”مختصر تاریخ زبان و ادب کھوار“ایک شاندار تصنیف ۔ حافظ نصیر اللہ منصور چترالی
پروفیسر مولانا نقیب اللہ رازی صاحب کا قلم روان دوان ہے وہ اب تک مختلف اہم موضوعات پرکئی کتابیں اور مقالات لکھ چکے ہیں ان کی کتابیں پورے پاکستان میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ان کی شخصیت علوم دینی کے ساتھ علوم عصری سے بھی آراستہ ہے۔ وہ ایک عالم دین محقق ہیں اور کئی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہ فعال و متحرک لکھاری ہیں۔میرے انتہائی مشفق اور قابل فخر دوست ہیں ان کی نابغہ روزگار تصنیف”مختصر تاریخ زبان و ادب کھوار“انتہائی شدتِ انتظار کے بعد آج میرے ہاتھ میں ہے۔
مولانا صاحب کی محنت اور تبحر علمی کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن اس شاندار کتاب کو کمپائل کرکے چترال اور اہل چترال پر احسان عظیم کیا ہے۔کھوار ہماری مادری زبان ہے سب کا جواب ”ہاں“ میں ہوگا۔اس زبان کے ذریعے ہم اپنے مافی الضمیر کو بیان کرتے ہیں اور یہ ہی ہماری ہر قسم کی ترجمانی اور راہنمائی کرتی ہے بلکہ ہماری پہچان ہے۔لیکن ہم نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ زبان کتنی فصاحتوں اور بلاغتوں کا مجموعہ ہے۔ مولانا رازیؔ صاحب نے وہ کام کر دکھایا جو خطے میں بسنے والے ہر اہل علم کے عملی کاوشوں کا تقاضا تھا کھوار زبان وادب میں اس طرح بہترین کتاب کا ہمیں اور ہماری نسلوں کو صدیوں انتظار رہتا۔کتاب کا انداز و اسلوب سادہ او ر عام فہم ہونے کی وجہ سے قاری کو اپنی طرف کھینچ کر لاتی ہے۔
ایک مرتبہ پڑھنا شروع کرلے تو سمیٹنے یا وقفہ لینے کو بھی دل نہیں چاہتا۔پیش نظر کتاب اپنے ناظرین کے دل میں انھیں تمام احساسات کو ابھارتی ہے اوران تمام حقائق کو دل میں اتارتی چلی جاتی ہے لیکن کتاب کا اسلوب یہ نہیں ہے کہ صرف جذبات ابھاردے اس میں اپنی دعوی کے ثبوت میں ٹھوس علمی حقائق سے کام لیا گیا ہے۔ تاریخی واقعات اور اس عصر کے ماحول و متعلقات ایسے منصفانہ طریقہ پر پیش کئے گئے ہیں جس میں مصنف کی روشن دماغی صاف جھلکتی ہے پھر فیصلہ واقعیت و صداقت اور قلب و ضمیر کی بصیرت کے سپرد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کتاب کے مباحث کی تمام کڑیاں مربوط اور ایک دوسرے سے پیوست نظر آتی ہیں اور کہیں بھی کسی مسئلہ میں مقدمات سے نتائچ اخذ کرنے میں غیر واقفیت یا تکلف کا ثبوت نہیں ملتا یہ اس کتاب کی اولین خصوصیت ہے۔
کتاب کے ذیل میں پہلا باب کھو اور کھوار کی بحث انتہائی دلچسپ ہے پندرہ ابواب پر منقسم یہ شاندار تصنیف چار سو تہتر صفحات پر مشتمل ہے جس میں کھواور کھوار،کے باب کے ضمن میں چترال کا محل وقوع،چترال کا اصل نام،کھوقوم اور کھوار زبان پر مفصل گفتگو کی ہے۔کھوار کا صوتی نظام،کھوار ادب کے لسانی اسلوب،کھوار پر اثر انداز ہونے والے عوامل،کھوار رسم الخط اور املا،کھوار ادب کا ارتقائی دور، اس باب میں فاضل مصنف نے کھوار پر کئے گئے ابتدائی پروگراموں کا ذکر کیا ہے۔