لیلا بجٹ ۔ میری بات/روہیل اکبر
وفاق کے بعد پنجاب کا بجٹ آج پیش کیا جائیگا بجٹ میں سب سے زیادہ دلچسپی سرکاری ملازمین کو ہوتی ہے وہ بھی تنخواہوں کی حد تک اور اس بار تو وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین پر کمال مہربانی کرتے ہوئے انک تنخواہوں میں 10فیصداضافہ کردیا حالانکہ نیچے سے 6فیصد کے حساب سے سمری چلی تھی جسے وزیر اعظم نے سختی سے مسترد کردیا باقی بجٹ سے کسی کو کوئی سروکار نہیں کہ ٹیکسوں کا معاملہ کہاں پر جاکے رکے گا بجلی کی قیمتوں نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے بجٹ پر رد عمل دیتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ عوام دشمن،غر یب مکا ؤ اورزراعت مٹاو بجٹ قوم پر مسلط کرکے زراعت کو تباہ اور کسان کو زندہ دفن کر دیا ہے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا دعوی کرنے والی حکومت نے عوام کا دیوالیہ نکال دیا
حکومت کو اپوزیشن سے خطرہ نہ بھی ہو بجٹ نے عوام کو احتجاج کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے بھی حکومت کی موجودہ اکنامک پالیسی کا راز کھولتے ہوئے بتایاکہ اسکا مطلب ہے ملک کی ترقی کو بند کر دیں کیونکہ امپورٹ کو محدود کرنے سے گروتھ نہیں ہوگی جب فیکٹریوں کے لیے خام مال نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا ملکی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے ہمارے پاس وسائل نہیں ہے کہ عوام دوست بجٹ لاسکیں کالے قوانین ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں اور ان کا اثر ہمیشہ منفی ہوتا ہے ملک کی ترقی روک دینا کوئی معاشی پالیسی نہیں ہو سکتی امپورٹ پر سخت پابندیاں اور خام مال کی عدم دستیابی سے صنعتی پہیہ رک گیا ہے جو مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ملک پر قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔شاہد خاقان نے ملکی قرضوں کا ذکر کیا ہے تو اس حوالہ سے عرض ہے کہ قومی اقتصادی سروے 25-2024 کے مطابق مارچ کے اختتام تک حکومت کے مجموعی قرضوں کا حجم 76 ہزار 7 ارب روپے ہو گیا ہے جس میں ملکی قرضوں کا حجم 51 ہزار 518 ارب روپے اور بیرونی قرضوں کا حجم 24 ہزار 489 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا
مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں سرکاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کا حجم 6 ہزار 439 ارب روپے رہا جس میں 5 ہزار 783 ارب روپے ملکی اور 656 ارب روپے بیرونی قرضوں پر ادا کیا گیا اس مدت میں حکومت نے ایک ٹریلین روپے کی حکومتی سیکیورٹیز کی خریداری کی مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 1.6 ٹریلین روپے کے شریعہ کمپلائنس سکوک جاری کیے جبکہ5.1 ارب ڈالر کی بیرونی معاونت موصول ہوئی جس میں 2.8 ارب ڈالر کثیر الجہتی شراکت داروں اور 0.3 ارب ڈالر دوطرفہ شراکت داروں نے فراہم کیا حکومت نے نیا پاکستان سرٹیفکیٹ سے 1.5 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں سے 0.56 ارب ڈالر کے قرضے بھی حاصل کیے عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف)کے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کو 1.03 ارب ڈالر کی معاونت رہی اسی حوالہ سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے حکومت کے اقتصادی اعداد وشمار پرانکشاف کرتے ہوئے بجٹ کو لیلا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں غربت 44.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے پاکستان میں قوت خرید برباد ہوچکی ہے
