مشترک پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا اظہار مختلف ہوتا ہے، مگر دونوں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کسی نہ کسی مقصد کے لیے کرتے ہیں۔ عورت اور لومڑی، دونوں چالاکی کی مثالیں ہیں لیکن ان کی چالاکی کا انداز، دائرہ کار اور مقاصد مختلف ہیں۔

 

لومڑی کو ہمیشہ چالاک اور ذہین جانور کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ یہ جنگل میں اپنی بقا کے لیے نہایت چالاک حکمت عملی استعمال کرتی ہے۔ شکار کے دوران لومڑی اپنی پھرتی، خاموشی اور غیر متوقع حملوں سے شکار کو قابو کرتی ہے۔ یہ جانور خطرے کی صورت میں اپنی راہ بدلنے میں ماہر ہے اور بعض اوقات خود کو بے ضرر ظاہر کر کے اپنے دشمن کو دھوکا دیتا ہے۔ لومڑی کی یہ ذہانت اس کی بقا کی کنجی ہے اور اسے جنگل کا بہترین شکاری بناتی ہے۔

 

عورت کی چالاکی سماجی، جذباتی اور ذہنی پہلوؤں پر مبنی ہے۔ وہ اپنے تعلقات، معاملات اور چیلنجز میں اپنے ذہن کا مؤثر استعمال کرتی ہے۔ عورت نہ صرف اپنی حفاظت بلکہ اپنے پیاروں کی بھلائی کے لیے بھی چالاکی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ جذبات اور حالات کو سمجھ کر ایسے فیصلے کرتی ہے جو نہایت نفع بخش ہوتے ہیں۔ سماجی سطح پر عورت کی چالاکی اسے بہتر تعلقات قائم رکھنے اور مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

 

لومڑی کی چالاکی فطری بقا اور جسمانی حکمت عملیوں پر مرکوز ہے، جبکہ عورت کی چالاکی جذباتی ذہانت، تعلقات اور سماجی معاملات کے گرد گھومتی ہے۔ لومڑی اپنی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چالاکی کرتی ہے، جبکہ عورت اپنے خاندان اور کمیونٹی کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتی ہے۔ دونوں میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ ان کی چالاکی انہیں مشکل حالات سے نکالنے میں مدد دیتی ہے۔

 

لومڑی اور عورت، دونوں اپنی چالاکی میں منفرد ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ لومڑی کی چالاکی فطرت کی بہترین حکمت عملیوں میں سے ایک ہے، جبکہ عورت کی چالاکی انسانی جذبات اور تعلقات کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کا ہنر ہے۔ دونوں کے مابین یہ موازنہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ چالاکی اور حکمت ہر مخلوق کے لیے اہم ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96020

جعلی پیر معاشرے کے ناسور۔ تحریر: وقاص مون

Posted on

جعلی پیر معاشرے کے ناسور۔ تحریر: وقاص مون

 

انسانی فطرت ہمیشہ سے سکون اور روحانی تسکین کی متلاشی رہی ہے۔پاکستانی معاشرہ روحانی اور مذہبی عقائد میں گہرا یقین رکھتا ہے۔ اسی یقین کا فائدہ اٹھا کر جعلی پیروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جعلی پیر ایسے افراد ہیں جو ظاہری طور پر مذہبی لباس میں نظر آتے ہیں اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کی مشکلات اور دکھوں کا علاج دینے کا جھوٹا وعدہ کرتے ہیں، اور ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی دولت اور شہرت میں اضافہ کرتے ہیں۔معاشرتی مشکلات، بیماریوں، گھریلو پریشانیوں اور نفسیاتی مسائل کا شکار لوگ جلد ان کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ جعلی پیر ان کے مسائل کے روحانی حل کے وعدے کرتے ہیں اور مالی و جسمانی استحصال کرتے ہیں، یوں وہ ایک ناسور بن کر معاشرے میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ان جعلی پیروں کے ہاتھوں بہت سے لوگوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔

 

وہ معصوم لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے مسائل، جیسے کہ بیماری، شادی کے مسائل، کاروبار کی مشکلات وغیر کا ان کے پاس حل موجود ہیں۔ ان جھوٹے وعدوں کے بدلے میں وہ بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ ایسے پیر نہ صرف لوگوں کے ایمان کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان کی مالی حالت کو بھی خراب کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اس قدر ذہنی دباومیں مبتلا کر دیتے ہیں کہ وہ خود پر شک کرنے لگتے ہیں، اور یوں ان کا ایمان کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ جعلی پیروں کے ذریعے دین کا غلط استعمال بھی معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ دین اسلام میں روحانیت کا ایک مخصوص مقام ہے، لیکن جعلی پیر اسے توڑ مروڑ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لوگ انہیں حقیقی دین دار اور اللہ کے قریب سمجھتے ہیں اور ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ یہ دین کو ایک کاروبار بنا لیتے ہیں اور دین کی اصل روح کو نقصان پہنچاتے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک پیر صاحب کے اڈے پر جانے کا اتفاق ہوا بات اصل میں کچھ یوں ہے کہ میراایک عزیز جو پہلے کافی جعلی پیروں کے ہتھے چڑھ کر اپنے دل میں جادو ٹو کے شک کابیج بو چکا تھا، اور اسی کی آبیاری کے لیے اسے کسی دوست نے نئے پیر صاحب کے آستانے کا ایڈریس دیا۔

 

میرا عزیزاس پیر کے پاس جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے گیا۔جب ہم پیر صاحب کے اڈے پر پہنچے تو وہاں کا منظر قابل دید تھا۔ بابا جی کا آستانہ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ ایک طرف بہت سارے بکرے بندھے ہوئے تھے میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ پیر صاحب کے لیے نذانے کے طور پر لائے ہوئے بکرے ہیں۔ پیر خانے میں آنے والے لوگوں کو انتظار کے لیے بٹھایا جا رہا تھااور پیر صاحب کے ”خاص شاگرد” یا مرید لوگوں کو بتارہے تھے کہ پیر صاحب کس قدر روحانی طاقت رکھتے ہیں اور کیسے انہوں نے کئی لوگوں کے مسائل حل کیے ہیں۔ انتظار کرنے والوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے مسائل حل ہو جائیں گے، چاہے وہ بیماری ہو، مالی مشکلات ہوں یا محبت کے معاملات مجھے حیرانگی تب ہوئی جب اتنے زیادہ رش میں پیر صاحب سے ملاقات کا وقت لینے کے لیے وہاں پر موجود لوگوں چند پیسے لے کر ان کا نمبر جلدی لگوانے کا وعدہ بھی کر رہے تھے۔ بہرحال ایک شخص کو 500 روپیہ دے کر جلدی نمبر لگوانے کا کہا گیا اللہ اللہ کر کے باری آئی میں بھی اپنے دوست کے ساتھ پیر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا کمرے کا ماحول قابل دید تھا۔ہلکی ہلکی مدھم روشنی،میں پیر صاحب خاص قسم کے سفید لباس میں ملبوس ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہوئے سادہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر لوٹنے کے لیے تیار بیٹھے تھا۔

 

جعلی پیر صاحب کر دیکھتے ہی مجھے پنجابی کا مشہور معقولہ یا د آیا ”منہ مومن تے کام شیطان“۔ جعلی پیر خانے دراصل ایک نفسیاتی کھیل ہوتے ہیں جہاں لوگ اپنی امیدوں، پریشانیوں اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے جاتے ہیں مگر اصل میں ان کی عقیدت اور معصومیت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔بہر حال یہ تو میری ذاتی رائے تھی۔ میرے اس عزیز نے پیر صاحب کو اپنا مسئلہ بتایا۔ مسئلہ سننے کے بعد پیر صاحب چند لمحے اپنے موکلات سے بات کرتے رہے جو اصل میں موکلات نہیں پیر صاحب کے سہولت کار تھے پھر چند لمحوں میں بابا جی نے شبدہ بازی سے ایک قبر کی مٹی جس میں چند کاغذ کے ٹکڑے اور کافی زیادہ کیل تھے، یہ کہتے ہوئے ہمیں دکھائے کہ یہ وہ مٹی ہیں جس میں دشمنوں نے تعویز کروا کے دفن کیے ہیں اور یہ فلاں علاقے کے قبرستان کی مٹی ہیں اور یہ وہ کیل ہیں جوآپ کے دشمنوں نے آپ کے کاروبار میں رکاوٹ کے لیے گاڑھ رکھے تھے۔آپ بے فکر ہو جائیں میرے موکلات نے آپ پر ہوئے جادوکا توڑ کر دیا ہے۔اب آپ کو جو جو بھی مسائل تھے وہ دوبارہ نہیں ہوں گے جعلی پیر صاحب کا یہ جملہ ادا کرنے کا انداز اتنا تکبر انا تھا کہ مجھے اس جعلی پیر پر اتنا غصہ آیا کے اسے کھری کھری سنا دوں، لیکن جعلی پیر صاحب کے اتنے زیادہ عقیدت مند اور چاہنے والوں کو دیکھ کر مجھے اپنی فکر ہونے لگی اورمیں نے خاموشی کو ہی بہتر جانا۔بہرحال ہم واپس توآگئے پر دل میں ایسے جعلی پیروں کے لیے بد دعائیں تھی جو سادہ لوگوں کواپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوٹ رہے ہیں۔ایسے جعلی پیروں کے برعکس اصل مذہبی رہنما لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل ڈھونڈنے کی تلقین کرتے ہیں۔

 

ان کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا سہارا اللہ ہے اور ہر دکھ اور مصیبت کو صبر و تحمل اور دعا سے دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جعلی پیروں کی وجہ سے لوگ اصل مذہبی رہنماؤں سے بھی بدظن ہو جاتے ہیں اور یوں پورے مذہبی نظام پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔معاشرے کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ایسے جعلی پیروں سے دور رہے اورمعاشرے میں آگاہی پیدا کرتے ہوئے لوگوں کو سمجھائیں کہ مذہب کے نام پر دھوکہ دینے والے ان جعلی پیروں سے دور رہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے اور عوام کو ان کے بارے میں باخبر کرے تاکہ کوئی بھی معصوم ان کے جال میں نہ پھنس سکے۔ مدارس اور مساجد کو بھی چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر لوگوں کو شعور دیں اور حقیقی مذہبی تعلیمات کی ترویج کریں تاکہ عوام جعلی پیروں کے فریب سے محفوظ رہیں۔جب تک معاشرہ ان جعلی پیروں کے خلاف متحد ہو کر آواز نہیں اٹھاتا، یہ ناسور دن بہ دن پھیلتا رہے گا اور معاشرتی، روحانی اور معاشی نقصان بڑھتا رہے گا۔ یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو بے نقاب کرے اور صحیح مذہبی رہنماؤں کی طرف رجوع کرے تاکہ ہماری نسلیں ان جعلی پیروں کے شرسے محفوظ رہ سکیں۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95983

ایک نظرِ محبت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

ایک نظرِ محبت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

تصویر میں موجود خاتون کی شخصیت کسی خیالی کردار کی مانند ہے۔ وہ نہایت سکون سے سفید لباس میں ملبوس ہے، جو اس کی پاکیزگی اور معصومیت کو بیان کرتا ہے۔ اس کے زیور اس کی عظمت کو بڑھاتے ہیں، جو مشرقی ثقافت کی خوبصورتی اور نفاست کی علامت ہیں۔ اس کے ہاتھوں میں موجود کپڑے کی ہلکی سی گرفت ایک کہانی بیان کرتی ہے—ایک ایسی کہانی جو ماضی کے کسی خوبصورت لمحے سے جڑی ہو۔

 

 

nandini65

 

 

پس منظر میں دکھائے گئے رنگین پتوں اور پھولوں کی ترتیب ایک حسین خواب کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ منظر ہمیں فطرت کے قریب لے جاتا ہے، جہاں ہر چیز اپنی خاموش زبان میں بات کرتی ہے۔ زرد اور گلابی پھول زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں: زرد خوشی کی علامت ہے جبکہ گلابی محبت اور سکون کی۔ یہ قدرت کی شاعری ہے جو ہر دیکھنے والے کے دل کو چھوتی ہے۔

 

تصویر میں موجود دیوار کے نقش و نگار اور لکڑی کی جالی دار کھڑکیاں ہمیں قدیم فارسی اور چینی ثقافتوں کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں فلسفیانہ خیالات پروان چڑھتے تھے اور جہاں ہر زاویہ ایک نیا راز افشا کرتا تھا۔ یہ منظر ایک ایسا پل ہے جو ماضی کو حال سے جوڑتا ہے اور ہماری جڑوں کو مضبوطی سے پکڑتا ہے۔

 

تصویر ایک خاموش پیغام دیتی ہے کہ خوبصورتی ہمیشہ ظاہری نہیں ہوتی بلکہ ایک لمحے میں چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سکون اور محبت کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں صرف اپنے ارد گرد کے لمحوں کو محسوس کرنا ہوگا۔

 

تصویر کی منظر کشی فارسی ادب کے اس فلسفے کی ترجمان ہے جو کہتا ہے:
“گلوں کی خوشبو وہی سمجھ سکتا ہے، جس کی روح آزاد ہو اور دل کھلا ہو۔”
یہ تصویر بھی ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ زندگی کے چھوٹے لمحات کی خوبصورتی کو محسوس کریں اور انہیں ہمیشہ یاد رکھیں۔

 

یہ تصویر محض ایک منظر نہیں بلکہ ایک تجربہ ہے۔ یہ ہمیں اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی کو قید کرنے کی بجائے، اسے محسوس کیا جائے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ سکون کا خزانہ ہمارے اندر موجود ہے، بس اسے دیکھنے والی آنکھیں اور سمجھنے والا دل چاہیے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95980

مرد کی محبت: شدت کی انتہا – خاطرات:امیرجان حقانی

Posted on

مرد کی محبت: شدت کی انتہا – خاطرات:امیرجان حقانی

 

 

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو اس کے اندر چھپی ہوئی گہرائیوں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ مکمل فطری عمل ہے۔ کوئی اسے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ یہ جذبہ جب ایک مرد کے دل میں جاگتا ہے تو یہ کسی ہلکی سی سرگوشی کی طرح نہیں ہوتا بلکہ گرجتے ہوئے سمندر جیسا ہوتا ہے، جس کی لہریں ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ یعنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ مرد کی محبت بھی سمندر کی طرح موجیں مار رہا ہوتا ہے۔

 

 

مرد کی محبت صرف ایک احساس، ایک جذبہ اور جنون نہیں بلکہ ایک سلطنت ہے، ایک خود مختار سلطنت۔ وہ اپنی محبت یعنی سلطنت میں اپنے محبوبہ کو ایک ملکہ معظمہ کے درجے پر بٹھاتا ہے لیکن اسی محبت کے نتیجے میں وہ اس پر اپنی حکمرانی کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ حکمرانی بھی ایسی کہ اس کی سلطنت پر کوئی پر نہ مار سکے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی محبوبہ صرف اسی کی ہو، مکمل طور پر اس کے اختیار میں ہو، اور اس کے جذبات اور خواہشات کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ سوچے۔ یہ خواہش ایک طرف اس کی محبت کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے، تو دوسری طرف اس کے اندیشے اور حسد کو بھی آشکار کرتی ہے۔ لاریب! مرد کی محبت بہت زہریلی ہوتی ہے۔ اتنی زہریلی کی اپنی محبوبہ کو ہی مار ڈالے۔

 

 

