محبت، روح اور بنکاک کا سفر۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی
محبت، روح اور بنکاک کا سفر۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی
پورٹو کی صبح ہمیشہ زندگی سے بھرپور ہوتی ہے، مگر اس دن کچھ الگ تھا۔ دریائے ڈوورو کی پرسکون لہریں اور سرد ہوا میرے دل میں ایک عجیب سی بے چینی پیدا کر رہی تھیں۔ میرا دل کسی نامعلوم خواہش کے پیچھے کھنچ رہا تھا، جیسے کوئی ان دیکھے لمحے یا ان جانی محبت مجھے بلا رہی ہو۔
سامان تیار تھا: ایک چھوٹا سا بیگ، ایک کتاب، اور دل میں ہزاروں سوالات۔ میں نے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے باہر جھانکا اور خود سے کہا، “شاکرہ، آج کا دن تمہارا ہے، یہ سفر تمہیں تمہاری ذات کے ان پہلوؤں سے روشناس کرائے گا جنہیں تم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔”
ایئرپورٹ پر لوگوں کا ہجوم، ان کی منزلوں کی مختلف کہانیاں اور چہروں کی چمک نے میری خوشی کو بڑھا دیا۔ جب جہاز نے اڑان بھری اور پورٹو کی پہاڑیاں چھوٹنے لگیں، میرے دل میں ایک عجیب سا سکون تھا۔ نیلے آسمان کے نیچے، میں نے محسوس کیا کہ یہ سفر میرے اندر کی دنیا کو کھوجنے کا آغاز ہے۔
بنکاک، ایک شہر جو اپنے اندر محبت، ہنگام اور کہانیوں کا جہان سموئے ہوئے تھا، میری روح کو جیسے اپنی بانہوں میں لے رہا تھا۔ پہلا دن دریائے چاؤ پرایا کے کنارے گزرا، جہاں پانی کی لہریں اور روشنیوں کا عکس میرے دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ مگر اصل حیرت اگلے دن چاتوچک بازار میں میری منتظر تھی۔
بازار کی ہلچل میں، جہاں ہر شے اپنی کہانی سناتی تھی، میری ملاقات آندریا سے ہوئی۔ وہ ایک اٹالین مرد تھا، جس کی گہری آنکھیں اور مردانہ وجاہت نے میری روح کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس نے مجھ سے مسکرا کر کہا، “یہ شال آپ پر بہت خوبصورت لگے گی۔”
ہم نے ایک دوسرے سے بات چیت شروع کی، اور یوں محسوس ہوا کہ ہم دو مسافر نہیں، بلکہ دو پرانی روحیں ہیں جو دوبارہ مل رہی ہیں۔ اس رات اس نے مجھے شہر کی گلیوں میں چہل قدمی کی دعوت دی، اور یوں ہماری کہانی کا آغاز ہوا۔
رات کے سناٹے میں، ہوٹل کے کمرے کی خاموشی ہماری شدتوں کی گواہ بنی۔ باہر شہر کی روشنیوں کی جھلک پردوں سے چھن رہی تھی، مگر ہمارے درمیان وقت ٹھہر چکا تھا۔ آندریا نے میرے قریب آ کر میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اس کے لمس نے میرے دل میں ایک آگ سی بھر دی، ایک ایسی خواہش جس میں کوئی قید نہیں تھی۔
ہم نے ایک دوسرے کو اس شدت سے محسوس کیا کہ دنیا کا ہر اصول، ہر حد ختم ہو گئی۔ اس رات ہم دونوں صرف دو جسم نہیں، بلکہ دو روحیں تھیں جو ایک دوسرے میں جذب ہو رہی تھیں۔ وہ لمحہ، وہ رات، میری زندگی کا وہ باب بن گیا جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
ہم نے آیوتھایا کا سفر کیا، جہاں کے قدیم معابد اور خاموشی نے وقت کی بے ثباتی کا احساس دلایا۔ آندریا نے کہا، “زندگی لمحوں کی کہانی ہے، شاکرہ۔ ان لمحوں کو جیو جیسے یہ کبھی ختم نہ ہوں۔”
واپسی کا وقت آیا، تو میرے دل میں ایک عجیب سی گہرائی تھی۔ آندریا نے الوداعی لمحے میں میرے کان میں سرگوشی کی، “شاکرہ، تم میری زندگی کا سب سے خوبصورت باب ہو۔” میں نے آنکھوں میں آنسو لیے اس سے رخصت لی، مگر میرے دل میں وہ ہمیشہ کے لیے زندہ تھا۔
جب میں جہاز میں بیٹھی، تو ایک عجیب سی مسکان میرے لبوں پر تھی۔ میرے پیٹ میں ایک نیا احساس جنم لے رہا تھا، آندریا کے لمس سے پھوٹا ہوا ایک بیج، جو کسی دن میرے اندر ایک خوبصورت پھول کی صورت لے گا۔ یہ بیج صرف محبت کا نشان نہیں تھا، بلکہ ایک نئی زندگی کی امید تھی۔
پورٹو واپس پہنچ کر، میں نے آندریا اور بنکاک کی یادوں کو اپنے دل میں سنبھال لیا۔ وہ شہر اور وہ لمحے ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے، اور میرے گھر میں وہ بیج کبھی نہ کبھی ایک خوبصورت کہانی کا آغاز کرے گا۔
“محبت ایک سفر ہے، جو ہمیں مکمل کر دیتی ہے، چاہے راستے کہیں بھی ختم ہوں۔”