2022 میں جو شخص 50 ہزار روپے کما رہا تھا آج اس کی قدر تقریبا 22 ہزار روپے رہ گئی ہے اور مہنگائی کے اس طوفان میں عوام کا جینا مشکل ہوچکا ہے جسکی وجہ سے لوگ پاکستان سے روزگار کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں اسی حوالہ سے اقتصادی سروے رپورٹ بھی ملاحظہ فرمالیں جس میں انکشاف ہوا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان سے لاکھوں افراد روزگار کے لیے بیرون ملک چلے گئے رواں مالی سال کے دوران 7 لاکھ 27 ہزار سے زائد افراد روزگار کے لیے بیرون ملک گئے سب سے زیادہ سعودی عرب میں 62 فیصد افراد روزگار کے لیے گئے سعودی عرب جانے والوں کی تعداد 4 لاکھ 52 ہزارہے، اومان میں 11 فیصد، متحدہ عرب امارات میں 09 فیصد افراد روزگار کے لیے گئے اور بیرون ملک کام کے لیے جانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ پنجاب سے ہے جہاں سے ایک سال کے دوران 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد بیرون ملک گئے جبکہ خیبر پختونخوا سے بیرون ملک کام کے لیے جانے والے افراد کی تعداد 1 لاکھ 87 ہزار ہے اور سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک کام کے لیے گئے اسی طرح قبائلی علاقوں سے 29 ہزار 937 افراد بیرون ملک کام کے لیے گئے آزاد کشمیر سے بیرون ملک جانے والی لیبر کی تعداد 29 ہزار 591 ہے ایک سال میں وفاقی دارالحکومت سے 8 ہزار 621 ورکرز بیرون ملک گئے بلوچستان سے بیرون ملک جانے والے ورکرز کی تعداد 5 ہزار 668 ہے اسکے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات سے بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد 1692 ہے یہ وہ تعداد ہے جو حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہے جو غیر قانونی طریقے سے جارہے ہیں انکی تعداد بھی لاکھوں میں اور ہماری حکومتیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آتی
ابھی تو پنجاب اور سندھ کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ جاری ہے لاہور وزیراطلاعات کوئی نہ کوئی ایسی بے تکی چھوڑ دیتی ہیں جسکے جواب میں مجبورا دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی جواب دینا پڑتا ہے پنجاب کی وزیر اطلاعات کا ذکر آیا ہے تو انکے زیر نگرانی اداروں میں بے عزت کرنے کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا ہے میں نے ایک کالم میں محترمہ عظمی بخاری کی تعریفیں لکھ دی جس میں میں بہت شرمندہ ہوں کہ بے عزت کرنے کا طریقہ تو خود انہوں نے شروع کررکھا ہے باقی ڈی جی حضرات تو انکے نقش قدم پر ہی چلیں گے اس وقت الحمرا میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے،پلاک والوں کا کام پنجابی کی ترقی تھا وہ بھی ختم ہوگیا اور رہی بات ڈی جی پی آر کی وہاں چونکہ خود وزیرصاحبہ تشریف رکھتی ہیں اور انکے منظور نظر ڈی جی نے بھی اپنے ہی محکمہ کے افسران کو بے عزت کرنے کا پروگرام شروع کررکھا ہے انتہائی محنتی اور قابل افسر اور سابق ڈی جی پی آر میڈم روبینہ کا داخلہ بند کیے رکھا
عابد نور بھٹی جو ایڈ یشنل ڈی جی پی آر ہیں انہیں ذلیل وخوار کیا گیااسکے علاوہ محکمہ کی گاڑیاں اور ملازمین کہاں کہاں مصروف ہیں ایک لمبی داستان ہے اس پر اگلے کالم میں تفصیل سے لکھوں گا ابھی تو ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید کا خوبصورت تبصرہ پڑھیں اور مزے لیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بلدیاتی نظام نہ ہونا عوام سے زیادتی ہے افسوس ہے کہ وزیراعلی پنجاب کو کبھی گٹر کھلوانے اور کبھی صفائی کروانے خود آنا پڑتا ہے جہاں لوکل گورنمنٹ مشینری کام نہ کرتی ہو وہاں وزیراعلی کو اشتہارات دینے پڑتے ہیں عیدالاضحی پر سندھ کے بلدیاتی نمائندوں نے بھرپور کام کیا۔کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ میں صفائی بے مثال رہا کیونکہ سندھ میں میئر اور چیئرمینز کا کام مثالی ہے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بعدسندھ کے عوامی نمائندوں نے بھرپور محنت کی اور اس عیدکے اصل ہیرو سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے ورکر ہیں۔