مرد کی محبت میں شدت دراصل اس کی محبت کی انتہا ہے۔ جب وہ کسی عورت سے محبت کرتا ہے، تو وہ اپنے دل کی دنیا کو صرف اس کے لیے مخصوص کر دیتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کی دنیا میں قدم رکھے، وہ مکمل اقتدار اعلیٰ کا مالک بننا چاہتا ہے اس محبت میں۔ یہ شدت اکثر عورت کے لیے غیر معقول یا جابرانہ لگتی ہے، مگر یہ محبت کی وہ انتہا ہے جہاں مرد اپنی ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہوتا ہے۔ شاید مرد سے زیادہ محبت کوئی نہیں کرسکتا۔

 

 

یہ حقیقت ہے کہ عورت اپنی ذات میں ایک آزاد وجود کی حامل ہے۔ عورت فطرتاً آزاد منش ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی محبت اسے جکڑے نہیں بلکہ اس کے لیے سکون اور اعتماد کا باعث بنے۔ مرد کی یہ خواہش کہ عورت اس کے تابع ہو اور اس کی مرضی کے مطابق چلے، اکثر عورت کے دل میں بغاوت یا کراہت پیدا کر سکتی ہے۔ محبت میں اگرچہ جنون ضروری ہے، لیکن اگر یہ جنون عورت کی خوشیوں اور آزادی کو چھین لے، تو یہ محبت کے بجائے قید بن جاتی ہے۔ اور مرد ہرحال میں عورت کو بری طرح کَسنا چاہتا ہے۔ قیدی بنانا چاہتا ہے، اتنی سخت جکڑ کا عادی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اس جکڑ سے عورت کرچی کرچی ہوتی ہے مگر مرد اپنی محبت کی انتہا پر ہوتا ہے اس لئے عورت کی بکھری کرچیاں اس کو نظر نہیں آتیں۔

 

 

مرد کی محبت کو صرف شدت یا خودغرضی کا نام دینا درست نہیں۔ اس محبت میں وفاداری، تحفظ، اور بے پناہ قربانی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور اس جذبے میں مرد کے پاس کوئی قانون، اصول یا اقدار نہیں ہوتی۔ مرد جب محبت کرتا ہے، تو وہ اپنی محبوبہ کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کو تیار رہتا ہے۔ وہ اس کی زندگی کی ہر مشکل کو اپنے کندھوں پر لینے کی کوشش کرتا ہے اور اسے ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے دل و جان سے لڑتا ہے۔ وہ پھر دودھ کی نہریں بہانے پر تُلتا ہے۔ بس سمجھو! یہ ایک گورکھ دھندہ ہے جو کم لوگوں کو سمجھ آتا۔

 

 

مرد کی محبت کو اگر حقیقی معنوں میں کامیاب بنانا ہو تو ضروری ہے کہ وہ اپنی محبت میں اعتدال اور ہم آہنگی پیدا کرے۔ محبت صرف اپنے جذبات مسلط کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور آزادانہ طور پر اپنی ذات کو مکمل کرنے کا نام ہے۔ اگر مرد اپنی محبوبہ کی آزادی اور خوشیوں کا احترام کرے اور اپنی محبت میں اعتماد کا عنصر شامل کرے تو یہ محبت جبر کے بجائے سکون کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن شاید حقیقی محبت کرنے والے مرد کے لیے یہ اعتدال والی باتیں بے کار ہوں۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں انتہا پسند ہوتا ہے۔ ایک ایسی انتہا پر ہوتا ہے جہاں سے اترنا اس کے لئے ناممکن ہے۔

 

 

شاید یہی خصوصیات ہیں جو مرد کو “مجازی خدا” کا درجہ دیتی ہیں۔ اللہ نے بھی مرد کو قوام یعنی نگہبان قرار دیا ہے۔ اس کا یہ درجہ صرف اس کی شدت یا حکمرانی کی خواہش کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کی محبت کے اس گہرے جذبے کی وجہ سے ہے جو اسے اپنی محبوبہ کے لیے ہر حد سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اپنی محبت میں وفاداری، زمہ داری، قربانی، کفالت اور تحفظ کے وہ عناصر شامل کرتا ہے جو اسے ایک حقیقی محافظ اور چاہنے والا بناتے ہیں۔

 

 

مرد کی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو شدت اور وفا کے امتزاج سے بنتا ہے۔ یہ محبت اگرچہ بعض اوقات غیر معقول یا جارحانہ لگ سکتی ہے، مگر اس میں ایک گہری حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ یہ جذبہ مکمل طور پر اپنی محبوبہ کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اگر مرد اپنی محبت میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرے، تو یہ محبت نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کی محبوبہ کے لیے بھی ایک ایسا سکون بن سکتی ہے جو دونوں کو زندگی کے ہر نشیب و فراز میں سہارا دے۔

 

 

ایک بات حتمی ہے کہ مرد اگر واقعی کسی عورت سے پیار کرتا ہے تو وہ حتمی اور کلی اختیار چاہتا ہے، ایسا اختیار جو اللہ کو اپنے بندوں پر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی محبت کی انتہا ہے۔ وہ اس انتہا میں بھی شدت پسندی کا قائل ہے۔اگر کوئی مرد ان باتوں سے انکاری ہے تو وہ محبت نہیں کمپرومائز کررہا ہے۔ اور مرد کی محبت میں کمپرومائز کی گنجائش نہیں ہوتی۔

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95957

فطرت کے دامن میں خاموش جذبات کا منظر – ڈاکٹر شاکرہ نندانی

فطرت کے دامن میں خاموش جذبات کا منظر – ڈاکٹر شاکرہ نندانی

ہر تصویر اپنی کہانی سناتی ہے اور یہ تصویر ایک ایسی کہانی کا پتہ دیتی ہے جس میں خاموش جذبات اور فطرت کی گود کا سحر چھپا ہوا ہے۔ ایک حسین دوشیزہ سفید لباس میں ملبوس، اپنی نازک انگلیوں سے گلابی پھولوں کو چھوتی ہوئی، جیسے کائنات کی محبت کو محسوس کر رہی ہو۔ اس کے چہرے پر سکون کی لہر اور آنکھوں میں خوابوں کی جھلک، فطرت اور انسان کے درمیان اٹوٹ تعلق کی ترجمان ہے۔

یہ تصویر صرف ایک لمحے کا عکس نہیں بلکہ ایک ایسے جذبے کی عکاسی ہے جو ہمیں زندگی کی خوبصورتی کے قریب لے آتا ہے۔ درختوں کے سبز پتوں کی سرگوشیاں، نرم ہوا کے جھونکے، اور پھولوں کی خوشبو جیسے فطرت کی موسیقی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

 

nandiniredfile1

لڑکی کی آنکھوں میں موجود ایک خاص کیفیت اس کی اندرونی دنیا کی کہانی کہتی ہے۔ شاید وہ کسی گزرے لمحے کی یاد میں کھوئی ہوئی ہے، یا شاید یہ لمحہ اس کے دل میں سکون کی ایک نئی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔

“یہ کون سمٹا سکون دل میں،
یہ رنگِ گل نے کہاں چھوا ہے؟”

تصویر کا سفید لباس معصومیت اور پاکیزگی کا استعارہ ہے۔ یہ فطرت کی پاکیزگی اور انسانی جذبات کی شفافیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ سفید روشنی کی طرح یہ لباس بھی امن، سکون، اور تازگی کا احساس دیتا ہے، جو اس کے چاروں طرف کے ماحول کو مزید دلکش بنا دیتا ہے۔

لڑکی کی نرم حرکتیں، پھولوں کو چھونے کا انداز، اور فطرت کی طرف اس کی رغبت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انسان اور فطرت کا رشتہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ درخت، پھول، اور ہوا کے درمیان کھڑی یہ لڑکی جیسے کائنات کی روح سے جُڑی ہوئی ہو۔

“گلابی خوشبو ہے نرم جھونکوں میں،
محبت لکھی ہے اس کے کونوں میں۔”

یہ منظر صرف آنکھوں کے لیے نہیں بلکہ روح کے لیے بھی سکون کا سامان ہے۔ یہ تصویر ایک ایسے لمحے کو قید کرتی ہے جہاں وقت رک سا گیا ہو، اور انسان خود کو فطرت کی آغوش میں مکمل محسوس کرے۔

یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی چھوٹے لمحوں میں چھپی ہوتی ہے۔ یہ سکون ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی خوشی دولت یا شہرت میں نہیں بلکہ ان لمحوں میں چھپی ہے جہاں ہم خود کو قدرت کے قریب پاتے ہیں۔

 

تصویر کا منظر، سبز درخت، اور گلابی پھول جیسے ہمیں محبت، امن، اور خوبصورتی کی طرف بلاتے ہیں۔ انسان جب بھی فطرت کی گود میں خود کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ خود کو نئی طاقت اور جذبے سے بھرا ہوا پاتا ہے۔

 

“فطرت کی گود میں ملتا سکون،
یہی ہے جینے کا اصل مضمون۔”

یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فطرت کے ساتھ جُڑنا نہ صرف ہماری ذہنی سکون کا ذریعہ ہے بلکہ ہماری روحانی تکمیل کا بھی اہم حصہ ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر لمحے ہمیں محبت، شکر گزاری، اور عاجزی کی یاد دلاتی ہے۔ پھولوں کو چھوتی یہ لڑکی ہمیں زندگی کے ہر لمحے کو انمول ماننے کا سبق دیتی ہے، کیونکہ یہی لمحے ہماری اصل دولت ہیں۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95959

دھڑکنوں کی زبان -“میں اداکار ہوں” -محد جاوید حیات

دھڑکنوں کی زبان -“میں اداکار ہوں” -محد جاوید حیات

 

اداکاری مذاق بھی نہیں اور حقیقت بھی نہیں ہے انسان کا ایسا کردارہے کہ غیر حقیقت کو حقیقت دکھانے کے لیے اپنی آخری کوشش کرتاہے ۔۔شکسپیر نےہر انسان کو اداکار کہا تھا سچ کہا ہے ۔کوٸی بھی انسان اپنی اصلی حالت اور کیفیت ظاہر کرنے کے حق میں نہیں ہوتااس کی ایک وجہ اس کا مقصد ہوتاہے خواہ وہ بھیکاری ہی کیوں نہ ہو اس کے سامنے کا چنا ہوا مقصد ہوتا ہے وہ اپنی اصلی حالت کو ظاہر کرے تو شاید اس کو بھیک نہ ملے ۔اس تناظر میں میں سوچوں تو میں بڑا فنکار ہوں ۔میں کوشش کر کے اپنی اصلی حالت دنیا سے چھپاتاہوں ۔۔میں باپ ہوں اپنا باپ ہونا اپنے بچوں سے چھپاتا ہوں۔۔ان کے سامنے کبھی شیخیاں بگارتا ہوں اپنی گزری زندگی کانقشہ بڑی اداکاری سے پیش کرکے ان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں ان پہ بے جا تنقید کرکے ان کو بے حوصلہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں اگر ان کی تعلیم پر دو پیسے خرچ کیا ہے تو دسیوں بار اس کا ذکر کرتا ہوں ۔

 

خود سیگریٹ پیتا ہوں رات گئے تک کریم ،تاش کھیلتا ہوں لیکن بچوں کو ان سب سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہوں ۔خود کہتا ہوں کہ جھوٹ سے نفرت ہے لیکن یہ جملہ خود جھوٹ ہوتاہے ۔اپنی گھر والی سے تو سراسر جھوٹ بولتا ہوں کچھ اندیشوں کے کچھ اپنا بڑاپن جتانے کے شوق میں یہ سب اداکاریاں کرتا ہوں ۔اپنے بھائیوں کے ساتھ اداکاری کرتا ہوں یا تو ان کا کوٸی مقام میرے دل میں نہیں مگر میری باتوں سے ایسا نہیں لگتا ۔میں جب ہنس کے یا جذباتی ہوکے بات کرتا ہوں تو سمجھو کہ میں اداکاری کررہا ہوں ۔میں انسان کے کسی بھی روپ میں اداکار ہوں یہاں تک کہ میں عابد ہوں تو اللہ کے سامنے مرا گڑگڑانا بھی اداکاری ہے یہ آنسو مگرمچھ کے ہوتے ہیں میرا دل روتا کب ہے؟ ۔میں اداکار ہوں زندگی کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہوں ۔میں اپنی عمر کی کارستانیاں چھپانے کی سعی کرتا ہوں میں اپنے سفید داڑھی رنگ سے کالا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔میں سر کے بال کالا کرتا ہوں اور عمر کے دو تین سال چھپاتا ہوں ۔میں فنکارہوں بڑی فنکاری سے سب کو دھوکہ دیتا ہوں کیا کروں اگر سچ بھی بولوں تو کوٸی میری بات پہ شاید یقین کرے ۔مجھ جیسے ایک فنکار نے کہا تھا ۔

 

میرا مجلسی تبسم میرا رازدان نہیں ہے ۔۔۔

جب میرادل رو رہا ہوتا ہے تو میں چہرے پر ہنسی لانے کی ناکام کوشش کرتا ہوں میری اس اداکاری کو اکثر لوگ سمجھتے ہیں لیکن میرے منہ پہ کچھ نہیں کہتے شاید سب اداکار ہیں ۔سب سمجھتے ہیں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں میرا چہرہ اور لہجہ یہ جھوٹ بتاتا ہے سب سمجھتے ہیں کہ میری اصلی حالت کچھ یوں ہے لیکن مجھے یقین ہوتا ہے کہ میری اداکاری پہ سب کو یقین ہے اگر اداکار کو ذرا بھی یہ شک گزرے کہ اس کی اداکاری پہ لوگ یقین نہیں کرتے تو وہ اداکار مرجاتا ہے ۔ہمارے اداکار سٹار (ستارا) اور ہیرو کہلاتا ہے ۔ہر فرد اپنی ذات میں بڑا اداکار ہے جو جتنا جھوٹا ہے وہ اتنا بڑااداکار ہے ورنہ تو کوٸی جاکر شاہ رخ خان سے کہے کہ تمہاری ہنسی جھوٹی ہے تو وہ کیا جواب دے گا بد ذوق کہے گا ۔کوٸی جاکے قطرینہ کیف سے کہہ دے کہ تمہارے آنسو دھوکے ہیں تو کہے گی کہ اتنی خوبصورت آنکھوں میں آنے والے آنسو جھوٹے کیسے ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔اداکار یونا اگر کمال ہے تومیں بھی کیا کمال کا آدمی ہوں ۔۔۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95962

خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد – میری بات/روہیل اکبر

Posted on

خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد – میری بات/روہیل اکبر

خواتین کا عالمی دن تھا اور ملک بھر میں خاموشی رہی کسی طرف سے بھی خواتین کے حقوق کے متعلق بات نہیں کی گئی تو مجھے سابق رکن پنجاب اسمبلی محترمہ سیمل راجہ یاد آگئی جو ایسے کسی بھی موقعہ کو خاموشی سے گذرنے نہیں دیتی تھی بلکہ خواتین کے حوالہ سے وہ کسی نہ کسی اچھے ہوٹل میں سیمینار کروا کر بہت سی خواتین کو مدعو کرتی اور انہیں دل کھول کر بولنے کا موقعہ دیتی جب سے وہ ملک سے باہر گئی ہیں تب سے خواتین کا عالمی دن بھی دبے پاؤں گذر جاتا ہے مگر شکر ہے کہ اس وقت بھی خواتین کی آن،بان اور شان بڑھانے والی مس ورلڈمحترمہ مسرت شاہین ہمارے درمیان موجود ہیں جو اپنی بہت سی سیکیورٹی وجوہات کے باوجود ہر موقعہ پر خواتین کے حقوق کا جھنڈا سربلند رکھتی ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس عالمی دن کو بھول جائیں انہوں نے تو مجھے 25 نومبر کی صبح ہی اس دن کے حوالہ سے اپنے پروگرامز بتا دیے لیکن میں ہی سست نکلا

 

