متوازی فلسفہ………….شاہ عالم علیمی
اپ سقراط کی اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ عورت کے منہ میں تیس دانت ہوتے ہیں اور نہ افلاطون کی اس بات سے کہ زائد بچوں کو تلف کردیا جائے۔ برٹرینڈ رسل نے سقراط کو کیا خوب مشورہ دیا ہے، اگرچہ بہت بعد میں، کہ اگر سقراط اپنی ہی اہلیہ کے دانت گنے ہوتے تو ان کو پتا لگ جاتا کہ عورت کے منہ میں بھی بتیس دانت ہی ہوتے ہیں اور یہ تاریخی غلطی نہ ہوتی ___ خود برٹرینڈ رسل کی اس بات سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ دنیا میں ایک ہی گلوبل حکومت ہو ایک ہی نظام ایک ہی قانون ہو۔ ایسا ہوا تو دنیا بہت بد مزہ اور عجیب و غریب ہوجائے گی۔ یوں سمجھے کہ دنیا ایک بہت بڑا جیل بن جائے گی اور سارے لوگ اس میں قیدی۔
ان لوگوں اور ان باتوں کو چھوڑئیے۔ یہ لوگ عظیم ہیں اور یہ باتیں بہت پیچیدہ۔ میں کہاں یہ کہاں۔ نہ میں ان لوگوں کی سوچ کو پا سکتا ہوں اور نہ ہی ان کی برابری کا سوچ سکتا ہوں۔
تاہم اج میں جس سوچ کے بارے میں سوچتا ہوں وہ بھی کسی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ دنیا میں ہر قوم ہر نسل، انسانوں کا ہر گروہ، ہر قبیلہ کسی نہ کسی فلسفے کے تحت زندگی گزارتا رہا ہے۔ میرے لیے جہاں آسٹریلیا کے ادی قبیلے Aboriginal people اور براعظم امریکہ کے عظیم جنگل ایمازونAmazon میں رہنے والے قبائل میں اتھاہ شوق تحقیق ہے وہی ہندوکش قراقرام اور ہمالیہ کے عظیم کوہساروں میں رہنے والے انسانوں میں بھی دلچسپی ہے۔ لوگ شوق کے مارے تھریلر فلم دیکھتے ہوں گے لیکن میں ان ‘جنگلی’ انسانوں کو دیکھتا ہوں وہی ان کی جائے روئیدگی میں دلچسپی میرے لیے کسی سے کم نہیں۔
کبھی کبھی تو میں عظیم ایمازون کو خود اس کے باشندوں کی طرح مہا دیو مان لیتا ہوں یا ایک ایسی ماں جس نے ہر بچے کو اپنے دامن میں پال کر رکھا ہو۔ اور بچے بھی اس سے بے انتہا الفت رکھتے ہوں۔ یہ بات الگ ہے کہ اج نام نہاد مہذب انسان کے ہاتھوں اس ماں اور اس کے بچوں کو خطرے کا سامنا ہے۔
دوسری طرف میانمار سے لے کر ازربئیجان تک پھیلے عظیم پہاڑوں میں رہنے والے انسانوں کی زندگی بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ عظیم پہاڑوں کے دامن میں پیدا ہوکر وہی پل بڑھ کر زندگی گزارنا عام انسانی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔ زرتشت اور گوتم بدھ نے اپنے اپنے مذاہب کی بنیاد یہی ڈالا۔ ان کوہساروں میں ان کے فلسفے کی نشانیاں اگرچہ ہر جگہ ہر وادی میں کسی نہ کسی شکل میں اج بھی موجود ضرور ہیں تاہم کوہساروں کے یہ قبیلے اج جدیدیت کے ہاتھوں اپنے منفرد نظام زندگی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ زرا ایک لمحہ نکال کر سوچ لیجئیے گا کہ کس طرح یہاں کے باشندے مخصوص مگر منفرد اقدار کے تحت زندگی گزارتے تھے۔ قدیم قبائیلی انسان کی طرح یہاں بھی بڑے بڑے خاندانوں اور قبائیلوں کا نظام زندگی رائج تھا۔ باقاعدہ ایک “متوازی فلسفہ حیات” رائج تھا۔ منفرد اقدار تھے۔ کبھی سوچا ہے جب دریا نہر یا چشمے کے کنارے کھڑا بچہ جب کوئی ٹہنی پانی میں گرا دیتا تو اسے کس طرح پیار سے تنبیہ کیا جاتا تھا؟ لکڑی پانی میں مت پھینکو ورنہ تمہارا ماموں مر جائے گا! بظاہر یہ بہت مضحکہ جملہ ہے لیکن زرا اس جملے میں لپٹے فلسفے کو پرکھئیے اس جملے میں اخلاقیات سے لے کر انسان حیوان جانور پودے پانی غرضیکہ قدرت کے ایک ایک پہلو کا خیال رکھنے کا سبق موجود ہے۔ یہاں خود لکڑی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی اہمیت سے لے کر پانی اور اس سے وابسطہ ہر شے کا خیال رکھنے کا فلسفہ موجود ہے۔ اپ کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر غیر تعلیم یافتہ ان لوگوں کا یہ ماحول کا خیال رکھنے کے حوالے سے پہلا زبردست اخلاقی قدم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بچہ اگر ٹہنی پانی میں پھینک دیں تو سچ مچ اس کا ماموں مر جائے گا لیکن اس کا بنیادی مقصد بچے کو راز حیات سے بالواسطہ اگاہ کرنا تھا۔