کھوار زبان کی ادبی صلاحتیں اور خصوصیات،کھوار زبان و ادب پر تحقیقی کام،کھوار زبان و ادب پر اردو میں کئے گئے کا موں جائزہ،کھوار اصناف شاعری،کھوار شعرائے قدیم،کھوار شاعری کا ارتقاء،کھوار شاعری میں خواتین کا حصہ،کھوار شاعری اور کلاسیکی موسیقی، کھوار اصناف نثر کا ارتقائی پس منظر،کھوار کے حوالے سے ان تمام مباحث پر سیر حاصل گفتگو کر نا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے ایسے اہم کاموں کا طرہ امتیازدور حاضر میں مولانا رازی، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی،پروفیسر اسرار الدین اور شہزادہ تنویر الملک تنویر ؔجیسے تبحر علم شخصیات سے ہی توقع کیا جا سکتی ہے۔
ان تینوں حضرات نے ہیت تاریخ چترال اور کھوار زبان و ادب کو تاریخ عالم کا حصہ بنا دیا ہے۔ ان حضرات کی کوششوں سے کھوار کے حوالے سے ایسے مواد سامنے آئے جنہیں معاشرے اور کھو قوم کو ضرورت تھی ورنہ ہم آج بھی اپنی ضرورت کے مطابق انگریزوں کی تختیوں کے لائبریریوں میں متلاشی تھے۔ رازیؔ صاحب کی مرہون منت ہم اپنی زبان کی صوتی تغیرات اور حرکاتی تغیرات اور صوتی تخفیفات پر گفتگو کر سکتے ہیں ویسے تو رازیؔ صاحب ان چنیدہ صاحبان دانش میں سے ہیں جس کا مطالعہ متنوع او روسیع ہے وسعت مطالعہ اور تفکر سے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے مولانا رازیؔ ایک وسیع النظر عالم دین ہیں عربی دانی میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔تاریخ کا مطالعہ ان کا معمول رہاہے مطالعہ تاریخ او رزبان و ادب کے علاوہ مولانا نے مزید جدید موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے جن میں ”عرف کی شرعی حیثیت“ بھی مولانا کی اہم خدمات میں سے ہے۔
محبت رسول سے لبریز مولانا کی صدارتی انعام یافتہ تصنیف”آقائے نامدار“ہر قاری کے دل ودماغ میں عشق رسول بٹھا دیتی ہے۔بہر حال اس عنوان پر ان کی محنت اور دلائل کا جمع کرنا ان کے ذوق مطالعہ کی عکاسی کرتا ہے اس قسم کے علوم کو اکھٹا کر نا ہر دو ر میں مقتدر اور اہل علم اور جید علماء کرام کا وطیرہ رہا ہے یہ کتاب اہل علم اور طلباء کرام کے لئے ایک نادر تخفہ ہے مولانا رازیؔ صاحب نے عظیم کام سر انجام دیا ہے۔ چترال کی تاریخی پس منظر میں مرزا غفران جیسے عظیم لوگوں کی صف میں ان کو یاد رکھا جائے گا،میں نے اس کتاب کا اجمالی مطالعہ کیا ہے ۔
مولانا نے چترال کی تاریخ اور کھوار زبان و ادب کے اہم پہلوں کو بہت خوبی سے اس کتاب میں جمع فرمایا ہے اور ہر ہر اعتبار سے فاضلانہ مباحث ترتیب دی ہے اس موضوع پر کام کرنے کے لئے متعلقہ عملی صورت حال کو بھی احسن طریقے سے پیش نظر رکھا ہے۔فاضل مصنف نے انتہائی بالغ نظری سے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور تحقیقی امور پر انتہائی دقیق نظری سے بحث کی ہے مجھے امید ہے کہ آنے والی نسلوں، تحقیقی اداروں، اسکالروں اور مقالہ نگاروں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوگی اس کتاب سے تحقیق کے نئے دروازے کھلیں گے۔ ان کی شب وروز کی مصروفیات و جدوجہد کو دیکھتے ہوئے ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اسی مستعدی کے ساتھ مذکورہ تمام کاموں کو جاری رکھیں گے میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ان سے مزید دینی،اصلاحی، ادبی اور تاریخی کام لے اور ان کے فیوض و برکات سے میرے جیسے ہزاروں مستفید ہوں۔