انہوں نے جہاں پاکستان کی خواتین کے استحصال پر تشویش کا اظہار کیا وہیں پر جنت نظیر خطہ مقبوضہ جموں کشمیر کا بھی ذکر کیا جہاں کئی سالوں سے کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں انکی اس طرف توجہ دلانے کے بعد جب میں نے مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر ہونے والے ظلم و زیادتیوں پر ایک نظر ڈالی تو حیران رہ گیا کہ وہاں پر ہماری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کی داستانیں رقم کی جارہی ہیں خواتین کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ اجتماعی زیادتیاں اور جسمانی تشدد کا شکار ہیں ساتھ میں انہیں معذور اور قتل کیاجارہا اس وقت کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں انکی ہی ایک رپورٹ کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں جنوری 2001سے لے کراب تک بھارتی فوجیوں نے کم از کم 6 سو خواتین کوشہید کیا ہے مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 8 ہزار خواتین لاپتہ ہو ئیں جن میں 18 سال سے کم عمر کی ایک ہزار لڑکیاں اور 18 سال سے زیادہ عمر کی 7ہزار خواتین شامل ہیں 1989ء سے اب تک 22ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 10 ہزار سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں

 

بھارتی فوج کی چوتھی اجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے 23 فروری 1991 کو جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاؤں کنن پوش پورہ میں سرچ آپریشن کے دوران23 خواتین کی عصمت دری کی گئی ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد 100 سے زیادہ ہو سکتی ہے 1992 میں بھی 882 کشمیری خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے جنوری 2018 میں کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیاتھا باوردی بھارتی اہلکاروں نے 29مئی 2009کو شوپیاں کی دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو اغوا کر نے کے بعد آبروریزی کا نشانہ بنایا ان دونوں کی لاشیں اگلی صبح علاقے میں ایک ندی سے ملیں 1991میں جموں و کشمیر کے چیف جسٹس کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں زیادتی کا اعتراف کیاتھا کشمیر ی خواتین حریت رہنماؤں آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت آدھی درجن سے زیادہ خواتین گذشتہ چار سالوں سے بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں غیر قانونی نظربند ہیں جبکہ انشا طارق جان، حنا بشیر بیگ، حسینہ بیگم اور نسیمہ بانو اور شہید توصیف احمد شیخ کی والدہ مختلف جیلوں میں بند ہیں جہاں وہ بھارتیوں کے ظلم و جبر کا شکار ہیں

 

بھارت نے اس وقت تین درجن سے زائد کشمیری خواتین کو جیلوں میں قید کر رکھا ہے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں خواتین کا جنسی استحصال دنیا میں سب سے زیادہ ہے ہر سات میں سے ایک خاتون عصمت دری کا شکار ہورہی ہے مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں بھارتی سورماؤں نے مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کو بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر قرار دے رکھا ہے جبکہ بھارتی فوجیوں کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پرزیادتی کا حکم دیا گیا ہے انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں، پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی تھی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان، طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو ئے ان میں سے انشاء،مشتاق اورافراء، شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں اور سینکڑوں خواتین جنکے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں وہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہیں

 

بھارت میں بھی خواتین جنسی زیادتیوں کا شکار ہورہی ہیں بلکہ وہاں کے سرکاری اداروں میں کام کرنی والی مظلوم خواتین سب سے زیادہ جنسی تشدد کا شکارہو رہی ہیں بھارت کے قومی کرائم بیورو کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران بھارتی فوج میں موجود 1ہزار سے زائد خواتین اہلکاروں کیساتھ بھی جنسی زیادتی کا انکشاف کیا گیا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں تو معصوم خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں نے دنیا کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور دنیا اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلخصوص اقوام متحدہ والے تونہ جانے کس کے انتظار میں ہیں میں نے اوپر محترمہ مسرت شاہین کو مس ورلڈ اس لیے لکھا کہ وہ خواتین کے لیے ایک مثال ہیں ظلم،جبر اور فسطائیت کا جتنا انہوں نے مقابلہ کیا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ بدترین شکست دی یہ جیت انکی اس نظام کے خلاف تھی جو خواتین کے کام کے خلاف تھے مسرت شاہین نے اپنی محنت،لگن اور جوش سے اس فرسودہ نظام کو ایسی شکست دی جس نے دنیا بھر کی خواتین کو ایک حوصلہ اور ہمت دی ہماری آج کی خواتین اگر ظلم وبربریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں تو بلاشبہ اس میں مسرت شاہین کا بھی کردار ہے اسی لیے وہ مس ورلڈ ہیں کاش سبھی خواتین ہمت اور جرات کامظاہرہ کریں تودنیا میں کوئی شخص خواتین کے ساتھ زیادتی کا سوچ بھی نہیں سکے گا سیمل راجہ بھی اسکی بہترین مثال ہیں لیکن افسوس کہ وہ اب پاکستان سے کسی اور ملک جابسی ہیں ایسی ہی خواتین ہمارے لیے مثال ہیں اور مثالی بھی۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95955

نمک حرامی ۔ تحریر: اقبال حیات آف برغذی

Posted on

نمک حرامی ۔ تحریر: اقبال حیات آف برغذی

 

سرزمین چترال کے ایک معتبر خانوادے کے چشم و چراغ کا تعویز کرنے والے کے پاس جا کر اپنے والد محترم کی زبان کو لگام دینے کے لئے تعویزکا تقاضا کرنے کی دلخراش خبر سن کر بد ن میں کپکپی پیداہوئی اور سر کے بال کھڑے ہو گئے۔ کیونکہ یہ اپنی نوغیت کے اعتبار سے انتہائی بدترین فعل ہے۔ والدین انسانی معاشرے میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے انمول اور مقدس حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان رشتوں کی دنیا ہر قسم کی بد خواہی، لالچ اور مطلب پرستی کے تصورات سے خالی ہو تی ہے۔ قرآن ان رشتوں کے تقدس کا خیال رکھنے اور ان کے احکامات کی بر آوری کو یقینی بنانے اور ان کے سامنے اف تک کہنے سے اجتناب کر نے کی ہدایت کر تا ہے۔ اور اسلامی تصور کے مطابق ماں کے قدموں کے نیچے جنت اور باپ کی زبان سے نکلنے والے اولاد کے لئے دعائیہ کلمات کے براہ راست اللہ تعالی تک رسائی کا عندیہ ملتا ہے۔

 

اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کر سکتا کہ بچپن میں زبان کی گفتار سے محرومی کے ایام میں والدیں اپنے بچے کے بولنے کے آرزو مند ہوتے ہیں اور جب بچہ بولنے کی طاقت سے مستفید ہو تا ہے تو ہر لفظ کو بلبل کے چہچہانے سے منسوب کیا جا تا ہے۔ یہی والدین اپنی اولاد کی روشن مستقبل کے آرزو مند ہوتے ہیں اور انکی درخشان زندگی کے لئے رب کائنات کے حضور دست بد عا ہو تے ہیں۔ لخت جگر، آنکھوں کا تارا،دل کا ٹکڑا وغیرہ جیسے زبان کے خزانے میں دستیاب خوبصورت الفاظ اس پر نچھاور کر تے ہیں اور دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر اپنی اولاد کو فائیز دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ پنگوڈے میں مکھی اور مچھر سے خود کو بچانے کی طاقت سے محرومی اور بے بسی کی حالت میں والدین کے سہارے ہی سے جیون ممکن ہوتی ہے۔

 

مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنے پر دل میں سرور پیدا ہونا اور مفموم اور غمزدہ دیکھ کر دکھ کا احساس ہونے کی صفت کو اگر والدین سے منسو ب کیا جائے تو بیحانہ ہو گا۔ یہی والدین کا رشتہ ہی ہے جو تمام دکھ درد خود سہنے اور اولاد کی شادمانی پر اپنا سب کچھ قربان کر نے سے گریز نہیں کرتے۔ ان اوصاف کے حامل رشتوں کی خدمات کو فراموش کر نا اور انکی نافرمانی کا ارتکاب کرنا یقینا بہت بڑی بد بختی اور کم ظرفی کی علامت ہے اور اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس مسلمہ حقیقت سے انکاری کی گنجائش نہیں کہ جب تک

شرین نانیئی مہ خوش نانیئی تہ کوشکوتے غیری آسوم
مجبتو ووریہ ٹیپ کیہ کو شکہ کی بوردی آسوم

 

جیسے جذبہ اولاد کے دل میں پیدا نہ ہو جائے تو ان عظیم محسنوں کے قدموں تلے سے جنت نکلنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے اور ساتھ سا تھ” ومکرو و مکر اللہ ” “یعنی جیسا کرو گے ویسا برو گے ” کا خمیازہ بھگتا بھی یقینی امیر ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95940

نو دولتیا عورت –  از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

نو دولتیا عورت –  از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

نو دولتیا عورت کا بولڈ انداز ایک ایسی تحریک ہے جو دوسری عورتوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو آزادانہ طور پر ظاہر کر سکتی ہیں۔ وہ یہ بتاتی ہے کہ خوبصورتی، بولڈنیس، اور خود اعتمادی ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔ اس کا انداز صرف ایک فیشن نہیں بلکہ ایک ایسی طاقت ہے جو دوسروں کو بھی اپنی شناخت بنانے کا حوصلہ دیتی ہے۔

 

 

shakira nandini naw dowlatia women

 

 

ایک جدید کمرا، بڑی کھڑکیوں سے جھانکتی روشنی، اور شیشوں میں منعکس ہوتی ایک عورت، جو اپنے منفرد انداز سے دنیا کو حیران کر رہی ہے۔ سفید ساڑھی، جس پر نیلے رنگ کے نفیس نقش و نگار ہیں، اور ایک جاذب نظر بلاوز—یہ نو دولتیا عورت کا وہ بولڈ انداز ہے جو اس کے اعتماد، شخصیت، اور اپنی پہچان کے لیے دی گئی قربانیوں کا عکاس ہے۔

 

یہ بولڈ انداز صرف ایک لباس نہیں بلکہ اس کی سوچ کا مظہر ہے۔ ساڑھی، جو مشرقی روایات کی علامت سمجھی جاتی ہے، اس کے ساتھ ایک جدید بلاوز کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ روایت اور جدت کے بیچ ایک پل بنانا جانتی ہے۔ اس کا یہ انداز نہ صرف خوبصورتی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپے اس پیغام کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ عورت اپنی شخصیت کو کسی بھی قالب میں ڈھال سکتی ہے۔

 

اس کا ہر قدم، ہر زاویہ، ایک ایسی کہانی سناتا ہے جو بولڈنیس اور خود اعتمادی سے بھری ہوئی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ دنیا اسے دیکھ رہی ہے، لیکن اس کے لیے یہ کوئی پریشانی نہیں بلکہ فخر کی بات ہے۔ اس کے لباس کی چمک، اس کے انداز کی جاذبیت، اور اس کی شخصیت کی گرمجوشی اسے ہر ہجوم میں منفرد بناتی ہے۔

 

بولڈ انداز کا مطلب صرف لباس نہیں؛ یہ ایک مکمل رویہ ہے۔ وہ عورت جو اپنی موجودگی سے کمرے کو روشن کر دے، وہی اس کی حقیقی تعریف ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کے انتخاب صرف اس کی خوبصورتی کو نہیں بلکہ اس کی مضبوطی اور آزاد خیالی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ وہ بولڈ ہے کیونکہ وہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے، چاہے وہ زندگی کے بارے میں ہوں یا لباس کے۔

 

نو دولتیا عورت کے بولڈ انداز کو اکثر سماج کے مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے سراہتے ہیں، تو کچھ اس کے انداز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مگر وہ اس سب سے بے نیاز رہتی ہے۔ اس کے لیے یہ بولڈنیس ایک آزادی کا اظہار ہے، ایک ایسا بیانیہ جو کہتا ہے کہ عورت کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے۔

 

اگرچہ اس کے انداز میں جدت جھلکتی ہے، وہ اپنی ثقافت کو چھوڑتی نہیں۔ سفید ساڑھی ایک کلاسیکی مشرقی لباس ہے، اور اس پر موجود نیلے نقش و نگار اس کی سادگی کو اور زیادہ دلکش بنا دیتے ہیں۔ یہ لباس روایات کی محبت اور ان سے جڑے جذبات کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کا جدید بلاوز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی شناخت کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا بھی جانتی ہے۔

 

بولڈ انداز صرف اس کے لباس یا رویے تک محدود نہیں۔ یہ اس کے دل کی مضبوطی اور دماغ کی پختگی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہر مشکل کا سامنا کرتی ہے، ہر چیلنج کو قبول کرتی ہے، اور اپنی زندگی کو اپنی شرائط پر جیتی ہے۔ اس کے لیے بولڈنیس صرف ایک انداز نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95929

بزمِ درویش ۔ صدیق اکبرؓ کا عشق رسول ﷺ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ صدیق اکبرؓ کا عشق رسول ﷺ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

 

عبداللہ بن عمرو عاص سے کسی نے دریافت کیا کہ مشرکین مکہ نے رحمتِ دو جہاں ﷺکے ساتھ سب سے سخت ترین بد سلوکی کی تھی وہ بتائیں تو انہوں نے کہا فخرِ دو جہاں ﷺ خانہ کعبہ حطیم میں نماز پڑح رہے تھے کہ کافر عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا۔ اس نے آتے نبی کریم ﷺ کی گردن میں چادر کو بل دینے لگا وہ ظالم سختی کر کے نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ کو مارنا چاہتا تھا کہ حضرت ابو بکر کے پاس یہ چیخ پہنچی کہ اپنے ساتھی کو بچا تو یارِ غار جلدی سے نکلے اور بھاگتے ہوئے نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور ظالم کو کندھوں سے پکڑ کر دھکا دیا اور نبی کریم ﷺ کو بچانے کی کوشش کرنے لگے اِس دوران وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کیا تم لوگ ایک ایسے آدمی کو اِس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے یارِ غار کی کوشش سے کافر نبی کریم ﷺ سے دور ہو گیا۔

 

ابتدائے اسلام کے وقت جب کفار کے مظالم سے مسلمانوں پر زندگی تنگ ہو گئی تھی تو حضرت ابو بکر پوری کوشش کر تے کہ ابتدائی مسلمانوں کو کافروں کے مظالم سے بچا یا جا سکے۔ شروع میں تو اسلام کی تبلیغ خفیہ طور پر جاری تھی۔ ایک دن حضرت ابو بکر رسول کریم ﷺ کی اجازت سے اعلانیہ دعوت اسلام کا ارادہ کیا تو ایک دن جب ساقی کوثر ﷺ دارارقم سے نکل کر مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے تو حضرت ابو بکر نے کھڑے ہو کر باآواز پکارا۔اے قریش کے لوگوں سنو میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں میں تم سب کو دعوت دیتا ہوں کہ تم اِن کے دین کو قبول کر لو بلا شبہ اسلام دینِ حق ہے تم اپنی آخرت کا خیال کرو اور اِس خدائے واحد پر ایمان لے آ محمد ﷺ اس کے سچے نبی ہیں۔یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے سرِ عام اسلام کی دعوت دی مشرکین کے آباو اجداد کے دین کو باطل قرار دیا کفا رمکہ تو پہلے ہی غصے میں تھے

 

