محفوظ عورت – مضبوط خاندان – مستحکم معاشرہ – از: کلثوم رضا
محفوظ عورت – مضبوط خاندان – مستحکم معاشرہ – از: کلثوم رضا
محفوظ عورت۔۔ مضبوط خاندان ۔۔۔مستحکم معاشرہ۔۔۔ یہ ایسا موضوع ہے جو تین سالوں سے جماعت اسلامی پاکستان حلقہ خواتین کی طرف سے لکھاری بہنوں کو دیا جا رہا ہے۔۔
کہ اس پر لکھیں اور خود باقاعدہ ایک مہم کے طور پر یہ بات گھر گھر پہنچانے کا زمہ لیا کہ خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے کے حقوق و فرائض ادا کریں گے تو معاشرے کا استحکام ممکن ہو گا۔ کیونکہ موجودہ دور میں یہ ادارہ “خاندان” طوفانوں کی زد میں ہے جسے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ خواتین خود کو محفوظ کرنے، اپنے خاندان کو مضبوط رکھنے اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کے لیے کیا کیا کر سکتی ہیں اور انہیں کس قسم کے تعاون کی ضرورت ہے۔ جس پر ہم تھوڑی سی روشنی ڈالیں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حقوق نسواں اور عورت کی آزادی کے مطالبات بڑھتے بڑھتے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے بغاوت ،گھر کی تحقیر اور آزادانہ تعلقات کے مطالبات تک جا پہنچے ہیں۔۔۔۔۔ خود کمانے اور خود کفیل ہونے کے گھمنڈ، معاشرتی بے راہ روی نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔۔۔
تقریباً دس پندرہ سال پہلے ہی امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں طلاق کی شرح نا ہونے کے برابر تھی۔ لیکن بد قسمتی سے یہ رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آئے دن طلاق اور خلع کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں فیملی کورٹ ایکٹ 2015 میں منظور ہوا تھا جس کے سیکشن 10 دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کر دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ عمل اور بھی بڑھ گیا۔
دوسری طرف اس ناپسندیدہ عمل کو مذید آسان بنانے میں میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج کل کے ڈراموں میں طلاق و خلع کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے بجائے طلاق دینے، دلوانے پر زیادہ فوکس ہوتا ہے۔ گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے راہنمائی نہیں ملتی۔ عدم اعتماد، بے صبری اور جلد بازی یہ سب بھی نئی نسل کو میڈیا ہی سے ملے ہیں۔۔ بچے بڑوں کی باتوں کو دقیانوسی قرار دے کر خود سے فیصلہ کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس سب سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عورتیں چوکنا ہو جائیں ۔۔سیرت صحابیات سے استفادہ حاصل کر لیں اور بچوں کی تربیت اس رو پہ کریں جس سے وہ محفوظ ،مضبوط اور معاشرے کے لیے کار آمد ثابت ہو سکیں۔۔۔اور مردوں کو اپنا قوام تسلیم کرکے باہمی محبت سے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دور ہی ایسا آیا ہے کہ خواتین کا کام کرنا بھی لازم ٹھہرا ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں سیرت صحابیات سے بے شمار مثالیں ہمیں ملیں گی جس میں خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ سب سے پہلے نبی آخر الزماں پر ایمان لانے والی حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا اس جاہلیت کے دور اور زوال پذیر مردوں کے معاشرے میں “طاہرہ” کا لقب بھی پایا اور تجارت ایسے کرتیں کہ ان کا تجارتی قافلہ ایک طرف شام کو جاتا تو دوسری طرف یمن کو۔ اور ان کی چشم بصیرت کا کیا ہی کہنا کہ انہوں نے اپنی رائے کی آزادی کا استعمال بڑے سلیقے سے کر کے نبی آخر الزماں کو نکاح کا پیغام خود بھیجا۔ اور تن من دھن سے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی آبیاری کی اور ایمان و وفا کی لازوال داستان رقم کی۔
