
مذہب حقوق انسانی یا دین اسلام؟؟؟…… ڈاکٹر ساجد خاکوانی اسلام آباد،پاکستان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لکم دینکم ولی دین
Human Rights Day
(10دسمبر:اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی تحریر)
”انسانیت“کالفظ بطوراصطلاح قرآن مجید،کتب احادیث اور اسلامی تاریخی ترکہ کتب میں کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔یہ خالصتاََ مغربی سیکولرازم کی اصطلاح ہے جسے مذہب کے مقابلے میں پوری دنیاکے اندریورپ سے برآمد کیاجارہاہے۔یورپی سیکولرمفکرین نے ازمنہ وسطی یعنی یورپی نشاۃ ثانیہ (Renascence) کے دوران مذہب کو بالکلیہ رد کردیاتھااورایک ایسے سرمایادارانہ فکرپر مبنی مادرپدرآزادخیال معاشرے کی تاسیس کی تھی جس میں مذہب،مذہبی روایات اور آفاقی فکر و تعلیمات اوروحی الہیہ کی کوئی گنجائش نہ تھی۔”میکاولی“اوراس کے بعد”روسو“کے خدابیزارنظریات سے بدبوکی طرح اٹھنے والی اس تحریک کا نقطہ عروج انقلاب فرانس تھاجب آٹے میں نمک سے بھی کم مذہب کی تشکیک سے قائم ہونے والے تخت وتاج کوبھی دریابردکردیاگیاتھا۔مذہب کوخانہ بدر کرنے کافطری نتیجہ یہ نکلاکہ اخلاقیات سے بھی معاشرہ دستکش ہوگیااور پیش نظر کل امور پیٹ اورپیٹ سے نیچے کی خواہش کے پیمانے پرتولے جانے لگے۔خدااوراسکے رسول اور آسمانی صحائف ذاتی مسئلہ قراردے دئے گئے،جوچاہے،جتناچاہے،جب تک چاہے ان کواپنائے اور جب چاہے تو ترک کردے۔وقت گزرتاگیااورانسانی بستیوں میں آدمیت کالبادہ اوڑھے جانوروں کی چلت پھرت ہونے لگی۔پورپی فکرکے اعلی ترین اذہان نے انسانوں کو جانوروں کے برابرلاکھڑاکرنے کے لیے اپنے فلسفوں کاپورازور لگادیا۔”ایڈم سمتھ“اور”مالتھس“نے کہاکہ انسان معاشی جانورہے،”فرائڈ“نے کہاکہ انسان جنسی جانور ہے،”برٹرنڈرسل“نے کہاکہ انسان معاشرتی جانورہے اور ”ڈارون“ نے تو حدہی کردی کہ انسان کو جانور کی ہی نسل قراردے دیا۔اخلاق سے عاری اور درہم و دینارجیسی ریت کی دیوارپر قائم ھل من مزید کے مسافراس سماجی نظم کو ایک ایسے استبدادی وطاغوتی سیاسی نظام نے مصنوعی طورپر زندہ رکھاجس کی ریاست میں سورج غروب ہی نہیں ہوتاتھا۔انیسویں صدی کے آخرمیں روحانیات کے وجود سے خالی ان معاشرتی فصیلوں میں جب دراڑیں پڑنے لگیں اور مغربی استعمارکے سفینے سے چوہے چھلانگیں لگانے لگے تب مغربی مفکرین کویہ فکردامن گیرہوئی کہ اخلاقیات کا پیوندلگائے بغیر انسانی معاشروں کاارتقاء ممکن ہی نہیں۔چنانچہ انہوں نے مذہب میں نقب لگائی اورانبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے سرقہ کامرتکب ہوکر ”انسانیت“کے عنوان سے اس نئے مذہب کی تلقین و تبلیغ کاآغازکیا۔لیکن اب تک یورپی معاشرہ مادیت پرستی کے باعث اسفل سافلین میں اتناگرچکاتھاکہ کرہ ارض کو دو بڑی بڑی جنگوں کے الاؤ سے یہ نومولود مذہب”انسانیت“بھی نہ بچاسکا۔تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب گوروں کی بستیوں میں اس نام نہاد ”انسانیت“اور ”انسانی حقوق“کو خدابناکر پوجاجاتاہے۔لیکن مغرب کی حدود کے باہرجوانسان بستے ہیں ان پر”امن عالم“کے نام پر دریاؤں میں پانی کی بجائے انسانوں کاخون بہانے سے یہ مذہب”انسانیت“ انہیں قطعاََنہیں روکتا۔کیونکہ اس مذہب کے مطابق صرف سفیدرنگ والے ہی ”انسان“ہیں اور ”انسانی حقوق“پرصرف سفیدرنگت والوں کا اجارادارانہ حق ملکیت ہے۔