حضرت ابو بکر کی اِس تقریر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کیونکہ ان کے جھوٹے خداوں کی تکذیب کی گئی تھی انہیں جھوٹا کہا گیا تھا۔ کفار غصے سے پاگل ہو کر اٹھے اورحضرت ابو بکر پر ٹوٹ پڑے اتنا مارا کہ زمین پر گرا دیا اور لاتوں اور ٹھوکروں سے مارنا شروع کر دیا اور بے دردی سے پاں تلے روندنا شروع کر دیا۔ ظالم عتبہ بن ربیعہ نے اِس بے دردی سے یارِ غار کے چہرے پر ٹھوکریں ماریں کے چہرہ مبارک اتنا سوج گیا کہ ناک تک ڈھک گیا۔ حضرت ابو بکر کے قبیلہ بنوتیم کو پتہ چلا تو وہ فورا مو قع پر آگئے اور آپ کو کافروں کے نرغے سے نکال کر خون آلودہ کپڑوں سمیت ان کے گھر لے گئے آپ اِس قدر زخمی اور نڈھال تھے سب یقین کر چکے تھے کہ آپ بچ نہیں پائیں گے کیونکہ آپ تقریبا بے جان اور بے حس حرکت نیم مردہ حالت تھے آپ کے قبیلہ والے جاتے جاتے یہ چیلنج بھر کر گئے کہ اگر ابو بکر زندہ نہ رہے تو ہبل کی قسم ہم عتبہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔

 

 

شام تک حضرت ابو بکر بے سدھ پڑے رہے جب آپ کو ہوش آیا تو کراہتے ہوئے بولے میرے محبوب ﷺ کا کیا حال ہے۔ اہلِ خاندان یہ سن کر دنگ رہ گئے کہ ہم تو اِس فکر میں جمع ہیں کہ ابو بکر جانبر ہوتے ہیں کہ نہیں مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے اس لیے قبیلہ والوں کو غصہ آگیا اور ملامت کر تے ہوئے چل دئیے کہ اِس شخص کو زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں یہ خود موت کے منہ میں ہے لیکن اِسے اپنی کوئی فکر نہیں فکر ہے تو محمد ﷺ کی یہ کیسا عشق تھا یہ کون سا جذبہ اور عقیدت و احترام یا رشتہ ہے عقل وشعور سے ماورا تھا۔آپ کی والدہ جو بیٹے کے غم میں نڈھال بیٹھی تھیں وہ بو لیں بیٹا کچھ کھا لو یا رِ غار بولے اماں پہلے یہ بتا شہنشائے دو عالم ﷺ کا کیا حال ہے ماں بولی لات کی قسم تمھارے دوست ﷺ کا ہمیں کوئی پتہ نہیں تو حضرت ابو بکر نے التجا کرتے ہوئے کہا عمر کی بہن فاطمہ بنتِ خطاب سے چپکے سے پوچھو میرے محبوب رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے۔ کیا عشق ہے خود موت کے منہ میں پڑے ہیں اور فکر اپنے محبوب کی ہے۔بقول شاعر
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے خدا کا رسول ﷺ بس

 

حضرت فاطمہ بنتِ خطاب نے آکر یار غار کو دیکھا تو تڑپ اٹھی اور کہا اللہ کی قسم جن لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ سلوک کیا وہ کافر ہیں فاسق ہیں ظالم اور جھوٹے ہیں اللہ تعالی ان سے آپ کا انتقام ضرور لے گا۔ لیکن قربان حضرت ابو بکر پر انہوں نے حضرت فاطمہ بنتِ خطاب سے بھی وہی سوال دہرایاکہ آپ پہلے مجھے یہ بتا کہ رسول کریم ﷺ کیسے ہیں تو حضرت فاطمہ بنت خطاب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ خدا کے فضل سے بلکل ٹھیک ہیں۔ یہ سن کر بھی حضرت ابو بکر کو چین نہیں آیا اور بو لے اِ س وقت رسول اللہ ﷺ کہاں پر تشریف فرمائیں آپ کی بے چینی اور بے قراری دیکھ کر حضرت فاطمہ بنتِ خطاب بولیں شہنشاہِ دو عالم ﷺ اِس ارقم بن ارقم کے مکان پر تشریف فرما ہیں۔آپ کی والدہ بضد تھیں کہ آپ بہت زیادہ نڈھال کمزور اور زخموں سے چور ہیں اِس لیے وہ کچھ کھلانے پلانے پر بضد تھیں ماں پریشان کہ کھائے پئیے بغیر اگر آپ باہر چلے گئے تو چلنے پھرنے سے کہیں طبیعت اور نہ خراب ہو جائے یعنی آپ کے زخم اور چوٹیں اور شدید نہ ہو جائیں اِس لیے ماں کھلانے پلانے پر بضد تھیں کہ حضرت ابو بکر صدیق کچھ کھا لیں تاکہ جسم میں طاقت آجائے اور آپ خطرے سے باہر نکل آئیں۔ لیکن حضرت ابو بکر صدیق کو جو رسول اللہ ﷺ سے عشق و محبت تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔

 

 

ایک بار شہنشاہِ دو جہاں رحمتِ دو جہاں فخرِ دو عالم ﷺ اپنے پروانوں کے حلقہ میں جلوہ افروز تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق تشریف لائے تو مالکِ دو جہاں ﷺفرمانے لگے جو شخص آگ سے آزاد شخص کو دیکھنے کا خواہش مند ہو وہ ابو بکر کو دیکھ لے۔حضرت ابو بکر کو نبی کریم ﷺ سے جو عشق تھا اِس کے معترف نہ صرف مسلمان بلکہ اغیار بھی تھے۔ نورِمجسم ﷺجب معراج سے تشریف لائے تو کفار نے سوچا اب وہ ابو بکر کو نبی کریم ﷺ کے عشق سے دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان کے پاس گئے اور کہا کیا تم اب بھی اپنے دوست کے عشق میں مبتلا رہو گے تمھارا دوست اب یہ کہتا ہے کہ وہ رات کو بیت المقدس گیا ہے تو حضرت ابو بکر فرمانے لگے اگر یہ بات رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے تو یہ سچ ہے تو کفار بولے کیا یہ بات تمھاری عقل تسلیم کرتی ہے تو آپ فرمانے لگے اگر حضو ر ﷺ یہ کہیں کہ میں نے آسمانوں کو صبح سے شام تک طے کر لیا تو میں یہ بھی سچ مانوں گا کفار نا کام ہوئے اور عشقِ رسول ﷺ کامیاب ہو گیا۔جب حضرت ابو بکر نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے کی بہت ضد کی تو دونوں خواتین حضرت ابو بکر کو اپنے کندھوں کا سہارا دے کر دارارقم لے گئیں رحمتِ دو جہاں ﷺ نے جب اپنے دیوانے یار کو زخموں سے چور اِس حالت میں دیکھا تو آپ ﷺ پر رقت طاری ہو گئی جبکہ ابو بکر نے جیسے ہی نورِ مجسم سرورِ کونین ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا تو آپ ﷺ سے خوشی سے لپٹ گئے اور دیوانہ وار بوسے لینے لگے۔ اور رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہے یہ میری والدہ اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہیں اِن کو دین کی دعوت دیں اور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالی اِن کو آگ کے عذاب سے بچا ئے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95926

معلومات اور علم – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

معلومات اور علم – خاطرات: امیرجان حقانی

 

 

یہ طلبہ بھی بڑے کمال کے ہوتے ہیں! بعض دفعہ ایسے سوالات پوچھتے ہیں کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک طالب علم نے سوال داغا کہ علم اور معلومات میں کیا فرق ہے؟ اور مثالوں سے وضاحت کرنے کا ڈیمانڈ بھی کرلیا۔

تو عرض کیا کہ دنیا معلومات اور حقائق سے بھری ہوئی ہے، لیکن وہ جو انہیں معنی و مفہوم، مقصد اور عمل کی شکل دیتا ہے، وہ علم ہے۔

 

معلومات محض اعداد و شمار ہیں۔کس نے کیا کہا، کہاں ہوا،، کب ہوا، یا کیا موجود ہے۔ لیکن علم وہ روشنی ہے جو ان معلومات کو ترتیب دے کر زندگی کا حصہ بناتی ہے۔ جیسے کسی بھی فن کی کتاب میں لکھے الفاظ کو جاننا معلومات ہے، مگر ان الفاظ کا مطلب سمجھنا، ان کا تجزیہ و تحلیل کرنا، ان سے سبق حاصل کرنا اور انہیں اپنی زندگی میں لاگو کرنا علم ہے۔ یہی سوال ہارٹ پشاور میں ٹریننگ کے دوران میں نے بھی کسی پروفیسر سے کیا تھا۔ انہوں نے سادگی کے ساتھ کہا تھا کہ کسی چیز کے بارے میں جاننا معلومات ہیں اور اس پر عمل کرنا یعنی عملی زندگی میں نافذ کرنا علم ہے۔

 

 

چونکہ میں کالجز میں علم سیاسیات پڑھتا ہوں اور مدرسہ میں دینی علوم۔ اس لئے علم اور معلومات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال علم سیاسیات اور ایک دینیات سے پیش کروں گا تاکہ بات بہتر طریقے واضح ہوجائے۔

 

علم سیاسیات (Political Science) کے تناظر میں علم (Knowledge) اور معلومات (Information) کو یوں سمجھتے ہیں۔
آپ کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کا آئین 1973 میں منظور ہوا، اور اس میں پارلیمانی نظام حکومت شامل ہے۔ اللہ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے۔یہ حقائق یا اعداد و شمار ہیں، جو معلومات (Information) کہلاتے ہیں۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 1973 کے آئین کو کیوں اہمیت دی گئی، پارلیمانی نظام حکومت کے فوائد کیا ہیں، اور یہ نظام سیاسی استحکام اور عوامی نمائندگی کو کیسے یقینی بناتا ہے اور پاکستانی عوام کے لئے کیسے قابل قبول ہے اور اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنے کی کیا وجہ ہے۔ یہ گہرائی اور تجزیہ علم (Knowledge) کہللاتا ہے۔ یعنی آئین 1973 میں بنایا گیا اور اس میں پارلیمانی نظام شامل ہے۔ یہ معلومات ہیں اور آئین کی تشکیل کے محرکات، اس کے سیاسی و سماجی اثرات، اور اس کے عملی نفاذ کے مسائل اور فوائد کیا ہیں یہ علم ہے۔ یہی فرق کسی بھی سیاسی مسئلے، جیسے جمہوریت یا آمریت، بادشاہت یا شورائیت کے تجزیے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 

 

اسی طرح ایک مثال دینی علوم سے عرض کر دیتے ہیں تاکہ سمجھنے میں مزہد آسانی ہو۔

آپ جانتے ہیں کہ زکوٰۃ دینا اسلام کا ایک اہم رکن ہے، اور اس کی شرح 2.5 فیصد ہے۔ یہ ایک حقیقت یا ڈیٹا ہے، جو معلومات کہلاتا ہے۔

آپ سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مقصد غربت کا خاتمہ، دولت کی منصفانہ تقسیم، مال کی پاکی، اور معاشرتی مساوات قائم کرنا ہے۔ یہ زکوٰۃ کے پیچھے موجود حکمت اور فلسفہ ہے، جو علم کہلاتا ہے۔

 

 

زکوٰۃ فرض ہے اور اس کی شرح ڈھائی فیصد ہے۔ یہ معلومات ہیں جبکہ زکوٰۃ کے معاشرتی اور روحانی فوائد کیا ہیں اور اس کا اطلاق کیسے کیا جائے۔ یہ علم ہے۔ یہی فرق سماجی علوم میں بھی لاگو ہوتا ہے، جیسے کسی مسئلے کو سمجھنا اور اس کے حل کے طریقے پر غور کرنا۔

 

 

آج کے دور میں لوگ معلومات تو بہت جمع کر لیتے ہیں، مگر علم کی گہرائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم اعداد و شمار کے ڈھیر کے محافظ تو بن چکے ہیں، کے ٹو اور ناننگا پربت سے بڑے پہاڑ، معلومات کے اکٹھا کرلیتے ہیں لیکن ایک علم و حکمت ایک معمولی چٹان کا بھی نہیں رکھتے۔ المیہ یہ ہے کہ ان معلومات کے معانی و مطالب اور مفاہیم و مقاصد اور اثرات پر غور کرنے والے کم ہی ہیں۔

 

 

یاد رکھیں، معلومات طاقت ہے، لیکن علم وہ حکمت ہے جو اس طاقت کو درست سمت میں استعمال کرنے کا شعور دیتی ہے۔ آئیے، معلومات کی سطحی دنیا سے نکل کر علم کی گہرائی میں جائیں اور شعور و حکمت کی روشنی سے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں روشن کریں۔ یہی راستہ ہمیں بہترین انسان بننے کی طرف لے جاتا ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95900

روشنی کے اندر زندگی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

روشنی کے اندر زندگی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

 

یہ تصویر زندگی، امید، اور تخلیقی سوچ کی علامت ہے، جو ہمیں قدرت اور انسانی ایجاد کے درمیان تعلق اور ہم آہنگی کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کی روشنی ہمیشہ راہ دکھاتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی محدود ہوں۔

 

 

nandini life under light

 

 

یہ تصویر ایک حیرت انگیز تخیلاتی احساس کو اجاگر کرتی ہے جہاں ایک بلب، جو عام طور پر روشنی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، زندگی کی علامت بن گیا ہے۔ بلب کے اندر مٹی اور ایک ننھا سا سبز پودا ہمیں ایک منفرد پیغام دیتا ہے کہ زندگی اور روشنی کا تعلق کتنا گہرا اور خوبصورت ہے۔

 

اس تصویر کو دیکھتے ہی ذہن میں کئی خیالات جنم لیتے ہیں۔ پہلا خیال یہ ہے کہ روشنی ہمیشہ سے ترقی، امید اور مستقبل کی علامت رہی ہے، لیکن اس بار یہ روشنی ایک پودے کی شکل میں پیش کی گئی ہے۔ یہ پودا، جو زمین کے اندر سے نکل کر بلب کے اندر پروان چڑھ رہا ہے، یہ دکھاتا ہے کہ زندگی اپنی راہ خود تلاش کر لیتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔

 

بلب کا شیشے کا احاطہ اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ کس طرح دنیا ہمیں محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن اس محدودیت کے باوجود، مٹی اور پودا اپنی نشوونما جاری رکھتے ہیں، ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ترقی کے لیے اندرونی قوت اور عزم ضروری ہے۔ یہ تصویر ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی حدود کو توڑیں اور اپنی زندگی کے اندھیرے گوشوں میں روشنی کا چراغ جلائیں۔

 

پودا، جو زندگی کی نئی شروعات کی نمائندگی کرتا ہے، ہمیں قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کا سبق دیتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ اگر انسان اور قدرت مل کر کام کریں تو ہم دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بلب، جو پہلے صرف ایک آلہ تھا، اب ایک قدرتی زندگی کی علامت بن گیا ہے۔

 

اس تصویر کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کی تخلیقی سوچ کس طرح چیزوں کے معنی بدل سکتی ہے۔ بلب، جو جدید ٹیکنالوجی کی علامت ہے، اور پودا، جو قدرت کی علامت ہے، دونوں مل کر ایک نئے تصور کو جنم دیتے ہیں۔ یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں فطرت اور ٹیکنالوجی کے درمیان توازن پیدا کریں۔

 

تصویر کے پیغام کو سمجھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی روشنی کی طرح ہے، جسے زندہ رکھنے کے لیے ہمیں امید اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ روشنی اور زندگی کے اس ملاپ سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ ہم کس طرح دنیا کو اپنے مثبت خیالات اور عمل سے روشن کر سکتے ہیں۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95895

ارطغرل خلافت عثمانیہ کا بنیادی پتھر – مشرقی اُفق – میر افسر امان

Posted on

بسم اللہ الرحمان الرحیم

ارطغرل خلافت عثمانیہ کا بنیادی پتھر – مشرقی اُفق – میر افسر امان

 