پرندوں اور جانوروں کی آوازوں سے منسوب کہانیاں بھی ان وادیوں کا اہم حصہ ہے۔ اور ہر وادی کے لوک داستانوں میں ان آوازوں سے مختلف مطلب نکالنے کا رواج پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لومڑ کی آواز اگر دور سے آجائے تو کچھ وادیوں میں اس کو منحوس تصور کرنا اور یہ کہنا کہ لگتا ہے کسی اور وادی/دیہات میں کسی کی فوتگی ہوگئی۔ یا جب بھی کوئی نیل کنٹھ گھر کی دیوار یا روشن دان یا درخت پر بیٹھ کر آواز نکالیں تو اسے خوشخبری سمجھ لینا اور ہماری ماوں کا نیل کنٹھ کو دعائیں دینا کہ تیرے منہ میں شکر اور مکھن ہو۔ ایسی ہی ایک کہانی ہد ہد کے متعلق ہے کہ ہد ہد پر پتھر پھینکنا یا اس کا شکار کرنا بالکل غلط اور غیر اخلاقی کام ہےبلکہ وبال ہے۔ ان کہانیوں کا کیا مطلب ہے! کیا قدیم روایات میں لوگ حضرت سلیمان کے چرند پرند کی زبانوں کو سمجھتے تھے؟ کیا یہ اسی سلسلے کا حصہ ہے! یا کوئی اور کہانی ہے۔ بہر حال اپ اس کو اس پہلو سے دیکھیں کہ ان کہانیوں سے جانوروں اور پرندوں کے بارے میں انسانی روایے میں کتنی تبدیلی آتی ہے! اپ نہ صرف ان کا خیال رکھتے ہیں بلکہ یہ فلسفہ اپ کے دل میں ان کے لیے احترام اور دماغ میں خیال رکھنے کا رجحان پیدا کرتا ہے۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کسی کا بنایا ہوا قانون نہیں نہ ہی ایسا دستور ہے جسے بزور طاقت کسی پر نافذ کیا جائے۔ یہ ایک متوازی فلسفہ اخلاقیات ہے۔ یہ زمان و مکان کے دامن میں پالا ہوا ایک کوڈ اف کنڈکٹ ہے۔ بندہ کسی ملک اور ریاست کا قانون کسی حکمران کا حکم کسی قاضی یا جج کا فیصلہ توڑ سکتا ہے اس کوڈ اف کنڈکٹ کو نہیں کیونکہ یہ بالواسطہ طور پر متوازی طریقے سے نرم الفاظ کے ساتھ تمثیلی انداز سے سیکھایا گیا اخلاقیات کا ایک سبق ہے۔
اپ ایک اور مثال لے لیجئے۔ ہمارے یہاں قدیم زمانے سے مارخور کا شکار کرنے کی روایت موجود ہے۔ تاہم یہ روایت ایسا نہیں تھا کہ اپ ہتھیار اٹھا کر نکل گئے اور مارخور پر تان کر گولی ماری اور اس کی جان لے لی۔ مارخور اور اس کے شکار سے منسلک ایک پورا لوک داستان ہوتا تھا۔ مارخور کوئی عام جانور نہیں بلکہ “پریوں کا پالا ہوا” قابل تعظیم جانور سمجھا جاتا تھا۔ اوّل تو اس کا شکاری کوئی عام انسان تصور نہیں ہوتا تھا بلکہ اسے “شکاری” کا “خطاب” ملتا تھا۔ شکاری اس کی شکار پر نکلنے سے پہلے باقاعدہ ستاروں کی حرکت دیکھ کر نکلتا۔ یہ کہا جاتا تھا کہ اس کو شکار کرنے کی “اجازت” ہے۔ جس کو یہ “اجازت” نہیں ملتی نہ تو وہ شکار کرسکتا اور نہ ہی شکاری کہلاتا تھا۔ اب اس کوڈ اف کنڈکٹ کے تحت مارخور سمیت کسی جنگلی جانور کا بے دریخ شکار نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے خود شکاریوں سے ایسی کہانیاں سنی ہے کہ شکاری شکار پر بندوق تاننے کے باوجود اس پر گولی چلانے سے اجتناب کرتا کیونکہ اس کی چھٹی حس اس کو بتا دیتا کہ اس وقت شکار کرنا مناسب نہیں ہے یا یوں کہیے کہ ‘اجازت’ نہیں ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ اس فلسفے کے تحت کیسے مختلف چیزوں کے بے دریغ استعمال سے اجتناب کیا جاتا تھا۔ کیسے ماحول کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کیسے قدرت کے نظام کا احترام کیا جاتا تھا۔
میں یہاں اج کے دور میں عمومی اخلاقیات کے زوال پذیر ہونے اور اس متوازی فلسفہ اخلاقیات کے ختم ہونے کی وجوہات کو بحث کرنے سے قاصر ہوں۔ بس اپ ان دونوں کا موازنہ کریں زرا یہ سوچیں کہ ایک طرف ان نادر فکری اثاثوں کا کھونا دوسری طرف ہمارے یہاں عملی اخلاقیات (پریکٹیکل ایتھکس) کی تعلیم نہ ہونے سے اج ہم کہاں کھڑے ہیں!