روبس پیئر(Robespierre)انقلاب فرانس کاسرکردہ اورصف اول کاراہنما وہ پہلاشخص تھا جس نے 1791ء میں عالمی مساوات انسانیت(universal manhood suffrage) کانعرہ بلندکیاتھا۔اس نعرہ کے مطابق انتخابات میں سب رائے دہندگان برابرہیں،خواہ ان کی تعلیم،سماجی مرتبہ،عمراورتجربے،ان کی فہم و فراست اور ان کے سیاسی و معاشرتی بصیرت اوردوراندیشی و معاملہ فہمی کے حفظ مراتب میں بعدالشرقین ہی کیوں نہ ہو۔”انسانیت“کو مذہب کے مقابلے میں لانے والا دوسرا اہم کردار ”اینتینو فرانسیسی مومورو(Antoine-François Momoro)تھا۔اس نے ”تہذیب عقل“(Cult of Reason)کی داغ بیل ڈالی۔یہ تہذیب خالصتاََ مذہب کے قائم مقام کے طورپرلائی گئی اور اس نوآمدہ تہذیب کی بنیادایمانیات و عقائدکی بجائے مشاہدہ عقل اورآزادی افکارپررکھی گئی۔اس مقصد کے لیے انقلاب فرانس کے فوراََبعد10نومبر1793کو ”مومورو“کی قیادت میں پیرس کے اندر ایک بہت بڑے میلے کاانعقاد کیاگیاجس کے لیے ایک مذہبی عبادت خانے کاانتخاب عمل میں آیا،اس میلے میں اس مذہبی معبد کے اختتام کااعلان کرکے”آزادی عقل“کواس کابطورمتبال پیش کیاگیا،اوراس معبدکے اونچے مینارکو ”مینارعقل“کانام دے کراس عمارت کی مذہبی حیثیت منہدم کردی گئی۔معبدمیں موجود مقدسات مذہب کواکھاڑ پھینکاگیااور سفیدلباس میں ملبوس لڑکیوں نے عقل نامی دیوی کے تراشے ہوئے مجسمے کے گرداگردرقص کیااور ”سچائی“نام کی ایک بہت بڑی شمع بھی روشن کی گئی۔
مذہب کے خلاف ”انسانیت“کوبطورمذہب متعارف کرانے کا فیصلہ کن اقدام 1850ء میں فرانس کے ماہرعمرانیات”اگست کانٹ(Auguste Comte)“نے کیا۔اس نے مثبیت(Positivism)کاتصورپیش کیااوراسے ”مذہب انسانیت“کانام دیاکیونکہ اس کے نزدیک مروجہ مذاہب منفیات کامجموعہ ہیں۔فرانس کے بعد لندن بھی اس متبادل مذہب میں داخل ہوا اور پیرس میں تواب تک انفرادی کوششیں کی جارہی تھیں جبکہ برطانیہ میں 1853ء میں پہلی بارانجمن مذہب انسانیت(Humanistic Religious Association)کے نام سے اجتماعی کاوش کاآغازہوا۔اس انجمن میں مروخواتین جمع ہوئے اورانہوں نے جمہوریت کے طریقے پرعلوم و فنون اورسائنس و فلسفہ کے ارتقاء پر باہمی عہد کیاجب کہ اس سے پہلے اس طرح کی انجمنوں میں مذہب کوایک بالادست مقام حاصل ہوتاتھا۔خلاف مذہب اس قافلے کا اگلا اہم مسافرملک جرمنی تھاجس میں 1876ء میں ”فلکس ایڈلر((Felix Adler“نامی سماجی اخلاقیات کے ایک معلم نے ”تحریک برائے اخلاقی ثقافت(Ethical Culture movement)“کااحیاء کیا کیااوراس کا بیانیہ تھا کہ مذاہب اتنے زیادہ قدیم ہو گئے ہیں کہ ان کے اعتقادات وقت اور سائنس کامقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے اب اس نام کے تحت ایک نئے عمرانی معاہدے کے حامل مذہب کی ضرورت ہے۔