کائی قبیلے کوپہلے سے موجود جگہ پر جانوروں کا چارہ اور خوراک کے لیے اشیاء کی تنگی کی وجہ سے خانہ بدوش اوغوز ترکوں نے کسی اور جگہ آباد ہونے کے لیے سفر شروع کیا۔ قبیلے کے سردارسلیمان شاہ سفرکے دوران دریا فرات پار کرتے ہوئے گھوڑے سے گھر کر اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس موت کو نیک شگون نہ سمجھتے ہوئے قبیلے میں تکرار پیدا ہوئی کہ سفر جار رکھا جائے یا نہیں۔اور قیام کہاں کیا جائے۔ بحث مباثے میں قبیلے کے لوگ تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک شام میں رہ گیا۔ دوسرا انطولیہ چلاگیا۔ تیسرا گروہ جعیر کے قریب آباد ہوا۔ سلیمان شاہ کے چاروں بیٹوں میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ارطغرل اور اس کا بھائی دوندارایشائے کوچک کی جانب روانہ ہوئے۔ ارطغرل جب اپنے قبیلے کے ساتھ نئے مقام پر آباد ہونے کے لیے جارہا تھا۔ اس دوران ایک مشہور واقع پیش آیا۔ ارطغرل نے دو افواج کو ایک دوسرے سے لڑتے دیکھا۔

 

ایک فتح کی طرف کامزن تھا دوسرا شکست کی طرف۔ ارظغرل نے اپنی فطری ہمدردی سے کمزور فوج کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا۔ اپنے ساتھیوں اور ہارنے والی فوج کے ساتھ مل کر فاتح ہونے والی فوج کو شکست فاش دی۔ بعد میں پتہ چلا کی یہ کمزور فوج سلجوقی سلطان علاؤالدین کیقباد کی ہے۔ جو منگولوں کے ساتھ لڑ رہا تھا اور اس کی شکست یقینی تھی۔ ارطغرل کی بروقت جنگ میں مدد سے سلجوق سلطان بہت خوش ہوا۔ مشکل وقت مدد کرنے کی وجہ سے سلجوقی سلطان کیقباد اور ارطغرل دونوں کے درمیان دوستی کی بنیاد بنی۔ ارطغرل کو مدد کے وقت معلوم نہیں تھا کی فریقین کو ن ہیں۔ غیر متوقع جنگ کے عین موقع پر، جب سلطان شکست کے قریب تھا، مدد کی وجہ سے سلجوقی سلطان علاؤالدین کیقباد نے ارطغرل کو انگورہ اور اس کے قریب علاقے جس میں سغوت بھی شامل تھا، جاگیر کے طور پر عطا کیے۔ اس علاقے میں قرہ چہ داغ نامی علاقہ بھی شامل تھا۔ یہی علاقہ، کائی قبیلے عثمانی ترکوں کی پہلی آبادی بنی۔ یہ علاقہ بازطینی حدود سے قریب تھا۔ رومی سلجوقیوں سے لڑتے رہتے تھے۔ اوغوزترکوں کے آنے سے ان کے کان کھڑے ہوئے۔

 

 

اللہ کا کرنا کہ ارطغرل کو اپنے قبیلے کو آباد کرنے لیے زمین ملی گئی، جس کی تلاش میں وہ تھے۔ دوسری طرف اس علاقے کی سلطنت سلجوق کے سلطان علاؤالدین کیقباد سے دوستانہ تعلوقات بھی قائم ہو گئے۔ سلجوقیوں اور رومیوں یعنی عیسائیوں کی لڑائیوں کی جہ سے سلجوقی سلطنت کمزور ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ایشائے کوچک کے شمالی مغربی علاقوں پر رومیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ جنوب و مشرق کے علاقے مغلوں کے وجہ ے ہاتھ چلے گئے تھے۔ سلطنت قونیہ دو پاتوں کے درمیان پس رہی تھی۔ بلکہ کمزور ہو کر ختم ہونے کے قریب تھی۔ ارطغرل نے آباد ہونے کے بعد رومیوں کے ساتھ لڑ کر انہیں شکست دی۔ اس پر خوش ہو کرسلجوقی سلطان نے ارطغرل کو اپنی سلطنت کے مذید علاقے بھی دیے۔ اس سے ارطغرل کے زیر قبضہ علاقہ روم کے سرحد تک پہنچ گیا۔ سلجوق سلطان نے ارطغرل کے علاقے کا نام”سلطانوی“ رکھ دیا گیا۔ ارطغرل کو اپنی فوجوں کے مقدمہ الجیش کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔

 

ارطغرل کے آباؤ اجداد کے حوالے سے بھی قبیلہ کے اُوصاف کا چرچا ہر جگہ ہونا شروع ہوا۔ سلجوقی بادشاہ کی مہربانیوں کے وجہ سے ارطغرل کا قبیلہ باشاہ کا وفادار بن گیا۔ سلجوقی سلطنت بچانے کے لیے منگولوں اور رومیوں کے خلاف کا علم بند کیا۔ رفتہ رفتہ مہاجر اوغوز ترکوں نے انا طولیہ کے ایک حصہ پر قدم جمانا شروع کیے۔ ارطغرل ایک بہادر مجاہد اور اسلام کا شیدائی تھا۔ اوغوز ترکوں نے جس طرح ہجرت کی اس میں ارطغرل کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس نے سلیمان شاہ کے دریائے فرات میں ڈوب جانے سے لے کر اپنے دور کے آخری وقت تک جو کرادر ادا کیا وہ اس نوجوان ترک سرادر ارطغرل کا ہی ایک کارنامہ ہے۔ بہترین منتظم ہونے کے وجہ سے اپنے ساتھیوں کو ایک جماعت میں منظم کیا۔ کسی خون خرابے سے قبیلے کو بچائے رکھا۔سلجوقی حکومت کی بہادری سے مدد کی۔ اپنی سرحد کے برابر رومیوں سے لڑ کر اپنے علاقے کو وسط دی۔سلجوق سلطان ارطغرل کی حکومت وسط سے خوش تھا۔ اس طرح ارطغر ل نے خلافت عثمانیہ کا بنیادی پتھر رکھا۔ارطغرل کی کامیابی کاراز سلجوق سلطنت کو بچانے،منگولوں اور رومیوں سے لڑنے کی وجہ سے مستحکم ہوئی۔ اس کے علاوہ ہ دیگر ترکی ریاستوں سے سلجوقی سلطنت کو تحفظ دینا ارطغرل کے بے مثال کارنامے ہیں۔

 

ارطغرل کی ان کامیابیوں کے وجہ سے اِرد گرد آباد اوغوز ترک اناطولیہ کے مختلف حصوں میں جمع ہونے لگے۔ اوغوز ترکوں کا ایسا آباد ہونا سلجوق سلطان کو اچھا لگا۔ اس لیے کہ اوغوز ترکوں کا سردار ارطغرل سلطنت سلجوق کا محافظ تھا۔ ارطغرل نے ہر قدم پر سیاسی بصیرت اورفہم و فراست سے کام لیا۔ منگولوں اور رومیوں کے طوفان کو بڑے تدبر اورحکمت و بہادری سے روکا۔ ایک عظیم لیڈر ہوتے ہوئے سلجوق سلطان سے تعلوقات قائم کرتے وقت فہم فراست سے کام لیا۔ کسی بھی موقعہ پر غلطی یا نا اہلی کا مظاہر نہیں کیا۔ بہادری سے معاملات طے کیے۔ اس سے عثمانی خلافت کے لیے راستے صاف ہوئے۔خلافت عثمانیہ نے بعد میں سات سو سال 1924ء تک تین براعظموں میں کامیابی سے شاندار حکومت کی۔ارطغرل نے نوروارد ترک سرادر کی حیثیت سے سلجوقی علاقہ میں داخل ہو کر تھوڑے ہی دنوں میں اپنی شجاعت کا سکہ نہ صرف سلجوقی سلطان پر بٹھایا، ملکہ ترکی عوام کے دلوں میں اس کی شہرت گھر کر گئی۔ترک بہادر سپاہیوں نے بھی اس کی عزت بڑھائی کہ اسے امینی سلطان(ناصیہ سلطانی) کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔

 

ارطغرل کی شجاعت بہادری سے قائم کی گئی سلطنت بعد میں اس کے بیٹے عثمان خان غازی اور اس کے بیٹے خان اور پھر دیگر جانشینوں نے آگے بڑھایا۔ لیکن اوّل کارنانہ ارطغرل ہی کا تھا۔ تاریخ کے اس بہادر سپوت نے 1288ء میں 90 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ارطغرل ایک سچا بہادر مسلمان تھا۔رحم دل اور متواضع بھی تھا۔ اس کی زندگی سادہ تھی۔ اس کا دامن کسی عزیز و اقارب کے خون سے پاک رہی۔ اس نے اپنے قابلیت و صلاحیت سے سب کچھ حاصل کیا۔ اپنے قبیلے اور خاندان میں یکجہتی پیدا کی۔ بہادر نڈر اور شجاع تھا۔ جس کا ثبوت اس کی منگولوں، رومیوں اور ترکی ریاستوں سے سلجوقی سلطنت کو تحفظ فراہم کرنا تھا، ترکی کے موجودہ حکمران طیب اردگان تعریف کے قابل ہیں کہ اس نے اس بہادر ارطغرل کی زندگی پر”ارطغرل ڈرامہ“ بنا کر دنیا کے سامنے ارطغرل کے کارنامے پیش کیے۔ آج پوری دنیا اور مسلم ملکوں میں لوگ ارطغرل ڈرامے کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔راقم نے رات رات بھر جاگ کر ارطغرل ڈرامے کو بڑے شوق سے مکمل دیکھا۔ اے کاش! کہ ترکی سے کوئی صلاح الدین ایوبی جیسا بہادر ارطغرل اُٹھے اور فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرے۔ مسلمانوں کے ازلی دشمن یہود جو اللہ کے دھتکارہ ہوا ہے کو شکست فاش دے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95869

داد بیداد ۔ سر راہ چلتے چلتے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔ سر راہ چلتے چلتے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

روم کا شہر عجا ئبات اور نو ادرات کا شہر ہے ایک طرف ہزاروں سال پرانے محلات ہیں، جو رومی سلطنت کے بادشاہوں نے تعمیر کئے دوسری طرف بیسویں صدی کی جدید عمارات ہیں جو مسو لینی کے دور میں تعمیر ہوئیں مسو لینی قوم پرست تھا انہوں نے نئی تعمیرات میں قدیم طرز تعمیر کو اپنا نے اور اٹلی کی عظمت رفتہ کو نئے سانچے میں ڈھا لنے کا حکم دیا، چنا نچہ دیو ہیکل ستوں اور 20فٹ بلند دیواروں پر ڈالی گئی چھتیں قیصر روم کے رعب اور دبدبے کی نشا نیاں ہیں پرانی مار کیٹوں کے لمبے بر آمدوں پر شاہی قلعوں کی غلا م گردشوں کا گماں ہو تا ہے یہاں بنگلہ دیش، بھا رت اور چین کے تا جروں کی دکا نیں بھی ہیں، ٹرس مونڈ و کی گلی سے با ہر نکل کر فاروق نے گاڑی آئیزک نیو ٹن کے نا م پر بنی ہوئی شاہراہ پر ڈال دی، اس کے بعد جو دوسری شاہراہ آئی وہ کر سٹو فر کو لمبس کے نا م پر تھی، اٹلی والوں نے شاہراہ کا نا م چچا ماموں کے نا م پر کرنے کے بجا ئے وطن کے نا مور فرزند کے نام پر کیا ہے جن کو ایک دنیا جا نتی ہے کرسٹو فر کولمبس نے 1451سے 1506تک 55سال کی عمر میں امریکہ کو دریافت کر کے ایک نیا بر اعظم دنیا کے سامنے رکھا، اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گیا

 

 

ایزک نیوٹن یو رپ کا وہ سائنس دان، ریاضی دان اور طبیعیات دان تھا جس نے 1643اور 1727کے دوران علم و تحقیق کی دنیا میں بڑا نا م پیدا کیا اور اپنے ایجا دات سے پوری دنیا کو متاثر کیا، روم کا شہر مسو لینی کو بھی نہیں بھلا سکتا دنیا کی نظروں میں ڈکٹیٹر کے طور پر بد نام ہونے والا بیٹیو مسو لینی (Beneto Mussolini) 1883میں پیدا ہوا 62سل کی عمر پانے کے بعد 1945ء میں اس کو گولی ماردی گئی 1922سے 1943ء تک وہ اٹلی کا وزیر اعظم رہا ان کے دور حکومت میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اس کی فاشسٹ پارٹی نے جنگ میں جر منی کی نا زی پارٹی کا ساتھ دیا، ہٹلر کے ساتھ دوستی اس کو مہنگی پڑ گئی 1943میں اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، مسو لینی کی پو تی السینڈر ا مسو لینی مو جو دہ سیا ست میں فعال کر دار ادا کر رہی ہے وہ اطالوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی رکن رہی ہے اس وقت یو رپی پارلیمنٹ کی ممبر ہے اٹلی میں مسو لینی کا عہد کئی حوالوں سے شہر ت رکھتا ہے انہوں نے اپنے دور میں فلم اور سینما کو پرو پیگینڈے کے لئے استعمال کیا فلمسازوں کو حکم دیا کہ فلموں میں اٹلی کو سب سے زیا دہ تر قی کرنے والا ملک بنا کر دکھائیں اٹلی کے متمول اور امیر گھرانوں کا کلچر دکھائیں غر بت، جہا لت اور بے چار گی با لکل نہ دکھا ئیں

 

 

چنا نچہ ایسا ہی ہوا مسو لینی کی معزولی کے بعد فلمسازوں کو آزادی ملی تو انہوں نے سڑ کوں پر، گلیوں اور دیہا توں میں مفلو ک الحال غریب لو گوں کا کلچر جی بھر کر دکھا نا شروع کیا، ڈکٹیٹر کا ایسا ہی حال ہو تا ہے اس کے جا تے ہی ملک کا نقشہ بدل جا تا ہے لو گوں کی آنکھیں کھل جا تی ہیں مسو لینی کا کمال یہ تھا کہ وہ مقرر بلا کا تھا اپنی تقریروں میں دن کو رات، سفید کو سیا ہ اور زمین کو آسمان بنا کر پیش کر تا تھا جو یہ باتیں نہیں مانتے وہ زمین کے نیچے بھیج دیے جا تے تھے، اٹلی کی مو جودہ وزیر اعظم جا رجیا میلونی (Gorgia Meloni) کی پارٹی بردران اطالیہ (Brothers of Itly) پارلیمنٹ کی اکثریتی پارٹی نہیں اس لئے میلو نی مخلوط حکومت کی سر براہی کر تی ہیں، ہم لو گ شام کو گھر سے نکلے تھے، روم کے مر کز میں شاہی محلات کو دیکھ کر یا د آیا کہ حجاز مقدس میں حضرت محمد ﷺ کی پیدائش کے دن قیصر روم کے محل کی اینٹ گر چکی تھی

 

 

واپسی کے سفر میں فاروق نے رومن فوRoman forum)) اور کولو زیم سے گذر نے والا راستہ اختیار کیا یہ مقا مات دن کو جتنے بارعت لگتے ہیں رات کی جگمگاتی روشنیوں میں ان کی شکوہ کو چار چاند لگ جا تے ہیں کلو زیم (Colosseum) کی بلند و بالا عمارت کی کھڑ کیوں سے روشنی آتی ہے تو اس کا حسن دو با لا ہو جا تا ہے یہ بہت بڑا تھیٹر ہے اس پانچ منزلہ تھیٹر میں پہلوانوں کی کشتیاں ہوا کر تی تھیں جن کو گلیڈی ایٹر (Gladiater) کہا جا تا تھا، اس عمارت کی تعمیر کی ابتدا پہلی صدی قبل ازمسیح میں ہوئی 80عیسوی میں اس کا افتتاح ہوا اس میں 50ہزار تما شائیوں کے بیٹھنے کی گنجا ئش تھی یہ ایسا اکھاڑہ تھا جہاں کھیل کے شروع میں پہلوانوں کے درمیان دنگل ہو تا تھا دوسرے مر حلے میں پہلوا نوں کا مقا بلہ شیر یا چیتے سے ہو تا تھا، اب عمارت آدھی رہ گئی ہے اس کا بالا ئی حصہ 1349کے تباہ کن زلزلے میں زمین بو س ہوا جس کی ایک دیوار دروازوں اور کھڑ کیوں کے ساتھ بچ گئی ہے دیوار اور دیگر کھنڈرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمارت نفیس تھی سالا نہ 60لا کھ سیاح اس کو دیکھنے آتے ہیں شاعر کہتا ہے مل گیا تھا کوئی یوں ہی سر راہ چلتے چلتے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
95867

