Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قہقہوں کے سائے میں گمشدہ پیاس کا سفر۔ (حصہ اول) ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

شیئر کریں:

قہقہوں کے سائے میں گمشدہ پیاس کا سفر۔ (حصہ اول) ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

پلوشہ، کابل کے ایک خوشحال اور آزاد خیال قزلباش خاندان میں پیدا ہونے والی ایک جرات مند اور آزاد روح کی حامل لڑکی تھی۔ اپنی زندگی کے اعلیٰ معیار اور بے باکی کے باوجود، اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی اور نہ بجھنے والی پیاس تھی۔ اپنی روح کی کھوج اور زندگی کے معنی تلاش کرنے کے لیے، اس نے ایک غیرمعمولی فیصلہ کیا کہ وہ بائیک پر دنیا کا سفر کرے گی۔

پلوشہ نے ایران، آذربائیجان، آرمینیا اور ترکی کے راستے پر اپنی منزلیں طے کیں۔ یہ سفر محض راستے عبور کرنے کا نہیں بلکہ مختلف تہذیبوں، زبانوں، اور ثقافتوں کو سمجھنے، اور اپنی ذات کو دریافت کرنے کا تھا۔

اپنے سفر میں وہ نہ صرف نئی جگہیں دیکھتی ہے بلکہ زندگی کے کئی تجربات سے گزرتی ہے۔ ہر سرحد، ہر شہر، اور ہر ملاقات اس کے لیے ایک نیا سبق اور ایک نئی کہانی کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ محبت، دوستی، اور ہوس کے پیچیدہ جذبات کے ساتھ ساتھ، انسانیت کی خوبصورتی اور اپنی روح کی گہرائی کو بھی محسوس کرتی ہے۔

یہ کہانی پلوشہ کے دلیرانہ فیصلے، جذبے، اور اپنی منزل کی تلاش کی ایک مثال ہے۔ یہ سفر نامہ صرف جغرافیائی راستوں کا احاطہ نہیں کرتا بلکہ ایک عورت کے اندرونی سفر اور اس کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی داستان ہے۔

 

 

Palwashaa

 

 

پلوشہ کا جنم 1994 میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے پوش علاقے میں ہوا۔ وہ ایک فارسی شیعہ قبیلے “قزلباش” کے باوقار اور خوشحال کاروباری خاندان کی بیٹی تھی۔ اس کے گھر کا ماحول آزاد خیال تھا، جہاں خواتین کو نہ صرف آزادی دی جاتی تھی بلکہ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی تھی۔ قزلباش قبیلہ ہمیشہ اپنی خودداری، خوش اخلاقی، اور علم و ادب کے فروغ کے لیے مشہور رہا ہے، اور پلوشہ ان روایات کی خوبصورت عکاس تھی۔

پلوشہ کی شخصیت کئی رنگوں کا امتزاج تھی۔ اس کے مزاج میں خوداعتمادی اور بے باکی تھی، جو اس کے آزاد خیال گھرانے کی دین تھی۔ پیسے کی روانی اور اونچے معیار کی زندگی نے اسے سجیلا رویہ اور جدید خیالات کا حامل بنایا تھا۔ وہ رحم دل اور ہمدرد تھی، مگر اس کے اندر ایک ایسی پیاس تھی جو کبھی بجھتی نہ تھی۔

پلوشہ نے اپنی زندگی کو مختلف طریقوں سے بامقصد بنانے کی کوشش کی۔ تعلیم حاصل کی، کاروبار میں دلچسپی لی، کئی معاشرتی خدمات انجام دیں، اور محبت کے مختلف روپ دیکھے۔ مگر اس کی روح میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ وہ پیاس جسے بجھانے کی جستجو اسے مختلف راستوں پر لے گئی، مگر ہر راستہ اسے مزید بھٹکا دیتا۔

ایک دن، ایک غیرمعمولی فیصلہ کرتے ہوئے، پلوشہ نے اپنی بے چین روح کو سکون دینے کے لیے بائیک پر دنیا کی سیر کرنے کا ارادہ کر لیا۔ یہ کوئی عام سفر نہ تھا، بلکہ اس کا مقصد اپنی ذات کو تلاش کرنا، روح کی پیاس کو بجھانا اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قریب سے دیکھنا تھا۔

یہ کہانی صرف پلوشہ کے سفر کی نہیں، بلکہ ایک عورت کی اپنی ذات کی کھوج، اس کے جذبوں کی تکمیل، اور زندگی کے رنگوں کو محسوس کرنے کی داستان ہے۔ یہ قہقہوں، آنسوؤں، اور ان کہے رازوں سے لبریز ایک ایسا سفر ہے جو شاید ہم سب کے دلوں میں کہیں نہ کہیں چھپا ہوا ہے۔

اس نے اپنے سفر کا نقشہ بنایا: پہلے ایران، پھر آذربائیجان، وہاں سے آرمینیا، اور بالآخر ترکی۔ یہ وہ راستے تھے جہاں مختلف تہذیبوں، زبانوں، اور روایات کے رنگ تھے۔

پلوشہ نے اپنی بائیک تیار کی، سامان باندھا، اور بغیر کسی خوف یا جھجک کے سفر پر نکل پڑی۔ کابل کی وہ گلیاں جہاں اس نے بچپن گزارا تھا، اب اس کے پیچھے رہ گئی تھیں۔ آگے ایک وسیع دنیا اس کی منتظر تھی، جہاں ہر موڑ پر ایک نئی کہانی اور ہر سرحد کے پار ایک نیا تجربہ تھا۔

پلوشہ کی بائیک کی گڑگڑاہٹ ایران کی سرزمین پر گونج رہی تھی۔ کابل سے نکلتے ہوئے وہ خوف، جوش، اور آزادی کی چاہ لیے آگے بڑھ رہی تھی۔ شیراز، تہران، اور تبریز اس کی کہانی کے پہلے صفحات تھے، جہاں نہ صرف اس نے ان شہروں کا حسن دیکھا، بلکہ تین سر پھرے لوگوں سے بھی ملاقات کی، جو ایک رات کے لیے اس کے سفر کا حصہ بنے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
98039