اس زمانے میں امریکہ چونکہ ابھی یورپ سے کافی پیچھے تھا اورخاص طورپر داخلی خانہ جنگی کاشکارتھااس لیے وہاں یہ دشمن مذہب تحریک قدرے دیرسے پہنچی۔1929ء میں نیویارک کے اندر”چارلس پوٹر“نے ”انسانیت،ایک نیامذہب“کے نام سے کام شروع کیا،مشہورماہرتعلیم جان ڈیوی“سمیت وقت کے مشہورفلسفی بھی اس کی تحریک میں شامل ہوئے اور”پوٹر“اوراسکی بیوی نے مل کر اس نئے مذہب کے تحت خواتین کے حقوق،ضبط ولادت اورطلاق کے لیے تحریک چلائی اورقانون سازی بھی کی۔
بنیادی طورپردین اسلام کے بہت سارے دیگردروس عقائدواخلاق اوردروس تعلقات و معاملات وغیرہ کی طرح درس انسانیت بھی ان میں سے ایک ہے۔لیکن اسلام کو انسانیت کادین کہنادراصل اسلام کی اہمیت کم کرناہے کیونکہ یہ وحی کے ذریعے اللہ تعالی کانازل کردہ خدائی و آفاقی دین ہے اورانسانیت اس کاایک اہم پہلو ضرورہے لیکن اسلام کی منزل حقیقی انسانیت سے کہیں آگے کامقام ہے۔اسلام کو زبردستی انسانیت کالباس پہنانااوراسے حقوق انسانی کے پیرہن میں گرفتارکردینا یہ وہی رویہ ہے جیسے بیسویں صدی کی پچاس اورساٹھ کی دہائی میں اس وقت کے بڑے بڑے مفکرین اعظم ایڑہی چوٹی کازورلگاکریہ ثابت کررہے تھے کہ سوشلزم دراصل اسلام ہی کی ایک جدیدشکل ہے اور مدینہ منورہ تواصل میں سوشلسٹ ریاست ہی تھی اور اس وقت کے سب مسلمان کامریڈ تھے اور اسلام کے معاشی نظام کی عملی تصویر سوشلزم ہی ہے وغیرہ۔لیکن تاریخ گواہ ہے وہی سوشلزم افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں اسلام کے خلاف ہی صف آراہوکرپاش پاش ہوا۔پس مذاہب سے لڑنے والے مذاہب کے ہی لائے ہوئے نظام اخلاق کو اپناکرپھر مذہب کو ہی اپنے تیروں کانشانہ بناناچاہیں گے تو ہمیشہ کی طرح منہ کی کھائیں گے۔سوشلزم اورکیمونزم کی طرح سیکولرازم بھی اب اپنے دفاع کے لیے انسانیت کوآڑبنانے کی سعی لاحاصل کرے تواسے صرف ناکامی و نامراسی ہی میسرآرہی ہے۔کل قبیلہ بنی نوع آدم کی بقا وفلاح کی ضامن انبیاء علیھم السلام کی لائی ہوئی وہی تعلیمات ہیں جوآفاقی وآسمانی صحیفوں میں درج ہیں۔جس طرح یہ کتب سماویہ ابدی وآفاقی ہیں اسی طرح ان کی اصطلاحات بھی ادبی و آفاقی ہیں،ان اصطلاحات کاسرقہ،یاان کی پیوندکاری یاان کااغواکسی صورت بھی ناقابل برداشت ہے۔دین اسلام میں انسانیت،انسانی حقوق،انسانی ہمدردی،مساوات انسانی،بین المذاہب ہم آہنگی اورمذہبی رواداری جیسے بدنام زمانہ نعروں کی بجائے، ایمان واحسان،اہل التقوی،خشیت الہی،خوف آخرت اور عشق رسولﷺجیسی ایمان افروز اصطلاحات رائج رہی ہیں،رائج ہیں اوررائج رہیں گی۔یہی ہماری پہچان ہیں،یہی ہماری تہذیب و ثقافت ہیں اور انہیں اصطلاحات کے لباس اورپیراہن کے ساتھ ہم اس دنیامیں پہچانے جارہے ہیں اوراللہ تعالی نے چاہا تو یوم آخرت بھی انہیں اعزازات کے ساتھ ہمیں بلایاجائے گا،ان شااللہ تعالی۔