زندگی کی تجدید کی علامت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

زندگی کی تجدید کی علامت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ تصویر انسان اور فطرت کے تعلق کو ظاہر کرتی ہے، اس بات پر زور دیتی ہے کہ زمین کے وسائل کا تحفظ اور اس کی خوبصورتی کی بقا ہماری اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہر چھوٹے عمل سے بڑی تبدیلی ممکن ہے۔

 

nandini shakira zindagi

 

تصویر میں ایک دلکش منظر پیش کیا گیا ہے جو انسان اور فطرت کے درمیان گہرے ربط کو بیان کرتا ہے۔ ایک ہاتھ، جس کی انگلیاں سبز رنگ سے ڈھکی ہوئی ہیں، ایک ننھے پودے کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ تصویر زندگی، امید، اور ذمہ داری کی داستان کو بیان کرتی ہے۔ سبز رنگ، جو زندگی اور نشوونما کی علامت ہے، اس ہاتھ پر گویا انسان کی فطرت کے ساتھ جُڑے ہونے کا پیغام دے رہا ہے۔

پودا، جو اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، ایک نئی شروعات کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ چھوٹا سا بیج، جو کسی زمین کے ٹکڑے میں پروان چڑھ رہا تھا، اب انسانی ہاتھوں میں ہے، جیسے کہ قدرتی دنیا اور انسانی دنیا کے بیچ ایک رابطہ قائم ہو چکا ہو۔ ہاتھ کا عمل گویا اس بات کا اظہار ہے کہ فطرت کو بچانا اور سنوارنا ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

یہ تصویر ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری کے پیغام کو بڑی خوبی سے اجاگر کرتی ہے۔ انسانی ہاتھوں پر رنگ کا ہونا گویا اس بات کی علامت ہے کہ ہم سب فطرت کا ایک حصہ ہیں، اور ہمارا عمل ہی اس کی بقا یا زوال کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک طرف پودا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ زندگی کتنی نازک اور قیمتی ہے، اور دوسری طرف یہ امید بھی پیدا کرتا ہے کہ اگر ہم اپنی کوششوں کو ذمہ داری سے جاری رکھیں، تو زمین کا سبزہ کبھی ختم نہ ہوگا۔

یہ منظر قدرتی حسن اور انسانی عمل کے درمیان ہم آہنگی کی بہترین تصویر کشی ہے۔ سبز رنگ کا غلبہ فطرت کی طاقت اور اس کی اہمیت کا اظہار ہے۔ ہاتھ کی نرم گرفت پودے کے ساتھ شفقت اور تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95872

قاری فیض اللہ چترالی: دین، خدمت اور سماجی فلاح کی عظیم شخصیت’- حافظ فضل اکبر سعدی

Posted on

قاری فیض اللہ چترالی: دین، خدمت اور سماجی فلاح کی عظیم شخصیت’- حافظ فضل اکبر سعدی

 

قاری فیض اللہ چترالی پاکستان کے ضلع چترال کی ایک معروف علمی، سماجی اور دینی شخصیت ہیں۔ آپ 1960ء میں چترال کے علاقے وریجون موڑکہو میں محمد یوسف صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ قاری صاحب نے اپنے علمی سفر کا آغاز جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے کیا، جہاں سے آپ نے دینی علوم حاصل کیے۔ یہ ادارہ پاکستان کے ممتاز دینی تعلیمی اداروں میں شامل ہے اور یہاں تعلیم حاصل کرنے سے آپ نے اپنے علم میں بھرپور اضافہ کیا۔

 

 

قاری صاحب نے اپنی زندگی کو نہ صرف دینی تعلیم کے فروغ بلکہ سماجی خدمت کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے۔ آپ نے چترال اور اس کے گرد و نواح میں پانچ ہزار سے زائد مساجد تعمیر کیں، جن میں سینکڑوں مکاتب بھی شامل ہیں۔ ان مساجد اور مکاتب کا مقصد صرف عبادت کا احیاء نہیں بلکہ بچوں اور نوجوانوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینا بھی تھا۔ آپ کی دینی خدمات کا اثر چترال کے ہر حصے میں محسوس کیا جاتا ہے، جہاں ہر عمر کے افراد دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 

 

قاری صاحب نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں چترالی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان کی مدد کی۔ قدرتی آفات ہوں، یا دیگر سماجی مسائل، آپ نے چترال کے عوام کی رہنمائی کی اور ان کی مشکلات میں ان کا ساتھ دیا۔ قاری صاحب نہ صرف روحانی رہنمائی فراہم کرتے ہیں بلکہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی کفالت میں بھی پیش پیش ہیں۔ آپ نے اپنے ذاتی وسائل سے بے شمار غریب خاندانوں کی مدد کی اور ان کے لیے معاشی سہولتیں فراہم کیں۔

 

 

قاری صاحب کی دینی خدمات کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا، بلکہ آپ نے بیرون ملک بھی اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے اہم کام کیے۔ کراچی میں آپ نے “مدرسہ امام محمد” کے نام سے ایک عظیم تعلیمی ادارہ قائم کیا، جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج پیش کیا جاتا ہے۔ اس ادارے سے ہزاروں طلباء مستفید ہو چکے ہیں اور یہ ادارہ دین کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاحات میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

 

 

قاری صاحب کی زندگی نہ صرف ایک عالم دین کی مثال ہے بلکہ ایک سماجی کارکن اور رہنما کی بھی ہے۔ ان کے بیٹے مفتی ولی اللہ، مولانا انعام اللہ، مولانا عرفان اللہ، فرحان اللہ، صبغت اللہ، اور محمد فیاض بھی اپنے والد کی طرح دین کی خدمت اور غریبوں کی مدد میں مصروف ہیں۔ یہ صاحبزادگان اپنے والد کی تعلیمات اور ان کی سماجی خدمات کا ورثہ لے کر آئندہ نسلوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

 

 

اللہ تعالیٰ قاری صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے علم و عمل میں مزید برکت دے، اور ان کے ذریعے ہونے والی خدمات کو امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین۔

 

تحریر
حافظ فضل اکبر سعدی بن حاجی میر اکبر ژوپو یارخون
صدر جمعیت طلباء اسلام چترال حلقہ کراچی

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95864

قراقرم یونیورسٹی: تنقید و تعریف – خاطرات: امیرجان حقانی

Posted on

قراقرم یونیورسٹی: تنقید و تعریف – خاطرات: امیرجان حقانی

 

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان کی ایک ممتاز اور منفرد علمی درسگاہ ہے، جو اس خطے کے عوام کے لیے ایک قومی اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ادارہ ہزاروں طلبہ و طالبات کے لیے علم و تحقیق کے مواقع فراہم کر رہا ہے اور اپنی تمام تر کمیوں کے باوجود خطے کی علمی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

 

میں نے ماضی میں قراقرم یونیورسٹی پر کئی تنقیدی کالم لکھے ہیں، لیکن یہ تنقید کسی ذاتی عناد یا مخالفت پر مبنی نہیں تھی۔ ان تحریروں کا مقصد ہمیشہ اصولی بنیادوں پر ادارے کی بہتری اور اصلاح رہا ہے۔ آج بھی میرا یہ اصولی موقف برقرار ہے کہ اس ادارے کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے اس کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا ضروری ہے اور یونیورسٹی کے فیصلوں اور شخصیات کے کردار کو بھی زیر بحث لانا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاہم یہ عناد و بغض کی بجائے خلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہو۔

 

قراقرم یونیورسٹی نے خطے کے مختلف اضلاع میں کیمپسز قائم کیے ہیں، جو ایک خوش آئند اقدام ہے اور عوام کے لیے علم تک رسائی کو آسان بناتا ہے۔ تاہم، یہ امر باعث افسوس ہے کہ ان کیمپسز کو مقامی کالجز کی عمارتوں پر قبضہ کر کے چلایا جا رہا ہے۔ یہ عمل تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ہے اور یونیورسٹی کے وقار پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنی ذاتی عمارتیں تعمیر کرنے کی فوری کوشش کرے اور کالجز کی عمارتیں ان کے اصل مقاصد کے لیے واپس کرے۔ یہ کالجز دراصل یونیورسٹی کے لئے فیڈنگ یونٹس ہیں، جن کو ڈسٹرب کرکے کسی صورت یونیورسٹی کامیاب نہیں ہوسکتی نہ کیمپس چل سکتے ہیں۔ کالجز میں انفراسٹرکچر کی کمی کو روزانہ کی بنیاد پر محسوس کیا جاتا ہے، اور اس کا سبب یونیورسٹی کیمپسز ہیں۔

 

قراقرم یونیورسٹی کا بورڈ (کے آئی یو بورڈ) بھی خطے کا ایک اہم ادارہ ہے، جو طلبہ کے تعلیمی معاملات کو بہتر بنانے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ اس میں بعض کمزوریاں اور خامیاں موجود ہیں، لیکن یہ ادارہ گلگت بلتستان کا اپنا اکلوتا بورڈ ہے، اور اسے بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ تنقیدی عمل اس کی بہتری کے لیے نہایت ضروری ہے۔ تاہم بورڈ کیساتھ سوتیلا رویہ بھی اچھا نہیں ہے۔ انتہائی بدنیتی سے بورڈ کے ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کا الحاق ختم کردیا گیا ہے۔ اگر یونیورسٹی بورڈ مناسب نہیں تھا تو گلگت بلتستان کا الگ بورڈ کا قیام عمل میں لانا چاہیے تھا مگر بورڈ کچھ عناصر کی انا، مفاد اور ہٹ دھڑمی کا شکار ہوا۔

 

یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ بعض افراد ذاتی مفادات کی خاطر یونیورسٹی، بورڈ، یا اس کے ذیلی کیمپسز کی مخالفت کرتے ہیں، جو خطے کے عوام اور تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔ کسی بھی ادارے کی مخالفت اصولوں اور بہتری کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ ذاتی فوائد کے لیے۔

 

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، اس کا بورڈ، اور اس کے ذیلی کیمپسز گلگت بلتستان کے عوام کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ لاکھوں طلبہ و طالبات کی مادر علمی ہے۔ اور ہزاروں افراد کے لئے روزگار کا سبب ہے۔ ان اداروں کی مخالفت کرنے کے بجائے ان کی بہتری اور ترقی کے لیے تعمیری تجاویز اور مثبت کوششیں کرنی چاہییں۔ میں روز اول سے یونیورسٹی، بورڈ اور کیمپسز کے حوالے سے ایک اصولی رائے رکھتا ہوں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہوں، تاہم اس یونیورسٹی اور اس کے ذیلی اداروں سے بغض و عناد ہے اور نہ ان اداروں سے میرے مفادات جڑے ہیں، اس لئے اپنی رائے کو بلاکم وکاست شئیر بھی کرتا ہوں۔ اور اصولوں پر تنقید و تعریف بھی کھل کرتا ہوں۔ میرا اختلاف، تنقید اور تعریف و حمایت بہر حال یونیورسٹی کی بہتری کے لئے ہے۔ سمجھ دار افراد اور قومیں، اپنے اداروں کی بہتری کی کوشش کرتی ہیں نہ کہ ان کے وجود کے درپے ہوتی ہیں۔

 

اگر ہم اخلاص کے ساتھ اس ادارے کی اصلاح اور ترقی کے لیے کام کریں، تو یہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثالی تعلیمی ادارہ بن سکتا ہے۔ یہی ہماری ذمہ داری ہے اور یہی خطے کی کامیابی کا راز ہے۔

 

 

Karakurom international university KIU GB 1

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
95833

خاموشی کے کنارے – از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

خاموشی کے کنارے – از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ تصویر نہ صرف فطرت کے حسن کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ یہ یاد دلاتی ہے کہ زندگی کے حقیقی لمحات وہی ہیں جو ہمیں اپنی ذات سے ملاتے ہیں۔ خاموشی کے کنارے بیٹھی وہ لڑکی، ایک مکمل کہانی ہے، ایک خاموش شاعری، جو ہر دیکھنے والے کے دل پر نقش چھوڑ جاتی ہے۔

 

 

shakira darya k kinare river

زندگی کی ہماہمی اور شور و غل سے دور، ایک پرسکون منظر میں، وہ ایک جھیل کے کنارے بیٹھی ہے۔ اس کا سراپا اس جھیل کی سکونت اور فطرت کی بے نیازی کا عکس پیش کر رہا ہے۔ شام کی دھیمی روشنی اور ہلکی ہوا کا لمس، منظر کو اور بھی جادوئی بنا رہا ہے۔ اس کے وجود میں ایک ایسی کیفیت جھلکتی ہے، گویا وہ خود کو فطرت کے سپرد کر چکی ہو۔

 

سیاہ لباس میں ملبوس، وہ جھیل کے کنارے بیٹھ کر پانی کو غور سے دیکھ رہی ہے۔ یہ لباس جیسے فطرت کی تاریک گہرائیوں کا عکاس ہو، اور اس کی موجودگی پانی کی سطح پر ایک خاموش داستان لکھ رہی ہو۔ پانی کے بہاؤ اور آس پاس کے درختوں کی سرسبزی نے اس لمحے کو ایک ایسی تصویر میں بدل دیا ہے جو صرف دل کی آنکھوں سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

 

اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور آنکھوں میں چھپی کہانیاں، ایسے لگتا ہے جیسے وہ خاموشی میں گفتگو کر رہی ہو۔ فطرت کے ہر ذرے سے جڑی، وہ خود کو اس ماحول میں مکمل محسوس کرتی ہے۔ ہوا کے نرم جھونکے اس کے بالوں سے کھیل رہے ہیں اور اس کے آس پاس موجود ہر چیز کو حرکت دے رہے ہیں، سوائے اس کے وجود کے جو گویا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔

 

جھیل کا پانی، شیشے کی طرح شفاف اور خاموش، اس کے اندر چھپی سوچوں کا عکس واپس لوٹا رہا ہے۔ شاید وہ اس پانی میں خود کو دیکھنے کی کوشش کر رہی ہو، یا پھر ان خوابوں کو تلاش کر رہی ہو جو زندگی کی بھول بھلیوں میں کھو گئے ہوں۔ وہ لمحہ ایسا ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے، ایک ابدی سکون کا مظہر۔

 

درختوں کی سرسبز شاخیں اور نرم زمین، جیسے اس کے لیے ایک محافظ بن گئی ہوں۔ وہ اکیلی نہیں، بلکہ فطرت کی گود میں بیٹھی ہے۔ اس کے اردگرد موجود ہر شے، چاہے وہ پانی ہو یا درخت، اس کے سکون میں شریک معلوم ہوتی ہے۔ یہ لمحہ جیسے کسی کہانی کا اختتام نہ ہو، بلکہ ایک آغاز ہو۔

 

