مزدور کون ہوتا ہے؟ ………….تحریر: محمد عنصرعثمانی کراچی
منقسم اعلیٰ کی تقسیم بڑی انوکھی اور دل چسپ ہے ۔تقسیمِ مساوات کا شور و غوغہ بعد کے انسانوں نے اپنے گناہوں کی تلافی کرنے ، اپنے حقوق پر قبضہ کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے لیے مچایا۔دراصل یہ اپنے نام کا سکہ جمانے والی بات تھی۔عدمِ مساوات سے ہی تحفظ حقوق کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔اور انسان ناکردہ گناہوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔کمال ہوشیاری سے فساد کرنے کی راہیں ہموار کی گئیں۔اور الگ الگ انسانی طبقوں کے حقوق مارنے کی عادتیں پیدا کی گئیں۔جس سے تقسیم انسانیت کے ساتھ تقسیم احساسیت بھی وجود میں آئی۔مکر و فریب کی اس پیشہ وارانہ واردتوں سے معاشرے کے سب سے کمزور طبقوں پر وار کیا گیا،اور انسان اس مکرو فریب میں اپنی فنکارانہ مہارتیں دیکھاتا رہا ۔
معاشرے اس کمزور و نادار طبقے کے پاس اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے اور اپنی خودی کا جنازہ نکالنے کا وقت نہیں تھا،لہذا اس میت کو کاندھادینے ،اوربااثر ریاستوں میں اس کے حقوق کی جنگ لڑنے کا بیڑا بھی انہی فریبیوں نے اٹھا لیا ۔یہ وہی مجرم تھے جو اس فریب بنیادیں ڈالنے والے تھے۔اور اس طبقے کا حق دبانے والے تھے ۔معاشرے کا یہ طبقہ جس کی آ ڑ میں میں امراء ریاست نے کئی حوالوں سے نیک نامی کمائی مزدور کہلاتا ہے۔یہ تقسیم ’’لیبر‘‘ اور ’’ مزدور ‘‘میں ایسی ہوئی کہ تاریخ کے وہ اوراق کہ جن پر مزدور کے حقوق لکھے گیے،شرما کر رہ گیے۔آج تلک کسی نے محسوس ہی نہ کیا کہ مزدور ہوتاکون ہے؟ آس پاس زمین کے طول وعرض میں دیکھیں تو خدا کی یہ مخلوق اپنے حقوق سے قطع نظربھوک کی جنگ لڑرہی ہے۔مزدور وہ ہے جسے ٹھنڈے آرام دہ آفس سے آ کر دیہاڑی مانگنے پر کوس دیا جاتا ہے۔مزدور وہ ہے جو دس کلو گرام کے پانچ بلاک کمر پہ لاد کر انسان سے جانور بن جاتا ہے،اور ایک عالی شان نقوش کی متحمل عمارت وجود میں آتی ہے۔مزدور وہ ہوتا ہے جو روڈوں کو صاف کرکے معاشرے کے حسن میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔جب کوئی گلی محلے میں سبزی کا ٹھیلا لے کر آیے، پانچ دس روپے کے لیے دنیا جہاں کی برائیاں اس میں نکال کر ایک طوفان بد تمیزی مچایا جایے ،وہ مزدور ہوتا ہے۔جب کوئی اپاہج ایک ہاتھ سے محنت کرکے روزی کما رہا ہو،وہ مزدور ہوتا ہے۔جب ایک معصوم باپ کو بے روزگار دیکھ کراس کا کلیجہ منہ کو آجایے،پھر اس سے بہنوں کے خواب ٹوٹتے نہیں دیکھے جاتے۔اسے ماں کی صبر آزما کہانیاں ہضم نہیں ہوتیں۔اسے باپ کی سفید پوشی سونے نہیں دیتی۔وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے،اور معاشرے کے بے رحم ظلموں میں پستا چلا جاتا ہے،وہ مزدور ہوتا ہے۔ظلم تو یہ ہے کہ آج جدیدیت نے یکم مئی کے حقوق اپنی جانب کر لیے ،ساری ہمدردیاں اپنے حصے میں جمع کر لیں ،اور مزدور کو ’’لیبر‘‘ کا لیبل لگا کر تنہا چھوڑ دیا گیا ۔