اس کے بعد کم سن علم و دانش کا چراغ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا جن سے امت کو ایک تہائی دین ملا۔۔ بڑے بڑے صحابہ اکرام ان کے در پر حاضر ہو کر علم و فضل حاصل کر لیتے تھے۔ اور ان فقیہہ کی پاک دامنی کی گواہی الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں دی۔
پھر لخت جگر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم حضرت فاطمتہ الزہرا کو دیکھیں چھوٹی سی عمر میں کیسے اپنے والد گرامی کا ساتھ دیتی ہیں۔ علی رض کے ساتھ صابر و شاکر بیوی کا کردار نبھاتی ہیں اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس انداز سے کرتی ہیں کہ علامہ اقبال رحمتہ الله علیہ ان کی شان میں فرماتے ہیں کہ “در آغوش شبیرے بگیری ” یعنی بی بی فاطمہ کی طرح بن جانا۔ اور اس زمانے کی نگاہوں سے چھپ جانا تاکہ تمہاری آغوش میں بھی ایک حسین پیدا ہو جائے۔
اور پھر صبرو شجاعت کی مثال بی بی زینب کو لے سکتے ہیں جن کے کوفے کے بازاروں اور یزید کے درباروں میں ولولہ انگیز خطبات نے امام حسین کی شہادت کو امر کر دیا۔ اور ام عمارہ کے بارے میں ایک جنگ کے دوران کا قصہ تو نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے خود بیان فرمایا کہ آج تو جدھر دیکھا ام عمارہ ہی نظر آئیں سبحان الله ۔۔۔کیسی کیسی جرات کی علمبردار گزری ہیں ۔۔۔ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر عورت اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔
اگر عورتیں گھر میں بےکار بیٹھیں گی تو آج ضروریات اور خواہشات کی فہرستیں اس قدر طویل ہو گئی ہیں جس کی تکمیل مرد کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔۔۔دونوں اپنے حقوق و فرائض کی پاسداری کرتے ہوئے گھر اور باہر کے کام کرکے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ان کا ایک ایک کردار ایک دوسرے کے لیے اہم ہے ۔عورت کو اس کے محرم مردوں کی طرف سے تحفظ کا احساس ملنا چاہیئے ۔تا کہ وہ مضبوط خاندان اور مستحکم معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال سکے ۔ ایک غیر مرد کا عورت کے حسن و جمال یا دیگر امور کی تعریف میں پل باندھ کر داستان بھی لکھ دینا اس ایک جملے کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتے جو اس کا محرم مرد کہے کہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے محرم مردوں کے درمیاں خود کو محفوظ سمجھنے والی عورت ہی مضبوط خاندان بنا کر ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل کر سکتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ خود کو اپنے محرم مردوں کے درمیاں بھی غیر محفوظ جانے۔۔۔ اسے لگے کہ اس کا باپ بیٹوں جیسا پیار اسے نہیں کرتا۔۔۔ اس کا بھائی حق میراث مانگنے پر اس سے قطع تعلق ہو سکتا ہے۔۔۔ اس کا شوہر آج نہیں تو کل اسے طلاق دے سکتا ہے یا دوسری شادی کر سکتا ہے۔۔۔ یا اس کا بیٹا اس کی کسی رائے کو اہمیت نہیں دیتا۔۔۔ تو ایسی دبی ،ڈری اور سہمی عورت اپنے خاندان کو کیسے مضبوط بنائے گی معاشرے کا استحکام تو درکنار۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے حسن و جمال پر غزلیں اور افسانے تو لکھے جاتے ہیں مگر جو حق انہیں اسلام نے دیا ہے اس پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ اور عورتیں بھی تاریک راستوں سے مرد کو مسخر کرنے کا گر تو جانتی ہیں لیکن روز روشن کی طرح عیاں اپنا حقیقی حق، خصوصاً حق میراث تک کی بات کرنے پر شرم محسوس کرتی ہیں۔۔۔دونوں کو آدھا نہیں پورا سوچنا ہو گا کہ اپنے خاندان کو مضبوط بنا کر اپنی نسلوں کو باوقار بنانے کے لیے اپنی سوچوں کو مثبت بنائیں اور باہمی محبت سے مستحکم معاشرے کے لیے کمر کس لیں۔