یہ منظر ہمیں زندگی کے ان لمحوں کی یاد دلاتا ہے جو اکثر ہجوم اور تیز رفتاری کے درمیان گم ہو جاتے ہیں۔ یہ لمحہ ایک دعوت ہے، ہمیں رکنے اور اپنی زندگی کے گہرے معنی تلاش کرنے کی۔ خاموشی، جو اکثر ہمیں خوفزدہ کرتی ہے، یہاں ایک نیا روپ دھار لیتی ہے اور اپنے اندر بے حد سکون اور حکمت رکھتی ہے۔

فطرت کے ساتھ گزارے گئے ایسے لمحات انسان کے دل و دماغ کو ایک نئی توانائی بخشتے ہیں۔ وہ لمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کبھی کبھی ہمیں زندگی کی گہرائیوں کو محسوس کرنے کے لیے خاموشی میں ڈوب جانا چاہیے۔ جھیل کا پانی، درختوں کی ہریالی، اور ہوا کی موسیقی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کا اصل حسن سادگی اور سکون میں ہے۔

 

شاید وہ اپنے ماضی کی یادوں کو، اپنے حال کی حقیقتوں کو، یا اپنے مستقبل کے خوابوں کو سوچ رہی ہو۔ لیکن جو بھی ہو، اس لمحے میں، وہ مکمل طور پر آزاد ہے۔ اس کی آنکھوں کی گہرائی میں ایک ایسی روشنی ہے جو اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ زندگی کے حقیقی راز فطرت کے دامن میں چھپے ہوئے ہیں۔

 

یہ جھیل کا کنارہ اور اس کے سکون کا لمحہ ایک کہانی بیان کرتا ہے: ایک کہانی جس میں زندگی کی گہرائی، فطرت کا حسن، اور انسان کے دل کا سکون سب ایک جگہ سمٹ آتے ہیں۔ خاموشی کے اس منظر میں وہ نہ صرف اپنے اردگرد کی فطرت کو محسوس کر رہی ہے بلکہ اپنی ذات کے قریب بھی آ رہی ہے۔ یہ لمحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کبھی کبھی ہمیں اپنے اندر کے سکون کو تلاش کرنے کے لیے فطرت کی گود میں پناہ لینی چاہیے۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95806

بزمِ درویش ۔ بابا جی کا اسم اعظم ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ بابا جی کا اسم اعظم ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

قدرت اور قدرت کے حسین سحر انگیز مناظر کے ہمسفر بابا نور احمد کے اسم اعظم کا پتہ لگ گیا تھا کاسہ دل کی صفائی باطنی طہارت بابا جی سے ملاقات کا بہت مزہ آیا جب میں با با جی کے سامنے بیٹھا تھا اور بابا جی مجھ سے وظائف کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور میں ان کے حکم کی تعمیل کر رہا تھا تو بابا جی بولے اپنے ابتدائی زمانے میں میں بھی اِن اعمال اکبر کو کر تا رہا بیٹا جو کھوج تلاش تم کو میرے پاس لے کرآئی ہے میں بھی اِسی کھوج کی آگ میں دن رات سلگتا تھا میں بھی اس اسم اعظم وظیفے چلے کی تلاش میں ہر اُس با بے کے پاس پہنچ جاتا جس کے بارے میں کوئی میرے سامنے ذکر کر تا چہل کاف قصید ہ غوثیہ سورہ مزمل پہلا کلمہ تیسرا کلمہ آیت کریمہ اللہ کے بڑے نام قرآنی سورتوں کے بڑے وظائف میں بھی ساری ساری رات اِن وظیفوں پر لگا رہتا جنون اور تلاش اِس قدر بڑھ گئی تھی یا سوتا تھا

 

یا پھر وظیفہ کر تا تھا الگ کمرہ بنا لیا جہاں پر دن رات وظیفے کر تا ترک جمالی جلالی کی طرف آیا تو جو کے آٹے کی روٹی اُبلی سبزیوں کے ساتھ یا پھر مسلسل روزے رکھنے حبس دم کی طویل مشقیں ارتکاز مراقبے میں سر جھکائے گھنٹوں بیٹھے رہنا باطن کے گہرے تاریک اندھیروں کی چادر کے اُس پار روشنی کے جگنو تلاش کر نا لیکن اِن ساری کوششوں کے باوجود باطن کے اندر تنی اندھیرے کی چادر گہری سے گہری ہوتی جارہی تھی روشنی کی ایک کرن چنگاری نور کے سمندر کے ایک قطرے کے لیے میں دنیا چھوڑ کر پہلے ایک کمرے کا ہو کر رہ گیا پھر سادھوں مداریوں بابوں ملنگوں کے تعقب میں آبادیوں سے دور خانہ بدوشوں کی غلامی کر تا رہا گہرے تاریک جنگلوں میں دریاؤں کے کنارے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سنیاسیوں کے ساتھ جڑی بوٹیوں کی تلاش پھر پہاڑوں کے دامن میں قیمتی پتھرو ں کی تلا ش جہاں مجھے روشنی کی کرن نظر آتی میں لگ جاتا میں فیصلہ کر چکا تھا کہ میں نے روشنی کو حاصل کر نا ہے شادی نہیں کر نی گھر بار چھوڑ کر بابوں ملنگوں کے ساتھ زندگی کے دن گزارنے لگا لیکن میں اپنی منزل سے دور کا دور تھا تم کسی وظیفے کا نام لو میں نے وہ کیا ہو گا مولا علی علیہ سلام کے ڈنکے منکے میں نے بہت سارے حفظ کئے ہوئے تھے لیکن میں طوطے کی طرح ٹر ٹر پڑھائی تو کر لیتا لیکن فیض نہیں تھا جو میں چاہتا تھا

 

وہ نہیں تھا لیکن میں اپنی تلاش میں مگن لگا ہو اتھا پھر رب جی کو مجھ گناہ گار پر ترس آگیا میں بابا فرید ؒ پاک پتن سرکار کے سالانہ میلے پر گیا ہوا تھا وہاں پر ایک باباجی سے ملاقات ہوئی جو سانپ کاٹے کا علاج مریض پر ہاتھ پھیر کر کرتے تھے ساتھ میں الفاظ کا تکرار بھی کرتے میں جس کرامت کی تلاش میں تھا وہ بابامجھے مل گیا تھا باباجی سنیاسی بھی تھے نوے سال سے زیادہ عمر کے تھے میں اب ان کا چیلا بن کے ان کے ساتھ رہنے لگا پہلے تو بابا جی نے مجھے دھتکارا کہ میں ان کی جان چھوڑ دوں لیکن میں ضد کا پکا تھا دن رات ان کی خدمت میں لگا رہا جب باباجی نے دیکھا کہ میں ان کی جان نہیں چھوڑ رہا تو اُنہوں نے مجھے وظیفوں پر لگا دیا ایک چلہ پورا ہوا تو اگلاشروع کرادیا وہ خود بھی سالوں سے پرہیز ترک جمالی جلالی کررہے تھے لہذا میں بھی اب جو کی روٹی اور ابلی سبزیوں پر آگیا ایک سال تک وہ مجھے یو نہی مختلف وظیفے کرواتے رہے میں جس وظیفے کا ذکر کر تا میں جب کسی عامل سے یا بابے سے کسی وظیفے کے بارے میں سنتا تو باباجی سے ذکر کرتا باباجی شاید وظیفوں کی پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی وہ مجھے اُس وظیفے کی ساری تفصیلات مکمل طور پر سمجھا دیتے جو لوگ وظیفوں چلوں کے ٹھرکی ہیں وہ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ وظیفے چلے کر نا بھی ایک نشہ ہے جوانی میں میں جب کوئی عملیات کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو نشئی کی طرح گزرتے دنوں کے ساتھ نئے سے نیا وظیفہ چلہ کرتا چلا جاتا ہے

 

ہر مداری بابا ملنگ اپنے ہی طریقے کا وظیفہ چلہ بتاتا کوئی کہتا وہ دودھ کاپیالہ روزانہ پینا ہے کوئی کھجوروں کی اجازت دیتا کہ صرف پانچ کھجوریں روزانہ کھانی ہے جو کا آٹا تو مشہور ہے جو ہر عامل بتاتا ہے روزوں کی بھی مختلف قسمیں اور شرطیں پھر وظیفوں کی تعداد الگ مسئلہ ساری ساری رات بیٹھ کر کھڑے ہو کر وظیفہ کر نا ہے کھلے آسمان کے نیچے چاند راتوں کے ساتھ چاند کو دیکھ کر وظیفہ کر نا ہے نو چندی جمعرات سے شروع کر نا ہے کھانا کسی عورت کے ہاتھ کا نہیں کھانا بلکہ خود آٹا پیسنا ہے چکی میں پھر خود ہی روٹی سبزی بنا کر استعمال کر نی ہے پھر مٹھی بھر بھنے چنے اور گلاس کے ساتھ روزہ رکھ کر پھر اسی طرح افطاری کر کے پھر ایسے ایسے طریقے یہاں تک کہ دریا کے پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر رات بھر کونساوظیفہ چلہ ّ کرنا ہے میں بھی اگر اپنی پرانی ڈائریاں دیکھتا ہوں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے میں کیونکہ پڑھا لکھا تھا اِس لیے وظائف اکٹھے کرنے پر لگا ہو اتھاکہ بہت سارے وظیفے اکٹھے کروں گا اب میں پھر بابا نور کی طرف آتا ہوں وہ اپنی داستان سنا رہے تھے کہ مجھے باباجی خدمت کرتے کرتے پانچ سال ہوگئے وظیفے چلّے بھی بہت زیادہ ہو گئے اب بابا جی بڑھاپے کے بعد موت کے قریب آگئے تھے ایک دن مجھے پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور بولے پتر تم نے میری بہت زیادہ خدمت کی ہے تم جس اسم اعظم کی تلاش میں ہو وہ چلّوں وظیفوں میں نہیں بلکہ خدا تعالی کی مرضی میں ڈھلنے کا نام ہے

 

عام مولوی مسلمان کہتا ضرور ہے کہ میں مسلمان ہو رب جی ہر بات مانتا ہوں لیکن وہ سچ میں نہیں مانتا اُس کے اندر جو فرعون نفرت غصہ تکبر جھوٹ بخل نفرت حقارت غرور دھوکہ دوسروں پر ظلم کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان فرعونوں کو نہیں مارتا زبان اور عمل میں تضاد ہو تا ہے خدا کی مخلوق کو آرام کی بجائے نقصان پہنچاتا ہے جس دن تم نے اندر کے اِن سانپوں کو مار دیا تو صرف بسم اللہ پڑھ کر جس مریض پر ہاتھ رکھو گے وہ صحت یاب ہو جائے گا اب نفس کو کس طرح مارنا ہے باباجی نے بتا دیا اگلا پورا سال میں نے تزکیہ نفس میں گزارے تو میرا جسم دماغ دل ہر قسم کی خواہش سے پاک ہو گیا میں اب دنیا میں موجود تھا لیکن دنیا میرے اند ر نہیں تھی اُسی دن سے میرا وجود دوسروں کے لیے شفا بن گیا اسم اعظم یہی ہے کہ من کو صاف کر کے اللہ کی مخلوق سے محبت خدمت کرو تمہارا وجودنور بن جائے گا پھر تم جو کہوں گے وہ ہو جائے گا روحانی فیض وظیفوں چلّوں میں نہیں ہے بلکہ خدمت خلق اور خدا تعالی کو ظاہری اور باطنی طور پر ماننا ہے اُو کو تر جیح اول رکھنا ہے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95799

محبت کی جنگجو اور جنگل کا ساتھی ۔ از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

محبت کی جنگجو اور جنگل کا ساتھی ۔ از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ کہانی ایک یاد دہانی ہے کہ محبت صرف انسانوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ یہ کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔ یہ محبت زندگی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے جو اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ وہ عورت اور اس کا ریچھ، اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ حقیقی محبت کسی بھی حد، خوف، یا رکاوٹ سے آزاد ہے۔

 

Nandini jangle

 

دھوپ کی سنہری کرنیں درختوں کی شاخوں سے چھن کر زمین پر ایک عجیب سی روشنی بکھیر رہی ہیں۔ جنگل کی گہری خاموشی اور قدرت کی سبزہ زار، جیسے کسی قدیم کہانی کا منظر ہو، اس میں ایک عورت نمایاں کھڑی ہے۔ وہ ایک جنگجو ہے، نہ صرف اپنے لباس اور ہتھیار کی وجہ سے، بلکہ اس کے وجود سے جھلکتی ہوئی ایک عجیب سی طاقت اور محبت کی روشنی کی وجہ سے۔

اس کے پہلو میں ایک بھورے رنگ کا ریچھ خاموشی سے چل رہا ہے۔ اس کی موجودگی ایک محافظ کی مانند ہے، جیسے دونوں کے درمیان کوئی غیر مرئی تعلق ہو۔ یہ تعلق شاید قدرت کی کسی قدیم رسم کا حصہ ہے، جو انسان اور جانور کے درمیان ہم آہنگی اور احترام کو ظاہر کرتا ہے۔

اس عورت کا لباس، چمڑے کا بنا ہوا، ایک قدیم داستان کا عکاس ہے۔ اس کے کندھوں پر دھاتی کانٹے اور اس کی آنکھوں میں جھلکتی ہوئی عزم کی چمک، یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ نہ صرف ایک جنگجو ہے بلکہ محبت کی ایک ایسی علامت ہے جو اپنے اردگرد کی ہر چیز کو اپنے دل کی روشنی سے منور کر دیتی ہے۔

ریچھ کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ایک انوکھی داستان سناتی ہے۔ وہ جنگل کی دنیا میں، جہاں خوف اور خطرات کا سامنا ہے، ایک دوسرے کے لیے محافظ بن چکے ہیں۔ یہ محبت کی ایسی شکل ہے جو لفظوں کی قید سے آزاد ہے، جو صرف خاموشی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

درختوں کے درمیان چلتے ہوئے وہ دونوں، جیسے کسی قدیم دیومالائی کہانی کا حصہ ہوں۔ عورت کی مضبوطی اور ریچھ کی خاموش وفاداری، یہ دونوں مل کر ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو محبت، حفاظت اور قربانی کا پیغام دیتی ہے۔

یہ منظر صرف ایک تصویر نہیں، بلکہ زندگی کی ایک کہانی ہے۔ وہ عورت، جو اپنی طاقت کے ذریعے اپنی دنیا کو بہتر بنانے کی خواہاں ہے، اور ریچھ، جو اپنی خاموشی میں اس کا محافظ ہے، دونوں ایک ایسی کہانی بیان کرتے ہیں جس میں محبت اور حفاظت کی ایک نرالی شکل پیش کی گئی ہے۔

یہ محبت محض رومانوی جذبہ نہیں، بلکہ ایک ایسی گہری محبت ہے جو کسی بھی رشتے سے آزاد ہے۔ یہ محبت قدرت کی خاموشی میں جڑی ہے، جہاں زبان کی ضرورت نہیں، اور دل کی دھڑکنیں خود ہی سب کچھ بیان کرتی ہیں۔

جنگل کی ہریالی، درختوں کی چھاؤں، اور دھوپ کی روشنی، یہ سب مل کر اس منظر کو مزید جادوئی بنا دیتے ہیں۔ وہ دونوں، ایک عورت اور ایک ریچھ، اس دنیا کے مختلف حصوں سے نکل کر ایک ایسی جگہ پر پہنچے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95802

بے وفائی کا انجام ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

بے وفائی کا انجام ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

ایما ایک خوبصورت، ذہین اور خوابوں سے بھری ہوئی نوجوان لڑکی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے یورپی گاؤں میں رہتی تھی جہاں زندگی سادہ اور سکون بھری تھی۔ لیکن ایما کے دل میں ہمیشہ بڑے خوابوں کی تڑپ تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ کسی بڑی دنیا کا حصہ بنے، جہاں روشنی، محبت اور دولت کا بسیرا ہو۔

 