یہ کس کی ناکامی ہے کہ ارکان عوامی نمائندگان مزدرو ڈے پر تقریریں کررہے ہوتے ہیں ۔حقوق کے تحفظ کی قسمیں کھا رہے ہوتے ہیں ۔اور اسی بلند و بالا بلڈنگ کے گیارویں مالے سے مزدور گر کر اجل کو پہنچ جاتا ہے۔ہم نہیں کہتے کہ 1817 ’’رابرٹ اوون‘‘ کے فلسفے کہ مزدور سے آٹھ گھنٹے کام لوپر عمل کیا جائے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ مزدور کو اس کا جائز حق دیاجائے۔1866 کی وہ تاریخ جب شکاگو کی گلیاں مزدوروں کے خون سے رنگیں ہو گئی تھیں ،مزدور حقوق پر پہلا حملہ تھا ۔یہ مزدرو کے حقوق پر قد غن لگانے اور’’ نیشنل لیبر یونین‘‘کو یہ باور کرانے کہ یہ حقوق کی جنگ نہیں ہے،ڈھونگ رچا کر ہزروں مزدروں کو آگ کی بھٹی میں جھونکاگیا ۔مزدور کی جنگ اپنے آپ سے ہوتی ہے۔اپنے دائرے میں موجود اپنے پیاروں کی بھوک سے ہوتی ہے۔مزدور بھوک پر لفاظی نہیں کرتا ۔وہ یکم مئی پہ سیاست نہیں روٹی کماتا ہے۔یہی فرق ہے ’’لیبر‘‘ او’’ر مزدور‘‘ میں ۔
پاکستان 1947 سے ’’لیبر آرگنائزیشن ‘‘ کا ممبر ہے۔مگر آج تک مزدور کے لیے کوئی قابل قدر اقدامات نظر نہیں آیے،اور نہ’’ لیبر آرگنائزیشن‘‘ ممبران سے پوچھنا گوارا کیا ۔مزدور کے ساتھ ریاستی و معاشرتی ناانصافیاں روز ہی بڑھتی جا رہی ہیں ۔یہاں امراؤں کی ہوس زَر نے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ مزدور کے حقوق کو بھی غصب کیا ہوا ہے۔،جس کی اعلیٰ مثال سانحہ بلدیہ فیکٹری سے بڑھ کر کیا دی جا سکتی ہے۔اس لیے اس طبقے کے درد کو شاعر نے یوں بند کیا ۔
تو قادر مطلق ہے یہ تیرے جہاں میں۔
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔
تمام تر قانون سازی کے باوجودافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زبانی دعووں کے علاوہ عملی طور پر مزدوروں کے حقوق پر کوئی ایک تحسینی کام پیش نہیں کیا گیا ۔بد قسمتی یہ کہ آج غربت نے غریب کو ’’ اکبر بادشاہ کی بلا‘‘ جیسا چاروں اور سے جکڑ اہوا ہے۔مائیں غربت کے ہاتھوں اپنے خون جگر کا گلہ دبا دیتی ہیں ۔باپ بیٹیوں کی بارات کی بائے عصمت فروشی کرنے پر مجبور ہے۔اور کہیں بچے برائے فروخت کے بینرز لگے ہیں ۔کتنے گھر ایسے ہیں جہاں والدین اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کو اس لیے تیار نہیں کہ غربت کا بھر م رکھنا ہے۔عزت کو نیلا مِ عام نہیں کرنا۔مزدور ملکی معیشت میں اپنی ہڈیوں کا سرمہ بنا تا ہے ،مگر امیر معیشت انہیں دو وقت عزت کی روٹی تک نہیں دیتا۔
یہ ہمارے معاشرے کا مزدور ہے۔ایک مزدور اور ہے۔یہ رسول اللہ ﷺ کے حسین زمانے کا مزدور ہے۔اس کے ہاتھوں پر نبی ﷺکے لَب مَس ہوتے ہیں ۔اور شافعی محشر کی زبان سے اس کے لیے کلمہ دعا ورود پذیر ہوتا ہے۔ایک مزدوریہ ہے جسے رحمت عالم دعا دے کر بوسہ دیتے ہیں۔اور ایک مزدور اس معاشرے کا ہے ۔