Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مثالی معاشرے کا خواب  ۔ از : کلثوم رضا 

Posted on
شیئر کریں:

مثالی معاشرے کا خواب  ۔ از : کلثوم رضا

 

 

ایک مثالی معاشرے کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے۔۔۔اور یہ چاہتا ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہتا ہے وہاں امن ہو، سکون ہو، روا داری ہو، خوشحالی ہو ۔لیکن وہ کام ایسے کرتا ہے جو معاشرے کی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ اور وہ ہمیشہ اس کا ذمہ دار دوسروں کو ہی ٹھہراتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اپنے گریباں میں جھانکا جائے تو جو تکبر، حسد، رقابت، اور تعصب اس نے اپنے سینے میں پال رکھا ہے اس کا گلا گھونٹ دے تو انسان کا یہ *مثالی معاشرے کا خواب* شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ اب ان سب چیزوں سے بچنا اتنا آسان نہیں تو ان سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ قرآن سے راہنمائی لے سکتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر اس برائی کی نشان دہی کی ہے جو معاشرتی بگاڑ کا سبب ہیں۔۔۔

سورہ الحجرات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دیتا ہے جو اہل ایمان کے شایان شان ہیں۔

 

1۔اس سورت کے ابتدائی آیتوں میں یہ ادب سکھایا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔
یعنی جو احکام اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ملے ہیں ان سے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کی کوشش نہ کریں ۔
2۔پھر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا اور اس پر کوئی کاروائی کر گزرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کاروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینا چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔

 

3۔اس کے بعد رب العزت نے اس سورت میں اپنے بندوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کر لینا چاہیے۔

 

4۔پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید فرماتے ہیں جو ان کی اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ یعنی کہ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، ایک دوسرے پر طعن کرنا، ایک دوسرے کے برے برے نام رکھنا، بدگمانیاں کرنا، دوسروں کے حالات کی کھوج کرید کرنا ،لوگوں کی پیٹھ پیچھے انکی برائی کرنا، یہ سب وہ افعال ہیں جو خود تو گناہ ہیں ہی، معاشرے کی بگاڑ کا اہم سبب بھی یہی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے اس سورت میں ان کا ذکر فرما کر انھیں حرام قرار دیا ہے۔

 

5۔اس کے بعد اس سورت مبارکہ میں ان قومی اور نسلی امتیازات پر بھی ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالمگیر فساد کے موجب بنتے ہیں۔ قوموں، قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور، اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھنا ، اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا، ان اہم اسباب میں سے ہیں جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ ایک مختصر سی آیت میں
انا خلقنکم من ذکر و انثی و جعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا،ان اکرمکم عند اللہ اتقکم ،

کہہ کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں۔اور قوموں اور قبیلوں میں تقسیمِ ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے، اور انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اس کی اخلاقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں۔

6۔اور آخر میں یہ بتایا گیا ہےکہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا، عملاً فرمانبردار بن کر رہنا ،اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔

حقیقی مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کریں، رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسلام قبول کر کے انھوں نے کوئی احسان کیا ہے، تو دنیا میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہو سکتا ہے ،معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اللہ کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پا سکتے۔
آج اس سورت کو پڑھتے ہوئے مفہوم سمجھنے کی کوشش کی تو سوچا کہ کیا ہم اس طرز تخاطب پر پورا اترتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سورت کے آغاز میں فرمایا ہے کہ
“یا ایھا الذین آمنوا”
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو۔۔”
اگر لائے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہمارے لیے یہ ہیں جو سور الحجرات میں ارشاد ہیں۔۔۔ دوسری صورت میں ان کے ہاں مومن قرار پانا محض ایک خواب ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں معاشرے کی بگاڑ کا سبب بننے والی ان برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(سورت کا خلاصہ تفہیم القرآن جلد پنجم سے ماخوذ ہے۔)

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
98302