Image from wp s.ru 1 3

ایک دن، گاؤں میں ایک امیر زادہ، نکولس، آیا۔ وہ شہر سے آیا تھا اور اپنے اعلیٰ لباس اور دلکش انداز کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ نکولس نے ایما پر ایک نظر ڈالی اور وہ اس کی مسکراہٹ کا شکار ہو گئی۔ نکولس نے ایما کو بڑے خواب دکھائے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ اسے گاؤں کی سادگی سے نکال کر ایک عالیشان زندگی دے گا۔

 

ایما نے اپنی ساری محبت اور بھروسہ نکولس پر وار دیا۔ اس نے اپنی زندگی، اپنا خاندان، اور اپنے سچے محبت کرنے والے من fiancé، پیٹر، کو چھوڑ دیا۔ پیٹر ایک محنتی اور دیانت دار شخص تھا جو ایما کو دل و جان سے چاہتا تھا، لیکن اس کی سادگی ایما کی خواہشوں کے سامنے بے کار لگتی تھی۔

 

 

ایما نکولس کے ساتھ شہر چلی گئی۔ شروع میں سب کچھ خوابوں جیسا لگ رہا تھا۔ مہنگے کپڑے، فیشن ایبل پارٹیوں، اور نکولس کی عارضی محبت نے ایما کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ دنیا کی خوش نصیب ترین لڑکی ہے۔ لیکن جلد ہی، یہ خوش فہمی ختم ہو گئی۔

 

 

نکولس ایک خودغرض اور بے حس شخص نکلا۔ اس کا مقصد صرف ایما کے حسن کا استعمال تھا۔ جب وہ اس سے بور ہو گیا، تو اس نے ایما کو چھوڑ دیا اور کسی اور کی تلاش میں نکل گیا۔ ایما، جو نکولس پر اپنی زندگی کی بنیاد رکھ چکی تھی، اچانک اکیلی رہ گئی۔

 

 

ایما نے اپنے گاؤں واپس جانے کی کوشش کی، لیکن وہاں کا ماحول بھی اب اس کے لیے اجنبی بن چکا تھا۔ پیٹر، جس نے کئی ماہ اس کا انتظار کیا تھا، اب کسی اور کے ساتھ اپنی زندگی میں خوش تھا۔ ایما کی واپسی کے لیے وہاں کچھ باقی نہیں تھا۔

 

 

شہر کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں، ایما اکیلی بیٹھی اپنے فیصلے پر پچھتا رہی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ کیسے اس نے ایک خواب کی خاطر حقیقت کو ٹھکرا دیا۔ وہ اپنی بے وفائی کے نتیجے میں اپنے تمام رشتوں اور سکون کو کھو چکی تھی۔

 

 

ایما کی کہانی ایک سبق بن گئی: کبھی بھی وقتی چمک دمک کے لیے ان چیزوں کو نہ ٹھکرائیں جو واقعی اہم اور پائیدار ہوں۔ محبت اور وفاداری، دولت اور خوابوں کی چمک سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95770

آزادی کا لمحہ – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

آزادی کا لمحہ – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ تصویر انسانی حوصلے، آزادی اور فطرت کی خوبصورتی کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک شخص کا پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگانا اس لمحے کی علامت ہے جب انسان اپنی تمام حدود کو توڑتا ہے اور زندگی کی وسیع وسعتوں کو گلے لگاتا ہے۔ غروبِ آفتاب کا منظر روشنی اور تاریکی کے امتزاج کو پیش کرتا ہے، جو زندگی کے تضادات کی علامت ہے۔

 

 

nandinidiary azadi

 

یہ تصویر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کا جذبہ اور حوصلہ ہے۔ پہاڑ کی بلندی سے چھلانگ لگانا ایک ایسی آزادی کی نمائندگی کرتا ہے جو خوف، ناکامی، اور محدودیت کے خلاف ہے۔ یہ اس یقین کی علامت ہے کہ اگر ہم اپنے خوف پر قابو پا لیں تو زندگی کے ہر چیلنج کو گلے لگا سکتے ہیں۔

 

غروبِ آفتاب، جو آسمان کو سنہری اور نارنجی رنگوں سے سجاتا ہے، زندگی کے عارضی پن اور خوبصورتی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے لمحے کی نمائندگی کرتا ہے جو گزر رہا ہے، لیکن اس کے اندر ایک گہری معنویت چھپی ہوئی ہے۔ اس روشنی میں، پہاڑوں اور وادیوں کا منظر انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کو بیان کرتا ہے۔

پہاڑ سے چھلانگ لگانے کا عمل خطرے اور حوصلے کا حسین امتزاج ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کے سفر میں ترقی صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی آرام دہ حدوں سے باہر نکلیں اور نامعلوم کے خوف کا سامنا کریں۔

 

یہ تصویر فطرت کی وسیع وسعتوں اور انسان کی قوتِ ارادی کے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ آسمان کا پھیلاؤ، پہاڑوں کی بلندی، اور زمین کی گہرائی اس بات کی علامت ہیں کہ انسان کی اصل جڑیں فطرت میں ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں زندگی جینے سے ہمیں سکون اور مقصد حاصل ہوتا ہے۔

 

غروب کے وقت روشنی اور تاریکی کا امتزاج زندگی کے تضادات کی علامت ہے۔ روشنی امید اور امکانات کی نمائندگی کرتی ہے، جبکہ تاریکی چیلنجز اور نامعلوم کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ تضاد ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی میں سکون پانے کے لیے ہمیں دونوں عناصر کو اپنانا چاہیے۔

 

یہ تصویر انسانی حوصلے اور فطرت کے تعلق کا استعارہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے خوف کو پیچھے چھوڑ کر آزادی اور امکانات کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ پہاڑ سے چھلانگ لگانے کا یہ عمل اس بات کا درس دیتا ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی جیت اپنے آپ پر اعتماد کرنا اور خطرات کو گلے لگانا ہے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95742

اسلام میں پسند کی شادی – از حافظ فضل اکبر سعدی

Posted on

اسلام میں پسند کی شادی – از حافظ فضل اکبر سعدی

 

 

اسلام ایک کامل دین ہے جو انسان کی فطری ضروریات اور جذبات کو تسلیم کرتا ہے اور انہیں بہترین طریقے سے پورا کرنے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ نکاح، جو انسان کی زندگی میں سکون، محبت اور برکت کا ذریعہ ہے، اسلام میں ایک مقدس بندھن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں مرد اور عورت دونوں کو اپنی پسند کا حق دیا گیا ہے، بشرطیکہ اس میں اسلامی حدود اور آداب کا خیال رکھا جائے۔ پسند کی شادی اسلام کی وسعت اور انسانیت نوازی کا مظہر ہے، جو نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔

 

 

پسند کی شادی کی بہترین مثال نبی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے نکاح سے ملتی ہے۔ حضرت خدیجہؓ مکہ کی ایک معزز اور مالدار خاتون تھیں، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے کردار، دیانت داری اور حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر نکاح کی پیشکش کی۔ نبی کریم ﷺ نے یہ پیشکش قبول فرمائی، اور ان دونوں کی ازدواجی زندگی محبت، سکون اور برکت کا نمونہ بن گئی۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ نکاح میں کردار، دیانت اور تقویٰ کو ترجیح دینی چاہیے، اور اگر فریقین ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

 

 

ایک اور سبق آموز واقعہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا ہے، جنہوں نے ایک عورت سے نکاح کا ارادہ کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟‘‘ حضرت مغیرہؓ نے جواب دیا: ’’نہیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ اور اسے دیکھ لو، کیونکہ یہ تمہارے درمیان محبت اور ہم آہنگی پیدا کرے گا۔‘‘ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نکاح سے پہلے جائز طریقے سے ایک دوسرے کو دیکھنا اور پسند کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے، تاکہ مستقبل میں اعتماد اور محبت کی بنیاد مضبوط ہو۔

 

 

اسلامی اصولوں کے مطابق پسند کی شادی کے لیے چند اہم نکات ہیں۔ سب سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ نکاح شریعت کی حدود میں ہو اور دونوں فریقین کا رشتہ حلال ہو۔ دوسرا، والدین یا ولی کی رضامندی نکاح کو مزید بابرکت اور آسان بناتی ہے۔ والدین کی رہنمائی سے مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ہے اور تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ تیسرے، پسند کی شادی میں غیر ضروری رسم و رواج اور فضول خرچی سے اجتناب کیا جائے، تاکہ یہ آسان اور سادہ رہے۔ آخر میں، نکاح میں دولت، ظاہری حسن یا سماجی رتبے کے بجائے کردار، اخلاق اور دین داری کو ترجیح دینی چاہیے۔

 

 

حضرت خدیجہؓ اور نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا واقعہ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ پسند کی شادی میں محبت، اعتماد اور دین داری بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسلام نکاح کو ایک مقدس عمل قرار دیتا ہے اور اس میں آسانی پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ پسند کی شادی نہ صرف جائز ہے بلکہ ایک مثالی ازدواجی زندگی کا ذریعہ بھی ہے، بشرطیکہ یہ اسلامی آداب کے مطابق ہو۔

 

 

پسند کی شادی ایک ایسا قدم ہے جو محبت اور ہم آہنگی پر مبنی ایک خوشحال خاندان کی بنیاد رکھتا ہے۔ جب یہ نکاح اسلامی اصولوں کے مطابق ہو تو یہ زندگی بھر کے سکون، اعتماد اور برکت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسلام میں پسند کی شادی کا تصور ایک ایسی روشن مثال ہے جو معاشرے کو مستحکم اور انسان کو خوشحال بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

از حافظ فضل اکبر سعدی بن حاجی میر اکبر
ژوپو یارخون

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95739

داد بیداد ۔10 بجے کا مطلب ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

داد بیداد ۔10 بجے کا مطلب ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

ریل کی سفر میں اچھے دوست ملتے ہیں کبھی بات چیت کا موقع ملے تو یا دوں کی پوٹلی سے مشترکہ دلچسپی کے وا قعات کا ذکر بھی کر تے ہیں میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے اجنبی نے کتاب سے نظر یں ہٹا کر پہلے اپنے سنہرے سفید بالوں کو سہلا یا پھر میری طرف متوجہ ہو کر پو چھا معا فی چا ہتا ہوں آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے فخریہ انداز میں پا کستان کا نا م لیا تو اُس نے پو چھا کیا اب بھی پا کستان میں 10بجے کا مطلب 12بجے ہو تا ہے؟ ان کا طنزیہ سوال مجھے برا لگا کچھ کہہ نہ سکا، میرے ہمنشین نے بھا نپ لیا کہ میرا یا ر شرمندہ ہو گیا ہے اُس نے اپنا تعارف کرا تے ہوئے کہا میں سوئیز ہوں مختلف موا قع پر ٹریننگ، ورکشاپ وغیرہ کے لئے پا کستان کا دورہ کر تا ہوں پڑھے لکھے لو گ، سیا سی نما ئیندے، سما جی کا رکن اور ڈیولپمنٹ پر وفیشنلز کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو تا ہے شام 2بجے ان کو بلا یا جا ئے تو 9بجے سے پہلے کوئی نہیں آتا صبح 10بجے کا وقت دیا جا ئے تو 12بجے آجا تے ہیں اس وجہ سے پورا پرو گرام بر باد ہو تا ہے

 

اجنبی اب میرے لئے اجنبی نہیں رہا اُس نے میرے ملک کے بہترین لو گوں کا کچا چٹھا کھول کر میرے سامنے رکھ دیا تھا اور میں سمجھ گیا تھا کہ میرا ہم نشین بین الاقوامی کنسلٹنٹ ہے، میں نے ہمت کر کے پوچھا آپ نے روانڈا کا دورہ بھی کیا ہو گا؟ اُس نے میرے سوال کے بین السطور کو جا ن لیا اور بولا روانڈا سے بھی پسماندہ اور جا ہل قوموں کو دیکھا ہے وہ سب 10بجے کو 10بجہ ہی سمجھتے ہیں 10بجہ پا کستان کے سوا کسی بھی ملک میں 12بجہ نہیں ہوتا سٹیشن آتے ہی میرا ہم نشین ٹرین سے اتر گیا میں نے سوچا تو یا د آیا چند دن پہلے پشاور کے پنچ ستاری ہو ٹل میں محکمہ صحت، محکمہ تعلیم اور چند دیگر شعبوں کے لئے پر وگرام وضع کیا گیا ہے اس پر کروڑوں روپے خر چ کئے گئے تھے صبح 10بجے کا وقت مقرر تھا مگر 12بجے تک غیر ملکیوں کے سوا کوئی بھی نہیں آتاتھا، میں بھی حا ضر تھا وہاں،جن پا کستانیوں کو روزانہ 60ہزار روپے کے خر چ پر پنچ ستاری ہوٹل کے اندر ٹھہرا یا گیا تھا وہ ستم ظریف بھی 12بجے تک اپنے کمروں سے نکل کر ہال میں نہیں آتے تھے

 

پرو گرام کے غیر ملکی کنسلٹنٹ ان کی ایسی حر کتوں سے تنگ آگئے تھے پرو گرام کے آخری روز ما حو لیات کے وزیر کو بلا یا گیا تھا، کنسلٹنٹ کے ساتھ وزیر صاحب کی ذاتی جان پہچان تھی دونوں امریکی کمپنی میں مل کر کام کر تے تھے ان کا خیال تھا کہ وقت کی پا بندی کا مسلہ وزیر صاحب کے سامنے رکھو ں گا تا کہ آئیندہ ہمارا وقت ضا ئع نہ ہو جب آخری نشست کا وقت آیا تو وزیر صاحب نے 3گھنٹے کی تاخیر کی ہم پا کستانی سٹائل میں نعت شریف، قومی نغمے یا غزلوں کے ریکارڈ سنا کر حا ضرین کو مہمان خصو صی کے آنے تک مشغول رکھتے ہیں بین الاقوامی کنسلٹنٹ ایسا نہیں کر سکتا تھا اس نے حا ضرین کو ”گروپ ورک“ دے دیا، خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا اور وزیر صاحب 3گھنٹے بعد آگئے مجھے ایک اور اہم پرو گرام کا تلخ تجربہ بھی یا د ہے،

 

یہ ایک سکول میں تقسیم انعامات کی تقریب تھی اہم شخصیت کو صدارت کے لئے بلا یا گیا تھا اہم شخصیت نے فون کیا کہ تم لو گ پرو گرام کا آغاز کرو میں چند منٹوں میں پہنچ جا ؤ نگا پر وگرام کا آغاز ہوا، چند منٹوں کی جگہ ڈیڑھ گھنٹہ گذر گیا کلیدی خطبہ پڑھا گیا، سپاسنا مہ ملتوی رکھا گیا تا کہ اہم شخصیت کے آنے کے بعد گونا گوں مصرو فیات کے وقت نکا لنے کی گھسی پٹی گفتگو سنا کر ان کا شکریہ ادا کر کے اہم شخصیت کا شا یا ن شان خیر مقدم کیا جا سکے، تقسیم انعامات کا پرو گرام ختم ہوا، دعائے خیر کا مر حلہ باقی تھا کہ اہم شخصیت کی تشریف آوری ہوئی سپا سنا مہ پیش کیا گیا اس کے بعد کلیدی خطبہ دوبارہ سنا نے کے لئے مقرر کو دعوت دی گئی تو اس نے معذرت کی، پا کستانیوں کی یہ بری عادت اتنی پکی ہو چکی ہے کہ با بائے قوم محمد علی جنا ح کی اس نا ہنجار قوم کو ”وقت کی پا بندی“ بہت بری لگتی ہے دوسرے ملکوں کے لو گ جہاں ملتے ہیں ہمارا مذاق اڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ 10بجے کا مطلب 10بجے ہے یا 12بجے؟ چلو بھر پانی میں ڈوب مر نے کا مقام ہے۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
95737